| مقدس مزارات، اور تاریخی مقامات | جامع مسجد قيروان
جامع مسجد قيروان
جامع مسجد قیروان ایک بڑی مسجد ہے جسے مسجد عقبہ بن نافع بھی کہا جاتا ہے، عقبہ کے نام سے منسوب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس مسجد کی بنیاد رکھنے والا اسلامی سپاہ سالار اور فاتح عقبہ تھا، جس کا اصل نام عقبہ بن نافع بن عبدالقیس اموی فہری تھا۔ اس نے تیونس کو فتح کرنے کے بعد سنہ ۸۰ ہجری میں اس مسجد کی بنیاد رکھی اس طرح ۶۷۰ عیسوی میں شہرِ قیروان میں یہ مسجد مکمل ہوئی۔اور یوں یہ مقام مغربی عرب میں قدیمی درسگاہ بن گیا۔ اس مسجد کا مینارہ اب تک کا سب سے قدیم مذہبی مینارہ سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے عام طور پر تیونسی اور دیگر عرب، اسلامی تہواروں کو نہایت عقیدت اور جوش وجزبے کے ساتھ اسی جامع مسجد میں مناتے ہیں، جیسے رمضان المبارک کی شب ہائے نزول قرآن، وقدر کی محفلیں، ختم قرآن کی محافل اور پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے کیئے جانے والے پروگرامز بھی اسی میں منعقد کیئے جاتے ہیں۔ یہ مسجد تیونس کی اہم اور بڑی مساجد میں شمار ہوتی ہے۔ اس مسجد کا مجموعی تعمیر شدہ رقبہ ۹۷۰۰ مربع میٹر پر محیط ہے اور یہ لمبائی میں ۱۲۶ میٹر اور چواڑائی میں ۷۷ میٹر ہے، اسی طرح نماز پڑھنے کی جگہ بھی بہت وسیع وعریض ہے، اس میں سنگ مرمر سے بنے ہوئے دسیوں خوبصورت ستون بھی ہیں، اس میں ایک بڑا قبہ بھی موجود ہے جو محراب کے بالمقابل ہے اسی قبہ کے مقابل میں ایک اور قبہ بھی موجود ہے ۔ اس مسجد میں ایک وسیع وعریض صحن بھی موجود ہے، جو نہایت ہی خوبصورت ہے اوراس کے ارد گرد دلکش کوریڈورزہیں جو اس صحن کی خوبصورتی کو دوبالا کرتے ہیں، جس میں مختلف ادوار وجود میں آنے والی انسانی تخلیقی صلاحیتوں کے مشاہر کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ فن تعمیر کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے، اس کے ساتھ ہی یہ اپنی خوبصورتی کے اعتبار سےاسلامی دنیامیں ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ مسجد عالم اسلام کی بہت پرانی مساجد اورمآذن میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کی تین منزلین ہیں، اور ان کی اونچائی (31.5) میٹر ہے۔ مسجد کا منبر اسلامی دنیا کا قدیم ترین اور نادر ترین منبر ہے، یہ ایک مضبوط لکڑی (ٹیک کی لکڑی) سے نہایت عمدہ طریقہ اپناتے ہوئے بنایا گیا ہے،جو فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے۔ اسے تیسری صدی ہجری یعنی نویں صدی عیسوی میں بنایا گیا۔
اس مسجد میں ایک پرانی زیارت گاہ (مقبرہ) بھی ہے جس کی تاریخ پانچویں صدی ہجری (گیارہویں میلادی) بتائی جاتی ہے ۔
فتوحات اور جہادمیں مصروف ہونے کی وجہ سے اس مسجد کی تعمیر میں پانچ سال لگے، اس کی ابتدائی عمارت انگور سے بنی ہوئی سائبان کی طرح تھی اور اس کے کالم کھجور کے درختوں کے تنوں سے بنے ہوئے تھے ،
ابتداء میں اس مسجد کو مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرز پر تعمیر کرنے کا منصوبہ تھا، لیکن بعد میں اس میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے پرانی صورت کو محفوظ ررکھنے کی کوشش کی گئی ، لیکن ہشام بن عبدالملک نے مسجد کی شمالی دیوار کے وسط میں ایک خوبصورت مینار تعمیر کروایا، اور یزید بن حاتم نے 348 ء میں مسجد کو مینار اور اس کی محراب سمیت مکمل طور پر منہدم کردیا ، تاکہ اس شکل کو دوبارہ تعمیر کیا جاسکے۔ چنانچہ اس وقت جو شکل موجود ہے وہ ہشام کی تعمیر کردہ مسجد ہی ہے۔
پھر زیادۃ اللہ ا بن الاغلب نے اس کی محراب کو منہدم کرکے بعد میں اس میں تبدیلیاں کیں کیونکہ یہ قبلہ سے تھوڑا سا ہٹ گئی تھی، اور دیوار نے امام جماعت کی جانب واقع جگہ کو مکمل ڈھانپ لیا ہے اور مقتدین امام جماعت کو دیکھنے سے قاصر تھے۔ اس نے صحیح قبلہ کی سمت میں سفید سنگ مرمر سے نیا محراب تعمیر کروایا گیا، اور اس کی چھت کو اونچا کرکے ایک گنبد بھی بنایا گیا۔
محقیقین، طلباء، اور ناظرین اس عظیم درسگاہ کی پرشکوہ اور شاندار عمارت کی خوبصورتی کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔قیروان کو مسلمانوں کی فتح کے بعد بنائی ہوئی تہذیبوں میں سے بصرہ، کوفہ (عراق)، اور فسطاط (مصر) کے بعد چوتھی اہم تہذیب شمار کیا جاتا ہے۔ اور اس کی تعمیر کی جگہ کو اس کے فاتح عقبہ ابن نافیع کا ایک زبردست انتخاب سمجھا جاتا ہے، جسے بحیرہ روم کے ساحل سے دور صحراء کی جانب اس لیے بنایا گیا تاکہ اسے اس وقت کی بازنطینی فوج کے بحری حملوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔