| اسلامی ممالک کے اہم مراکزاور دارالحکومتیں | مدینہ منورہ: پہلا اسلامی دارالحکومت
مدینہ منورہ: پہلا اسلامی دارالحکومت
مدینہ منورہ یا یثرب: چھٹی صدی ھجری سے قبل اشوریہ کے نصوص میں ( لاثریون) کے نام سے بھی ملتا ہے۔جس طرح یونانیوں کی تاریخ میں اس شہر کا نام یثرب ملتا ہے اسی طرح بطلموس اس شہر کو (لاثریا) کے نام سے توصیف کرتے ہیں کیونکہ اس کا تذکرہ 300 سے 600 سال قبل میلادی یمن میں قائم حکومتوں (جو حجاز اور فلسطین تک قائم تھے) کی تحریروں میں بھی ملتا ہے۔
مدینہ ابتدا ہی سے مہاجروں کا مسکن رہا ہے جب سب سے پہلے عمالقی نے سینا سے ہجرت کرکے اس شہر کا روخ کیا، پھر یمن سے معینیوں نے اس شہر کی طرف ھجرت کی، پھر دوسری صدی عیسوی میں رومن یہودی جنگوں کے دوران بے گھر ہوگئے اور فلسطین سے ہجرت کرکے اس شہر میں آباد ہوئے۔اس میں یہودیوں کے تین قبیلے تھے بنو نضیر، بنو قینقاع اور بنو قریظہ۔ اور انہوں نے پر آمن بقائے باہمی کے تحت باہر سے ائے ہوئے مہاجروں سے عہد کیا جس میں یہ طے پایا کہ کوئی بھی اس شہر پر حملہ آور ہوجائے تو مل کر دفاع کرینگے۔
جغرافیائی مقام:
مدینہ منورہ سعودی عرب میں واقع مقدس شہر مکہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور مکہ مکرمہ سے اس کا فاصلہ 450 کلومیٹر، جبکہ بحر احمر سے، (150) کلومیٹر کا فاصلہ ہے، اس کا کل رقبہ (173،000) کلومیٹر ہے، جبکہ اس کی مجموعی آبادی (1،300،000) افراد پر مشتمل ہے، اور سطح سمندر سے تقریبا 608 میٹر بلندی پر واقع ہے ، یہاں کی آب و ہوا خشک رہتی ہے ، جبکہ موسم گرما میں گرمی اورسردیوں میں بارش ہوتی ہے۔گرمیوں میں درجہ حرارت تقریبا، (30) سے (45) ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہوتا ہے۔
پیغمبر اسلام کی ہجرت:
جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں علی الاعلان لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینا شروع کی تو قریش کی طرف سے مزاحمت میں شدت آگئی اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ ﷺ کے پیروکاروں کو ہر قسم کی اذیتین دینا شروع کردیں یہاں تک کہ ان مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب آپ ﷺ کو اس منصوبہ کا علم ہوا تو مکہ مکرمہ میں کوئی ایسا محفوظ مقام نہیں تھا کہ جہاں آپ سکون سے تبلیغ دین جاری رکھ سکیں، اس لئے آپ ﷺ اور دیگر مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کرنے کا عزم کیا اور سب نے اپنے اموال، مویشیوں اور گھربار کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی اور 20 ستمبر 622 ء کو مدینہ پہنچ گئے۔
مدینہ والوں نے ان مہاجروں کا پرتپاک استقبال کیا اور ان کو خوش آمدید کہا ان کے لئے شلٹر فراہم کردیا، کھانے پینے کی چیزیں ان کے سامنے پیش کردیں، اور ہرممکنہ مدد فراہم کی۔ اس طرح سے رسول اللہ ﷺ، کو مدینہ میں بہت احترام اور تعظیم ملی۔ خدا نے آپ ﷺ کو مشرکینِ قریش کی شر سے دور کردیا۔ اس طر ح سے آپ ﷺ نے اسلام کی سب سے پہلی ریاست کی بنیاد رکھی۔ ہجرت کا یہ واقعہ تاریخی طور پر بہت ہی اہمت کا حامل سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔اور دوسرا اسلامی کلنڈر کا آغاز بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی اس ہجرت سے ہوا جو کہ عیسوی کلنڈر کے مطابق 622 کو ہجرت کا پہلا سال قرار پایا۔ یہ ہجری کیلنڈر قمری مہینوں پر مشتمل ہیں جو آج تک نافذالعمل ہے۔
تاریخی خصوصیات:
مدینہ منورہ کی سب سے بڑی خصوصیت اس میں موجود عالم اسلام کی سب سے اہم مسجد مسجد البنی ہے، جس کے ساتھ پیغمبر اسلام ﷺ کا روضہ اطہر بھی ہے۔ یہ مقام مسلمانوں کے لئے مکہ مکرمہ کے بعد سب سے اہم اور مقدس مقام شمار ہوتا ہے۔ یہ مسجد ہجرت مدینہ کے بعد پیغمبر اسلام ﷺ نے خود تعمیر فرمائی۔ اس کے علاوہ مدینہ میں دو اور اہم مساجد بھی ہیں، ان میں سے ایک مسجد قباء ہے جو اسلام کی سب سے پہلی مسجد ہے اور دوسری مسجد مسجدِ ذوقبلتین ہیں۔ مدینہ میں جنت البقیع کے مزارات بھی ہیں جس سے اس شہر کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔
مسجد النبوی:
مسجد الحرام کے بعد مسجد نبوی مسلمانوں کے اہم اور مقدس مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر ہجرت کے پہلے سال خود پیغمبر اسلام ﷺ نے کی، دوسرا اس مسجد میں روضہ رسول ﷺ بھی ہے او ر یہ مسجدالحرام کے بعد دوسری ا ہم مسجد ہے۔ ابتداء اسلام سے لیکر آج تک مختلف ادوار میں اس مسجد کی توسیع اور ترمیم ہوتی رہی۔ اس میں 698000 نمازیوں کی گنجائش ہے جبکہ اس مسجد کے 10 مینار ہیں ہر مینار کی بلندی 103 میٹر ہے۔ روضہ رسول ﷺ کے اوپر سبز گنبد ہے جہاں ہر سال بڑی تعداد میں لوگ پیغمبر اسلام ﷺ کی زیارت اور نماز کےلئے مختلف مقامات سے آتے ہیں۔
جنت البقیع کے مزارات:
جنت البقیع کے تاریخی قبرستان میں پیغمبر اسلام ﷺ کے عظیم اصحاب، تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات خصوصا چار آئمہ معصومین امام حسن مجتبی، امام زین العابدین، امام محمد باقر اور اما م جعفر صادق علیہم السلام کے مقبرے موجود ہیں۔اسی طرح ازواج مطہرات کے مقبرے بھی بقیع میں ہیں جبکہ ازواج میں سے جناب خدیجہ بن خولد کا مقبرہ مکہ میں اور سیدہ میمونہ بنت الحارث کا مقبرہ مکہ اور مدینہ کے درمیاں ہے۔ اسی طرح جنت البقیع میں امام علی علیہ السلام کی مادرِ گرامی سیدہ فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا اور آپ علیہ السلام کی زوجہ ام البنین علیہا السلام کے مقبرے بھی ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے اصحاب کرام ، جیسے عثمان بن مضعون، سعد بن معاذ اور سھل بن سعد ساعدی وغیرہ کی قبور بھی بقیع میں ہیں، اور اس تاریخی قبرستان میں آج بھی لوگ دنیا سے رخصت ہونے والوں کو دفن کرتے ہیں۔