23 محرم 1447 هـ   19 جولائی 2025 عيسوى 6:38 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | محمديون کی قیادت (ائمہ طاہرین اور کچھ اصحاب) |  امام حسینؑ کی تحریک کا مقصد حکومت کی اصلاح یا روح کی بیداری ؟ علماء کی آراء کا تقابلی جائزہ
2025-07-15   32

امام حسینؑ کی تحریک کا مقصد حکومت کی اصلاح یا روح کی بیداری ؟ علماء کی آراء کا تقابلی جائزہ

الشيخ مصطفى الهجري

امام حسینؑ کی تحریک ایک عظیم تاریخی واقعہ ہے جو صدیوں سے محققین اور علماء کے درمیان علمی اور فکری بحث و مباحثے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اس عظیم اور بابرکت تحریک کے حقیقی اسباب کے تعین میں علماء کی آراء مختلف رہی ہیں، جو اس واقعے کی گہرائی اور اس کے روحانی، سماجی اور سیاسی پہلوؤں کی کثرت کو ظاہر کرتی ہیں۔ امام حسینؑ کی تحریک کے حوالے سے آراء کو درج ذیل انداز میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ کیا یہ حکومت کے حصول کے لیے تھی۔ جیسا کہ سید مرتضیٰ کا مؤقف ہے؟ یا یہ تبدیلی کے لیے جدوجہد اور انقلابی روح کو بیدار کرنے کے لیے تھی؟ جیسا کہ شہید شمس الدین، شہید صدر اور آیت اللہ آصفی (رح ) کی رائے ہے؟ یا یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے واجب دینی فریضے کی ادائیگی تھی جیسا کہ شہید مطہری کا نقطۂ نظر ہے؟ یا پھر یہ دو نہایت سنگین مسائل کے خلاف قیام تھا جیسا کہ علامہ طباطبائی(رح) کا تجزیہ ہے۔ یعنی، موروثی بادشاہی نظام اور اہل بیتؑ کی فکری اور عملی حیثیت کو مسخ کرنا اور اُنہیں حاشیے پر دھکیلنا؟

ان آراء کا تنوع محض ایک علمی اختلاف نہیں بلکہ یہ اس دور میں امتِ مسلمہ کو درپیش چیلنجز کی گہری سمجھ کی عکاسی کرتا ہے اور ان میں سے بعض پہلو آج کے زمانے میں بھی موجود ہیں۔ اسی بنیاد پر، سید مرتضیٰ کے نزدیک معاشرتی مسئلے کی جڑ "نظام اور حکومت" ہے۔ ان کے خیال میں اسلامی معاشرے کی ترقی اور بیداری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت کے نظام کا انحراف اور اس کا فساد ہے۔ ان کا نظریہ امام حسینؑ کی تحریک کے سیاسی پہلو پر مرکوز ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی اصلاح کا بنیادی راستہ سیاسی نظام کی اصلاح ہے۔

جہاں تک شہید شمس الدین اور آیت اللہ آصفی کے نظریے کا تعلق ہے، تو ان کے نزدیک مسئلہ "انقلابی روح کی پژمردگی" ہے، جو ایک سنگین روحانی اور معنوی بیماری ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ بنی امیہ کی نام نہاد مشروعیت بھی ایک مسئلہ ہے۔ پس آیت اللہ آصفی جیسے مفکرین کے نزدیک یہ ایک دوہرا بحران ہے: ایک معنوی اور دوسرا فکری۔ ان کا رجحان اس بات پر زور دیتا ہے کہ تبدیلی کے عمل میں روحانی اور معنوی پہلو کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ انقلابی روح کو زندہ کرنا ہی ہر حقیقی اصلاح کی بنیاد ہے۔

شہید مطہری کے نظریے کے مطابق، امت اس واجب (امر بالمعروف و نہی عن المنکر) کو زندہ کرنے کے لیے پرجوش اور آمادہ نہ تھی۔ اور اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امت اس فریضے کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھنے میں فکری بحران کا شکار تھی۔ یہ رائے اصلاح کے تعلیمی اور تربیتی پہلو کو اجاگر کرتی ہے، اور یہ بات پر زور دیتی ہے کہ شرعی واجبات کے فہم میں خلل ہی اصل مسئلہ ہے۔ جبکہ علامہ طباطبائی کی تحقیق کے مطابق، اگر اہل بیتؑ کی شخصیت کا تحفظ نہ کیا جائے تو پورا معاشرہ راہِ ہدایت سے بھٹک جائے گا۔ ان کا نقطۂ نظر اسلامی شناخت کے تحفظ اور اہل بیتؑ کی قیادت کے کردار پر مرکوز ہے، جو اس شناخت کو محفوظ رکھنے کی ضامن ہے۔

مختلف آراء کے درمیان تکاملی تعلق

میں قارئین کی توجہ اس نکتے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ یہ تمام علماء (رحمہم اللہ) کے اقوال کے درمیان جو تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے، وہ دراصل ایک مصنف ’’سعید میرزا نوری‘‘ کا ایک مخصوص فہم و تجزیہ ہے۔ یعنی ان آراء کے درمیان کوئی باہمی تضاد یا ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ سبھی حضرات مختلف زاویوں سے معاشرتی اور فطری حالات کا تجزیہ کر رہے ہیں، جن کی روشنی میں امام حسینؑ کی تحریک کو عوامی سطح پر قبولیت اور تائید حاصل ہوئی (بحوالہ: نظریۂ نہضتِ حسینیہ، صفحات 178 تا 186)۔

اگرچہ بعض علماء نے کچھ پہلوؤں کو زیادہ نمایاں کیا ہے، اور کچھ نے کسی اور زاویے سے تحریک کے خیر و شر کے محرکات کا تجزیہ پیش کیا ہے، لیکن درحقیقت ہر نظریہ دوسرے کا تکملہ اور معاون ہے۔ اور جو بڑی اور جامع عقیدہ ہے جس پر سب کا ایمان ہے، وہ وہی ہے جو سید ابنِ طاووس کے بقول بیان ہوا ہے کہ امام حسینؑ کی تحریک ایک غیبی، الٰہی ذمہ داری اور فریضہ تھا، جس کا حقیقی اور مکمل ہدف ہمارے لیے پوری طرح واضح نہیں ہے۔

الٰہی جہاد کے موضوع پر تحقیق کا تقاضا۔جواز اور الٰہی اجازت میں فرق:

دوسری طرف، مقدس جہاد کے بارے میں تحقیق کا علمی طریقہ ہمیں اس بات کا پابند بناتا ہے کہ ہم اس کے محرکات میں دو چیزوں کے درمیان فرق کریں: مبرر (جواز) اورموجب (الٰہی اجازت)

مبرر سے مراد وہ سماجی، روحانی اور دیگر ظاہری تقاضے ہیں جو کسی تحریک کو عوامی نظر میں مثبت اور قابلِ قدر بناتے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہر مرتبہ جواز (مبررات) کا پایا جانا، الٰہی اجازت (اذن) کے ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔ اسی طرح، اگر کسی معقول مقصد کے لیے کوشش کرنا موت یا نقصان پر منتج ہو، تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ خدا کی طرف سے اجازت نہیں دی جائے گی۔ ممکن ہے کہ وہ انسانی تقاضے اور ضروریات اتنے اہم ہوں کہ خداوندِ متعال ان کے لیے جہاد کی اجازت دے دے — چاہے اس کے نتائج کتنے ہی سخت اور تباہ کن ہوں، جیسے قتل یا مکمل استیصال وغیرہ۔

اس تشریح کی روشنی میں ہم اس بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ باقی آئمہ علیہم السلام نے کیوں قیام نہیں کیا، حالانکہ تاریخی حالات اور سماجی محرکات بظاہر امام حسینؑ کے زمانے سے مشابہ تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ بہت سے اسباب اور مبررات (جوازات) میں مشابہت پائی جاتی تھی، لیکن انہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے قیام کی اجازت (اذن) نہیں ملی — اور یہ اجازت نہ ملنے کی وجہ ایسی حکمتوں پر مبنی تھی جو عام فہم سے پوشیدہ رہیں۔

اسی تشریح کے تحت ہم اُن متعدد شخصیات کے موقف کو بھی سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے امام حسینؑ کو قیام سے روکا، کیونکہ اُن کے خیال میں یہ اقدام غیر ضروری تھا اور اس کا نتیجہ صرف قتل اور اُس عظیم خون کا ضیاع تھا جو ہر مطالبے سے زیادہ قیمتی ہے۔ مگر امام حسینؑ نے اُن کے مشوروں کے برخلاف قیام پر اصرار کیا اور اس کی دلیل صراحت کے ساتھ الٰہی اذن کو قرار دیا، یہاں تک کہ فرمایا: "شاء الله أن يراني قتيلاً" (اللہ نے چاہا ہے کہ مجھے شہید دیکھے)، اور عاشورا کے دن اپنے اصحاب سے کہا۔ (قد أذن الله في قتلي وقتلكم) ( میرا اور تمہاراقتل ہو جانا اللہ کی اجازت سے ہے)۔

ہماری ان باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مزکورہ بالا ان تمام آراء کے درمیان کوئی تضاد نہیں پایا جاتا۔ مزید یہ کہ اگر آپ قرآن میں انبیاء علیہم السلام کی تحریکوں اور ان کی مزاحمت کا مطالعہ کریں، تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی تحریکوں کے محرکات ایک ایسے امتزاج پر مشتمل ہوتے ہیں جو مادی، حقیقی، سماجی عوامل کے ساتھ ساتھ معنوی اور الٰہی پہلوؤں کو بھی شامل کرتا ہے۔ لہٰذا، ہمیں امام حسینؑ — جو وارثِ انبیاء ہیں — کی تحریک کو بھی اسی امتزاج کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ درحقیقت، نہضتِ حسینی کے اسباب کو سمجھنے میں جو فکری تنوع پایا جاتا ہے، وہ ہمارے فہم کو وسعت دیتا ہے اور اس عظیم واقعے کی گہرائی کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس تحریک کی عظمت اس کے پہلوؤں کی کثرت اور مقاصد کی جامعیت میں مضمر ہے، جو ہر زمان و مکان میں نسلِ انسانی کے لیے ایک روشن چراغ اور رہنمائی کا منبع بن جاتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018