

| مقالات | امام حسینؑ کی عظیم انقلابی تحریک:الٰہی اصولوں اور تاریخی حالات کے تناظر میں

امام حسینؑ کی عظیم انقلابی تحریک:الٰہی اصولوں اور تاریخی حالات کے تناظر میں
الشيخ معتصم السيد أحمد
امام حسین بن علیؑ کا یزید بن معاویہ کے خلاف قیام ،اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی تحریکوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس واقعے کی اہمیت صرف اس لیے نہیں کہ اس نے امت کے ضمیر کو جھنجھوڑا، بلکہ اس کے اخلاقی، دینی اور سیاسی پہلو بھی نہایت اہمت کے حامل ہیں۔ اس پس منظر میں یہ سوالات بارہا اُٹھائے گئے ہیں کہ آیا امام حسین علیہ السلام کا قیام محض اہلِ کوفہ کی بیعت اور ان کے خطوط کے جواب میں تھا، یا اس کے پیچھے اس سے کہیں زیادہ عمیق محرکات کارفرما تھے؟ مزید یہ کہ اگر اہلِ کوفہ کی دعوت نہ بھی ہوتی، تو کیا امام علیہ السلام پھر بھی اسی فیصلے پر قائم رہتے؟ اور کیا امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان ہونے والے معاہدۂ صلح نے امام حسین علیہ السلام کی اس انقلابی تحریک کے لیے کوئی شرعی یا اخلاقی جواز فراہم کیا؟
ان سوالات کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ دو تکمیلی عوامل کے درمیان امتیاز قائم کیا جائے:
اوّل: وہ اصولی اور نظریاتی بنیاد جس پر امام حسین علیہ السلام کی تحریک استوار تھی۔
دوم: وہ تاریخی و سیاسی حالات جنہوں نے اس اصول کو عملی شکل دینے میں مدد فراہم کی اور اس تحریک کو وقوع پذیر ہونے پر آمادہ کیا۔
امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بنیادی اور نمایاں ترین اسباب میں سے ایک وہ عظیم شرعی و اخلاقی ذمہ داری تھی جو آپ پر اس وقت عائد ہوئی جب یزید بن معاویہ کی خلافت کے نتیجے میں اسلامی نظامِ حکومت اپنی اصل روح اور مقاصد سے شدید انحراف کا شکار ہوگیا۔ یزید کی حکومت درحقیقت شریعتِ اسلامی کے اصولوں اور خلافتِ الٰہیہ کے مقاصد سے ایک کھلا ہوا انحراف تھی۔ وہ شخص اپنے علانیہ فسق و فجور، شراب نوشی، ظلم و استبداد اور بے گناہوں کے قتل جیسے قبیح اعمال کے باعث بدنام زمانہ تھا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں امام حسین علیہ السلام نے اپنا وہ تاریخی اور فیصلہ کن اعلان فرمایا: ويزيد رجل فاسق، شارب الخمر، قاتل النفس المحرّمة، معلن بالفسق، ومثلي لا يبايع مثله۔
اسی بنا پر واقعۂ کربلا کو کسی وقتی ردِ عمل یا کسی خاص سیاسی واقعے پر جذباتی موقف کے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ یہ اس گہری بصیرت کا سچا اظہار ہے جو اسلامی حکومت کی اصل روح کو پہچانتی ہے اور دین کو ناجائز اقتدار کے لیے آڑ بنانے کو یکسر مسترد کرتی ہے۔ امام حسینؑ کی تحریک ایک جامع رسالی وژن کے تحت آگے بڑھی، جس میں یہ واضح تھا کہ زمین پر اللہ کا نظام نہ تو سیاسی سودے بازیوں اور نہ ہی وقتی مفاہمتوں سے قائم ہوسکتا ہے، بلکہ اس کے لیے حق پر ثابت قدمی لازم ہے، خواہ اس کی قیمت جان، خاندان اور اولاد کی قربانی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے یزید صرف ایک برے حکمران کا نام نہ تھا، بلکہ وہ اسلام کے اصل منصوبے سے شدید انحراف کی علامت تھا، جسے بے نقاب کرنا اور اس کے خلاف ڈٹ جانا ناگزیر تھا، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔
امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کا معاہدہ: انقلابِ حسینی کا پیش خیمہ
یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان طے پانے والے معاہدۂ صلح کی مکمل پاسداری کی، اور اسی احترام کے پیش نظر آپ نے معاویہ کی حیات میں قیام نہیں فرمایا، اگرچہ معاویہ نے آغاز ہی سے اس معاہدے کی متعدد شقوں کو پامال کر دیا تھا۔ ان انحرافات کا نقطۂ عروج اس وقت سامنے آیا جب اس نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ یہ اقدام نہ صرف اسلامی اقدار کے منافی تھا بلکہ معاہدۂ صلح کی صریح خلاف ورزی بھی تھا، کیونکہ اس معاہدے میں واضح طور پر درج تھا کہ "امر خلافت معاویہ کے بعد امام حسن کو منتقل ہوگا، اور اگر امام حسن کی وفات ہو جائے تو پھر یہ حق امام حسین کو ملے گا"، نہ کہ یزید کو۔
یہ صلح اپنی نوعیت میں ایک نہایت حکمت آمیز اور اسٹریٹجک اقدام تھا۔ اس نے نہ صرف معاویہ کے اصل عزائم کو بے نقاب کیا بلکہ بنی اُمیہ کے ان جھوٹے دعوؤں کو بھی آشکار کر دیا جن کے پردے میں وہ دینی تقدس اور اسلامی خدمت کا تاثر قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ امام حسن علیہ السلام کے اس اقدام نے گویا وہ آخری پردہ بھی ہٹا دیا جس کے پیچھے بنو امیہ اپنی سیاسی اغراض کو چھپاتے تھے۔یوں یہ معاہدہ دراصل بنی اُمیہ کے لیے کوئی قانونی یا شرعی جواز فراہم کرنے کے بجائے ان کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ امام حسن علیہ السلام کے صلح کے فیصلے نے تاریخ کے رُخ کو اس طرح موڑا کہ جب معاویہ نے کھلم کھلا معاہدے کو توڑ کر اپنے بیٹے کو جانشین بنایا تو یہ بالکل واضح ہوگیا کہ اس کا مقصد دین یا امت کی خدمت نہیں بلکہ خاندانی تسلط اور موروثی اقتدار کا قیام تھا۔
امام حسین علیہ السلام نے باوجود اس کے کہ معاویہ نے معاہدۂ صلح کی بارہا خلاف ورزی کی، اس کے خلاف قیام نہیں فرمایا اور عہد کی پاسداری کرتے ہوئے اس کے مرنے تک صبر کیا۔ لیکن جیسے ہی معاویہ دنیا سے رخصت ہوا، حالات اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ کھلم کھلا اعتراض اور مخالفت ناگزیر ہوچکی تھی۔ یزید نے تخت نشینی کے فوراً بعد اپنے گورنر ولید بن عتبہ کو مدینہ میں خط بھیجا اور حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام سے زبردستی بیعت لی جائے، اور اگر وہ انکار کریں تو "ان کی گردن مار دو اور ان کا سر میرے پاس بھیج دو" (تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۱۵)۔ یہاں امام حسین علیہ السلام نے بیعت سے دوٹوک انکار کرتے ہوئے اپنا وہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: یزید رجل فاسق، شارب الخمر، قاتل النفس المحرّمة، معلن بالفسق، ومثلي لا يبايع مثله۔
اس اعلان کے ذریعے امام حسین علیہ السلام نے ایسا موقف اختیار کیا جس میں کسی تاویل یا ابہام کی گنجائش باقی نہ رہی۔ آپ نے واضح کر دیا کہ خلافت کسی صورت میں فسق و فجور کا سہارا نہیں بن سکتی، نہ ہی وہ ایک ظاہری ڈھانچہ ہے جس کا اسلامی روح سے کوئی تعلق نہ ہو۔ بلکہ آپ نے اس کلمے کے ذریعے خلافت کو دوبارہ اس کے اصل معنوی اور رسالی تصور سے جوڑ دیا، اور یوں دینِ محمدی ﷺ کی بنیادوں پر کھڑا ایک نیا باب کھل گیا، جہاں ایک طرف الٰہی اور رسالی مشروعیت ہے اور دوسری طرف جبری اور دنیاوی اقتدار۔
اسی تناظر میں، امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے نکلنا ایک ناگزیر مرحلہ تھا۔ یہ محض ایک سیاسی ہجرت نہ تھی بلکہ ایک الٰہی تقاضا اور تاریخی ضرورت تھی۔ قدرت نے چاہا کہ اس اعتراض کی پہلی صدا مرقدِ رسول خدا ﷺ کے قرب میں بلند ہو، تاکہ آغاز ہی سے یہ بات واضح ہو جائے کہ تحریکِ حسینی دراصل دینِ نبوی کی حقیقی توسیع اور تسلسل ہے۔ یہ قیام اسلام کے خالص اور اصیل چہرے کو محفوظ رکھنے کے لیے تھا، تاکہ امت کو یہ دکھایا جا سکے کہ جس دین کو یزید کی حکومت نے بگاڑ دیا ہے اور جس شریعت کے چہرے کو داغدار کیا جا رہا ہے، اس کی اصل تصویر اور حقیقی جوہر کربلا سے روشن ہوگا۔
چونکہ رسالت کے علمبردار کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے اصولوں پر سودے بازی کرے یا اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹ جائے، اس لیے جب کسی ماحول میں اس کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرنا مشکل ہو جائے تو ناگزیر ہے کہ وہ اس ماحول کو چھوڑ کر کسی اور ایسی فضا کی طرف رخ کرے جہاں اس کے مشن کے لیے سازگار حالات موجود ہوں۔ قرآن کریم نے اسی اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ، قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا)
اسی تناظر میں امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے مکہ کی جانب ہجرت دراصل ایک بڑے اور منظم منصوبے کا پہلا قدم تھی۔ اس کا مقصد صرف اپنی جان بچانا نہیں تھا بلکہ اسلام کے جوہر کو محفوظ رکھنا اور اس شرعی فریضے کو ادا کرنا تھا جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صورت میں آپ کے کاندھوں پر رکھا گیا تھا۔ خود امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: میں نے خروج نہ تو سرکشی اور خوشامد کے لیے کیا ہے، نہ فساد اور ظلم کے لیے، بلکہ میں صرف اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں۔ میرا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔
یہی وہ رسالی اصول ہے جو تحریکِ حسینی کی اصل روح اور بنیادی محرک تھا۔ باقی تمام حالات، خواہ وہ معاون ہوں یا معاند اس منصوبے کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرتے۔ ہاں، وہ اس جدوجہد کے وسائل اور عملی مراحل کا حصہ ضرور ہیں۔ اسی لیے امام حسین علیہ السلام نے حالات کے تقاضوں کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ اسباب و ذرائع کو بھی اپنی تحریک کی خدمت میں لگایا۔ مکہ معظمہ کا انتخاب اس حکمت عملی کا حصہ تھا۔ ایک طرف یہ حرمِ اوّل ہے اور مسلمانوں کے دلوں کی توجہ کا مرکز، دوسری طرف یہ وہ مقام ہے جہاں سالانہ حج کے موقع پر پوری امت کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ اس سے امام کو ایک طرف وقتی طور پر حکومتی جبر سے کچھ مہلت مل گئی، اور دوسری طرف ایک مؤثر منبر بھی حاصل ہوا جس کے ذریعے وہ اپنی دعوت کو عام کر سکتے تھے، اسلامی ضمیر کو جھنجھوڑ سکتے تھے اور امت کو اس عظیم خطرے کی طرف متوجہ کر سکتے تھے جو اموی اقتدار کے انحراف کی شکل میں سامنے آچکا تھا۔
جیسے ہی امام حسین علیہ السلام کے مکہ کی طرف سفر کرنے کی خبر عام ہوئی، اہلِ کوفہ کی صفوں میں ایک غیر معمولی جوش و خروش پیدا ہوگیا۔ عراق کے عوام پہلے ہی عرصہ دراز سے بنو اُمیہ کے جبر و استبداد کے خلاف کسی موقع کے منتظر تھے، اور وہ ایک ایسی قیادت کی تلاش میں تھے جو شرعی اعتبار سے حق پر ہو اور جو اس عوامی غصے اور احتجاج کو درست سمت میں رہنمائی فراہم کرسکے۔ اسی پس منظر میں ان کے رہنما سلیمان بن صُرد خزاعی کے گھر جمع ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں ایک تفصیلی خط تحریر کیا، جس میں انہوں نے لکھا:ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس ملعون (یزید) کے بیٹے نے امت پر بغیر مشورے، بغیر اجماع اور کسی شرعی جواز کے حکومت قائم کر لی ہے۔ ہم آپ کے ساتھ جہاد کے لیے تیار ہیں، اپنی جانیں آپ پر قربان کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ پس آپ ہمارے پاس تشریف لائیں، خوشی اور اطمینان کے ساتھ، کیونکہ ہم آپ کو اپنا سید، رہنما، مطاع امیر اور ہادی خلیفہ مانتے ہیں۔"
یہ صرف پہلا قدم تھا۔ چند ہی دنوں میں خطوط کی بھرمار ہونے لگی اور ہر سمت سے امام کی خدمت میں خطوط آنے لگے۔ ان کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچی اور ان سب میں ایک ہی بات درج تھی: کوفہ تشریف لائیں اور امت کی قیادت سنبھالیں تاکہ ظلم و جبر کے خلاف ایک اجتماعی قیام کی بنیاد ڈالی جا سکے۔ اس وسیع اور غیر معمولی عوامی رجحان کے پیشِ نظر امام حسین علیہ السلام نے معاملے کو پرکھنے کے لیے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا۔ ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہاں کے حالات کو قریب سے دیکھیں، لوگوں کی سنجیدگی کا اندازہ لگائیں اور امام کی طرف سے بیعت لیں۔ مسلم بن عقیل نے کوفہ پہنچ کر اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے ادا کی۔ ہزاروں افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہوں نے امام حسین علیہ السلام کو ایک تفصیلی خط لکھ کر کوفہ آنے کی پرزور دعوت دی۔
اگرچہ حالات بظاہر امام حسین علیہ السلام کے لیے سازگار دکھائی دیتے تھے، اور خطوط و بیعتوں کی کثرت نے یہ تاثر دیا تھا کہ کوفہ کی راہ ان کے لیے کھلی ہوئی ہے، لیکن امام کو اس حقیقت کا یقین تھا کہ ان کا مقدر شہادت ہے، اور ان کے اصحاب کا انجام قتل اور اسیری ہے۔ مگر اس یقینی انجام کے باوجود امام نے اپنے عزم و یقین میں کوئی تزلزل نہ آنے دیا، بلکہ پوری بصیرت اور رسالتی ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھے۔ مکہ سے روانگی کے وقت آپ نے اپنے اصحاب کو ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو گویا اس قیام کا آئین اور منشور تھا۔ آپ نے فرمایا:"اللہ کا شکر ہے، ہر شے اسی کی مشیت سے وقوع پذیر ہوتی ہے، اور اس کی توفیق کے بغیر کوئی قوت کارفرما نہیں ہو سکتی۔ اللہ کے رسول پر درود و سلام ہو۔موت بنی نوعِ انسان پر اسی طرح لازم و مقدر ہے یا موت بنی آدم کے لیے اسی باعث زینت ہے جس طرح ایک ہار دوشیزہ کے گلے کے لئے باعث زینت ہوتا ہے ۔ مجھے اپنے نانا اور آباؤ اجداد سے ملنے کی بے حد آرزو ہے، جیسے یعقوب علیہ السلام کو یوسف علیہ السلام سے ملنے کی تڑپ تھی۔ میرے لیے ایک مقامِ شہادت منتخب ہو چکا ہے اور میں اسی کی طرف جا رہا ہوں۔ گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں، اور دشمنوں کے جھنڈ کربلا اور نواویس کے درمیان میرا جسم پامال کر کے اپنے پیٹ بھر رہے ہیں۔ اس دن سے فرار ممکن نہیں جسے اللہ کے قلم نے لکھ دیا ہے۔ اللہ کی رضا ہی ہماری رضا ہے۔ ہم اہل بیت اس کے امتحانوں پر صبر کریں گے، اور وہ ہمیں صبر کرنے والوں کا اجر عطا کرے گا۔ رسول اللہ کی نسل کبھی اس سے جدا نہیں ہوگی بلکہ وہ سب بہشت میں ایک ساتھ جمع ہوں گے، جہاں رسول کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ لہٰذا جو شخص اپنی جان ہماری راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہے اور اللہ سے ملاقات کے لیے آمادہ ہے، وہ ہمارے ساتھ چلے۔ میں ان شاء اللہ کل صبح روانہ ہو رہا ہوں۔"(بحار الأنوار، ج 44، ص 366).
یہ کلمات اس حقیقت کو نہایت وضاحت کے ساتھ آشکار کرتے ہیں کہ امام حسینؑ اپنے انجام اور اپنی منزل سے پوری طرح باخبر تھے۔ اُنہیں علم تھا کہ یہ سفر خون اور قربانی پر منتج ہوگا، مگر اس شعور کے باوجود اُن کا عزم متزلزل نہ ہوا۔ بلکہ وہ اپنی جان کو اصول کے لیے نثار کرنے، اپنے جسم کو فدا کرنے، اور اپنے خون کو چراغِ ہدایت بنانے کے لیے پورے اطمینان اور بصیرت کے ساتھ آمادہ تھے۔ امام حسینؑ کا قیام ذاتی نجات یا وقتی مصلحت کا اقدام نہ تھا، بلکہ ایک ہمہ گیر بیداری کی تحریک تھی، جس نے امت کے اجتماعی شعور کو جھنجھوڑا اور اس کے دل و دماغ میں ایسا زخم کھول دیا جو وقت کے گزرنے کے باوجود کبھی مندمل نہ ہوسکا، بلکہ دین کی بقا کے ساتھ ساتھ ہمیشہ تازہ اور زندہ رہا۔
پس نتیجہ کے طور، امام حسینؑ کی تحریک دراصل آگہی، بصیرت اور ذمہ داری کی تحریک تھی، نہ کہ غیظ و غضب یا اقتدار کی خواہش کا اظہار۔ اس کے عمق میں ایک دائمی دعوت مضمر ہے، جو ہر دور اور ہر نسل کو اس امر کی یاد دہانی کراتی ہے کہ دین اور عدل کے ساتھ اپنی نسبت کو نئے سرے سے پرکھیں، اور باطل کے مقابلے میں اپنی ذمہ داری کو پہچانیں۔ واقعۂ کربلا کوئی عارضی حادثہ یا وقتی سیاسی ردِ عمل نہ تھا، بلکہ یہ حق و باطل کی جاویدانی کشمکش کا عملی مظہر اور فساد و انحراف کے مقابلے میں ایک ابدی و آفاقی اعلانِ موقف تھا۔
چنانچہ جو لوگ تحریکِ حسینی کو صرف سیاسی پہلو تک محدود کرتے ہیں یا اسے اہلِ کوفہ کی درخواستوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں، وہ اس کے جوہر کو مسخ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام حسینؑ نے اپنے خونِ مقدس سے اسلامِ محمدیؐ کی اصل روح کو مجسم کر دیا اور اُس معرکے کو اپنی قربانی سے ایک ایسے انجام تک پہنچایا جو بظاہر اختتام تھا مگر دراصل ایک نئی ابتدا تھی۔ یہ معرکہ اُس دن سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا، کیونکہ جب تک زمین پر ظلم باقی ہے اور جب تک امت اپنے ضمیر کو زندہ رکھتی ہے، اُس وقت تک حسینؑ کی صدا گونجتی رہے گی: ہَیْهَاتَ مِنَّا الذِّلَّة۔