| اسلامی ممالک کے اہم مراکزاور دارالحکومتیں | مکہ المکرمہ: مقام وحی و آغاز رسالت۔
مکہ المکرمہ: مقام وحی و آغاز رسالت۔
مکہ وہ تاریخی شہر ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں متعدد ناموں سے ہوا ہے، جن میں مکہ، بکہ، ام القراء اور بلد الامین شامل ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آمد سے قبل، کعبہ کی تعمیر اور چاہ زمزم نکلنے سے پہلے یہاں بہت کم لوگ آباد تھے۔لیکن جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آمد ، مکہ المکرمہ کی تعمیر اور آب زم زم جیسے تاریخی واقعات رونما ہوئے تو یہاں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ یہ ایک مذہبی شہر بن گیا ۔پھر حج کے موسم میں جزیرۃ العرب سمیت دنیا کے مختلف مقامات سے لوگ آنے لگے اسی طرح ایام ِ حج کے علاوہ تجارت کی غرض سے لوگوں کی آمدرفت میں مزید اضافہ اس وجہ سے بھی ہوا کہ یہ شہر یمن اور شام کے راستے میں واقع ہے جو کہ بحر احمر اور ابیسیانیا کے قریب ہے۔
اسلام کی آمد سے پہلے مکہ پر قبیلہ جر ھم کی حکومت تھی پھر قبلہ خزاعہ نے حکومت کی یہاں تک کہ قریش والوں کی حکومت شروع ہوئی، اس وقت یہ معاشرہ جہالت کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور لوگ بت پرستی، نوزائید بچیوں کو زندہ درگور کرنے اور ہر وقت قتل و غارت گری جیسے کاموں میں مصروف رہتے تھے۔
مکہ الکرمہ اس وقت شام اور یمن سے آنے والے مسافروں کے لئے ایک مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ کوئی بھی قافلہ یہاں پر ایک دن ٹھہرے بغیر نہیں گزرتا تھا ۔ اسی طرح مکہ المکرمہ میں عکاز جیسی مارکیٹ کی موجودگی نے اس شہر کی تجارتی اور اقتصادی حیثیت کو اور بڑھا دیا ۔ اس مارکیٹ میں جزیرۃ العرب سمیت فارس ، رومن اور افریقہ، اتھوپیا، اسکندریہ وغیرہ سے لائی گئی مختلف انواع و ا قسام کی چیزیں پیش کی جاتی تھیں جہاں کپڑے، زیورات، مشروبات، تلواریں، ہندوستانی ، کھانے کا سامان جیسے گندم، جو، کھجور، گھی، شھد،اور نمک، موشی اور اون وغیرہ ملتے تھے۔ اس کے علاوہ اس وقت تجارت میں اجناس کا تبادلہ بھی ہوتا تھا کیونکہ اس وقت کسی مالیاتی کرنسی کا وجود نہیں تھا البتہ کچھ مواقع پر خرید و فروخت میں دینار کا استعمال ہوتا تھا۔
مکہ المکرمہ کی یہ بازار عکاظ فن، تجارت، شعروسخن اور لوگوں کے میل ملاپ کا ایک بہت بڑا فورم تھا ، مختلف مقامات سے لوگ شاعروں اور موسیقاروں سے نئی نظمیں سننے اورانھیں دیکھنے کے لئے آتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ اس دوران بحث و مباحثہ اور زبان کے استعمال کی بنیاد پر تنقید وتحسین کے تجزیئے بھی کیا کرتے تھے ، جسے آج کل کی اصظلاح میں ہم ادبی تنقید کہتے ہیں اس میں بڑے بڑے شعراء اپنا کلام پیش کرتے تھے تاکہ لوگوں کے سامنے انکی شان و منزلت بلند ہوجائے۔ ،عکاظ بازار کو تجارتی اور ادبی پروگرام کے علاوہ مذہبی حوالے سے بھی بڑا مقام حاصل تھا ، کیونکہ اس مقام پر ایک بت(جہار) بھی تھا ، جو ھوازن کا بت تھا ،چنانچہ لوگ خاص موسم میں اس کی زیارت کےلئے جمع ہوتے اور نذرانہ اور تحائف پیش کرتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت مکہ میں ہوئی اور آپ ﷺ مبعوث برسال بھی ت مکہ مکرمہ میں ہوئے جو کہ سب سے اہم تاریخی واقعہ تھا جس سے اس سرزمین کے مقام و مرتبے اور تقدس میں مزید اضافہ ہوا۔ اسی طر ح مکہ مکرمہ کی اس سرزمین پر آسمانی پیغامات میں سے سب سے آخری پیغام، قرآن مجید جبرئیل کے توسط سے آخری بنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا۔ اور حجاج کے لئے اس سرزمین پر خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی، جس سے اس سرزمین کی شرف و منزلت کے اعلی مقام ملا۔
جغرافیائی طور پر، مکہ مکرمہ بحیرہ احمر سے تقریبا 75 کلومیٹر اور مدینہ منورہ سے 400 کلومیٹر دور جزیرہ نما عرب کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور 21 درجے 25 دقیقے عرض بلد شمالی اور 39 درجے 49 دقیقے طول بلد مشرقی پر واقع ہے ۔ اس شہر کے چاروں طرف پہاڑی سلسلے ہیں ، اور یہ سطح سمندر سے تقریبا 277 میٹر بلندی پر ہے ۔ ، اور اس کا کل رقبہ تقریبا (850) کلومیٹر ہے، جبکہ اس کی آبادی (2،400،000) افراد پر مشتمل ہے ، اور یہا ں کا زیادہ تر حصہ ریگستانی ہونے کی وجہ سے ، آب و ہوا موسم گرما میں زیادہ گرمی ہوتی ہیں اور بارش کم ہوتی ہے۔ اس شہر کی سب سے اہم اور سب سے بڑی خصوصیت گرینڈ مسجد ہے، یعنی مسجد الحرام ہے، جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے سب سے مقدس ترین جگہ ہے۔
مکہ المکرمہ، جو مسلمانوں کے لئے دنیا کا پہلا مقدس شہر ہے ، یہ شہر عالم اسلام کا دارالحکومت ہو نے کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے لئے ایک روشنی اور ایک منزل ہے، یہاں ہر سال دنیا کے تمام حصوں سے لاکھوں مسلمان حج کے موسم میں ہی نہیں ، بلکہ باقی دنوں اور مہینوں کے دوران بھی خانہ کعبہ کی زیارت کرنے حج اور عمرہ بجالانے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔