22 ربيع الثاني 1447 هـ   15 اکتوبر 2025 عيسوى 5:35 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  جب مطالعہ مزید جہالت کا سبب بن جائے
2025-10-12   86

جب مطالعہ مزید جہالت کا سبب بن جائے

الشيخ مصطفى الهجري

مجھے شامی ادیب جناب ادونیس کے ایک جملے نے حیران کر دیا کہ جب انہوں نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ: مسلمان قاری ایک خاص قسم کا قاری ہوتا ہے۔ وہ تمہاری تحریر، اس لیے نہیں پڑھتا ، تاکہ وہ جانے کہ تمہارے دل میں کیا ہے، بلکہ وہ اس لیے پڑھتا ہے کہ دیکھے تم اس کے ساتھ ہو یا اس کے خلاف۔ تم اس کے خیالات کے حامی ہو یا مخالف۔ وہ دراصل خود کو اور اپنے عقائد کو پڑھتا ہے، نہ کہ غیرجانبداری کے ساتھ دوسرے کی نظریات کو پڑھتا ہے ۔"

ایسا مطالعہ جاہل کو اور زیادہ جاہل بنا دیتا ہے، اور عالم کے علم میں بھی اضافہ نہیں کرتا۔جاہل جب ایسی تحریریں پڑھتا ہے جو اس کی غلط رائے سے ہم آہنگ ہوں، تو وہ اپنے باطل کی بنیادیں مزید مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور یوں حق سے مزید دور ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک عالم بھی اگر صرف انہی کتابوں تک محدود رہے جو اس کے نظریے سے موافق ہوں، تو اس کا علم ایک ہی سطح پر رکا رہتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر وہ مخالفین کے دلائل کو جاننے کے لیے مطالعہ کرے، تو ان کے استدلالات اس کے ذہن میں نئے سوالات پیدا کرتے ہیں، جن کے جوابات ڈھونڈنے سے اس کے علم میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور نئی فکری راہیں کھلتی ہیں ۔

رسول خدا ﷺ سے مروی ہے:

(العلم خزائن ومفاتيحه السؤال فاسألوا رحمكم الله فإنه يُؤجر أربعة: السائل والمتكلم والمستمع والمحب لهم) (تحف العقول: ص 41)

"علم خزانے ہیں، اور سوال ان کی کنجیاں ہیں۔ پس سوال کرو، اللہ تم پر رحم کرے، کیونکہ اجر پانے والے چار ہیں: سوال کرنے والا، جواب دینے والا، سننے والا، اور ان سب سے محبت کرنے والا۔"

انتخابی مطالعہ- یعنی صرف ان چیزوں کو تلاش کرکے پڑھنا جو پہلے سے مانے ہوئے عقائد کی تصدیق کرے- ہمیں اپنی ہی فکری قید میں مقید کر دیتا ہے۔ ایسا مطالعہ ہمیں ایک ایسے ذہنی قفس میں قید کر دیتا ہے، جہاں نئے خیالات یا مختلف نقطۂ نظر کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ قرآن کریم نے اسی ذہنی جمود اور اندھی تقلید سے خبردار کیا ہے، فرمایا:

﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا (البقرة: 170)

"اور جب ان سے کہا جاتا ے کہ اُس (ہدایت) کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے، تو وہ کہتے ہیں: نہیں، ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا"

یہ آیتِ مبارکہ ہمیں تقلید کی زنجیروں سے آزاد ہونے اور ہر حال میں حق کی تلاش پر آمادہ کرتی ہے، چاہے وہ حق کسی بھی جانب ہو۔اسی حقیقت کی طرف امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے بھی رہنمائی فرمائی ہے:

(لا تَسْتَوْحِشُوا طَرِيقَ الْحَقِّ لِقِلَّةِ سَالِكِيهِ)

"حق کے راستے پر چلنے والوں کی کمی دیکھ کر وحشت نہ کھاؤ، ۔"

یعنی اگر حق کی راہ پر چلنے والے کم بھی ہوں، تو خوفزدہ نہ ہو، کیونکہ حق کبھی اکثریت یا مقبولیت سے نہیں پہچانا جاتا۔

اور فرمایا:(مَن نَصَبَ نَفْسَهُ لِلنَّاسِ إِمَاماً فَلْيَبْدَأْ بِتَعْلِيمِ نَفْسِهِ قَبْلَ تَعْلِيمِ غَيْرِهِ وَلْيَكُنْ تَأْدِيبُهُ بِسِيرَتِهِ قَبْلَ تَأْدِيبِهِ بِلِسَانِهِ) (نہج البلاغہ)

"جو شخص خود کو لوگوں کا پیشوا بنانا چاہے، اسے چاہیے کہ دوسروں کو سکھانے سے پہلے خود کو تعلیم دے، اور اپنی سیرت سے تربیت کرے قبل اس کے کہ اپنی زبان سے۔"

یہ کلمات اس بات کی یاد دہانی ہیں کہ حقیقی علم اُس وقت بڑھتا ہے جب مطالعہ غیر جانب دارانہ، تحقیقی اور کھلے ذہن کے ساتھ کیا جائے نہ کہ صرف اپنی رائے کی تصدیق کے لیے۔ تاہم کھلے ذہن کے ساتھ مطالعے کی دعوت کا یہ مطلب نہیں کہ مطالعہ بے لگام ہو جائے اور کسی قاعدے، شعور یا معیار کے بغیر ہر تحریر کو قبول کیا جائے۔باشعور کھلا ذہن رکھنے اور اندھی تقلید کرنے کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔آئمہ اھل بیت علیہم السلام نے بھی خبردار فرمایا ہے کہ گمراہ کن کتابوں کا مطالعہ اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک انسان حق کو پہچاننے کی صلاحیت اور عقیدے میں پختگی حاصل نہ کر لے۔

قرآن مجید میں یہ ارشاد ہوا:

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ (لقمان: 6)

"اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو فضول باتوں کو خریدتے ہیں تاکہ بغیر علم کے لوگوں کو اللہ کے راستے سے گمراہ کریں۔"

یہ آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ کچھ لوگ اپنے گمراہ کن نظریات کو پھیلانے کے ذریعے اللہ کے راستے سے بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر انسان کا نفس مضبوط علم اور پختہ ایمان سے مسلح نہ ہو، تو وہ آسانی سے شکوک و شبہات اور پر فریب دلائل کا شکار ہو سکتا ہے۔ جو قاری اپنے عقیدے کو گہرائی سے نہیں سمجھتا، اور اپنے دین کی بنیادوں اور فلسفے سے پوری طرح واقف نہیں، وہ جب مخالف فلسفوں اور فکری تحریکوں کو پڑھنے لگتا ہے، تو ممکن ہے کہ وہ مذاہب کے درمیان بھٹکنے لگے، اور آراء کے ہجوم میں گم ہو جائے۔

قرآن کریم نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا: ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ (آل عمران: 7)

"پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنے کی طلب میں قرآن کی متشابہ آیات کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔"

یعنی جو دل حق پر مستحکم نہ ہو، وہ متشابہات کے پیچھے چل پڑتا ہے اور صراطِ مستقیم سے بھٹک جاتا ہے۔ اسی لیے درست طریقۂ مطالعہ یہ ہے کہ انسان تدریج اور آگاہی کے ساتھ آگے بڑھے۔ سب سے پہلے بنیادی معلومات حاصل کرے، پھر اپنی فکری بنیادوں کو علم و یقین پر استوار کرے۔

امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

(وَالْيَقِينُ عَلَى أَرْبَعِ شُعَبٍ: عَلَى تَبْصِرَةِ الْفِطْنَةِ وَتَأَوُّلِ الْحِكْمَةِ وَمَوْعِظَةِ الْعِبْرَةِ وَسُنَّةِ الْأَوَّلِينَ. فَمَنْ تَبَصَّرَ فِي الْفِطْنَةِ تَبَيَّنَتْ لَهُ الْحِكْمَةُ وَمَنْ تَبَيَّنَتْ لَهُ الْحِكْمَةُ عَرَفَ الْعِبْرَةَ وَمَنْ عَرَفَ الْعِبْرَةَ فَكَأَنَّمَا كَانَ فِي الْأَوَّلِينَ) (نہج البلاغہ، حکمت 31)

یقین کے بھی چار شعبے ہیں: ہوشیاری کی بصیرت‘ حکمت کی حقیقت رسی‘ عبرت کی نصیحت اور سابق بزرگوں کی سنت۔ ہوشیاری میں بصیرت رکھنے والے پر حکمت روشن ہوجاتی ہے اور حکمت کی روشنی عبرت کو واضح کردیتی ہے اور عبرت کی معرفت گویا سابق اقوام سے ملا دیتی ہے۔

یقین کی راہ شعوری ادراک سے شروع ہوتی ہے، حکمت تک پہنچتی ہے، اور علم و معرفت کی پختگی پر منتہی ہوتی ہے۔ ہماری مراد خود کو بند کر لینا یا دوسروں کے علم سے منقطع ہونا نہیں، بلکہ دانشمندانہ انتخاب ہے کہ انسان کیا پڑھے اور کب پڑھے۔ اس سے پہلے کہ وہ مختلف فلسفوں اور نظریات میں غوطہ زن ہو، ضروری ہے کہ اپنے عقیدے اور فکری اساس کو گہرائی سے سمجھے، اور ایسے معرفتی و تنقیدی اوزار حاصل کرے جو اسے حق و باطل، صحیح و غلط کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل بنائیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

(إِنَّ هَذَا الْعِلْمَ عَلَيْهِ قُفْلٌ وَمِفْتَاحُهُ الْمَسْأَلَةُ) (الکافی، ج 1، ص 40)

"بیشک اس علم پر قفل (تالا) ہے، اور اس کی کنجی سوال ہے۔"

یعنی علم کے دروازے درست سوالات سے کھلتے ہیں، اور ہر قاری کے پاس یہ کنجیاں ابتدا ہی میں موجود نہیں ہوتیں۔ اسی لیے ضروری ہے کہ مطالعہ ہمیشہ ادراک، بصیرت اور ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے، نہ کہ محض تجسس یا تقلید کے تحت۔ باشعور اور بامقصد مطالعہ وہ ہے جو اکھلے ذہن اوراحتیاط دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ایسا مطالعہ جس میں جرأت بھی ہو اور حکمت بھی، جس میں دوسرے کو سمجھنے کا جذبہ ہو مگر ساتھ ہی اپنی شناخت اور عقیدہ بھی محفوظ رہے۔ یہ وہ قراءت ہے جو تعمیر کرتی ہے، تخریب نہیں کرتی، جو اضافہ کرتی ہے، کمی نہیں لاتی، جو راہ کو روشن کرتی ہے، اندھیرا نہیں بڑھاتی۔ جیسا کہ امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

(اعرف الحق تعرف أهله)

"حق کو پہچانو، تم اس کے اہل کو پہچان لو گے۔"

یعنی حق کی معرفت ہی وہ قطب نما ہے۔ جو قاری کو اس کے علمی و فکری سفر میں صحیح سمت عطا کرتی ہے، اور اسے گمراہی کی وادیوں میں بھٹکنے سے محفوظ رکھتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018