| محمديون کی قیادت (ائمہ طاہرین اور کچھ اصحاب) | محمد بن أبي بكر محمد بن ابوبکر امام علیؑ کی تلواروں میں سے ایک تلوار
محمد بن أبي بكر محمد بن ابوبکر امام علیؑ کی تلواروں میں سے ایک تلوار
جس طرح مولیٰ موحدین علی ابن ابی طالبؑ کے اس قول سے:(تمہارے کچھ ایسے بھی بھائی ہیں جنہیں تمہاری ماؤں نے نہیں جنا) کے ذریعے یہ بات واضح ہوجاتی ہے، کہ دنیا میں کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو رشتہ میں سگے بھائی تو نہیں ہوتے لیکن محبت، تعلق، اور وفاداری میں بھائی کی طرح ہوتے ہیں، اسی طرح یہاں یہ بھی ممکن ہے محمد بن ابی بکر کے مولیٰ کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیھم السلام سے تعلق بھی ایسا ہو کہ تمہاے کچھ فرزند ایسے بھی ہوتے ہیں جو تمہاری نسل سے نہ ہوں لیکن اطاعت اور فرمانبرداری میں بیٹوں کی طرح ہو۔
محمد بن ابوبکر بن ابو قحافہ کی ولادت ہجرت کے دسویں سال ،حجۃ الوداع کے موقعہ پر مقام ذی الحلیفہ میں ہوئی۔آپ کی ماں کا نام أسماء بنت عميس الخثعمية تھا۔ آپ ان باشرف خواتین میں شامل ہیں کہ جنہوں حضرت جعفر بن أبي طالب(آپ کے پہلے شوہر) کے ساتھ حبشہ کی طرف مھاجرت کی ۔ آپ کےحضرت جعفر بن أبي طالب سے تین بیٹے تھے جو حبشہ میں دوران ہجرت پیدا ہوئے جن کا نام: محمد، عبداللہ، اور عون ہے۔ جب حضرت جعفر بن أبي طالب جنگ موتہ میں شہید ہوئے تو حضرت ابوبکر سے آپ کی شادی ہوگئی، اور حضرت ابوبکر سے محمد کی ولادت ہوئی، اور جب حضرت ابوبکر رحلت کرگئے تو حضرت علی ابن ابی طالب سے آپ کی شادی ہوئی اور حضرت علیؑ سے آپ کے بیٹے یحیٰ کی ولادت ہوئی۔
محمد نے امام علی علیہ السلام کے گھر میں آپ ؑ کے زیرِسایہ تربیت پائی، اور جب جوانی کے دہلیز پر قدم رکھا تو آپؑ کے ہمراہ حق کے دفاع اور باطل کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں میں شرکت کی۔ آپؑ شجاعت، جوانمردی، اور بہادری میں بے مثال تھے، آپ جنگ کے مشکل لمحات اور اوقات میں جب تلواروں، نیزوں اور تیروں کے برسات ہورہے ہوتے تھے تو مظبوط چٹان کے مانند اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنے عقیدے کے دفاع کے لیے باطل کے خلاف نبردآزما ہوتے ہیں ۔ آپ ان محمد کہلوانے والے باعظمت افراد میں سے بھی ایک تھے کہ جن کے بارے امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب علیھما السلام ارشاد فرماتے ہیں: بتحقیق محامد(محمدکی جمع، چند مخصوص افراد جن کا نام محمد تھا) نے کبھی بھی معصیت الٰہی نہیں کی ؛ اور وہ محمد بن جعفر، محمد بن ابو بکر، محمد بن ابو حذیفہ اور محمد بن حنفیہ تھے۔
محمد بن ابی بکرنے اپنی ابتدائی زندگی سے لیکر مصر میں آپ کی شہادت تک امام علیؑ کی معیت میں ہمیشہ حق کے ساتھ دیا۔ امام علیؑ آپؓ کے خلوص، اور اطاعت کو خوب جانتے تھے اسی لیے آپؓ کو مصر کے گورنری عطا کی۔ مصر کی گورنری اس وقت کے حالات کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھی اور امام علیؑ اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لیے محمد کو اہل سمجھتے تھے اسی لیے آپ نے ان کو گورنر بنا کر بھیجا۔ اس گورنری کی اہمیت کے بارے میں حضرت امیر المؤمنین فرماتے ہیں: اے محمد! یاد رکھو کہ میں تم کو اپنے بہترین لشکر اہل مصر پر حاکم قرار دیا ہے۔
محمد نے حضرت امام علیؑ کے گھر میں پرورش پائی
جنگ صفین کے واقع ہونے اور حکمین کے رسواکن فیصلہ کے بعد امیرشام نے مولیٰ کائنات حضرت امیرالمؤمنینؑ کے زیر تسلط اور زیرحکومت علاقوں پر جنگ مسلط کرکے قتل وغارت کا سلسلہ شروع کیا، اورامیر شام نے مصر کو یہ کہہ کر عمروبن عاص کے حوالہ کردیا کہ اگر وہ مصر پر پوری طرح تسلط جمالیتا ہے تو پورے شہرپر اس کی حکومت ہوگی، جب یہ خبر حضرت امیرالمؤمنینؑ تک پہنچی تو آپؑ نے محمد بن ابوبکر جو مولیٰ علیؑ کی طرف سے پہلے سے ہی مصر کی گورنری کے منصب پر فائز تھے، ان کی جگہ پر مالک اشترؓ کو بطور گورنر منتخب کیا کیونکہ مالک اشتر، محمد کی نسبت عمر کے لحاظ سے زیادہ بزرگ اور جنگی امور میں زیادہ مہارت اور تجربہ رکھتے تھے، لیکن یہ تبادلہ محمد کی مولیٰ کی اطاعت میں کسی سستی اور کوتاہی کی وجہ سے نہیں تھا؛ جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنینؑ کی طرف سے محمد کو لکھے گئے خط میں تفصیلا بیان کیا گیا ہے، جب یہ خط محمد کو موصول ہوا اور ان کو اپنے معزول کئیے جانے کی اطلاع موصول ہوئی ، اور انہوں نے جوابی نامہ ارسال کیا تو حضرت امیرالمؤمنینؑ نے اس کے جواب میں فرمایا: مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ کی جگہ مالک اشتر کو مصر کی گورنری پر منصوب کرنے پر آپ ناراض ہو گئے ہو، یہ کام اس لئے نہیں کیا گیا کہ تمہیں اپنے فرائض کی ادائگی میں سستی کرنے والا پایا ہوں یا یہ کہ تم سے اس سے زیادہ کی توقع رکھتا ہوں، بلکہ اگر تمہارے ہاتھوں سے حکومت چهینی گئی ہے تو یہ اس لئے کیا گیا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جگہ کی حکومت سونپ دوں جس کے انتظامات تمہارے لئے آسان ہے اور وہاں پر حکمرانی کرنا تمہارے لئے زیادہ پسند ہے ۔
تواس واضح ہوجاتا ہے کہ حضرت امیرالمؤمنینؑ ، محمد کو کسی اور شہر کے گورنر بنانا چاہتے تھے، اور ان کی کارکردگی سےآپ راضی تھے اسی لیے آپ نے مالک اشتر کو گورنر بنانے کی وجہ بھی بیان فرمائی، اور یہ بھی واضح فرمایا کہ آپ ؑ ان سے راضی ہیں اور ان سے کوئی کوتاہی سرزد نہیں ہوئی ہے۔
محمد عبادات اور نماز کی کثرت کی وجہ سے قریش کے عبادت گزاروں میں شمارہوتے تھے، ساتھ ساتھ آپ حضرت امیرالمؤمنینؑ کی عظیم درسگاہ کے فارغ تحصیل بھی تھے لوگ حضرت امیرالمؤمنینؑ کی آپ سے بےپناہ محبت اور الفت کی وجہ سے آپ کو امام علی علیہ السلام کے فرزند کہہ کر پکارتے تھے، اور آپ بھی امیرالمؤمنین ؑ کی آوروں کے مقابلے میں فضیلت کے قائل تھے۔ امیرالمؤمنین ؑ آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے تھے: محمد ابوبکر کے صلب سے میرا فرزند ہے۔ بہت سارے واضح شواہد موجود ہیں جو محمد کی امیرالمؤمنین ؑ سے محبت، آپؑ سے تمسک، آپؑ سے بے پناہ خلوص اور آپؑ کی بلاچوں وچرا اطاعت،اور آپؓ کے امام علیؑ کی فضیلت کے اعتراف پردلالت کرتے ہیں، یہ سب اس لیے تھے چونکہ آپؓ نے حضرت امیرالمؤمنین ؑ کو صراط مستقیم پایا، جس نے آپؑ سے تمسک کیا اس نے عروۃ الوثقیٰ سے تمسک کیااور جس نے آپؑ سے روگردانی کی اور آپؑ کو چھوڑا وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوگیا۔ اس نظریے پر دلیل آپؓ کا وہ خط ہے جو آپؓ نے امیر شام کو لکھا تھا، ہم اس خط کے کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں: آپؓ لکھتے ہیں: بتحقیق اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چنا اور اپنی رسالت ان کے ساتھ مختص کردیا،۔۔۔ پس امام علیؑ وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کو قبول کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہربات کو دل وجان سے مانا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پہلے تصدیق فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کو پیش کیا تو آپؑ نے اسے تسلیم کیا۔ آپؑ حضرت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ذاد بھائی تھے، اور آپؑ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہربات کی تصدیق فرمائی چاہے اس کا تعلق عالم غیب سے ہو ہا یا شہود سے۔ امام علیؑ نے زندگی کا ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں گزارا، ہر مشکل گھڑی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دیا، ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی، ہر اس شخص سے جنگ گی، جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کی، ہر اس شخص سے دوستی رکھی کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوستی کی، کبھی بھی اپنی جان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا، آپؑ کی قربانیاں لازوال تھیں کہ جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، میدان جہاد میں آپؑ کی کوئی نظیر نہ تھی، آپؑ کے دینی امور کی انجام دہی میں کوئی ہم پلہ نہیں تھا، تمام نیک امور کی انجام دہی میں سب سے آگے تھے، سب سے پہلے اسلام لانے کا شرف بھی آپؑ کو ہی حاصل تھا، سچی نیت میں بھی آپؑ کی کوئی برابری نہیں کرسکتا تھا، ذریت کے لحاظ سے بھی سب سے زیادہ پاکیزہ تھی، زوجہ کے اعتبار سے بھی کائنات میں سب سے افضل تھے، ابن عم ہونے کی جہت سے دیکھیں تو بھی سب سے بہترین اب عم تھے۔
بنی امیہ، اور ان کے حواریوں کی اسلام دشمنی، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ اور کرتوتوں کو ذکر کرنے کے بعد محمد کہتے ہیں:۔۔۔ تمہارے لیے ویل ہو، کیا تم اپنے آپ کو علیؑ کے برابر سمجھتا ہے!! تمہارا علیؑ سے کیا مقابلہ؟ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث، جانشین، رسول کے فرزندوں(امام حسن ؑاور حسینؑ) کے والد ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے پہلے پیروکار، رسول اللہ کے رازوں کے امین ، کار رسالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاون ، اور تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہو، اور دشمن رسول کا بیٹا ہو۔۔۔ یہ وہ کلمات ہیں جن کی تشریح اور تعلیق کی بھی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ یہ وہ نور کی جھلکیاں تھیں جو محمد کے دل کی نورانیت، ضمیر کے زندہ ، فطرت کے سلیم، اور طینت کی پاکیزگی کی علامت تھیں۔
محمد کی شہادت
جب خلیفہ سوم کو قتل کردیا گیا تو محمدبن ابی بکر نے مصر والوں کو امیر المؤمنین ؑ کی بیعت کرنے کی طرف دعوت دی، اور خلیفہ سوم کی طرف سے مصر میں متعین گورنرعبداللہ ابن ابی سرح کو نکال دیا ، اور لوگوں کو نماز پڑھائی ، عبداللہ مصر سے بھاگ کر امیر شام کے پاس چلاگیا، اور امیرالمؤمنینؑ نے قیس بن سعد بن عبادہ کو مصر کا گورنر منتخب کیا، اور تمام اہالیان مصر نے امیرالمؤمنین ؑ کی بیعت کی، سوائے ایک قریہ کے، جو نہایت ہی ظالم تھا اور ان پر خلیفہ سوم کا قتل بہت گراں گزرا تھا، لیکن قیس نے ان سے صلح کی اور جنگ نہیں کی۔ مسلمہ بن مخلد بن صامت انصاری نے لوگوں کو خلیفہ سوم کے خون کا بدلہ لینے کے بہانے ورغلانا اور اکسانا شروع کردیا، لیکن قیس نے اس کو بغاوت سے منع کیا اور اس کو دھمکی دی، اس وجہ سے وہ خاموش ہوگیا ، لیکن ان کی یہ خاموشی صرف وقتی تھی اور بے بسی کی وجہ سے تھی ۔ جب امیرالمؤمنینؑ صفین کی طرف چلے تو آپ نے سعد کو معزول کیا اور ان کی جگہ پر محمد بن ابی بکر کو بحیثیت گورنر منتخب کیا، جیسے ان بیعت سے انکار کرنے والے گستاخوں تک یہ خبر پہنچی کہ قیس کو معزول کیا گیا ہے تو انہوں نے علی الاعلان معصیت شروع کردی، اور جب صفین کی خبریں اور عراقی افواج کے امیرالمؤمنینؑ سے علاحدگی کی خبریں ان تک پہنچیں تو انہوں نے محمد بن ابی بکر کے خلاف بغاوت شروع کردی۔ جب امیرالمؤمنینؑ نے ان کی طرف ایک شخص کو بھیجا تو انہوں نے اس کو ظلم وستم کے ساتھ قتل کردیا، جب دوسری مرتبہ بھی کسی کو بھیجا تو اس کو نہایت بےدردی سے قتل کیا۔ عثمانیوں نے امیرالمؤمنینؑ کے خلاف علانیہ طور پر بغاوت اور سرکشی شروع کی، بالخصوص معاویہ بن حدیج السکسکی نے خلیفہ سوم کے خون کا بدلہ لینے کا مطالبہ کردیا تو بہت سارے مصریوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا، یوں مصر والوں نے محمدبن ابی بکر کے خلاف فساد برپا کردیا، جب مصروالوں کی کی طرف سے کی جانے والی بغاوت کی خبر امیرالمؤمنینؑ تک پہنچی تو آپؑ نے فرمایا: مصر کے لیے مالک اشتر ہی سزاوار ہیں، اور صفین سے واپسی پر امیرالمؤمنینؑ نے مالک اشتر کو اپنے معمولات کی بجاآوری کے لیے جزیرہ کی طرف بھیجا، اور قیس بن سعد سے فرمایا: حکومتی امور کے نمٹانے تک آپ میری سپاہ کے ساتھ میرے پاس رہیے، پھر میں آپ کو آذربائیجان کی طرف بھیجوں گا ، قیس امیرالمؤمنینؑ کی سپاہ رہے، جب حکومت کے مسائل فارغ ہوگئے تو مالک اشتر کو مصر کی طرف بھیجا ، لیکن مصر پہنچنے نے پہلے دشمنوں نے مالک کو راستہ میں ہی زہر دیکر شہید کردیا۔
مالک کی شہادت کے بعد بھی امیرشام کے امیرالمؤمنینؑ کے خلاف سازشیں کم نہ ہوئیں بلکہ روزبروز بڑھتی رہیں اور اس نے مصر کے لیے عمرواعاص کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجا، اور جب یہ مصر کے اطراف میں پہنچا تو عثمانیین اس کے ساتھ ہوتے گئے۔ اور محمد بن ابی بکر نے اس تمام تر صورت حال سے امیرالمؤمنینؑ کو آگاہ کرنے کے لیے خط لکھا اور مدد کے لیے مزید فوج طلب کی۔ تو امیرالمؤمنینؑ نے محمد کو جوابی خط لکھا جس میں آپؑ نے فرمایا: اپنے قریہ کو محفوظ بنائیں، اپنےپیروکاروں کو اپنے ساتھ ملائیں، اپنے لشکر میں موجود بہادروں کو جوش وجزبہ دلائیں، کنانہ بن بشر کی قوم کو دعوت دیدیں کیونکہ کنانہ بہادری، سمجھداری اور جنگی تجربے میں شہرت رکھتے ہیں۔
محمد نے آپؑ کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا، اور ان سے مخاطب ہوکر عرض کیا: اس قوم (بنی امیہ کے پیروکار جو امام برحق کے خلاف ہوئے تھے) نے حرمت کو پامال کردیا ہے، ضلالت وگمراہی کو تقویت پہنچائی ہے، فتنہ وفساد کی آگ بھڑکائی ہے، ظلموستم کا بازار گرم کررکھی ہے، جبرواستبداد کو لوگوں پر مسلط کردیا ہے، تمہارے خلاف دشمنی کو انہوں نے اپنے لیے ضروری سمجھا ہوا ہے، اور تمہاری طرف اپنے لشکر کو روانہ کردیا ہے۔ پس تم میں سے جو جنت اور مغفرت کے طلبگار ہے اسے چاہیے کہ وہ اس ظالم اور فاسد قوم کی طرف خروج کرے تاکہ راہ خدا میں کنانہ بن بشر اور کندہ میں سے جو کنانہ کے ساتھ دینا چاہتا ہے ان کے ساتھ مل سے جہاد کیا جاسکے، اللہ تم پر رحم کرے ۔
محمد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے بنی کندہ میں دوہزار افراداور بنی کنانہ میں سے دوہزار افراد تیار ہوگئے ، یوں ۴۰۰۰ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر تیار ہوگیا۔ جب عمرواعاص کو معلوم ہوا تو اس نے مصر میں داخل ہونے کے لیے یکی بعد دیگری لشکر کو روانہ کرنا شروع کردیا، لیکن بنی کنانہ کے بہادروں نے اس کے سارے کے سارے لشکر شکست اور ذلت سے دوچار کردیا اور مصر میں گھسنے نہیں دیا، جب عمرواعاص نے اس حالت کا مشاہدہ کیا تو اس نے معاویہ بن حدیج الکندی کو بھیجا اس نے عثمانیین کا ایک بڑا لشکر کو اپنے ساتھ ملا کر عمرو عاص کے باقی لشکر کے ساتھ مل گیا، اور انہوں نے بنی کنانہ کے خلاف ایک ساتھ ہوکر حملہ کردیا اور بنی کنانہ نے نہایت بہادری، استقامت اور شجاعت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا، ا ٓخر کار راہ خدا میں جہاد کرتے ہوئے مولیٰ علی ؑ کا ایک بہادر سپہ سالار کنانہ شہید ہوگئے۔ کنانہ کی شہادت کے بعد محمد کے ساتھی ایک ایک کرکے محمد کے لشکر سے جدا ہوتا گیا، یہاں تک محمد تن وتنہا میدان جہاد میں رہ گئے، محمد نے چونکہ مصر میں زیادہ زندگی کی نہیں تھی اس لیے ان کو معلوم بھی نہیں تھا کہ کس کے ہاں اور کونسی جگہ پناہ لے لوں ، آخر کار مجبور ہوکر ایک خرابے میں پناہ لی۔ اس طرح عمرو عاص مصر میں داخل ہوگیا، اور اس نے معاویہ بن حدیج کی ذمہ داری لگائی کہ وہ محمد کو ڈھونڈ کر نکالے، وہ ڈھوندتے ڈھوندتے محمد تک پہنچ گیا، اس وقت محمد شدتِ پیاس کی وجہ سے نڈھال ہوچکے تھے، اس نے محمد کو وہاں سے نکالا۔جب محمد کے ساتھ ظلم وستم کی انتہا ہورہی تھی اس وقت محمد کا بھائی عبدالرحمٰن بن ابی بکر عمرو بن عاص کے لشکر بھی تھا اور اس نے محمد کی جان بچانے کے لیے عمروعاص سے سفارش کی لیکن معاویہ بن حدیج (عمروعاص کا کمانڈر) نے ان کے قتل کا اصرار کیا ۔ جب محمد نے دیکھا کہ ان کی شہادت یقینی ہے تو انہوں نے پانی کے ایک قطرہ پانی کا سوال کیا، تو معاویہ نے کہا : اگر میں تجھے ایک قطرہ پلاؤں تو اللہ مجھے کبھی ایک قطرہ پانی نہ پلائے ۔ اس طرح محمد کو شدت پیاس کی حالت میں شہید کیا گیا،۔ شہادت کے بعد ان کی میت کو ایک مردہ گدھے کی کھال میں ڈال کر جلایا گیا۔
محمد کی شہادت اور امیرالمؤمنینؑ کا حزن
جب امیرالمؤمنینؑ تک محمد کی المناک شہادت کی خبر پہنچی تو آپؑ بیحد رنجیدہ اور غمگین ہوئے، (یہاں تک آپؑ نے گریہ کیا ، اس کے آثار آپؑ کے روئے مبارک پر نمایاں ہوئے) اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: آگاہو جاؤ! بیشک مصر پر فاجروں، ظلم و ستم کو دوست رکھنے والوں، لوگوں کو خدا کی راہ سے دور رکھنے والوں اور اسلام کو کجی کی طرف لے جانے والوں نے قبضہ کرلیا ہے ۔ محمد بن ابی بکر( اللہ کی ان پر رحمت ہو) کو شہید کردیا گیا ہے، ہم اللہ سے ان کی مصیبت کا اجر چاہتے ہیں۔
آپؑ نے عبداللہ بن عباس کو ایک خط لکھا، جس میں آپؑ فرماتے ہیں: اما بعد! دیکھو مصر پر دشمن کا قبضہ ہوگیا ہے، اور محمد بن ابی بکر کو شہید کردیا گیا ہے، ہم ان کی مصیبت کا اجر خدا سے چاہتے ہیں ، وہ میرے مخلص فرزند، محنت کش عامل، میری تیغ برّان اور میرے دفاعی ستون تھے۔دوسری جگہ پر آپ ارشاد فرماتے ہیں: محمد کی کوئی برائی نہ کر کیونکہ انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں اور اپنی ذمہ داری بطور احسن نبھائی ہے۔
جب امیرالمؤمومنین علی علیہ السلام سے کہا گیا:اے امیر المؤمنین علی علیہ السلام ! آپ نے محمد بن ابی بکر کی شہادت پر بہت گریہ کیا ؟ تو آپؑ نے فرمایا: اس میں کیا حرج ہے ، وہ میرے ہاتھوں کا پروردہ اور تربیت یافتہ تھا اور وہ میرے بیٹوں کے لئے بھائی اور میں اس کا باپ ہوں اور وہ میرے بیٹے کی طرح ہے۔ خدا کی قسم ابوالقاسم محمد بن ابی بکر رسالت کے گھرانے، امامت کے معدن، اور وحی کے نازل ہونے کا مقام کا پروردہ ہیں۔بتحقیق اللہ کی مشیت یہی تھی کہ محمد دنیا اور آخرت دونوں میں سرفراز رہے، اور فخر سے ان کا سر اتنا بلند ہو کہ جس کے بعد کوئی فخر نہ ہو۔ آپؓ کو یہ عظیم شرف بھی حاصل ہے کہ آپ جناب قاسم کے والد ہیں جو صادق آل محمد علیھم السلام کے نانا تھے کیونکہ جناب ام فروہ امام صادق علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تھیں اور قاسم کی دختر تھیں۔ آپ کا یہ شرف اور فضیلت بھی قابل رشک ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امام علی علیہ السلام کی اطاعت کرتے ہوئے شہادت کے درجہ پر فائز ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔
محمد طاہر الصفار