23 محرم 1447 هـ   19 جولائی 2025 عيسوى 7:05 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  ہم ایک ایسی امت ہیں جو اشک بہانا جانتی ہے: امام حسینؑ کی مظلومیت سے لے کر امام مہدیؑ کے عدل تک
2025-07-16   31

ہم ایک ایسی امت ہیں جو اشک بہانا جانتی ہے: امام حسینؑ کی مظلومیت سے لے کر امام مہدیؑ کے عدل تک

شیخ مصطفی الھجری

شیعہ قوم کے شعور و وجدان میں جو عظیم ترین نشانیاں راسخ ہیں، ان میں سے امام حسین علیہ السلام اور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی دو تحریکیں نمایاں مرکزیت رکھتی ہیں۔ یہ دونوں اصل اسلام کے فکری و عملی منصوبے کی دو مضبوط ستونوں کی مانند ہیں۔

امام حسینؑ کی تحریک مظلومیت، اصلاح اور بیداری کی انتہا ہے، جبکہ امام مہدیؑ کا ظہور عدلِ الٰہی کے کمال کی علامت ہے، جو آخر الزمان میں ظاہر ہوگا۔ ان دونوں کے درمیان محض جذباتی یا رسوماتی ربط نہیں، بلکہ ایک گہرا فکری اور عملی تسلسل موجود ہے، جو ایک جامع الٰہی منصوبے کو مکمل کرتا ہے۔ جس میں اصلاح کا بیج بویا جاتا ہے اور وہ عدل کے شجر میں تبدیل ہوتا ہے۔ امام حسینؑ نے اپنے قیام کا مقصد واضح کرتے ہوئے فرمایا: "میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں" یعنی ان کی تحریک کسی حکومت چھیننے یا قیادت حاصل کرنے کے لیے نہیں تھی، بلکہ یہ ایک گہری دعوت تھی کہ امت کو خدا کے راستے کی طرف لوٹایا جائے، جہاں اقدار مضبوط ہوں، عدل قائم ہو، اور فساد کا خاتمہ ہو۔

دوسری طرف، امام مہدیؑ کا ظہور(زمین کو عدل و انصاف سے بھر دینے) کے لیے ہوگا، جیسے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ یعنی امام مہدیؑ کے مشن کا محرک وہی ہے جو امام حسینؑ کے قیام کا تھا، فرق صرف وقت، حالات اور طریقہ کار کا ہے۔ یوں کربلا کی تحریک دراصل عدلِ امام مہدی کے منصوبے کا بیج ہے، جو انسانوں کے شعور، روح، اور معاشروں میں اس کی بنیاد ڈالتی ہے۔

کربلا کی تحریک نے اس اسلام دشمن ظلم کو بے نقاب کر دیا جو ایک ایسی قوم نے کیا جو بظاہر اسلام کی دعوے دار تھی۔ لیکن اس ظلم کی پردہ دری کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ انسانیت کو عدل کے منتظر کے لیے نفسیاتی اور روحانی طور پر تیار کیا جائے۔ کیونکہ جب تک انسان ظلم کو نہ دیکھے، وہ عدل کی طلب نہیں کرتا؛ اور جب تک وہ فساد کی آگ میں نہ جلے، وہ مصلح کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ اسی لیے امام حسینؑ کی مظلومیت کو زندہ رکھنا اور بار بار سنانا محض تاریخی نوحہ نہیں، بلکہ لوگوں کے دلوں میں عدل اور نجات دہندہ کی شدید ضرورت کو بیدار رکھنا ہے۔ اس مفہوم کے تحت، حقیقی حسینی پیغام دراصل امام مہدیؑ کی راہ ہموار کرنے والا پیغام ہے ۔ بشرطیکہ ہم اسے صرف ایک جذباتی خطاب نہ سمجھیں، بلکہ ایک تحریکی، انقلابی اور شعوری پیغام کے طور پر اپنائیں۔

مجالسِ امام حسینؑ… ظہورِ مہدیؑ کے انتظار کا ایندھن

سالانہ مجالسِ حسینی اور ان کے ساتھ اٹھنے والے جذباتی طوفان اور واقعۂ کربلا کی عظیم داستانیں، درحقیقت امت کی چھپی ہوئی توانائیوں کو ایک عظیم مستقبل کی طرف موڑنے کا ایک نادر موقع ہیں۔ اگر ان مجالس کو درست سمت میں، خاص طور پر تربیتی اور فکری پہلو سے منظم کیا جائے، تو یہ ایسی فکری درسگاہیں بن سکتی ہیں جہاں ظہورِ امام مہدیؑ کے لیے آمادہ نسل تیار کی جائے ۔ ایسی نسل جو یہ سمجھے کہ کربلا کو زندہ رکھنا بذاتِ خود کوئی حتمی ہدف نہیں، بلکہ وہ امامِ زمانہؑ کے قافلے سے جڑنے کا ایک راستہ ہے۔

لہٰذا، ہمیں صرف مظلوم پر رونے سے آگے بڑھ کر مصلح کے راستے پر چلنا ہوگا، اور غم کے اظہار سے آگے بڑھتے ہوئے اپنے آپ اور معاشرے کی تیاری کرنی ہے تاکہ عدلِ الٰہی کا نظام قائم ہو سکے۔ یہ کافی نہیں کہ ہم صرف "لبیک یا حسین" کہیں اور امام مہدیؑ کا انتظار کریں، جب تک ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اصلاح اور عدل کو عملی جامہ نہ پہنائیں۔ امام حسینؑ صرف باتوں کے مصلح نہ تھے، انہوں نے خود میدان میں اُتر کر اپنی جان، اپنے بچوں اور اپنے ساتھیوں کی قربانی دی۔ اسی طرح، امام مہدیؑ بھی اپنی حکومت کسی معجزے سے نہیں قائم کریں گے۔ بلکہ انہیں ایسے باایمان اور باعمل افراد کی بنیاد چاہیے ہوگی، جو پہلے ہی عدل کو اپنی زندگی کا حصہ بنا چکے ہوں۔یہاں عدل سے مراد صرف عدالت یا سیاست نہیں، بلکہ معیشت، معاشرت، تعلیم، خاندانی نظام اور روزمرہ کے تعلقات بھی شامل ہیں۔ جو شخص اپنی بیوی، اپنے ملازمین، یا اپنے ہمسایوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا، وہ امامِ عدل کا مددگار کیسے بن سکتا ہے؟ اور جو شخص خود کو یا اپنے معاشرے کو سدھارنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ امام مہدیؑ کی راہ کیسے ہموار کر سکتا ہے؟

ہمیں ایک ہمہ جہت تربیتی منصوبہ تشکیل دینا ہوگا جو بچوں اور نوجوانوں کے ذہن و دل کو کربلا اور ظہورِ امام مہدیؑ سے جوڑ دے — ایسا منصوبہ جو ان کے اندر اصلاح کی روح اور عدل پر مبنی اقدار کو راسخ کرے، نہ کہ صرف جذباتی وابستگی پر اکتفا کرے۔ یہ منصوبہ محض وقتی یا بےترتیب سرگرمیوں پر مبنی نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کے لیے مضبوط ثقافتی و تربیتی ادارے، تعلیمی نصاب اور مربوط میڈیا بیانیہ کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا منظم نظام جو ایسا انسان تیار کرے جو حسینیؑ اقدار کا علمبردار ہو اور مہدیؑ کے عدل کا سچا منتظر، صرف نعرے کی حد تک نہیں بلکہ عمل کے میدان میں۔

حسینی ماڈل... مہدی کے ماڈل کی بنیاد

امام حسینؑ کے باوفا ساتھیوں نے خدا کی راہ میں قربانی کا ایسا بےمثال نمونہ پیش کیا جو تاریخ میں درخشاں ہے ، اگرچہ ان کی تعداد بہت کم تھی، مگر ان کی ایمانداری، اخلاص اور وفاداری نے ثابت کر دیا کہ سچائی کے لیے بڑی تعداد شرط نہیں۔جیسے امام حسینؑ نے اپنے انقلاب کی شروعات قلیل مگر مخلص افراد سے کی، ویسے ہی امام مہدیؑ بھی ایمان سے لبریز ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ ظہور کریں گے۔ جو اپنی صفائی، تقویٰ اور شعور سے پہچانی جائے گی، نہ کہ کثرت سے۔ یہ حقیقت ہم پر ایک بڑی ذمہ داری ڈالتی ہے۔ کہ ہم خود کو اس دن کے لیے تیار کریں جب دوبارہ حق کی مدد کے لیے صدا دی جائے گی۔

ظہور کی تیاری کا مطلب... عمل، نہ کہ خاموشی

امام مہدیؑ کے ظہور کا انتظار کرنا ایک خاموش بیٹھنے والا انتظار نہیں ہے، بلکہ یہ ایک متحرک طرزِ حیات ہے۔ ایسا طرزِ حیات جو امام حسینؑ کے نقشِ قدم پر ہو،نفس کی اصلاحِ، معاشرے میں عدل کا قیام، ضرورت پڑنے پر قربانی، مصیبت میں صبر، اور ایسا شعور جو باطل سے متزلزل نہ ہو جو آج کے زمانے میں امام حسینؑ کی مدد کے قابل نہ ہو، وہ کل کے ظہور میں امام مہدیؑ کا مددگار نہیں بن سکتا۔

آخر میں یہ بات ہمیں بخوبی سمجھ لینی چاہیے کہ امام حسینؑ اور امام مہدیؑ کے درمیان ربط محض ایک تکراری یاد یا جذباتی وابستگی نہیں، بلکہ ایک انقلابی منصوبہ ہے جو شعور، بصیرت اور ہدف کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم الٰہی عدل کی تمہید اسی وقت دے سکتے ہیں جب ہم عملی عدل کو اپنے معاشرے میں نافذ کریں، اور ہم مصلحِ حقیقی کی حکومت کو صرف اسی صورت میں قائم کر سکتے ہیں جب ہم پہلے خود کی اصلاح کر چکے ہوں۔ اور امام مہدیؑ کا انتظار بھی اس وقت بامعنی ہے جب ہم انتظار کے مقام پر ہوں۔ نہ کہ جیسا بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خاموشی، سکون اور سستی میں وقت گزارنا۔ بلکہ جیسا کہ خدا نے فرمایا: "پس انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں" یعنی ایسا فعال انتظار جو عمل سے بھرپور ہو، امید سے لبریز ہو، بصیرت سے محفوظ ہو، اور حسینؑ کی تحریک سے جڑا ہوا ہو۔

لہٰذا، امام حسینؑ کی تحریک کوئی ماضی کی رکی ہوئی منزل نہیں، بلکہ وہ نقطۂ آغاز ہے۔جو ہمیں امام مہدیؑ کے عدل کی طرف لے جانے والے طویل سفر کی راہ پر ڈالتا ہے۔اور جو شخص پہلے مرحلے یعنی کربلا کی تیاری نہیں کرتا، وہ دوسرے مرحلے یعنی ظہورِ مہدیؑ کے قافلے میں شامل نہیں ہو سکتا۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018