3 شوال 1446 هـ   2 اپریل 2025 عيسوى 2:56 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مسلمان شخصیات |  مذہب وسیاست کے درمیان صلاح الدین ایوبی کی شخصیت
2025-02-18   193

مذہب وسیاست کے درمیان صلاح الدین ایوبی کی شخصیت

الشيخ معتصم السيد احمد

صلاح الدین ایوبی کو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سے اہم مقام دیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نام بیت المقدس کی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے وہ بہت سے لوگوں کے نظر میں ایک تاریخی ہیرو اور جہاد کی علامت بن گیا۔ ہمیں تاریخی شخصیات کا مطالعہ منظم اور غیر متعصبانہ طریقے سے کرنا چاہیے، خاص طور پر ان شخصیات کا جو اسلامی تاریخ میں بڑا مقام رکھتی تھیں۔ صلاح الدین کو صرف ایک زاویے سے دیکھنا اس کی شخصیت کو جاننے کا درست طریقہ نہیں ہے۔ ہم جذبات میں پھنس جائیں گے ہمیں چاہیے کہ ہم اس کی زندگی کے تمام پہلووں کو مد نظر رکھیں۔

یہ درست ہے کہ صلاح الدین نے صلیبیوں کا مقابلہ کیا اور بیت المقدس کو دوبارہ حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس  کی حکمرانی کے دور میں اپنائی گئی پالیسیوں کو نظرانداز کیا جائے، جن کا امت اسلامیہ پر گہرا اثر پڑا۔ اس نے اپنی ریاست کو فاطمی حکومت کے خاتمے پر قائم کیا اور بعض علاقوں میں عباسی اثرورسوخ کو بھی ختم کیا، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کا منصوبہ صرف صلیبی حملے کی مزاحمت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں اسلامی دنیا کا سیاسی نقشہ اپنی ذاتی نظر کے مطابق دوبارہ ترتیب دینا بھی شامل تھا۔

اگرچہ 1187ء میں معرکہ حطین میں اس کی فتح صلیبیوں کے ساتھ جنگیں اہم موڑ ثابت ہوئی تاہم اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات، خاص طور پر ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے، عمیق تجزیے کے مقاضی ہیں۔ یہ فتح بیت المقدس کی بازیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔فتح بیت المقدس وہ واقعہ تھا جس نے صلاح الدین کو امت اسلامیہ میں ہیرو بنا دیا لیکن اس معرکہ کے بعد کا سیاسی اور عسکری منظر نامہ متنازعہ مفاہمتوں بھرا ہے۔ بیت المقدس کی آزادی اور صلیبیوں کے اہم شہروں کے سقوط کے بعد، صلاح الدین نے صلیبیوں کو مکمل طور پر علاقے سے نکالنے کے لیے پیش قدمی جاری نہیں رکھی بلکہ ایک مذاکراتی سلسلے میں شامل ہوگئے، جس کا اختتام 1192ء میں رچرڈ دلیر کے ساتھ صلح الرملہ پر ہوا، جس نے صلیبیوں کو یافا سے صور تک ساحلی پٹی پر قبضہ رکھنے کی اجازت دی، وہ علاقے جو پہلے ہی اس  کی فوج نے آزاد کرائے تھے، اس معاہدے نے علاقے میں صلیبیوں کے توازن کو دوبارہ قائم کیا اور انہیں مضبوط پاؤں جمانے کا موقع فراہم کیا حالانکہ وہ مکمل طور پر تباہی کے قریب تھے۔

اس کے ہم عصر اور بعد کے مورخین نے اس کی اس حکمت عملی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ علامہ حسن الامین اپنے کتاب "صلاح الدین ایوبی بین العباسیین والفاطمیین والصلیبیین" کے صفحہ 144 پر لکھتے ہیں: "جوں ہی وہ اس شاندار فتح پر مطمئن ہوا، فوراً ایک ایسا قدم اٹھایا جو عام انسان کے لیے بھی ناقابل یقین ہے ان لوگوں کی بات نہیں کی جا رہی ہے جو حقیقت سے آنکھیں چراتے ہیں۔ اس دور کے مورخین نے اسے لکھا ہے، وہ مورخین جو فقط قدس کی شاندار فتح پر ہی رک گئے اور اس سے آگے نہیں بڑھے وہ ایسے  واقعات سے غافل ہوگئے۔ کچھ مورخین کے قلم چلے اور انہوں نے حقائق کو جیسے تھے ویسے لکھا۔خلاف حقیقت بتا کر ذہنوں کومسموم کرنے کا سلسلہ ایک نسل سے دوسری نسل تک جاری رہا، لوگ حقائق کونظر انداز کرتے رہے جو سورج کی طرح واضح تھے۔ حطین کے بعد صلاح الدین ایوبی نے تھک گیا اور اس نے آرام کو ترجیح دی۔ بغاوت کے بعد اسے صلیبیوں نے تسلیم کر لیا اور فوراً جنگ کا خاتمہ کرنے اور امن قائم کرنے کی درخواست کی۔

اسی موقف کی وجہ سے کئی محققین نے اسے ذاتی مفادات کے حصول کا پیروکار قرار دیا کیونکہ اس نے صلیبیوں کے ساتھ اتحاد کو ترجیح دی تاکہ وہ عباسی اور فاطمی سلطنتوں کے خاتمے کے بعد اپنی طاقت کو بڑھا سکے۔ اس رائے کی تصدیق یہ حقیقت کرتی ہے کہ اسلامی دنیا عملی طور پر اس کے اقتدار اور ذاتی بادشاہت کے تحت آگئی تھی۔ جب حالات مستحکم ہو گئے تو اس نے اسلامی مملکت کو اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا، گویا وہ اسے خاندانی جاگیر کے طور پر وراثت میں دے رہا تھا۔ ابن کثیر نے اس تقسیم کی تفصیلات بیان کی ہیں، جہاں اس نے مصر کو اپنے بیٹے عزیز عماد الدین ابو الفتح کے لیے مخصوص کیا، دمشق اور اس کے اطراف کو اپنے بیٹے افضل نور الدین علی کے لیے، حلب اور اس کے نواحی علاقے اپنے بیٹے الظاہر غازی غیاث الدین کے لیے، کَرَک اور شوبک اور علاقے جعبر اور وسیع علاقے جو دریائے فرات کے کنارے ہیں اپنے بھائی العادل کو دیے، جبکہ حماہ اور دیگر علاقوں کو اپنے بھتیجے، بادشاہ المنصور محمد بن تقی الدین عمر کے لیے مخصوص کیا، حمص، الرحبہ اور ان کے ارد گرد کے علاقے اپنے چچا اسد الدین بن شیرکوه کو دیے،یمن کو اپنے بھائی ظہیر الدین سیف الاسلام طفتکین بن ایوب کو دے دیا، بعلبک اور اس کے علاقے اپنے بھتیجے امجد بہرام شاہ بن فروخ شاہ کو دیے، اور بصریٰ اور اس کے نواحی علاقے الظافر بن الناصر کے لیے مخصوص کیے۔

ان تمام واقعات کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے ؟ بلخصوص جب صلاح الدین کی شخصیت کا  تاریخی  جائزہ لیا جارہا ہو؟ کم از کم یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اسے محض مذہبی زاویے سے دیکھا جائے اور اسے ایک صالح شخص یا روحانی رہنما کے طور پر پیش کر دیا جائے جس کی بنیاد پر امت کی وفاداری چیک کی جائے۔ حقیقت میں وہ ایک ایسا حکمران تھا جس نے تاریخی واقعات کو اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں استعمال کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس نے اپنے اثر و رسوخ کو بڑھایا اور اپنی ایوبی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ اس نے صلیبیوں سے اسلام کے لیے جنگ کی اور امت کی عظمت کو دوبارہ بحال کیا، تو اس کا انعام اسے اسلامی دنیا پر اپنی حکمرانی کے ذریعے ملا۔ اس لیے، اس کی شخصیت پر اختلاف کو مذہبی یا اخلاقی تقسیم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔وہ نہ تو ایک مقدس شخصیت ہے اور نہ ہی ایک معصوم مذہبی رہنما، بلکہ وہ ایک سیاسی شخصیت ہے جس کا جائزہ اس بنیاد پر لیا جانا چاہیے، نہ کہ مذہبی یا اخلاقی زاویے سے اس کی شخصیت کو ناپا جانا چاہیے۔

اگرچہ بیت المقدس ایک مذہبی نشان  اور قبلہ اول ہےلیکن اس کی فتح اور آزادی کو سیاسی طور پر ہی  سمجھا جانا چاہیے کیونکہ اگر اس کا یہ عمل اللہ کی رضا کے لیے تھا تو اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اور واحد چیز جس کو مذہبی اور اخلاقی طور پر دیکھا جانا چاہیے وہ، وہ مظالم ہیں جو صلاح الدین نے مسلمانوں کے خلاف کیے کیونکہ ظلم اور دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا دین اور اخلاق ہر دو لحاظ سے مذموم ہیں۔ صلاح الدین مسلمانوں کے خون بہانے اور ان کے حقوق کی پامالی کا مرتکب ہےجیسا کہ اس نے مصر میں کیا۔ جہاں ایک طرف وہ صلیبیوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے کوشاں تھا، وہیں دوسری طرف وہ فاطمیوں پر بہت سخت تھا، ان پر ظلم کیااور ان کے خلاف جنگ میں بے تحاشا خون بہایا جس کا کوئی جواز ہی نہیں تھا سوائے اپنے ملک اور اقتدار کو بڑھانا۔ یہ صرف اقتدار پر قبضے تک  محدود نہ رہا بلکہ اس نے کتابوں اور لائبریریوں پر بھی حملہ کیا، جن میں فاطمی محل کی لائبریری بھی شامل تھی، جسے اس نے جلا دیا تھا، جو مختلف علوم و فنون، فقہ، حدیث، زبان، تاریخ، ادب، طب، کیمسٹری، فلکیات وغیرہ پر مشتمل دو لاکھ سے زائد مجلدات پر مشتمل تھی، جس سے اس کی فاطمیوں کے ورثے سے نفرت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ صلاح الدین ایوبی ایک پیچیدہ شخص تھا، جو سیاسی اور عسکری طور پر بہاد تھا۔اس نے ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جو تنازعات کو باعث بنیں۔ان پالیسیوں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ اگرچہ بیت المقدس کی آزادی اسلامی امت کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ ہے تاہم صلاح دین کی شخصیت کا مکمل جائزہ صرف اس عظیم واقعے پر محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس میں اس کے تمام سیاسی اور عسکری پہلووں کو شامل ہونا چاہیےاور یہ طے کیا جانا چاہیے کہ ان پالیسیوں کا اسلامی امت پر مجموعی طور پر کیا اثر پڑا؟

اگر ہم صلاح الدین کو ایک سیاسی حکمران کے طور پر دیکھیں تو یہ ضروری ہے کہ ہم اس کے ذاتی مفادات اور اس کی  طاقت کے پھیلاؤ کو مدنظر رکھیں جس کی وہ کوشش کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے ان اقدامات کو بھی مدنظر رکھیں جو اس مسلمانوں اور مختلف طبقات کے خلاف اٹھا ئے تھے۔ اس لیےاس کی شخصیت کا جائزہ مذہبی یا فرقہ وارانہ تصورات سے آزاد ہو کر لیا جانا چاہیے۔یہ ایک موضوعی مطالعہ کے ذریعے کیا جانا چاہیے جو صلاح الدین کی شخصیت کی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھے جس میں وہ زندگی گزار رہا تھا۔

یہ طے شدہ بات ہے کہ صلاح الدین معصوم یا مقدس شخص نہیں تھا بلکہ وہ ایک حکمران تھے جو مشکل اور پیچیدہ تاریخی حالات میں اپنے سیاسی اور اقتدارکے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔جو بھی صلاح الدین کی شخصیت پر کام کرے وہ اسے ایک مقدس شخص مان کر یا اس کا دشمن بن کر یہ کام نہ کرے۔اس پر تحقیق کے جدید اصولوں کی روشنی میں تحقیق ہونی چاہیے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018