10 ربيع الثاني 1447 هـ   2 اکتوبر 2025 عيسوى 12:12 am کربلا
موجودہ پروگرام
آج کے دن ،یعنی 10ربیع الثانی، سنہ 201 ہجری کو معصومہ قم حضرت فاطمہ بنت امام موسی کاظم(ع) کی وفات ہوئی۔
مین مینو

 | مقالات  |  ضمیر کی آواز: حق کی پکار اور خواہشِ نفس کی سرگوشی
2025-09-28   51

ضمیر کی آواز: حق کی پکار اور خواہشِ نفس کی سرگوشی

الشيخ معتصم السيد أحمد

جدید زندگی کے ہنگاموں اور پیچیدگیوں میں انسان اکثر اپنے فیصلوں کے معاملے میں حیران و پریشان کھڑا رہتا ہے۔ کبھی وہ اپنی ذاتی حق کو ہی حق سمجھتا ہے، اور کبھی یہ احتمال ہوتا ہے کہ دراصل دوسروں کا بھی کوئی حق ہے۔ خیالات کبھی انصاف اور دوسروں کے حق کے اعتراف کی طرف جھکتے ہیں، اور کبھی نفس کی خواہشات کے زیرِ اثر ذاتی مفاد کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ان خاموش لمحوں میں، جب اندرونی کشمکش شدت اختیار کرلیتی ہے تو "ضمیر" کی موجودگی نمایاں ہو جاتی ہے۔ ضمیر یعنی وہ پوشیدہ آواز جو انسان کے وجدان میں گہری ہلچل پیدا کرتی ہے ، خطا پر اس کی ملامت کرتی ہے، ظلم کے وقت اسے عدل کی طرف واپس بلاتی ہے، اور جب وہ خود غرضی کے فریب میں ڈوبنے لگتا ہے تو اسے بیدار کرتی ہے۔

ضمیر دراصل وہ باطنی عدالت ہے جو انسان کی فطرت میں پیوست ہے، جو اس کے اعمال کی نگرانی اس کے اندر سے کرتی ہے اور اس کے دل و دماغ کو حق کی طرف متوجہ کرتی ہے، چاہے ساری دنیا خاموش ہی کیوں نہ ہو۔ یہ وہ اخلاقی احساس ہے جو وجدان کی گہرائیوں سے ابھرتا ہے، اور انسان کو اپنے اعمال کا خود جائزہ لینے کی صلاحیت بخشتا ہے؛ جب وہ درست رویہ اپناتا ہے تو اسے سکون اور اطمینان عطا کرتا ہے، اور جب وہ غلطی کرتا ہے تو اسے ملامت اور پشیمانی سے دوچار کرتا ہے ۔ یہ آوازانسان کے باہر سے نہیں بلکہ اندر سے اُٹھتی ہے۔یہ آوز سماجی قیود سے کہیں زیادہ گہری اور قانون کے خوف سے کہیں زیادہبلند ہے، کیونکہ اس کی بنیاد انسان کے اپنے شرف اور انسانیت کے احساس پر ہے۔ اسی لیے نفس کی  بیداری اور زندہ ضمیر کی موجودگی روحانی اور اخلاقی پختگی کی علامت ہے، جبکہ اس کی غیر موجودگی یا اس کی مکمل خاموشی انسان کے اندرشمع احساس کے بجھ جانے اور شعور کے مر جانے کی علامت ہے، اور یہ  بالآخر انسان کو محض خود غرضی کی طرف کھینچ کرلے جاتا ہے۔

جب انسان ضمیر کی پکار کو نظر انداز کرنا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ یہ باطنی عدالت خاموش ہونے لگتی ہے، یہاں تک کہ وہ حق اور باطل میں تمیز کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ اور جب یہ انحراف مسلسل بڑھتا ہے تو پھر نفس ہی مرکز بن جاتا ہے اور سب کچھ اسی کے گرد گھومنے لگتا ہے، حتیٰ کہ ذاتی مفاد ہی چیزوں کو پرکھنے کا واحد معیار رہ جاتا ہے۔

اسی خطرناک راستے سے قرآن نے خبردار کیا ہے، جیسا کہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَىٰ بَصَرِهِ غِشَاوَةً﴾

"کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟ اور اللہ نے اسے علم رکھتے ہوئے گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی، اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا۔"

پس جب انسان اپنے اندر کے ضمیر کی آواز کو دبا دیتا ہے اور ہر چیز کو اپنی خواہش کے تابع کر لیتا ہے تو اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی جاتی ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے، پھر وہ صرف اپنی ذاتی منفعت کے تناظر میں ہی چیزوں کو دیکھ پاتا ہے۔ یہاں ضمیر کا کردار خواہشِ نفس کے مقابلے میں مزاحمتی قوت کے طور پر سامنے آتا ہے، کیونکہ وہ اپنی فطرت کے مطابق ذاتی مفاد سے مقابلہ کرتا ہے اور انسان کو اعلیٰ اقدار کی یاد دلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مواقع پر انسان کے اندر تردد اور کشمکش جنم لیتی ہے۔ قرآن نے اسی کیفیت کو "نفسِ لوّامہ" کہا ہے:

﴿لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ ۝ وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ﴾

"میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، اور میں ملامت کرنے والی نفس کی قسم کھاتا ہوں۔"

انسانی نفس دو متضاد رجحانات لیے ہوئے ہے:

نفسِ اَمّارہ بالسوء: جو اسے خود غرضی اور انحراف کی طرف دھکیلتی ہے۔ نفسِ لوّامہ: جو اسے ٹوکتی ہے، ملامت کرتی ہے اور اعتدال و سیدھی راہ کی طرف بلاتی ہے۔ یہ داخلی کشمکش، جو ایک طرف خواہشِ نفس کا تقاضا ہے اور دوسری طرف ضمیر کی ہدایت، انسان کی فطرت میں کوئی نقص یا اس کے وجود میں کمزوری کی وجہ سے نہیں، بلکہ یہ بیدار اور باشعور انسان کی اخلاقی ساخت کا بنیادی حصہ ہے۔ اس جدوجہد کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ انسان محض اپنی جبلّت کے حوالے نہیں کر دیا گیا، بلکہ اس کے اندر ایک نگران آواز موجود ہے جو اس کے اعمال کا محاسبہ کرتی ہے اور اس کے فیصلوں کو تولتی ہے۔ یہی کشمکش انسانیت کی اصل ہے، جو اسے امتیاز اور اخلاقی ذمہ داری کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔

قرآنِ کریم نے اس کیفیت کو نہایت باریکی سے یوں بیان کیا ہے:

﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي﴾

میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں ٹھہراتا، بے شک نفس تو برائی پر اُبھارتا ہے، مگر جس پر میرا رب رحم کرے۔"

یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ انسان کی فطرت میں بُرائی کی طرف مائل ہونے کا رجحان موجود ہے، لیکن ساتھ ہی یہ امکان بھی ہے کہ انسان اپنے نفس کو قابو میں لا کر کمال کی طرف بڑھ سکے۔ یہ ترقی اللہ کی رحمت، ہدایت کے نور، مضبوط ارادے اور بیدار شعور کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ دراصل خیر و شر کے درمیان یہی باطنی جدوجہد اصل امتحان کا میدان ہے، اور اسی کے ذریعے اعمال کو حقیقی اخلاقی قدر ملتی ہے۔ اگر یہ کشمکش نہ ہو تو نیکی اور بدی کے انتخاب میں کوئی وزن باقی نہ رہتا۔ اگرچہ نفس انسانی اپنی ساخت کے اعتبار سے شہوات اور ذاتی مفادات کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے، مگر انسان کو اس جدوجہد میں تنہا نہیں چھوڑا گیا۔ اسے ایسے وسائل عطا کیے گئے ہیں جو اس کے لیے سہارا اور رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ ان میں سب سے بڑی مدد اللہ کے حضور کا احساس اور اس کا خوف ہے۔ یہ خوف محض وقتی جذبہ نہیں بلکہ اللہ کی دائمی نگرانی کا عمیق شعور ہے، جو انسان کو ہر لمحہ اس کےحاضر ہونے اور انسان کے اعمال کو دیکھنے کا احساس عطا کرتا ہے۔ یہی کیفیت انسان کو ایسی بصیرت دیتی ہے جو خواہشات کے اندھے بہاؤ کو روکتی ہے اور اسے روحانی طاقت فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ اُن فتنوں اور لذتوں کے مقابل ڈٹ سکے جو نفس کو لبھاتی ہیں۔

قرآن نے اس باریک توازن کو نہایت جامع انداز میں بیان کیا ہے— ایک طرف نفس کی شہوت کی طرف مائل فطرت، اور دوسری طرف انسان کی صلاحیت کہ وہ اسے قابو میں رکھ سکے۔ ارشاد پروردگار ہوتا ہے:

﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى ۝ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى﴾

اور جس نے اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے کا خوف کیا اور اپنی جان کو خواہش سے روکا، تو بے شک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔"

یہ آیت ہر اس انسان کے لیے امید کی کھڑکی کھولتی ہے جو اندرونی کشمکش میں مبتلا ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ نجات خواہشات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں نہیں— کیونکہ یہ ممکن نہیں— بلکہ انہیں مہذب بنانے، قابو میں رکھنے اور اللہ کے خوف اور ایمان کی قوت سے ان کی سمت درست کرنے میں ہے۔ اسی طرح انسان کی اصل جدوجہد اپنی ذات کے خلاف جہاد ہے۔ یہ جہاد نفس کو کچلنے کا نام نہیں، بلکہ اسے اس قابل بنانا ہے کہ وہ ضمیر کے اصولوں کے تابع ہو، اقدار کی سمت میں چلنے والی بنے، اور وقتی لذت یا خود غرض مفاد کے پیچھے اندھا دھند نہ بھاگے۔

ضمیر کی آواز اور شیطان کی وسوسہ میں فرق کیسے کیا جائے؟

یہ سوال اکثر ذہنوں میں ابھرتا ہے، خاص طور پر ان معاملات میں جو دوسروں کے حقوق سے متعلق ہوں۔ انسان سوچتا ہے۔ کیا میں جو فیصلہ کر رہا ہوں وہ ضمیر کی آواز ہے؟  یا میں خود کو دھوکہ دے رہا ہوں اور یہ دراصل شیطانی وسوسہ ہے جو باطل کو خوشنما بنا کر پیش کر رہا ہے؟

ان دونوں میں تمییز کے لیے چند بنیادی اصول ہیں:

ضمیر کی آواز: اکثر اوقات یہ نفس کی خواہش کے خلاف ہوتی ہے۔ یہ انسان کو اپنی انا چھوڑنے، اپنی ذاتی دلچسپی میں کمی لانے اور انصاف و حق کے لیے قربانی دینے کی دعوت دیتی ہے۔ شیطانی وسوسہ۔ یہی ضمیرکے بالکل برعکس ہے۔ یہ خواہشِ نفس کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے، اسے "حق" یا "مصلحت" کا نام دیتا ہے، مگر دراصل یہ محض خود غرضی کے جواز کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور یہی بات اہلِ بیتؑ کی روایات نے نہایت وضاحت سے بیان کی ہے۔ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: (احذروا أهواءكم كما تحذرون أعداءكم، فليس شيء أعدى للرجال من اتباع أهوائهم)

"اپنی خواہشات سے اسی طرح بچو جس طرح اپنے دشمنوں سے بچتے ہو، کیونکہ انسان کے لیے خواہشِ نفس کی پیروی سے بڑھ کر کوئی دشمن نہیں"۔ امیرالمؤمنین علیؑ نے فرمایا: (مخالفة الهوى شفاء العقل) "خواہش کے خلاف چلنا عقل کی شفا ہے"،  اور ایک مقام پر فرمایا: (من خالف هواه أطاع العلم)  "جو اپنے نفس کی خواہش کے خلاف چلا اس نے علم کی اطاعت کی"۔ اسی طرح آپؑ نے فرمایا: (حفظ العقل بمخالفة الهوى والعزوف عن الدنيا) "عقل کی حفاظت خواہش کے خلاف چلنے اور دنیا سے بے رغبتی میں ہے"۔ اور فرمایا: (رأس الدين مخالفة الهوى) "دین کی بنیاد خواہشِ نفس کی مخالفت ہے"۔

انسان اپنے خیالات کو پرکھنے کے لیے چند عملی اقدامات اختیار کر سکتا ہے، تاکہ یہ بات صرف نظریاتی حد تک نہ رہے،  ان اقدامات میں سب سے اہم ہے نقدِ ذات اور اپنی سوچ کو نفسانی اثرات سے الگ کرنا۔مثلاً اگر کوئی معاملہ حقوق سے متعلق ہو اور انسان کبھی اپنے آپ کو حق پر سمجھے اور کبھی دوسرے کو، تو اسے اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے:کیا میرا یہ یقین کہ حق میرے ساتھ ہے، حقیقی دلائل اور شواہد پر مبنی ہے؟ اگر یہ دلائل کسی غیر جانب دار شخص کے سامنے رکھے جائیں تو کیا وہ بھی یہی سمجھے گا کہ میں حق پر ہوں؟ کیا میں حقیقت جاننے کے لیے تیار ہوں، چاہے وہ میرے خلاف ہی کیوں نہ ہو؟

اسی طرح کے سوالات انسان کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے نظریے کو نفسیاتی محرکات سے الگ کر کے دیکھے اور خالص اخلاقی بنیاد پر فیصلہ کرے۔ یہی وہ کیفیت ہے جسے قرآن نے بیان کیا: (بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ۝ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ ") بلکہ انسان خود اپنے آپ پر گواہ ہے، چاہے وہ کتنے ہی عذر پیش کرے۔

انسان کے اندر زندہ ضمیر کا ہونا ہی ہر فضیلت کی جڑ ہے۔ یہی ضمیر دین کو محض بیرونی رسومات سے بلند کر کے ایک حقیقی باطنی تجربہ بناتا ہے۔ وہ دین جو ضمیر کو بیدار نہ کرے اور نفس کو حق کی طرف حرکت نہ دے، محض سرد روایت بن جاتا ہے، جو نہ ایک باوقار انسان پیدا کرتا ہے اور نہ ہی ایک عادل معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔

چنانچہ ضمیر کی آواز دراصل ایمان کی پکار کا تسلسل ہے، جسے بعض تعبیرات میں "نداءِ رحمن" کہا گیا ہے، جو "نداءِ شیطان" کے مقابل ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ دل کے دو کان ہوتے ہیں: ایک کان جس میں وسواسِ خناس پھونکتا ہے، اور دوسری کان جس میں فرشتہ الہام کرتا ہے۔ امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:( ما من مؤمن إلا ولقلبه اذنان في جوفه: اذن ينفث فيها الوسواس الخناس، واذن ينفث فيها الملك، فيؤيد الله المؤمن بالملك، فذلك قوله: (وأيدهم بروح منه)

کوئی مؤمن ایسا نہیں جس کے دل میں دو کان نہ ہوں: ایک کان میں وسواسِ خناس پھونکتا ہے اور دوسرے میں فرشتہ الہام کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مؤمن کو فرشتے کے ذریعے تقویت عطا کرتا ہے۔ یہی معنی ہیں اس آیت کے: ﴿وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ﴾"۔ ان دونوں کے درمیان امتیاز اسی وقت ممکن ہے جب انسان اپنے خیالات کو نفسانی اثرات سے الگ کر کے دیکھے، اور انہیں عقل، اخلاص اور پاک نیت کے ترازو میں پرکھے۔

خاتمہ

ایک ایسے دور میں، جو خواہشات، جواز تراشیوں اور خود غرضیوں سے بھرا ہوا ہے، ضمیر انسان کی وہ آخری اخلاقی قلعہ ہے جو اس کے باطن کو پاکیزہ رکھتا ہے اور اسے محض ذاتی مفاد کی گہرائیوں میں گرنے سے بچاتا ہے۔ جتنا زیادہ انسان اس آواز کو سچے دل سے سنے گا اور اس کی پرورش کرے گا، اتنا ہی وہ ایمان کے جوہر کے قریب ہوتا جائے گا۔ اور جتنا زیادہ وہ اس آواز کو نظرانداز کرے گا اور اس کی پکار کو دبائے گا، اتنا ہی وہ غفلت کے قریب ہو گا، جو دل، کان اور آنکھوں کو بند کر دیتی ہے

لہٰذاہمیں ضمیر کو ہمیشہ اپنی راہنمائی کا قطب نما بنائے رکھنا چاہیے سب سے زیادہ پرپیچ اور مشکل لمحات میں بھی۔ کیونکہ ضمیر کبھی جھوٹ نہیں بولتا، وہ صرف اس لمحے کا منتظر رہتا ہے جب ہم اسے اخلاص کے ساتھ سننے پر آمادہ ہوں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018