18 ذو القعدة 1446 هـ   16 مئی 2025 عيسوى 12:34 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | محمديون کی قیادت (ائمہ طاہرین اور کچھ اصحاب) |  مہدویت: اسرار و رموز اور فکری اختلافات — کیا عقیدتی تنوع نے اس حقیقت کو متاثر کیا؟
2025-04-16   51

مہدویت: اسرار و رموز اور فکری اختلافات — کیا عقیدتی تنوع نے اس حقیقت کو متاثر کیا؟

شیخ معتصم السید احمد

مسئلہ مہدویت ان نمایاں ترین امور میں سے ایک ہے جن میں انسانی تاریخ میں عدل و انصاف کے رموز  پوری وضاحت کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ یہ تصور کسی خاص دور کا پیداوار نہیں بلکہ انبیاء اور صالحین کی اُس تاریخی جدوجہد کا فطری تسلسل ہے، جو انہوں نے ظلم اور جبر کے خلاف کی۔ مسئلہ مہدویت میں پنہاں رموز کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم "رمز" کے مفہوم کو واضح کریں۔ رمزیت صرف کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کو نہیں کہتے، بلکہ وہ ایک مرکزی قدرکی نمائندہ ہوتی ہے جو کسی محسوس یا غیر محسوس مثال میں مجسم ہو جاتی ہے۔ یہی پہلو رموز کو اقوام و ملتوں کوان کے اعلیٰ اصولوں اور نظریاتی بنیادوں کے گرد یکجا کر دیتا ہے۔

جب ہم کسی مسئلے کی رموزپر گفتگو کرتے ہیں، تو درحقیقت ہم اس کے اس اجتماعی شعور کی تشکیل پر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں جو وہ کسی قوم یا امت میں پیدا کرتی ہے۔ مثلاً واقعہ کربلاء، جو امام حسین علیہ السلام کی قیادت میں پیش آیا، صرف ایک تاریخی سانحہ نہیں ہے بلکہ ظلم کے خلاف بغاوت اور باطل سے انکار کا ایسا ابدی استعارہ ہے جو ہر دور کے مظلوم کو تقویت بخشتا ہے۔ اسی طرح فرعون کو محض ایک قدیم بادشاہ کے طور پر نہیں دیکھا جاتا بلکہ وہ ظلم و جبر، استبداد اور طغیانیت کی علامت بن چکا ہے۔ کسی بھی ملک کا قومی پرچم محض ایک کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس معاشرے کی مجموعی شناخت اور وحدت کی علامت ہوتا ہے۔لہٰذا، رمزیت  صرف معانی تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ یہ شخصیات، واقعات اور ملموس تصورات میں بھی مجسم ہوجاتی ہے  اور  انسانی شعور کی بنیادی قدروں اور اصولوں کی عکاسی کرتی ہیں۔

اسی بنیاد پر، ہم مسئلہ مہدویت کو اسلامی تاریخ کے اُن بڑے اسرار و رموز میں شمار کر سکتے ہیں، جو انسانی امیدوں کی معراج اور عدلِ مطلق کے قیام کے تصور سے وابستہ ہیں۔ امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) صرف ایک مذہبی شخصیت نہیں ہیں، بلکہ وہ عدل، انصاف اور زمین کی اصلاح کی عالمی اقدار کا استعارہ ہیں۔ وہ اس مثالی حاکم کی مجسم صورت ہیں، جس کی عدل پر مبنی حکومت تک رسائی کی کوشش دنیا کے ہر مصلح کا مطمح نظر رہی ہے۔ لہٰذا امام کا ظاہری طور پر غائب ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کائنات سے  اُن کی  ذات اور شخصیت کے اسرار و رموز بھی ختم ہوگئے ہیں، بلکہ وہ اسلامی اور عالمی شعور میں ایک وعدہ شدہ عدل کے مثالی نمونے کے طور پر ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔

یہاں ایک اہم سوال ابھرتا ہے: کیا امام مہدیؑ کی شخصیت کے حوالے سے مسلمانوں کے درمیان پایا جانے والا اختلاف، مسئلہ مہدویت کے رموز کو کمزور کرنے کا باعث بنا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اختلاف اس مسئلے کے جوہر پر کوئی منفی اثر نہیں ڈالتا۔ تمام مسلمان، اپنے فقہی اور مسلکی اختلافات کے باوجود، اس عقیدے پر متفق ہیں کہ آخری زمانے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسل سے ایک ایسی شخصیت ظہور پذیر ہوگی جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گی، جیسا کہ وہ اس سے قبل ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اگرچہ اس تصور کی جزئیات اور تفصیلات کے حوالے سے آراء مختلف ہو سکتی ہیں، لیکن اصل مسئلہ میں تمام مسلمانوں کا یہی اجماع او ر اتفاق خود درحقیقت اس تصور مہدویت کے اسرار و رموز کی تاکید  کرتا ہے۔

عقیدہ مہدویت کے یہ اسرار و رموز کچھ  ثانوی اختلافات سے متاثر نہیں ہوتے۔ جس طرح نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الہامی شخصیت کی تاثیر ان کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر موجود اختلافات کے باوجود محفوظ ہے، اور جس طرح امام علی علیہ السلام کی شخصیت، عدل اور حکمت کے استعارے کے طور پر برقرار رہی۔ حالانکہ ان کے بارے میں نظریاتی اختلافات موجود رہے، اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کی رمزیت بھی بدستور ایک "الٰہی عدل" کے عنوان کے طور پر قائم ہے، چاہے لوگوں میں ان کی شخصیت کے حوالے سے اختلافات پائے جائیں۔ یہ معاملہ صرف مہدویت تک محدود نہیں، بلکہ انسانی تاریخ میں بے شمار ایسی شخصیات رہی ہیں جو آزادی، انصاف اور انسانی وقار کی علامت بنیں، حالانکہ ان کی زندگی کی تمام تفصیلات پر لوگوں کا اتفاق نہ تھا۔ درحقیقت رمزیت کی اصل اہمیت اُس قدر (Value) میں ہوتی ہے جس کی وہ نمائندگی کرتی ہے، نہ کہ ان تفصیلات میں جو اس کے گرد گھومتی ہیں۔ یہی راز ہے کہ مسئلہ مہدویت  آج بھی زندہ، متحرک اور مؤثر ہے، باوجود اس کے کہ اس کے گرد تصورات میں تنوع پایا جاتا ہے۔

اسی طرح انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ مجرد (Abstract) اقدار کو براہ راست سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، جب تک کہ وہ اقدار کسی حسی یا مادی صورت میں اس کے سامنے جلوہ گر نہ ہوں۔ عقل، رحم کا مفہوم اس وقت بہتر طور پر سمجھ جاتی ہے جب وہ کسی رحم دل شخصیت میں اسے مجسم دیکھتی ہے، اور عدل کی معنویت اس وقت واضح ہوتی ہے جب وہ کسی عملی و محسوس واقعے میں مجسم ہو کر سامنے آتی ہے۔ اسی لیے امام مہدیؑ کو "عدلِ الٰہی" کا کامل مظہر سمجھا جاتا ہے، اور وہ وہ اعلیٰ ترین نمونہ ہیں جس سے دنیا کے تمام مصلحین اور عدل کے طلبگار اپنے مقاصد کے لیے الہام حاصل کرتے ہیں۔

امام مہدیؑ کی مثالی شخصیت  صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت تک پھیلی ہوئی ہے، کیونکہ "مصلح" یا "نجات دہندہ" کے تصور کا تعلق صرف اسلامی عقیدے سے نہیں، بلکہ یہ تصور مختلف ادیان ا  ور ثقافتوں میں گہرائی کے ساتھ موجود ہے۔ مثال کے طور پر، یہودیت "مسیّا" (Messiah) کے انتظار کی بات کرتی ہے — جو ایک وعدہ شدہ شخصیت ہے جس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کو نجات دلائے گی اور الٰہی شریعت کے مطابق حکومت قائم کرے گی۔ عبرانی زبان میں اُسے "مشیّح" (משיח) کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے "تیل میں مسح کیا گیا" یعنی ایک مقدّس اور منتخب ہستی جسے اللہ نے چُنا ہو۔ اسی طرح مسیحیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی پر ایمان رکھتی ہے، اور مشرقی فلسفوں میں بھی اس بات کا تصور پایا جاتا ہے کہ ایک شخصیت ظہور کرے گی جو زمین پر عدل و انصاف کو نافذ کرے گی۔

یہ تمام تصورات اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ "انتظار" اور "نجات" کا تصور محض ایک مذہبی یا مسلکی حد تک محدود معاملہ نہیں، بلکہ یہ  ایک ہمہ گیر انسانی مسئلہ ہے۔۔ یہی پہلو مسئلہ مہدویت کی حیثیت کو مزید تقویت دیتا ہے، اور اسے ایک عالمی مسئلہ بنا دیتا ہے جس میں مختلف تہذیبوں اور اقوام کی توجہ مرکوز ہو جاتی ۔

مسئلہ مہدویت کے سماجی اور سیاسی پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ صرف ایک فکری عقیدہ نہیں بلکہ اس کے عملی اثرات فرد اور معاشرے دونوں کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ امام مہدی علیہ السلام پر ایمان رکھنے والے افراد میں عدل و انصاف کے اصول سے ایک گہرا قلبی تعلق پیدا ہوتا ہے، جو انہیں اپنی زندگی میں ممکنہ حد تک اس اصول کے نفاذ کی کوشش پر آمادہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معاشرے جہاں  عقیدہ مہدویت رائج ہے، وہاں ظلم کے خلاف مزاحمت اور عدل کے قیام کی جستجو ایک نمایاں سماجی رویہ بن چکی ہے۔ اس عقیدہ مہدویت کے ماننے والے خود کو اس الٰہی منصوبے کا تسلسل  سمجھتے ہیں، جو امام کے ظہور کے ذریعے اپنی تکمیل کو پہنچے گا۔ یہی عقیدہ ان میں اخلاقی اور سماجی ذمہ داریوں کا گہرا شعور پیدا کرتا ہے، اور وہ خود کو امام مہدی ؑ کے ظہور سے پہلے بھی ان کی اصلاحی تحریک کا فعال حصہ تصور کرتے ہیں ۔

اگرچہ بعض افراد اور فکری رجحانات نے کبھی امام مہدی ؑ کے وجود پر سوال اٹھا کر، اور کبھی ان کے آئندہ کردار کو مشکوک بنا کر اُن شخصیت  کی رمزی حیثیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ،لیکن یہ کوششیں امام مہدیؑ کے تصور کو مسلمانوں کے شعور سے مٹانے میں ناکام رہی ہیں۔ بلکہ بعض صورتوں میں یہ حملے لوگوں کو اس عقیدے سے مزید وابستہ اور پُرعزم بنا دیتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی ادوار سے ہی بعض فکری اور سیاسی دھارے اس مسئلے کو دبانے یا مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن یہ تصور ہر دور میں زندہ رہا، کیونکہ یہ انسان کی اُس فطری مطالبے  کا جواب دیتا ہے جو ایک عادل و منصفانہ دنیا کے قیام سے متعلق ہے۔ اگر یہ مسئلہ محض ایک وقتی نظریہ ہوتا، تو وہ تاریخ کی بے رحم موجوں کے آگے کبھی باقی نہ رہ پاتا۔

عالم گیر عدل کی امید صرف ایک خواب نہیں بلکہ ایک الٰہی وعدہ ہے جس پر دینی نصوص میں بارہا زور دیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے امام مہدیؑ کی  حیثیت صرف ایک تاریخی یا غیبی شخصیت کے طور پر محدود نہیں رہتی، بلکہ وہ الٰہی وعدے کا مجسم عنوان بن جاتے ہیں، ایک ایسا  وعدہ جو حق کو غالب کرنے اور مستضعفین کو نصرت عطا کرنے سے متعلق ہے۔ یہ عقیدہ مہدویت  امت مسلمہ کو ایک زبردست روحانی توانائی عطا کرتا ہے اور اُسے ایک مثبت انتظار کی حالت میں رکھتاہے۔ ایسا انتظار جو اسے عمل کی طرف مائل کرتا ہے اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کی جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے جو عدل و انصاف پر قائم ہو ۔ امام مہدیؑ صرف مستقبل میں آنے والی ایک شخصیت نہیں، بلکہ ایک زندہ فکر ہیں جو دلوں میں امید، ارادہ اور اصلاحی جدوجہد میں شرکت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

آخر میں، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسئلہ مہدویت کی حیثیت فقہی اور اعتقادی اختلافات سے متاثر نہیں ہوئی، بلکہ وہ اسلامی اور عالمی شعور میں ایک ایسے "عدل پر مبنی مستقبل" کی علامت کے طور پر راسخ رہی ہے جس کی ہر حریت پسند انسان کو تمنا ہے۔ اگرچہ کچھ معاشرے اس حقیقت  کو تسلیم نہیں کرتے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے تسلیم نہ کرنے سے  اس کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے۔ جس طرح کچھ لوگ نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہیں کرتے، مگر اس انکار سے نہ ان کی رسالت کی حقیقت متاثر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی معنویت کم ہوتی ہے۔مسئلہ مہدویت صرف ایک غیبی تصور نہیں، بلکہ ایک ہمہ گیر اصلاحی منصوبہ ہے، جس کی طرف ہر وہ انسان متوجہ ہے جو حق کے غلبے کو ممکن سمجھتا ہے۔ یہ مسئلہ ماضی، حال اور مستقبل کے درمیان ایک فکری پل کی حیثیت رکھتا ہے، جو انسانی تاریخ کو عالمی  عدل کی طرف لے جانے والی مسلسل جدوجہد سے جوڑتا ہے۔ اسی لیے، چاہے اس کے گرد آراء مختلف ہوں، مہدوی تصور ایک دائمی اور غیر فانی علامت کے طور پر باقی رہے گا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018