17 جمادي الثاني 1447 هـ   8 دسمبر 2025 عيسوى 3:57 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  تہذیبی دوستی کا خطرہ: جب غیر مسلم اقدار مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن جائیں
2025-12-01   118

تہذیبی دوستی کا خطرہ: جب غیر مسلم اقدار مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن جائیں

الشيخ مصطفى الهجري

جب قرآنِ کریم کسی معاملے پر غیر معمولی شدت، تاکید اور سختی کے ساتھ تنبیہ فرماتا ہے تو یہ اس حقیقت کی علامت ہوتی ہے کہ اس کے اندر امتِ مسلمہ کے لیے نہایت سنگین خطرہ، ممکنہ تباہی اور ایک عظیم ابتلا پوشیدہ ہے۔ قرآنِ مجید نے متعدد مقامات پر جس خطرے کی طرف شدید ترین انداز میں متوجہ کیا ہے، ان میں سب سے نمایاں خطرہ موالاتِ کفار یعنی کفار کے ساتھ دوستی کا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ المائدہ میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ کہ  جو شخص تم میں سے انہیں دوست بنائے گا، وہ انہی میں سے شمار ہوگا۔ اس کے بعد مزید سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ یعنی جو ایسا کرے گا، اُس کا اللہ سے کوئی تعلق باقی نہیں رہتا، یہاں تعلق سے مراد وہ عملی اور باطنی نسبت ہے جو مومن کو ایمان کی بنیاد پر اللہ سے جوڑتی ہے۔ پھر مزید تاکید کی گئی: ﴿وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ کہ اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے، یعنی یہ کوئی معمولی لغزش نہیں بلکہ ایسی بڑی گمراہی ہے جو ایک فرد یا معاشرے کو اللہ کی رحمت، اس کی ہدایت اور اس کی نصرت سے محروم کر سکتی ہے۔ اس لیے موالات کا تصور اسلام میں نہایت حساس اور اہمیت کا حامل ہے۔

موالات کا ظاہری تصور عام طور پر سیاسی اتحاد تک محدود سمجھا جاتا ہے، لیکن قرآن جب اس موضوع پر بات کرتا ہے تو اس سے کہیں زیادہ وسیع دائرے کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اصل خطرہ یہ نہیں کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کے ساتھ سفارتی یا سیاسی روابط رکھے؛ اصل تباہی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مسلمان غیروں کے نظامِ فکر، طرزِ زندگی، ثقافتی اقدار، سماجی ڈھانچے، قانونی اصول، اخلاقی معیارات اور تمدنی ترجیحات کو بلا تنقید، بغیر شرعی معیار اور بغیر کسی فکری بصیرت کے اپناتے چلے جائیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے قرآن نے سورۃ ہود میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ یعنی ظالموں کی طرف ذرا سا بھی جھکاؤ نہ کرو، ورنہ آگ تمہیں چھو لے گی۔ یہاں رُکون (جھکاؤ) کا لفظ نہایت بلیغ ہے، کیونکہ یہ صرف عملی اتحاد نہیں بلکہ دل کی میلان، ذہنی قبولیت اور تہذیبی مائل ہونے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ عمل آگ کی طرف لے جاتا ہے، اور یہ آگ صرف آخرت کی نہیں بلکہ دنیاوی تباہی کی صورت میں قوموں کے اجتماعی نظام کو بھی جلا دیتی ہے۔

آج کا مسلمان معاشرہ عملاً اسی موالات کے شکنجے میں گرفتار دکھائی دیتا ہے ۔کہ قرآن نے جس خطرے سے خبردار کیا تھا، وہ حقیقت بن چکا ہے۔ ہم نے سود پر مبنی معاشی نظام درآمد کر لیا، جس کے نتیجے میں سود، دھوکہ دہی اور ذخیرہ اندوزی عام ہو گئیں اور یہ سب معاملات کا بنیادی حصہ بن گئے۔ ہم نے مغربی معاشرتی نمونے اختیار کیے، جس سے خاندان بکھر گئے، اقدار مٹ گئیں، اور گھر کی رشتے اتنے کمزور ہو گئے کہ معمولی آزمائش پر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم نے تعلیمی نصاب بھی دوسروں سے جوں کا توں نقل کر لیا، بغیر اس کے کہ اسے اپنی دینی اور اخلاقی اقدار سے ہم آہنگ کریں، چنانچہ ایسی نسلیں پیدا ہوئیں جو اپنے دین سے اجنبی ہیں جنہیں اسلام کا صرف نام معلوم ہے اور قرآن کا صرف رسم۔

اس کیفیت کو علامہ طباطبائی نے نہایت دقیق انداز میں بیان کیا ہے:( إذا انهدمت بنية هذه السيرة اختلّت مظاهرها الحافظة لمعناها من الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، وسقطت شعائرها العامة، وحلّت محلها سيرة الكفا) یعنی جس وقت اسلامی سیرت کی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے، وہ تمام مظاہر بھی بکھر جاتے ہیں جو اس کی روح کی حفاظت کرتے تھے، جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر؛ اس کے نتیجے میں شعائرِ اسلام محض رسمی باقیات بن جاتے ہیں، اور ان کی جگہ کفار کی سیرت و طرزِ زندگی غالب آجاتا ہے۔ آج یہی منظر ہمارے سامنے ہے: امر بالمعروف کو معاشرتی بے ادبی یا مداخلت سمجھا جاتا ہے، نہی عن المنکر پر تنقید ہوتی ہے، اور دین کے شعائر آہستہ آہستہ روح کھو کر رسومات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔

قرآنِ کریم اس صورتحال کو ردّہ تنزیلیہ یعنی عملی اور تدریجی ارتداد قرار دیتا ہے۔ یہ وہ ارتداد نہیں جو قانونی عدالتوں میں زیرِ بحث آتا ہے، بلکہ یہ وہ فکری اور تمدنی ارتداد ہے جس میں ایک معاشرہ ایمان کے دعوے کے باوجود ایسا راستہ اختیار کر لیتا ہے جو ایمان کے عملی تقاضوں سے دور لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ یعنی اگر وہ اللہ، نبی اور جو کچھ اس پر نازل ہوا اس پر سچا ایمان رکھتے تو انہیں دوست نہ بناتے، لیکن ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو معاشرہ اپنی اجتماعی زندگی کے اصول غیروں کے ہاتھ میں دے دے، اس کا تعلق اللہ سے حقیقی معنوں میں کمزور پڑ جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ حتمی اصول بیان کرتا ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ یعنی بے شک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہاں ظلم سے مراد صرف معاشرتی ناانصافی نہیں، بلکہ اصل ظلم یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت اور دین کی اصل کے خلاف کسی باطل نظام کی پیروی کرے۔

اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اسلام مسلمانوں کو تنہائی اختیار کرنے یا دنیا سے کٹ جانے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام تو وہ دین ہے جو علم اور حکمت کو جہاں کہیں بھی ہو، قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے۔لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ شریعت کے مطابق ہو۔ ٹیکنالوجی اور مفید علم ضرور حاصل کرو، لیکن خراب اور بگڑی ہوئی اقدار نہ اپناؤ۔ دوسروں کے کامیاب انتظامی تجربات سے فائدہ اٹھاؤ، لیکن ایسے نظام ہرگز نہ اختیار کرو جو اللہ کے قانون کے خلاف ہوں۔لوگوں سے حکمت اور دانائی کے ساتھ برتاؤ کرو، مگر اپنی اسلامی شناخت اور خصوصیت کو محفوظ رکھو۔

قرآن کا کفار سے دوستی اور پیروی کے بارے میں انتباہ کوئی معمولی دینی ممانعت نہ تھی، بلکہ یہ ایک پیش گوئی تھی اُس زوال کی جس میں مسلمان اُس وقت گریں گے جب وہ اس راستے پر چل پڑیں گے۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ تنبیہ حقیقت بن چکی ہے۔اس پوری صورتِ حال کا حل یہی ہے کہ امت مسلمہ ایک بار پھر فکری بصیرت، تہذیبی اعتماد، علمی گہرائی اور روحانی بیداری کے ساتھ اپنی اصل اسلامی تعلیمات کی طرف لوٹے۔ ایسی واپسی جو جذباتی نہیں بلکہ شعوری ہو، جو تنگ نظری پر نہیں بلکہ حکمت پر قائم ہو، جو ہر تہذیب سے وہی چیز لے جو شریعت سے ہم آہنگ ہو اور جو چیز اسلامی بنیادوں کے خلاف ہو اسے پوری مضبوطی کے ساتھ ردّ کر دے۔ یہی وہ راستہ ہے جو امت کو موجودہ تمدّنی بحران سے نکال سکتا ہے، اس کے ایمان کی روح کو تازہ کر سکتا ہے اور اس کی اجتماعی زندگی میں وہ استحکام واپس لا سکتا ہے جو کبھی اسلامی تہذیب کی شان تھا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018