22 ربيع الثاني 1447 هـ   15 اکتوبر 2025 عيسوى 5:42 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  اسلام کا تصورآخر الزمان اور سیکولرازم کے چیلنجز
2025-10-11   41

اسلام کا تصورآخر الزمان اور سیکولرازم کے چیلنجز

الشيخ معتصم السيد أحمد

آخر الزمان کا تصور انسانی فکر کے لیے ہمیشہ سے بڑی دلچسپی کا باعث رہا ہے، کیونکہ یہ موضوع ہیبت، راز، اور انجام کی گتھیوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں انسان اپنے وجود اور انجام کے بارے میں گہرے سوالات کا سامنا کرتا ہے۔ اسلام کی نظر میں "آخر الزمان" انسانی تاریخ کا ایک طے شدہ اور مقصدی مرحلہ ہے، جس میں الہی قوانین اور خدا کے وعدے ظاہر ہوں گے، اور دنیا (ظلم وجور سے پر ہونے کے بعد) امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی قیادت میں عدل و حق کی بنیاد پر دوبارہ تعمیر ہوگی ۔ دوسری طرف، سیکولر یا غیر مذہبی فکر جو مادی فلسفوں پر مبنی ہے "آخر الزمان" کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتی ہے؛ ان کے نزدیک یہ محض ایک اتفاقی، بے معنی یا میکانکی عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں زاویوں کے درمیان فرق صرف تفصیلات میں نہیں، بلکہ بنیاد اور مقصد میں بھی مکمل طور پریہ مختلف ہیں۔

اسلامی نقطۂ نظر سے "آخر الزمان" کو کائنات کی موت یا تاریخ کے بے معنی انجام کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، بلکہ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں خدا کا وعدہ پورا ہوتا ہے اور تخلیق کی غایت ظاہر ہوتی ہے۔ قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ تاریخ الٰہی قوانین کے تحت چلتی ہے، اور اس کا انجام ماضی سے انقطاع نہیں بلکہ اس کا نقطۂ تکمیل ہے۔ یہ ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ حق اور باطل کے درمیان مسلسل کشمکش، جو بالآخر متقین (تقوی والوں) کی کامیابی پر منتج ہوگی۔ آخر الزمان دراصل وہ مقام ہے جہاں تمام انبیا علیہم السلام کی کی کاوشوں کے سرے آپس میں ملتے ہیں، اور وہ الٰہی وعدہ پورا ہوتا ہے کہ "زمین کے وارث صالح بندے ہوں گے"۔ یہی وعدہ امام مہدی (عج) کی ذات سے جڑا ہوا ہے، جو انبیا علیہم السلام کی جدوجہد کا فطری تسلسل ہیں۔ آپ عج کا ظہور اس دن کی علامت ہے جب ظلم و جور سے بھری دنیا میں عدل و انصاف غالب ہوگا۔

مومن اس وعدے کے منتظر رہتے ہیں، مگر یہ انتظار جمود یا بے عملی کا نام نہیں، بلکہ ایک فعال اور تعمیری منصوبہ ہے، جو انسان کو اصلاحِ معاشرہ اور عدل کی تیاری کا ذمہ دار بناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: "میری امت کے بہترین اعمال میں سے ایک، انتظارِ فرج ہے۔" یوں اسلام کے نزدیک آخر الزمان انسانیت کے لیے ایک نئے افق، عدل، وقار اور روحانی سربلندی کی نوید ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ دین صرف عبادات یا رسومات کا نام نہیں، بلکہ یہ ہمیں زندگی، تاریخ، اور انجامِ انسان کی جامع بصیرت فراہم کرتا ہے۔

 جبکہ سیکولر فکر میں منظرنامہ بالکل مختلف ہے، کیونکہ سیکولر انسان ماورائے فطرت یا غیبی حوالہ کو یکسر مسترد کر دیتا ہے، اور مستقبل کی تصویر کشی کے لیے قدرت، انسانی تاریخ اور جدید علوم پر انحصار کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر اس فکر کے اندر بھی مختلف رجحانات پیدا ہوتے ہیں، کچھ رجحانات پرامید ہیں جو ایک "سائنسی یُو ٹوپیا" (یعنی مثالی دنیا) کی بشارت دیتے ہیں، کچھ مایوس کن ہیں جو آنے والی تباہیوں سے خبردار کرتے ہیں، جبکہ ایک تیسرا وجودی یا عدمی رجحان ہے جو سمجھتا ہے کہ انجام کا کوئی ماورائی یا حتمی مفہوم نہیں، بلکہ سب کچھ فطرت کی حدود کے اندر ختم ہو جاتا ہے۔

پرامید رجحان اپنی تمام تر توقعات سائنسی ترقی سے وابستہ کرتا ہے۔ ان کے نزدیک مصنوعی ذہانت، جینیاتی انجینئرنگ، اور خلا میں انسانی بستیاں انسان کو ایک "مافوق الانسان" مخلوق میں بدل دیں گی، جو زیادہ لمبی عمر پائے گا، زیادہ آسائش میں زندگی گزارے گا، اور ممکن ہے ایک ایسی تہذیب قائم کرے جو بیماری اور بھوک سے پاک ہو۔ لیکن اس خواب کے ساتھ گہرے اور سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں: آخر ان ٹیکنالوجیز کا مالک کون ہوگا؟ اور ان کے ثمرات انسانوں کے درمیان کس طرح تقسیم کیے جائیں گے؟

اس کے برعکس، ایک دوسرا رجحان ہے جسے "تباہی پسند" یا "کارثی" رجحان کہا جا سکتا ہے۔ اس نقطۂ نظرکے حامل لوگوں کا خیال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی تباہی، ایٹمی اسلحے کا پھیلاؤ، اور وباؤں کی بڑھتی ہوئی خطرناک صورتیں، انسان اور اس کی تہذیب کے لیے حقیقی خطرات ہیں، جو یا تو انسانی تمدن کے زوال کا باعث بن سکتے ہیں یا پھر خود انسان کے فنا ہونے پر منتج ہو سکتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور رجحان "بحرانِ معنویت" پر زور دیتا ہے۔ اس کے مطابق دنیا کا خاتمہ کسی مقصد یا معنوی انجام کے بغیر محض ایک بے معنی اختتام (جیسے چراغ کا بجھ جانا) ہے۔ لہٰذا انسان کو اپنی زندگی کا مفہوم خود تراشنا چاہیے، جیسا کہ بعض وجودی فلسفیوں نے کہا ہے۔ مگر یہ حل فردی اور محدود ہے، جو کسی اجتماعی یا تہذیبی بیانیے کی بنیاد نہیں رکھ سکتا۔

ان رجحانات کے ساتھ ساتھ "تاریخ کے خاتمے" کا نظریہ بھی سامنے آیا، جس کے مطابق لبرل جمہوریت انسانی سیاسی و سماجی ارتقاء کی آخری منزل ہے، اور مستقبل محض اسی نظام کا تسلسل ہوگا۔ لیکن عالمی سطح پر ابھرنے والے شدید بحرانوں نے اس دعوے کو جلد ہی باطل ثابت کر دیا، اور واقعات نے دکھا دیا کہ تاریخ کبھی نہیں رُکتی، بلکہ ہمیشہ نئی جہتوں اور امکانات کے لیے راستے کھلے ہوتے ہیں ۔

تفصیلات کے لحاظ سے، سیکولر نظریات مختلف سائنسی اور فکری منظرناموں میں بٹے ہوئے ہیں جن میں: کائناتی منظرنامے جیسے "کونیاتی حرارتی موت"عظیم شگاف"یا "کونیاتی انہدام۔ اسی طرح ماحولیاتی منظرنامے جیسے "موسمیاتی تبدیلی"، "حیاتیاتی تنوع کا خاتمہ"، اور "مہلک وبائیں" نیز تکنیکی منظرنامے جیسے "ایٹمی جنگ"، "مصنوعی ذہانت کا قابو سے باہر ہو جانا"، یا "حیاتیاتی تباہی"۔ وغیرہ شامل ہیں۔

ان تمام نظریات کا سب سے گہرا بحران خود ان پیش کردہ منظرناموں میں نہیں، بلکہ اس "معنوی بحرانِ " میں پوشیدہ ہے جو یہ نظریات پیدا کرتے ہیں۔ جب کائنات کو محض ایک خالص مادی تصور تک محدود کر دیا جائے تو تاریخ اپنی جامع سمت کھو دیتی ہے، اور مستقبل کے لیے قربانی دینے کا سوال بے معنی بن جاتا ہے۔

اگر آخرکار سب کچھ فنا ہو جانا ہے تو پھر آنے والی نسلوں کے لیے قربانی دینے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟ یہی وہ مقام ہے جہاں سیکولر فکر دو انتہاؤں میں بٹ جاتی ہے: ایک طرف عدمی رجحان ہے جو انسان کو خلا اور یاس و ناامیدی میں دھکیل دیتا ہے؛ اور دوسری طرف وہ رجحان ہے جو "انسانی حقوق، کرامت اور آزادی" جیسی اقدار پر مشتمل ایک متبادل اخلاقی نظام تعمیر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر یہ نظام کمزور اور غیر مستحکم رہتا ہے، کیونکہ اس کے پاس کوئی ماورائی بنیاد نہیں جو اسے پائیداری اور دوام عطا کرے۔ معنوی بحران کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا گہرا بحران بھی سامنے آتا ہے۔اخلاقی بحران۔ جدید تکنیکی ترقی کی رفتار، جو جینیاتی انجینئرنگ یا انسان و مشین کے امتزاج کے ذریعے خود انسانی فطرت کو بدلنے کی طاقت رکھتی ہے، ایک اہم سوال اٹھاتی ہے: کیا ایسے نئے دور میں، جب انسان کی نوعی اور حیاتیاتی حقیقت ہی بدل جائے گی، روایتی اخلاقی اقدار باقی رہ سکیں گی؟ کیا "انسانی کرامت، عدل، اور ذمہ داری" جیسے تصورات اُس دنیا میں قابلِ عمل رہیں گے، جہاں انسان کی ساخت اور اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی حدود سے تجاوز کر چکی ہوگی؟ یہ تمام چیلنجز سیکولر فکر کو ایک مشکل مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں۔

ایک طرف وہ تاریخ اور اس کے معنوی مقصد کے بارے میں کوئی جامع بیانیہ پیش کرنے سے قاصر ہے، اور دوسری طرف کبھی ٹیکنالوجی کے بارے میں حد سے زیادہ خوش فہم ہو جاتا ہے، اور کبھی ممکنہ تباہیوں کے بارے میں حد درجہ مایوس۔ یوں وہ دو انتہاؤں کے درمیان معلق رہتا ہے، صنعتی نجات کے فریب اور حتمی فنا کے سایے کے درمیان۔اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے سیکولر فکر عملی حکمتِ عملیوں کا سہارا لیتی ہے، جیسے:

خطرات سے نمٹنے کے لیے “احتیاط” اور لچک” کے اصول اپنانا،

بین الاقوامی نظم و نسق کو مضبوط بنانا،

سائنسی تحقیق کے لیے سخت اخلاقی ضوابط مقرر کرنا،

اور معنویت کی متبادل کہانیاں تشکیل دینا جو انسانی یکجہتی اور عالمی شہریت پر مبنی ہوں۔

تاہم یہ تمام حل اصل بحران کو ختم کرنے کے بجائے صرف وقتی مرہم کا کام کرتے ہیں، کیونکہ یہ غیب کے خلا کو عارضی تدابیر سے پُر کرنے کی کوشش ہیں۔ یوں انسان کو نہ اطمینان ملتا ہے، نہ تاریخ کو کوئی واضح اور حتمی مقصد۔ جب اسلام اور سیکولر فکر کے "آخر الزمان" کے تصورات کا تقابل کیا جائے تو واضح فرق سامنے آتا ہے: اسلام ایک یقینی اور غیبی انجام پیش کرتا ہے جو خدا کی مشیت اور تخلیق کی حکمت سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں تاریخی قوانین اپنی تکمیل کو پہنچتے ہیں، عدلِ کامل قائم ہوتا ہے، اعلیٰ اقدار دوبارہ زندہ ہوتی ہیں،

اور آخرکار یومِ حساب آتا ہے جو انسانی اعمال کو ان کا حقیقی مفہوم عطا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، سیکولر فکر میں مختلف طرح کی "نہائتیں" پیش کی جاتی ہیں: کچھ خیالی و مثالی (یُوٹوپیائی)، کچھ تباہ کن و تاریک، کچھ عدمی (بے معنی)، اور کچھ ایسی جو یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ تاریخ پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ ان سب میں ایک قدر مشترک ہے، ماورائی مقصد کا فقدان۔نتیجتاً انسان یا تو تدریجی اصلاح کے خواب میں کھو جاتا ہے، یا مکمل تباہی کے خوف میں، یا محض ایک بے مقصد انتظار میں۔

یوں "آخر الزمان" کا مطالعہ، اسلام اور سیکولر ازم دونوں کے تناظر میں، محض مستقبل کی پیشین گوئی نہیں بلکہ خود انسانی وجود کے مفہوم کا سوال بن جاتا ہے کہ کیا ہمارا سہارا ایک غیبی مرجع ہے جو ہمیں عدل و کرامت کے وعدے کی طرف لے جاتا ہے؟ یا ہم ایک مادی مرجع کو مان کر خود کو فنا اور انتشار کے امکانات کے حوالے کر دیتے ہیں؟یہی ان دو انداز فکر میں بنیادی فرق ہے۔ اسلام انسان کو امید اور عدل کی سمت ایک واضح قطب نما عطا کرتا ہے، جبکہ سیکولر فکر اسے متضاد اور بے ربط تصورات کے بھنور میں چھوڑ دیتی ہے۔

یوں "آخر الزمان" کا سوال دراصل یہ بن جاتا ہے: ہم کس طرح کے انسان بننا چاہتے ہیں؟ اور کن اقدار کے لیے جینا اور مرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہم خدا کے سچے وعدے کے سائے میں جینے کو ترجیح دیں گے جہاں زندگی کو معنی اور موت کو پیغام ملتا ہے یا اندھی تقدیروں کے انتظار میں رہیں گے جو ہمیں صرف بے معنویت اور فنا کا تحفہ دیتی ہیں؟

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018