23 محرم 1447 هـ   19 جولائی 2025 عيسوى 7:06 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  غفلت سے ظلم تک: امت نے کربلا کی راہ کیسے ہموار کی؟
2025-07-17   12

غفلت سے ظلم تک: امت نے کربلا کی راہ کیسے ہموار کی؟

شيخ معتصم السيد احمد

قوموں کے زوال اور عروج محض اتفاقات نہیں ہوتے، بلکہ ان کے پیچھے ہمیشہ کچھ مخصوص اسباب اور عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ کوئی بھی تاریخی واقعہ اس وقت تک عظیم نہیں بنتا جب تک وہ پچھلے حالات اور واقعات کے ارتقاء کا نتیجہ نہ ہو۔ جو لوگ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو صرف اس لمحے تک محدود کرتے ہیں جب معاویہ مرگیا اور یزید نے خلافت سنبھالی، وہ تاریخ کو سمجھنے میں ایک اہم حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں: تاریخ کبھی بھی اچانک یا بے مقصد نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ ایک مسلسل عمل کا نتیجہ ہوتی ہے جو عوام کے ذہنی ارتقاء اور اجتماعی رویوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

تاریخ محض ایک اتفاق نہیں، بلکہ ایک ایسی نظم و ضبط کے تحت چلتی ہے جو کسی بھی قوم یا فرد کی خواہشات سے آزاد ہوتی ہے۔ ہر واقعہ، ہر فیصلہ اور ہر تحریک اپنے پیچھے ایک گہرے سیاق و سباق کی عکاسی کرتا ہے، جو اس قوم کی فطرت، اس کے اخلاقی اقدار، اور اس کے اجتماعی شعور کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم نے اپنے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا یا کسی فرد نے اپنی ذمہ داری سے غفلت برتی، تو اس کا اثر اس قوم کے مستقبل پر پڑتا ہے، اور اس کا ردعمل تاریخ کے صفحات میں محفوظ رہتا ہے۔

یہ تاریخ کی گہری سمجھ ہی ہے جو ہمیں کربلا کی تحریک کو ایک الگ واقعہ سمجھنے کی بجائے، اسے ایک طویل عمل کا قدرتی نتیجہ سمجھنے کی رہنمائی کرتی ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد شروع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب امت نے آہستہ آہستہ حق اور اس کے اہل سے منہ موڑ لیا، اور ایک ایسے سیاسی نظام کی طرف بڑھنا شروع کیا جو اسلام کی اصل روح کی عکاسی نہیں کرتا تھا، بلکہ جاہلیت کے نظام کو نئے اسلامی ناموں کے تحت دوبارہ قائم کرتا تھا۔ معاویہ نہ آسمان سے آیا تھا،  نہ ہی انہیں کسی آسمانی وحی کے ذریعے لوگوں پر مسلط کیا گیا تھا۔ وہ دراصل غفلت، کمزوری اور انحراف کے ایک دور میں ابھرا تھا۔ وہ فتنے کے اس درخت کا خراب پھل تھا، جس کی جڑیں بہت پہلے گہری ہو چکی تھیں اور جسے شہداء کے خون سے سینچا گیا تھا۔ یہ درخت ایک ایسی قوم میں اُگا تھا جس نے معاویہ کے انحرافات پر خاموشی اختیار کی، اور بغیر کسی ردعمل کے اس کی سخت حکمرانی کے دوران تماشائی بن کر گزارا۔

لیکن سوال یہ ہے کہ امت اس حالت تک کیوں پہنچی؟ اور کیوں وہ حق کے ساتھ نہیں کھڑی ہو سکی اور اس کے اہل کا ساتھ نہ دے سکی؟ اس کا جواب دراصل اللہ کی وضع کردہ سنتوں کی لاعلمی میں ہے، جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نظامِ کائنات میں ایسے اصول وضع کیے ہیں جو کسی خاص قوم یا فرد کو رعایت نہیں دیتے، بلکہ ہر کسی کو اس کے عمل کا بدلہ دیتے ہیں۔ یعنی جو کچھ بھی ایک فرد یا قوم کرتی ہے، اسے اسی کے مطابق نتیجہ ملتا ہے۔ جب کوئی امت ان خدائی سنتوں سے منحرف ہو جاتی ہے، یعنی وہ اپنے اعمال اور فیصلوں میں ان اصولوں کو نظرانداز کرتی ہے، تو وہ کمزوری، شکست اور ذلت کی طرف مائل ہو جاتی ہے، چاہے وہ جتنا بھی اللہ کے قریب ہونے یا دین پر قائم ہونے کا دعویٰ کرے۔ اور ان سنتوں میں سے سب سے اہم تین اصول ہیں جن پر ہر اس  امت کو عمل کرنا ضروری ہے جو عزت و کرامت کی طرف بڑھنا چاہتی ہے:

پہلا اصول: امت کو اپنی زندگی کا محور "قدریات" کو بنانا چاہیے۔ قومیں نسب سے نہیں اُٹھتیں، اور نہ ہی دولت سے ان کا مقام بلند ہوتا ہے؛ بلکہ وہ اپنے اقدار اور اصولوں کے ذریعے عظمت حاصل کرتی ہیں۔ انسان کی حقیقت اس کے عمل میں ہوتی ہے، نہ کہ اس کے پاس کیا ہے اس میں ہوتی ہے۔ اس کا قدراور مقام اس کی محنت، علم، انصاف اور نیک نیتی سے ہوتا ہے، نہ کہ اس کی وراثت، مال یا طاقت سے۔ جب کسی قوم میں اقدار کی بنیاد کمزور پڑ جاتی ہے، اور لوگ ظالم کو اس کی طاقت کی وجہ سے مقدس سمجھنے لگتے ہیں، اور انصاف پسند کو اس کی کمزوری کی وجہ سے ذلت کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، تو ایسی قوم کو شکست اور ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے بقائے نظام اور عظمت کے بنیادی ستونوں  پر قائم نہیں ہے۔

دوسرا اصول:  یہ ضروری ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی پیروی کرے اور نیک افراد کے عمل اور روش پر چلنے کی کوشش کرے۔ بہترین اور کامیاب معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے اچھے نمونے کی پیروی ضروری ہے، کیونکہ جو شخص نیک لوگوں کی تقلید کرتا ہے، وہ خود بھی ان کی طرح بلند اور عظیم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص برے لوگوں کی پیروی کرتا ہے، وہ انہی کی طرح پست اور ذلیل ہو جاتا ہے۔

وہ امت جو امام علی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی راہ پر چلتی ہے، وہ ان کی طرح بلند کردار اور عظمت حاصل کرتی ہے، جبکہ وہ امت جو معاویہ اور یزید جیسے لوگوں کی پیروی کرتی ہے، وہ ان کی طرح کا بدترین کردار اختیار کر لیتی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، ﴿وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾، یعنی "تم ظالموں کی طرف مائل نہ ہو"، کیونکہ ظالموں کی طرف جھکنا دراصل تباہی اور ہلاکت کی طرف لے جانے والا عمل ہے۔

تیسرا اصول : یہ ضروری ہے کہ برائی کا مقابلہ کیا جائے اور اس کے سامنے کبھی بھی تسلیم نہ کیا جائے۔ زندگی ایک امتحان کی دنیا ہے، اور حق کا راستہ کبھی ہموار نہیں ہوتا، بلکہ اسے محنت اور جدوجہد کے ذریعے حاصل کرنا پڑتا ہے۔ برائی کو صرف تمناؤں سے شکست نہیں دی جا سکتی، بلکہ اس کے خلاف مزاحمت اور اللہ کی راہ میں جہاد کے ذریعے ہی اسے شکست دی جا سکتی ہے۔

اگر کوئی امت ظلم کے سامنے خاموش رہتی ہے یا اس کا مقابلہ نہیں کرتی، تو وہ خود اس ظلم کا پہلا شکار بن جاتی ہے، کیونکہ ظلم کبھی اپنی حدود میں نہیں رہتا۔ جب تک خاموشی جاری رہتی ہے، ظلم پھیلتا چلا جاتا ہے اور اس کے اثرات بڑھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ صرف اس طرح ہم برائی کو جڑ سے اکھاڑ سکتے ہیں اور اپنی امت کو تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ جو کچھ امتِ اسلامیہ کے ساتھ پہلی صدیوں میں ہوا، وہ ان تین اصولوں کو چھوڑ دینے کا واضح نتیجہ تھا۔ جب اہلِ بیت کو ان کے مقام سے بے دخل کیا گیا، اور انہیں قیادت کی ذمہ داریوں سے دور کر دیا گیا، جب لوگ امام علی علیہ السلام کو اپنے دشمنوں کا سامنا کرنے کے لیے اکیلا چھوڑ  دیا گیا ، اور پھر امام حسن علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا، جس کے نتیجے میں انھیں معاویہ کے ساتھ صلح کرنا پڑی،  تو یہ سب ایک ایسی راہ پر گامزن ہونے کا آغاز تھا جس کا اختتام صرف کربلا کی سانحہ پر ہو سکتا تھا۔

امام حسین علیہ السلام کا قتل کربلا کی سرزمین پر کوئی اچانک یا غیر متوقع واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک طویل انحطاط اور زوال کے عمل کا منطقی نتیجہ تھا۔ جب امت نے اپنے اصل اقدار کو نظرانداز کیا، ظالموں کو اپنا دوست بنایا، اور باطل کے خلاف خاموشی اختیار کی، تو وہ نہ صرف اخلاقی طور پر کمزور ہوگئی، بلکہ باطل کو طاقتور بھی بنا دیا۔ معاویہ خود اس حقیقت کو بے دھڑک بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: "میں نے تم سے نہ نماز پڑھنے، نہ روزہ رکھنے، نہ حج کرنے، اور نہ زکوة دینے کے لیے جنگ کی۔ تم یہ سب کرتے ہو، بلکہ میں نے تم سے اس لیے لڑا کہ میں تم پر حکمرانی کروں، اور اللہ نے یہ اختیار مجھے دے دیا، حالانکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو۔"

یہ بیان ہمیں اصل تصادم کی نوعیت کو واضح کرتا ہے۔ علیؑ اور حسینؑ ایک طرف، اور معاویہ و یزید دوسری طرف، یہ در حقیقت  دو مختلف منصوبوں کے درمیان وجودی لڑائی تھی۔ ایک طرف وہ منصوبہ تھا جو نبی ﷺ کے اصل پیغام کو زندہ کرنا چاہتا تھا اور عدل و انصاف پر مبنی ریاست قائم کرنا چاہتا تھا، جبکہ دوسری طرف وہ منصوبہ تھا جو اسلام کو استعماری حکمرانی کے جواز کے طور پر استعمال کرنا چاہتا تھا، خلافت کو وراثت میں منتقل کرنا چاہتا تھا، اور دین کو صرف رسومات تک محدود کر کے اس کے اصل مقاصد۔ عدالت، کرامت، اور آزادی۔ کو مٹا دینا چاہتا تھا۔ جو امت ایک بار ظلم کے خلاف خاموش رہتی ہے، وہ بار بار خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے، اور آخرکار اپنی آواز ہمیشہ کے لیے گم کر بیٹھتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: "تم ضرور اچھائی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے، یا اللہ تم پر تمہارے بدترین لوگوں کو مسلط کر دے گا، پھر تم دعا کرو گے، مگر تمہاری دعا رد کر دی جائے گی۔" یہ نبوی تنبیہ محض ایک دھمکی نہیں، بلکہ ایک اٹل سماجی قانون اور اللہ کی سنت ہے، جو کبھی بھی تبدیل نہیں ہوتی۔

جو شخص ظلم کے آغاز پر فوراً اس کا مقابلہ نہیں کرتا، وہ آخرکار اس کا بوجھ کئی گنا بڑھا کر اٹھاتا ہے۔ جو امام حسین علیہ السلام کا ساتھ نہیں دیتا، وہ یزید کے ساتھ  ذلت و حقارت کی زندگی گزارے گا ۔ اور جو امام علی علیہ السلام کے ساتھ نہیں کھڑا ہوتا، وہ معاویہ کے استبدادی نظام کا تابع بن جائے گا۔ تاریخ غافلوں کو معاف نہیں کرتی، اور بزدلوں کی کمزوری کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ جو شخص انصاف کے لیے کھڑا نہیں ہوتا، وہ جب ظلم کا شکار ہوتا ہے، تو اس کا افسوس بے سود ہوتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کربلا ایک اچانک واقعہ نہیں تھا، جو یکا یک آسمان مصیبت کی شکل میں نازل ہوا ہو ،  بلکہ یہ امت کے جانب سے نبی ﷺ اور اہلِ بیتؑ کے راستے کو ترک کرنے کا قدرتی نتیجہ تھا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ امت بغیر کسی شعور یا ذمہ داری کے چلتے ہوئے  عزت و کرامت  کی زندگی گزار سکتی ہے، انہوں نے نہ قرآن کو سمجھا ہے اور نہ تاریخ کو صحیح طور پر پڑھا ہے۔ اللہ کی سنتیں کبھی نہیں بدلتی، اور نتائج کبھی بھی محض اتفاق سے نہیں آتے۔ جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے: "اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہیں بدلتے۔"

عاشوراء کا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اصلاح کا آغاز نتائج سے نہیں، بلکہ اس کی بنیادوں سے ہوتا ہے۔ جو شخص امام حسین علیہ السلام کی تحریک کو سمجھنا چاہتا ہے اور ان کے پیچھے چلنا چاہتا ہے، اسے سب سے پہلے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا، اقدار کو مضبوط کرنا ہوگا، نیک لوگوں کی پیروی کرنی ہوگی، اور ہر صورت میں باطل کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو حقیقی نجات تک پہنچاتا ہے۔

عاشوراء ہمیں سکھاتا ہے کہ صرف اچھے مقصد کے پیچھے چلنا کافی نہیں، بلکہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ہمیں آغاز سے ہی مضبوط ارادے، اصولوں اور عمل کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا۔ تبھی ہم ظلم کے خلاف فتح حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے معاشروں کو عدل، انصاف اور کرامت سے آراستہ کر سکتے ہیں۔

جو کچھ امتِ اسلامیہ نے اپنے ابتدائی دور میں برداشت کیا، وہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں جسے ہم کتابوں میں پڑھ کر یاد کریں یا مجالس میں افسوس کے ساتھ ذکر کریں۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے موجودہ حالات کو صاف دیکھ سکتے ہیں۔ جو کچھ تاریخ میں گزرا، وہ آج مختلف انداز میں دوبارہ ہو رہا ہے، لیکن اس کی حقیقت اور روح وہی ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اقدار کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اچھے افراد کی جگہ برے لوگ لے رہے ہیں، ظالموں کی حمایت کی جا رہی ہے اور اصلاح کرنے والوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے، تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ امت ماضی کے راستے پر چل رہی ہے، اور وہی راستہ اختیار کر رہی ہے جس پر کربلا کی تباہی کا آغاز ہوا تھا۔

جو کچھ ہم آج امتِ اسلامیہ میں تشتت، فرقہ واریت، تابعداری اور ذلت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، وہ دراصل اللہ کی اجتماعی سنن سے غفلت اور انحراف کا قدرتی نتیجہ ہے۔ جب اقدار غائب ہو جاتے ہین،  جب لوگ ظالم حکمرانوں کے ساتھ تعلق استوار کر لیتے ہیں، اور باطل کے خلاف مزاحمت میں سستی اختیار کرتے ہیں، تو وہی المیہ ایک جدید شکل میں دوبارہ جنم لیتا ہے۔ اگر امت کے کچھ حصوں میں ابھی بھی بیداری اور مزاحمت کی کوئی کرن باقی نہ ہوتی، تو حق کی چمک مکمل طور پر ماند پڑ چکی ہوتی، اور ہم میں سے کوئی بھی اس کی روشنی کو محسوس نہ کرتا۔

اس لیے جو سب سے بڑا سبق ہم امام حسین علیہ السلام کی قربانی سے سیکھ سکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان کی مدد صرف گریہ کرنے سے نہیں ہوتی، بلکہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ حق کے ساتھ کھڑے رہیں، اقدار کا دفاع کریں چاہے، اس کے خلاف  پیش آنے والی مخالفتوں کا سامنا کریں، اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں چاہے اس کے لیے ہمیں بڑی قربانیاں دینا پڑیں۔ آج ہم ایک نئے امتحان میں ہیں، جو شاید کربلا سے مختلف ہو، مگر اس کی حقیقت وہی ہے۔ ہمیں یا تو حق کی حمایت کے لیے تیاری کرنی ہے، یا پھر ان لوگ کی طرح بننا ہے جو نتیجہ آ جانے کے بعد افسوس کرتے ہیں۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018