22 ربيع الاول 1447 هـ   15 ستمبر 2025 عيسوى 10:06 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  کیا سائنس کو اخلاقیات سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ ترقی کے پوشیدہ پہلوؤں پر ایک فکری جائزہ
2025-09-02   85

کیا سائنس کو اخلاقیات سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ ترقی کے پوشیدہ پہلوؤں پر ایک فکری جائزہ

الشيخ مقداد الربيعي

جدید علوم ایک طرف تو بلاشبہ انسانی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو ترقی کی منازل تک پہنچانے میں حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن دوسری طرف اس ترقی کا ایک تاریک پہلو بھی ہے جسے عموماً سائنسی فکر کے پرجوش حامی یا سائنس کو حد سے زیادہ تقدیس دینے والے گروہ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ایسے میں اگر ہم اسی منطق کو اپنائیں کہ جسے یہ لوگ استعمال کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی ترقی نے انسانیت کو صرف فوائد ہی نہیں دیے بلکہ اس کے لئے بڑے بڑے نقصانات اور بے مثال خطرات بھی پیدا کیے ہیں، جنہوں نے موجودہ دور کے انسان کے وجود کو بےسکون، آپنے آپ سے بیگانگی اور قدرتی ماحول سے دوری کے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ تنقیدی نقطۂ نظر سائنس کی نفی یا اس کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے نہیں، بلکہ یہ اس بات کی دعوت ہے کہ ہم اس فکر کو شعور اور توازن کے ساتھ اپنائیں، ایسی اقدار اور اخلاقی بنیادوں کے تحت جو اس کی سمت متعین کریں اور اس کے استعمال کو انسانیت کی بھلائی اور خوشی کے لیے کارآمد بنائیں۔

سائنسی ترقی کے منفی اثرات کے بارے میں شکوک اور خدشات کافی عرصہ پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے تھے۔جبکہ انیسویں صدی سے ہی کچھ مفکرین نے اس بات کی طرف توجہ دلانی شروع کردی تھی کہ اگر سائنسی پیش رفت کو اخلاقی قدروں کے دائرے میں نہ رکھا گیا تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ پھر بیسویں صدی کے آغاز میں بھی بہت سے مبصرین کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ایسے تغیرات انسان کی بنیادی قدروں کو تہہ و بالاکر دینے والے منحوس اشارے ثابت ہوسکتے ہیں۔(آلام العقل الغربي، ریچرڈ تاباس، ص 432)

دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس کے ان بڑے ناقدین میں سے ایک خود آئن اسٹائن تھے، جو انسانی تاریخ کے عظیم ترین سائنس دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے سائنس کے بارے میں کہا تھا "اب تک سائنس کا استعمال صرف غلام بنانے کے لیے ہوا ہے،اور اب جنگ کے زمانے میں یہ ہمیں زہر دینے اور مسخ کرنے کے لیے کام آتی ہے، اور امن کے زمانے میں ہماری زندگی کو تھکا دینے اور کچلنے کا ذریعہ بنتی ہے۔"(دفاع عن العلم، باييه، ص 36)

بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے، خصوصاً دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم استعمال کیا گیا، تو انسانیت کے نجات دہندہ کے طور پر سائنس کی مثالی تصویر دھندلی پڑنے لگی۔

کتاب "انتحار الغرب "کے مصنفین لکھتے ہیں:ایک وقت تھا جب یہ عقیدہ عام تھا کہ سائنس دنیا کو بےپناہ فوائد دے گی، اور اسے ان توقعات پر پورا اترنے کے قابل سمجھا جاتا تھا لیکن اس سے پہلے ہی سائنس کے بارے میں عمومی رائے میں ایک مضبوط مخالف رجحان جنم لینے لگا تھا، جو پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے درمیانی برسوں میں ابھرا اس رجحان کا خلاصہ یہ تھا کہ سائنس انسان سے اس کی انسانیت چھین لیتی ہے، اور یہ مستبد حکمرانوں کے ہاتھ میں نہایت آسان ہتھیار بن گئی ہے، جبکہ مراعات یافتہ طبقے کے لیے سہولت کار۔

ہیروشیما کے مظالم نے سائنس پر ہونے والے شکوک کو کئی گنا بڑھا دیا اور انہیں مزید گہرا کر دیا۔ یہاں تک کہ خود نمایاں سائنس دانوں نے بھی اپنے شکوک کا اظہار کیا۔ چنانچہ آئن اسٹائن نے ہیروشیما کے بعد کہا کہ "اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ  اس کا یہ استعمال  کرینگے، تومیں موچی بننا پسند کرتا"۔(انتحار الغرب، ص: 140-139)

سائنسی ترقی کے نمایاں منفی اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے انسانی قدروں کو متزلزل کر دیا اور زندگی کو اس کی ان گنت رعنایئوں سے خالی کر دیا۔ حتی کہ بے پناہ تکنیکی پیش رفت نے انسان کو ایک باوقار جیتے جاگتے وجود کی بجائے محض ایسا پرزہ بنا کر رکھ دیا جو ایک عظیم پیداواری مشین کا حصہ ہے۔اس طرح اس نے انسان کو اس کی فطری اساس اور ثقافتی ورثے تک سے جدا کر دیا ۔

ریچرڈ ٹارناس نے اس سائنسی ترقی کے تاریک پہلو کو نہایت باریک بینی سے بیان کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جدید دور کا انسان کس طرح ایک پیچیدہ مگر مصنوعی ماحول میں جینے پر مجبور ہے،ایسا ماحول جو نہ حسن رکھتا ہے نہ جذبات کی گرمایئش، گویا اس کی زندگی مسلسل ان تکنیکی مسائل کے حل میں الجھ کر رہ گئی ہے، جنہیں محض مشینی انداز میں نمٹایا جاتا ہے، اور یوں احساسات اور روحانی تقاضے پس منظر میں چلے گئے ہیں۔

انسان کی انفرادیت اور خودی، بڑے پیمانے پر پیداوار اور صارفیت پر مبنی ذرائع ابلاغ کے بوجھ تلے دب کر رہ ہوگئی ہے۔ روایتی اقدار کا ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ انسانی زندگی تیز رفتار تبدیلی کے ایسے بہاؤ میں داخل ہو چکی ہے جس کے ساتھ چلنا اور اسے جذب کرنا انسان کے لیے تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ ان سب عوامل نے انسان کو اجنبیت اور بےحسی کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے، یہاں تک کہ اب سوال اٹھنے لگا ہے کہ آیا انسان اس پیچیدہ تکنیکی ماحول میں اپنی انسانیت کو محفوظ رکھ بھی سکتا ہے یا نہیں۔(آلام العقل الغربي، ص 432)

سائنسی ترقی کے منفی اثرات نے قدرتی ماحول اور اس کے تمام عناصر کو بھی اب اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ساٹھ کی دہائی سے ہی یہ شواہد جمع ہونا شروع ہوگئے تھے کہ سائنس کی فتوحات دراصل زمین کے پانی، ہوا اور مٹی کو زہر آلود کرنے لگی تھیں۔ (انتحار الغرب، ص 139-140)

جدید ٹیکنالوجی کے صنعتی استعمال نے فضا، پانی اور زمین کو آلودہ کر دیا، نئی اور ناقابلِ علاج بیماریوں کو جنم دیا اور بے شمار جاندار انواع کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ وسیع جنگلات کا صفایا کیا گیا، زمین کی زرخیزی کو نقصان پہنچا، زیرِ زمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہوئے اور زہریلے فضلات کا ڈھیر لگ گیا۔ ان سب عوامل نے زمین کے قدرتی توازن کو خطرناک حد تک بگاڑ کر رکھ دیا۔

یہ تباہ کن نتائج اس تلخ حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ بے لگام سائنسی ترقی نے انسان کو ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار کر دیا ہے، جہاں زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے خود جانداروں کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ سائنسی پیش رفت کے سب سے خطرناک نتائج میں سے ایک ایسے ہتھیاروں کی تیاری ہے جو پوری انسانیت کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ جدید سائنس نے ایٹمی، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کو اتنی تباہ کن طاقت بخشی ہے کہ وہ صرف ایک لمحے میں انسانی تہذیب اور اس کی تاریخ کو نیست و نابود کر سکتے ہیں۔

سائنسی ترقی کا یہ تباہ کن پہلو اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ جب علم و سائنس کو اخلاق اور اعلی انسانی اقدار سے جداکر دیا جائے تو وہ کس قدر خطرناک بن سکتا ہے۔ یہی صورتِ حال اس بات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہے کہ تحقیق اور سائنسی پیشرفت کی بنادیں ایسے اخلاقی و اقداری ضوابط کے تحت ہوں جو ان کی سمت درست رکھیں، نہ کہ ان شدت پسندوں کے دعووں کے مطابق جو علم کو مذہب اور اقدار سے بالکل الگ تھلگ کرنے پر زور دیتے ہیں۔

ڈاکٹر رچرڈ ٹارناس نے سائنس کی موجودہ صورتِ حال اور اس کے بحران کو بیان کرتے ہوئے کہا ہے:سائنس کی عظیم فتوحات اور اس کی مسلسل پیش رفت پر اب ایک نیا احساس حاوی ہوچلا ہے۔اور وہ احساس یہ ہے کہ اس کی حدود متعین ہو، اس کے خطرات کا ادراک ہو تاکہ اس عمل کو جوابدہی کے حصار میں لایا جاسکےگویا اب جدید سائنسی فکر بیک وقت کئی محاذوں سے حملوں کی زد میں آچکی ہے: ایک طرف علمی و فکری تنقیدیں، دوسری طرف اندرونی نظری مسائل جو بڑھتے ہوئے شعبوں میں سر اٹھا رہے ہیں، تیسری جانب یہ بڑھتی ہوئی نفسیاتی ضرورت کہ انسان کی جدید دنیا کی بگڑی ہوئی تصویر کو کسی طرح سنوارا جائے، اور ان سب سےبالا اس کے منفی نتائج اور زمین کے بحران میں اس کی اساسی شرکت داری۔ (آلام العقل الغربي، ص 434)

وہ (ریچرڈ ٹارناس) اپنے بیان کو سائنسی بحران پر ان الفاظ کے ساتھ ختم کرتے ہیں:دنیا کو سائنسی ترقی اور سماجی انجینئرنگ کے ذریعے موجودہ بحران سے نکالنے کے امکانات پر جو امید اور یقین تھا، وہ ایک بار پھر ناکام ثابت ہوا ہے۔ آج مغرب ایک ایسے کفر کے دہانے پر کھڑا ہے جو اس بار مذہب سے نہیں بلکہ خود سائنس اور انسانی فکر سے ہے۔ (المرجع السابق، ص 435)

اسی سلسلے میں ریمونڈ فوسدِک سائنس کو درپیش اخلاقی مخمصے کو یوں بیان کرتے ہیں: "سائنس ایک سخت الجھن کا شکار ہے۔ سائنس دراصل حقیقت کی تلاش ہے، اور اس کی بنیاد اس پختہ عقیدے پر ہے کہ حقیقت قابلِ دریافت ہے۔ اس کی جستجو روحِ انسانی کی عظیم ترین صفات میں سے کسی ایک سے جنم لیتی ہے۔ لیکن یہی جستجو آج ہماری تہذیب کو تباہی کے کنارے تک لے آئی ہے۔ ہم آج اس تلخ حقیقت سے دوچار ہیں کہ جوں جوں ہم اپنی معرفت کی وسعت میں کامیاب ہوتے ہیں، اسی قدر ہم اس خطرے کے قریب پہنچ جاتے ہیں جو انسانی زندگی کو زمین پر سےمکمل طور پر مٹا دینے والا ہے۔ یہی حقیقت کی تلاش بالآخر ہمیں ایسے آلات فراہم کر چکی ہے جن سے ہم اپنی ہی تہذیب کو اپنے ہاتھوں اجاڑ سکتے ہیں اور اپنی نوع کی تمام روشن امیدوں کو ختم کر سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس صورتحال میں ہم کیا کریں؟ کیا ہم سائنس کی لگام کھینچیں یا پھر حقیقت کے حصول پر ڈٹے رہیں، خواہ اس کی قیمت ہماری تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ اور برباد ی کی صورت حال میں کیوں نہ ہو؟ (العلم أسراره وخفاياه، ج 3، ص 720)

غیر منضبط سائنسی ترقی سے پیدا ہونے والے سنگین خطرات کے پیشِ نظر بہت سے مفکرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایک ایسا اخلاقی میثاق مرتب کیا جائے جو سائنس دانوں کے لیے لازم ہو، تاکہ سائنسی تحقیق کو ایسی سمت دی جا سکے جو انسانیت کی بھلائی کرے اور ممکنہ نقصانات سے محفوظ رکھے۔

اسی تناظر میں "عالم کی ذمہ داری"کا تصور ابھرا، جس کے مطابق ایک محقق پر یہ نئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تحقیق کے اخلاقی، سماجی اور ماحولیاتی نتائج پر سنجیدگی سے غور کرے۔ اگر اسے معلوم ہو کہ اس کا کام انسانیت یا ماحول پر سنگین اور منفی اثرات ڈال سکتا ہے تو اسے اپنی تحقیق روک دینی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں سائنسی دریافتوں کا اثر محدود یا وقتی نہیں رہا، بلکہ یہ اثرات عالمگیر، ہمہ گیر اور آنے والی نسلوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔

اختتامیہ

یہ بات حیرت انگیز ہے کہ جو لوگ علم کو حد سے زیادہ تقدیس دیتے ہیں، جب ان کے سامنے سائنسی ترقی کے منفی اور تباہ کن اثرات کے ثبوت پیش کیے جاتے ہیں تو وہ فوراً اس سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نتائج دراصل علم کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے غلط استعمال کا شاخسانہ ہیں۔ یہ طرزِ فکر ایک کھلے تضاد کو ظاہر کرتا ہے۔ آخر وہ کس طرح یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ سائنس نے ادیان کا خاتمہ کر دیا ہے اور ان کے الحادی نظریات کی تائید کرتا ہے، لیکن جب سائنسی ترقی کے تباہ کن پہلو سامنے آتے ہیں تو وہ اسے علم سے جوڑنے سے انکار کر دیتے ہیں؟

یہ تضاد اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ان کا موقف سائنس کے بارے میں معروضی اور غیر جانب دار نہیں بلکہ سراسر ان کی تنگ نظری اور محدود فکر پرمبنی ہے۔ وہ سائنس سے صرف وہی چیز لیتے ہیں جو ان کے فکری رجحانات کے موافق ہو، اور جو پہلو ان کے نظریے سے ٹکراتا ہو، اسے یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ سائنسی طریقۂ کار اپنی تمام تر اہمیت اور ضرورت کے باوجود، اہنے طور پر انسانیت کو ایک متوازن اور بامقصد زندگی فراہم نہیں کر سکتا۔ بلکہ اس کے لیے لازم ہے کہ اس علم کو دیگر ذرائعِ معرفت کے ساتھ جوڑا جائے اور اسے ایسی اقدار و اخلاقی بنیادوں کے تابع کیا جائے جو اس کے رخ کو درست سمت میں موڑ سکیں۔ پس اسی طرح یہ سائنس انسان کے لیے حقیقی خوش بختی اور ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے، اوراسی اصول کے تحت غیر منضبط سائنسی ترقی سے پیدا ہونے والے نقصانات اور تباہ کاریوں سے بچایا جا سکتا ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018