

| محمديون کی قیادت (ائمہ طاہرین اور کچھ اصحاب) | جب موت آرزو بن جائے۔۔امام حسینؑ نے موت کا تصور کیسے بدل دیا؟

جب موت آرزو بن جائے۔۔امام حسینؑ نے موت کا تصور کیسے بدل دیا؟
الشيخ مقداد الربيعي
عام طور پر موت کا تصور انسانی فطرت میں سب سے زیادہ خوف و ہراس پیدا کرنے والے تصورات میں سے ایک شمار ہوتا ہے، کیونکہ انسان عموماً موت کو فنا، نیستی اور زندگی کے خاتمے کے طور پر دیکھتا ہے۔یکن امام حسین علیہ السلام نے کربلائے معلی میں اپنی لازوال قربانی کے ذریعے موت کے بارے میں اس روایتی تصور کو بدل کر رکھ دیا۔ آپ علیہ السلام نے موت کو ایک ایسا عظیم مفہوم عطا کیا جو انسان کو خدا کی راہ میں قربانی اور اعلیٰ اقدار کی خاطر جان دینے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ امام حسینؑ نے یہ بنیادی اور گہری تبدیلی کیسے پیدا کی؟ اور اس نئے تصور موت کے کیا اثرات ہیں؟ موت کی حقیقت سے نا آشنائی ۔۔ انسان کے لئے موت سے خوف کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ موت کی اصل حقیقت سے ناواقف ہے ۔ عام لوگوں کے ذہن میں موت کا تصور فنا اور نیستی سے جڑا ہوا ہے، بالکل اسی طرح جیسے زندگی کا تصور وجود سے جڑا ہوا ہے۔ اور چونکہ وجود کو عدم پر ترجیح دی جاتی ہے، اس لیے لوگ موت کو ایک مطلق برائی سمجھتے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسی گہری جہالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : (لم يخلق الله يقيناً لا شك فيه أشبه منه بشك لا يقين فيه كالموت)
"اللہ نے موت سے بڑھ کر کوئی ایسا یقین پیدا نہیں کیا جس میں شک نہیں، جبکہ وہ اس شک کی طرح لگتی ہے کہ جس میں کوئی یقین نہیں ۔"(تحف العقول، صفحہ 364(
موت کے حوالے سے یہ جہالت انسان کو لاپروائی اور غفلت کی طرف لے جاتی ہے۔ موت اور اس کے بعد کی حقیقت کے بارے میں جتنا شعور اور معرفت ہوتی ہے، اتنا ہی انسان اپنی سیرت، کردار اور اخلاق کی حفاظت کرتا ہے۔ کیونکہ موت پر ایمان انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے سفر میں ایک قسم کا کنٹرول سسٹم ہے جو اسے فردی زندگی اور اجتماعی زندگی میں نیکی اور حسنِ عمل کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے واقعۂ کربلا میں اپنے تاریخی موقف کے ذریعے موت کے تصور کو بنیاد سے بدل دیا۔ موت جو پہلے ایک خوفناک انجام سمجھا جاتا تھا، امام حسینؑ کے ذریعے ایک حقیقی ابدی زندگی کی شروعات بن گئی۔ آپؑ نے شعوری طور پر موت کے راستے کو اختیار کرکے "موت کی یاد رکھنے" کی ثقافت کو زندہ کیا، اور یہ واضح کیا کہ زندگی بعض اوقات موت میں پوشیدہ ہوتی ہے، اور یہ کہ خدا کی راہ میں آنے والی صالح موت، انسان کے لیے سب سے پہلی اور سب سے بڑی کامیابی بن سکتی ہے۔ اسی مفہوم کو امام حسینؑ نے اپنے بامعنی جملے میں یوں بیان فرمایا: (إني لا أرى الموت إلا سعادة، والحياة مع الظالمين إلا برماً)
"میں موت کو صرف سعادت سمجھتا ہوں، اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو فقط ذلت و تنگی۔" یہی حقیقت قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کی: ﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴾
یعنی: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے، انہیں مردہ مت سمجھو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کی راہ میں موت کو عدم یا خاتمہ نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ ایک ناقص وجود (دنیاوی زندگی) سے ایک کامل وجود (اخروی حیات) کی طرف انتقال ہے۔ اس مفہوم میں موت انسان کی کئی گرہیں کھول دیتی ہے، جن میں سب سے بڑی "گرہِ استسلام" یعنی ظلم کے آگے جھکنے کی مسئلہ بھی ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے ثابت کر دیا کہ موت سے بچنے اور فرار اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت اور رسوائی ہے، جبکہ عزت کا راستہ حق کے لیے مر مٹنے میں ہے۔یہ گہرا مفہوم شیعہ ثقافت میں پوری طرح راسخ ہو چکا ہے، اور حسینی شاعری — چاہے وہ فصیح ہو یا عوامی (محلی زبانیں) ۔ موت کی حقیقت اور اس کے تمام پہلوؤں کو بہت خوبصورتی سے پیش کرتی ہے۔ شعراء نے اپنے اشعار میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا: "وہ موت کو ذلت کے ساتھ جینے سے بہتر سمجھتا ہے اور ناقص لوگوں کے برابر ہونے کو قبول نہیں کرتا" (مطالب السؤول، جلد 1، صفحہ 58)
ایک اور شاعر نے کہا:
"زمانے نے تجھے نسل در نسل زندہ رکھا
اسی لیے تُو ہر دور میں زندہ و جاوید رہا
جس دن تُو نے پکارا: اے تلوارو! آومیرا سینی حاضر ہے اس دن تیری غیرتمند روح نے ذلت کے ساتھ جینے سے انکار کر دیا"(المنتخب للطریحی، صفحہ 100)
اسی طرح موت فطرتِ سلیم رکھنے والے انسانوں کا ایک باشعور انتخاب بھی ہے، خاص طور پر اُس وقت جب زندگی کی قیمت کفر، یا اعلیٰ اقدار سے دستبرداری ہو، اور انسان حیوانی سطح پر گر کر اپنی فطرت ہی کو کھو بیٹھے۔ ایسے حالات میں بہتر انتخاب صرف موت ہے ۔ نہ کہ ایسی ذلت بھری زندگی۔اسی تصور کو شعراء نے ان الفاظ میں بیان کیا:
جب بدن موت کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں
تو پھر اللہ کی راہ میں تلوار سے مارا جانا سب سے عظیم عمل ہے۔
امام حسینؑ کے اس عملی نمونے کا اثر تاریخ میں مسلسل باقی رہا، یہاں تک کہ ان لوگوں پر بھی یہ اثر پڑا جو اہل بیتؑ کے پیروکار نہ تھے۔ مثال کے طور پر مصعب بن زبیر جب موت کا سامنا کر رہے تھے تو انہوں نے عروہ بن مغیرہ سے کہا: افسوس ہے اے عروہ! مجھے حسین بن علیؑ کا حال سنا، کہ انہوں نے عبیداللہ بن زیاد کے مقابلے میں کیا کیا؟
عروہ نے امام حسینؑ کے حالات اور ان کے شہادت کا ذکر کیا، تو مصعب نے کہا: "حسین بن علیؑ ہم سب کے لئے اسوہ ہے " (البداية والنهاية لابن كثير، جلد 8، صفحہ 347)
انسان کے اندر موت کا تصور کیسے بدلا جا سکتا ہے؟
انسان کے اندر موت کے تصور کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کو دیکھنے کے اپنے زاویے اور اقدار کے ترازو میں بنیادی تبدیلی لائے۔ کیونکہ انسان جو بھی عمل کرتا ہے — جو اُس کی ذات یا دوسروں پر اثر ڈالتا ہے — اُس کے پیچھے جو ایمان محرک ہوتا ہے، اُسے مادی پیمانوں اور نفع و نقصان کی گنتی سے بالاتر ہونا چاہیے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب انسان اپنے ہر عمل یا منصوبے میں خود کو مرکز و محور بنانے سے گریز کرے، اور ہرکام جو وہ انجام دیتا ہے، اس کا محرک خالصتاً اللہ کی رضا ہو، نہ کہ ذاتی مفاد یا دنیاوی فائدہ۔ موت کے مفہوم کو بدلنے کا اصل راستہ یہی ہے کہ انسان اپنے دل کی پوری قوت ۔ جو اس کی ارادے کی بنیاد ہے — صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دے۔ اسی مفہوم کو قرآن کریم کی اس دعا میں سکھایا گیا ہے جو نماز کے آغاز میں پڑھی جاتی ہے:
﴿إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا﴾
یعنی: "میں نے یکسو ہو کر اپنا رخ اُس کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔"
علامہ خاجوئی نے "مفتاح الفلاح" (تالیف شیخ بہائی) کی شرح میں اس مفہوم کو یوں بیان کیا: "یہاں 'چہرہ' (وجه) سے مراد دل کا رُخ ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ دل کا چہرہ صرف اُسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے جب وہ ہر غیر اللہ سے منقطع ہو جائے۔ کیونکہ دل آئینے کی مانند ہوتا ہے: جب تم اُسے کسی شے کی طرف متوجہ کرتے ہو، تو وہ چیز اُس میں منعکس ہو جاتی ہے، اور جو چیز اس کے پیچھے رہ جائے وہ اس میں ظاہر نہیں ہوتی۔ پس جو شخص اس قول (یعنی ﴿إني وجهت وجهي﴾) میں سچا ہے، وہی ہے جو اپنے باطن کا رُخ اللہ کی طرف کر دے اور ہر غیر اللہ سے منہ موڑ لے۔" (شرح مفتاح الفلاح، صفحہ 144)
اصحابِ حسینؑ:زہد کی جیتی جاگتی تصویریں۔
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب اس بات کا سب سے روشن اور عملی نمونہ تھے کہ موت کا تصور کیسے بدلتا ہے۔ انہوں نے دنیا سے زہد اختیار کیا اور آخرت کی طرف رغبت کو اپنی زندگی کا محور بنا لیا۔ ان کے دل مادی و ذاتی حساب کتاب سے خالی ہو چکے تھے، اور انہوں نے اپنے دلوں کا رُخ مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف کر دیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا ان کے فیصلوں پر اثرانداز نہ ہو سکی، اور نہ ہی ان کے دلوں کو مشغول کر سکی۔
اصحابِ حسینؑ نے اللہ کی راہ میں موت اور حق کے دفاع کو ذلت و رسوائی کے ساتھ جینے سے کہیں زیادہ باعزت سمجھا۔ انہوں نے دنیا اور اس کی ظاہری زینت سے اپنے دِل و دماغ کو آزاد کر لیا۔ ان کے نزدیک زندگی نفع و نقصان کا پیمانہ نہیں رہی، بلکہ اللہ کی راہ میں موت ہی اصل کامیابی اور ابدی حیات بن گئی۔ یہ وہ عظیم جانباز تھے جنہوں نے ہر غیر اللہ سے منہ موڑ لیا تھا۔ اب ان کے لیے نہ مال اہم تھا، نہ اہل و عیال، اور نہ ہی دنیاوی زندگی — ان کے نزدیک سب کچھ اللہ کی رضا کے مقابلے میں بے حیثیت ہو گیا تھا۔ یوں موت ان کے لیے خوف کا باعث نہ رہی، بلکہ شوق کا ذریعہ بن گئی؛ وہ موت جو کبھی ایک ڈراؤنی انتہا سمجھی جاتی تھی، اب ایک بابرکت آغاز میں بدل گئی۔
امام حسین علیہ السلام دراصل اس عظیم پیغام کے علمبردار تھے کہ موت ابدی زندگی کا دروازہ ہے۔ آپؑ نے انسانوں کے باطن کو روشن کیا، موت کے معیار کو درست کیا، اور نتیجہ واضح کر دیا کہ موت دراصل زندگی کا ایک گہرا راز ہے۔ آپؑ نے اپنے عظیم موقف اور بے مثال قربانی کے ذریعے دنیا کو سکھایا کہ انسان دنیا کی زنجیروں اور مادی حساب کتاب سے آزاد ہو کر کیسے اللہ کی طرف مکمل رجوع کر سکتا ہے۔یوں مدرسۂ حسینؑ میں موت صرف ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقلی نہیں، بلکہ یہ خود زندگی کے مفہوم میں ایک انقلابی تبدیلی ہے ۔ جہاں اللہ کی راہ میں موت ہی اصل زندگی ہے، اور ظالموں کے ساتھ جینا ہی درحقیقت موت ہے۔
آخر میں۔۔امام حسین علیہ السلام نے موت کے تصور میں ایک حقیقی انقلاب برپا کرنے میں کامیابی حاصل کی،جہاں آپؑ نے موت کو فنا اور نیستی کی علامت سے نکال کر ابدی زندگی اور عزت و کرامت کی علامت بنا دیا۔ یہ عظیم تبدیلی اس وقت ممکن ہوتی ہےکہ جب انسان دنیا سے زہد اختیار کرے اور مکمل طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے -جس کا عملی نمونہ امامؑ کے وہ پاکباز اصحاب تھے جنہوں نے مادی حساب و کتاب سے مکمل بے نیازی اختیار کی اور مکمل طور پر آخرت کی طرف متوجہ ہو گئے۔ کربلا میں امام حسینؑ کی یہ قربانی محض ایک تاریخی واقعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ و جاوید مدرسہ ہے، جو پوری انسانیت کو یہ سکھاتا ہے کہ جب موت اللہ اور حق کی راہ میں ہو تو وہی دراصل حقیقی زندگی کا آغاز بن جاتی ہے۔