| مسلمان شخصیات | فضل بن شاذان رشک اہل خراسان
فضل بن شاذان رشک اہل خراسان
فضل بن شاذان ، ابو محمد الفضل بن شاذان بن الخلیل الازدی النیشاپوری، ان کے والد شاذان بن الخلیل مسلم محدثین میں سے تھے ۔ فضل بن شاذان دوسری ہجری کے اواخر میں پیدا ہونے والوں میں سے ہیں ۔ ۱۹۳ ہجری کو ہارون الرشید کی موت کے بعد اپنے والد کے ساتھ نیشاپور سے بغداد منتقل ہوئے۔ اپنی چھوٹی عمر میں ہی اسمعیل بن عباد البغدادی کے پاس قرآن کی تعلیم کے لئے جانے لگے ۔
فضل بن شاذان چونکہ دونوں امام علی النقی الہادی اور امام حسن عسکری علیھما السلام کے صحابی تھے اس لئے ان اماموں کی خدمت میں شرفیاب ہونے کا موقع ملا اس لئے آپ نے ان دونوں اماموں سے خوب کسب فیض کیا جس کی وجہ سے وہ علمی اعتبار سے ایک بلند مقام رکھتے تھے۔ اور اس وجہ سے وہ علوم فقہ ،قرآن کریم اور اس کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی مشہور مسلم شیوخ میں شمار ہوتے تھے۔ آپ نے مرجئہ ، حشویہ اور غلاۃ کے عقاید کے ابطال میں بڑے مناظرے کئے علاوہ اس کے قرامطہ کے ساتھ لڑائی میں بھی حصہ لیا ۔
فضل بن شاذان نے بغداد میں محمد بن ابی عمیر اور حسن بن علی بن فضال سے کسب فیض کیا اور بغداد میں دوسال تک رہے یعنی ۱۹۳ ھ سے ۲۰۳ ھ تک ۔ اس کے بعد مزید حصول علم کے لئے کوفہ روانہ ہوئے اور وہاں پر ۲۰۳ ھ سے ۲۰۷ تک مقیم رہے ۔اس عرصے میں آپ نے حسن بن محبوب اور احمد بن محمد ابو نصر بزنطی اور ایسے ہی صفوان بن یحییٰ کے دروس میں شرکت کی نیز نصر بن مزاحم المنقری کے درس میں بھی حاضر ہوئے ۔ اس کے بعد شہر واسط کی طرف گئے اور وہاں پر حماد بن عیسیٰ سے علم حاصل کیا اس کے بعد محمد بن جمہور العمیی اور ابو جعفر البصری سے بھی کسب فیض کیا۔
ابن شاذان ایک بڑے اور ممتاز فقیہ تھے، بلکہ ان کا شمار اپنے زمانے کے اولین فقہاء میں ہوتا ہے۔ اس کا ثبوت تو وہ مطالب ہیں جن کو انہوں نے اپنی کتاب "علل" میں لکھا ہے۔ یہ کتاب اہم عبادی ابحاث پر مشتمل ہے۔ نیز وہ ایک ثقہ راوی بھی تھے ،امامیہ احادیث کی کافی سارے اسانید میں ان کا نام ہے۔ چنانچہ نجاشی اور کشی کی روایات میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ اس مرد کی علمیت کے لئے تو وہی کلام کافی ہے جسے امام حسن عسکری علیہ السلام نے آپ کے متعلق فرمایا ہے:"اہل خراسان رشک کریں کہ ان کے درمیان فضل بن شاذان موجود ہے" علاوہ اس کے کہ آپ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ہے:" اللہ فضل پر رحم فرمائے ۔"
البتہ فضل ابن شاذان کے بارے میں فقہاء کی رائے تو احصاء سے باہر ہے۔ بطور نمونہ یہاں وہ کلام نقل کرتے ہیں جس کو شیخ نجاشی رضوان اللہ تعالی علیہ نے کہا ہے:" وہ ثقہ ہیں ، ہمارے فقہاء و متکلمین اصحاب میں سے ایک ہیں اور ان کو گروہ علماء و فقہاء میں ایک جلیل القدر مقام حاصل ہے۔ وہ اپنی قدر و منزلت میں محتاج توصیف نہیں۔ "
اسی طرح شیخ طوسی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:" فضل بن شاذان فقیہ، متکلم اور جلیل القدر ہیں۔ "ان کے بارے میں علامہ حلی کا یہ شاندار کلام ہے:" وہ ثقہ ، جلیل القدر ، فقیہ اور متکلم تھے ، فقہاء امامیہ میں وہ عظیم شان رکھتے ہیں"
تالیفات:
ابن شاذان کی متعدد تالیفات ہیں ۔ تاریخ نے ان میں سے درجہ ذیل کو محفوظ کیا ہے:
النقض على الإسكافي في تقوية الجسم، العروس؛
كتاب العين، الوعيد، الرد على أهل التعطيل، الاستطاعة، مسائل في العلم، الأعراض والجواهر، العلل، الأيمان، إثبات الرجعة، الفرائض الكبير، الفرائض الأوسط، الفرائض الصغير، مسائل البلدان، يوم وليلة (یہ کہ امام حسن عسکری علیہ السلام اس سفر میں مطلع ہوئے اور تحریر فرمایا۔) معرفة الهدى والضلالة، المعيار والموازنة، الملاحم، النجاح في عمل شهر رمضان.
وفات :
ابن شاذان رضوان اللہ تعالی علیہ کی وفات اپنے آبائی شہر نیشاپور میں ہوئی۔ وہ عراق سے خراسان کے والی عبداللہ بن طاہر کے دور میں شیعہ ہونے اور اہل بیت علیھم السلام کے ساتھ محبت رکھنے کے جرم میں نیشاپور بدر کیا گیا۔ نیشاپور پہنچ کر ۲۵۹ ھ۔ ق کو شدید بیمار ہوئے اور ۲۶۰ ھ ۔ق کے اوائل میں وفات پائے۔ نیشاپور میں ان کا ایک بڑا مزار ہے۔