

| مقالات | کیا اسلام انسان کی تعمیر کرتا ہے یا اس کی آزادی سلب کرتا ہے؟ ایک جائزہ

کیا اسلام انسان کی تعمیر کرتا ہے یا اس کی آزادی سلب کرتا ہے؟ ایک جائزہ
الشيخ معتصم السيد أحمد
جدید فکری مباحث میں ایک اہم سوال بارہا اٹھایا جاتا ہے کہ اسلام میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟ کیا اسلام انسانی شخصیت کو نکھارتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے، یا پھر وہ انسان کی آزادی کو محدود کر دیتا ہے اور اسے بے شمار احکام، ہدایات اور پابندیوں میں جکڑ دیتا ہے؟ یہ سوال ایک بار بار مشاہدہ کی جانے والی حقیقت کے نتیجے میں جنم لیتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام، بہت سے دیگر مذاہب کے برعکس، صرف روحانی رہنمائی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ انسانی زندگی کے چھوٹے چھوٹے پہلوؤں تک میں مداخلت کرتا ہے۔مثلاً کھانے پینے، لباس، مالی معاملات، معاشرتی طرزِ عمل، بلکہ انسان کی نفسیاتی کیفیت تک میں وہ رہنمائی اور احکام دیتا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:کیا اسلام کی یہ ہمہ گیری اور جامعیت اس کے کمال کی علامت ہے، یا یہ انسان کی ذات پر تسلط قائم کرنے کی ایک صورت ہے؟
پہلی بات جس کی وضاحت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہ تصور کہ "اسلام ہی واحد مذہب ہے جو سختی سے انسان کی زندگی میں مداخلت کرتا ہے" ایک گمراہ کن خیال ہے، جو بہت سے دینی اور تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتا ہے۔دیگر مذاہب ہمیشہ صرف روحانی یا باطنی عبادات تک محدود نہیں رہے بلکہ زیادہ تر فعال اور زندہ مذاہب جیسے آرتھوڈوکس یہودیت، ہندو مت، اور بدھ مت بھی روزمرہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے لیے تفصیلی نظام رکھتے ہیں، چاہے وہ لباس ہو، کھانا ہو، یا سماجی رویے ہوں۔مثلاً یہودیت میں "کشروت" (یعنی حلال کھانے کے قوانین)، طہارت، ختنہ، آرام کے دن اور دیگر بہت سے معمولاتِ زندگی کے لیے نہایت دقیق احکام موجود ہیں۔ اسی طرح مشرقی مذاہب جیسے تاؤ مت اور بدھ مت میں ایسے مذہبی مراسم پائے جاتے ہیں جو انسان کی چال ڈھال اور بول چال کے انداز تک کو شامل کرتے ہیں۔لہٰذا "زندگی کے امورمیں مداخلت" کا معاملہ صرف اسلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ اسلام کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی رہنمائی ایک مکمل اور مربوط نظامِ اقدار پر مبنی ہےجو زندگی کے ہر پہلو کو بامعنی انداز میں جوڑتا ہے۔
یہ ہم آہنگ اور جامع نظریہ، اسلام کے انسان سے متعلق تصور سے جنم لیتا ہے، جس کے مطابق انسان نہ صرف ایک روحانی وجود ہے اور نہ ہی محض ایک مادی جسم، بلکہ ایک ایسا مرکب وجود ہے جو عقل، روح اور جسم پر مشتمل ہے۔اسی بنیاد پر، کوئی بھی دین جو انسان کی اصلاح اور اسے کمال تک پہنچانے کا دعویٰ رکھتا ہو، ان تینوں پہلوؤں میں سے کسی ایک کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ اور نہ ہی وہ انسان کی عملی زندگی کو بے ترتیبی، بازار کے رجحانات یا افراد کی خواہشات کے رحم و کرم پر چھوڑ سکتا ہے۔اسی لیے جو چیز بظاہر "حد سے زیادہ مداخلت" محسوس ہوتی ہے، وہ درحقیقت انسان کی روزمرہ زندگی کے معاملات میں ایک عقلی اور اخلاقی نظام کی تشکیل ہے،جس کا مقصد انسان کی شخصیت میں توازن پیدا کرنا اور اسے ارتقاء و بلندی کی طرف گامزن کرنا ہے، نہ کہ اسے جکڑنا یا اس کی آزادی سلب کرنا۔
جب اسلام کھانے پینے کے حوالے سے احکام وضع کرتا ہے، تو اس کا مقصد کوئی سخت یا محدود طرزِ خوراک مسلط کرنا نہیں ہوتا، بلکہ انسان کی خواہشات کو قابو میں رکھنا اور اُسے جسمانی یا اخلاقی نقصانات سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔مثال کے طور پر شراب، مردار اور خون کو حرام قرار دینا، دراصل انسان کو ان مضر اور نقصان دہ چیزوں سے بچانے کے لیے ہے۔اسی طرح لباس سے متعلق اسلامی ہدایات انسان کے ذوق و سلیقے پر پابندی لگانے کے لیے نہیں، بلکہ ستر، شرم و حیا، اور شناخت و وقار کی حفاظت کے لیے ہیں-اور اس میں انتخاب اور تنوع کی گنجائش بھی باقی رکھی گئی ہے۔مالی معاملات کے ضمن میں سود، ذخیرہ اندوزی اور دوسروں کا مال ناحق طریقے سے کھانے کی ممانعت بھی کوئی بے معنی مداخلت نہیں، بلکہ فرد اور معاشرے کو لالچ، استحصال اور ناانصافی سے بچانے کی حکمت عملی ہے۔درحقیقت یہی وہ مقاصد ہیں جن کے حصول کی کوشش آج کی جدید ترین معیشتیں بھی کر رہی ہیں، اگرچہ ان کے طریقۂ کار مختلف ہو سکتے ہیں۔
اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس دعوی کا جواب دیا جائے کہ اسلام کی یہ جامعیت انسان کی عقل کو مفلوج کر دیتی ہے اور اُسے آزادانہ سوچنے سے روکتی ہے۔ یہ دعویٰ دراصل انسان اور دین کے تعلق کو اسلامی نقطۂ نظر کے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔اسلام عقل کو معطل نہیں کرتابلکہ اسی کو ذمہ داری (تکلیف) کی بنیاد بناتا ہےاور سینکڑوں آیات میں عقل و فہم پر زور دیتا ہے۔ قرآن کا پہلا خطاب جو نبی اکرم ﷺ کو دیا گیا، وہی "اقرأ" یعنی "پڑھ" سے شروع ہوتا ہے اور پھر قرآن میں بار بار "تفکر"، "تعقل"، "تدبر" اور "زمین میں چل پھر کر غور کرنے" کی دعوت دی گئی ہے۔ اسلام میں انسان کو اندھی تقلید کی نہیں، بلکہ شعوری فہم اور بصیرت کے ساتھ ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ وہ صرف مان لینے کے بجائے سمجھ کر یقین کرے، اور آزادانہ غور و فکر کے ذریعے اپنی اعتقادی بنیادوں کو مستحکم کرے۔
جو شخص نبی اکرم ﷺ اور اہل بیت علیہم السلام کی سیرت پر غور کرے، وہ دیکھے گا کہ انہوں نے اپنے اصحاب کی تربیت غور و فکر، مکالمے اور تدبر کے ذریعے کی، نہ کہ انہیں خاموش اطاعت گزار بنا یا۔اسی طرح اسلامی تاریخ کے بڑے علما، مفکرین اور فلسفی اگر دیکھے جائیں تو وہ نہ تو لادینیت کے پروردہ تھے، نہ ہی خود سری کے راستے سے آئے تھے بلکہ وہ دین کے فکری نظام کا حصہ تھے۔ انہوں نے فقہ، فلسفہ، علم کلام، ریاضی اور فلکیات جیسے علوم میں اجتہاد کیا، بحث کی اوران کی بنیادیں رکھیں اور یہ سب کچھ انہوں نے ایک مکمل اسلامی قانونی نظام کے اندر رہتے ہوئے کیا۔
یہ کہنا کہ دینی ہدایات انسان کی شخصیت کو مٹا دیتی ہیں اور اس کی انفرادیت کو ختم کر دیتی ہیں، دراصل اس حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ آج کی جدید، بظاہر آزاد معاشرے میں بھی بہت سے افراد اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ وہ مارکیٹ، میڈیا اور ٹیکنالوجی کے دباؤ میں اپنی پہچان کھو بیٹھتے ہیں۔ایسی "آزادی" جو انسان کو زندگی کے کسی مقصد یا راہ پر نہ ڈالے، اکثر اندرونی انتشار، وجودی بکھراؤ، یا کسی نرم قوت کے زیرِ اثر غلامی میں بدل جاتی ہے۔ ایسی قوتیں جو زندگی کا طریقہ کار مسلط کرتی ہیں، چاہے وہ اشتہار کے ذریعے ہو، فیشن کے ذریعے ہو، یا میڈیا کے ذریعے ہو ان کی ہی اختیاری غلامی کی جا رہی ہوتی ہے۔
پھر یہ بات بھی اہم ہے کہ اسلام انسان پر ایک جیسا طرزِ زندگی مسلط نہیں کرتا بلکہ وہ ایک عمومی فریم ورک فراہم کرتا ہے جس میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پابندی ضروری ہوتی ہے اور باقی تفصیلات میں انسان کو کشادگی اور انتخاب کی مکمل آزادی دی جاتی ہے۔اسلام میں نہ تو لباس کا کوئی خاص رنگ مقرر ہے، نہ ہی کھانوں کی کوئی مخصوص قسم (جب تک وہ حلال ہوں) اور نہ ہی گفتگو، رہائش، سفر یا باہمی معاملات کے لیے کوئی ایک ہی طرز لازمی قرار دیا گیا ہے۔
یہ تمام معاملات ایسے ہیں جن میں عرف، ذوق اور انسانی عقل کے لیے وسیع گنجائش رکھی گئی ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کے مقاصد سے متصادم نہ ہوں۔یہی بات اسلامی شریعت کو اُس سے کہیں زیادہ لچکدار اور حقیقت پسند بناتی ہے جتنا اکثر لوگ گمان کرتے ہیں، نیز یہ اسے مختلف معاشرتی و تہذیبی ماحول میں اپنا اصل برقرار رکھتے ہوئے باقی رہنے کی غیر معمولی صلاحیت عطا کرتی ہے۔
اکثر دہرائی جانے والی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ "آزادی" اور " شتر بےمہار ہونے" کو ایک ہی چیز سمجھ لیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہر معاشرہ، چاہے وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، اپنے افراد پر کچھ اصول اور حدود ضرور عائد کرتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی سماجی نظام میں مکمل اور مادر پدر آزاد، آزادی نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔اصل سوال یہ ہے کہ: یہ حدود کون مقرر کرتا ہے؟ اور کون یہ ضمانت دیتا ہے کہ یہ حدود منصفانہ بھی ہیں یا نہیں؟لبرل معاشروں میں یہ حدود قانون، عوامی ذوق یا سماجی معاہدے کے نام پر طے کی جاتی ہیں جبکہ اسلام میں ان حدود کا ماخذ وحی ہوتا ہے، جو ان اصولوں کو ایک مقدس حیثیت دیتا ہے۔ اس طرح یہ قوانین انسانی خواہشات، مفادات، یا اداروں کی طاقت کے بجائے اللہ کی حکمت اور عدل کے تابع ہوتے ہیں۔
یہاں اسلامی نظام کی خوبی نمایاں ہو جاتی ہے: وہ انسان کی آزادی کو ختم نہیں کرتا بلکہ اُسے صحیح رخ دیتا ہے اور اس کی مرضی کو سلب نہیں کرتا بلکہ اُسے سنوارتا ہے۔اسلام یہ نہیں چاہتا کہ انسان ایک سرکش مخلوق بن جائے جو صرف اپنی ذات کو ہی مانے اور نہ ہی وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان ایک بے جان مخلوق بن جائے جو حالات کے آگے بے بس ہو۔ اسلام انسان کو ایک باشعور، سمجھ دار اور صاحبِ ارادہ ہستی بنانا چاہتا ہے جو خود فیصلہ کرے اور یہ جانتا ہو کہ اس کی آزادی کا کوئی مقصد ہے اور اس کی زندگی کے پیچھے ایک اعلی مقصد موجود ہے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی جامعیت انسان پر کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے، جو اسے اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے جسم اور روح، دنیا اور آخرت اور اپنی انفرادی آزادی اور سماجی ذمہ داری کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ جی سکے۔یہ جامعیت انسان کو مٹاتی نہیں بلکہ نکھارتی ہے، اس کا توازن بحال کرتی ہے اور اسے ایسا شعور عطا کرتی ہے جو وقتی خواہشات اور عارضی لذتوں سے آگے دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہےیہ آزادی کی دشمن نہیں، بلکہ اس کی نگہبان ہے تاکہ آزادی، نفس یا لوگوں کی چھپی ہوئی غلامی میں تبدیل نہ ہو جائے۔
اسی طرح جب اسلام انسان کی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرتا ہے تو
وہ اسے اس کی ذات سے دور نہیں کرتابلکہ اسے اس کی حقیقت کی طرف
لوٹاتا ہے، اس کو اس کی قدر و قیمت سے آگاہ کرتا ہےاور اُسے ایک
متحرک، بااختیار اور ذمہ دار انسان بننے پر اُبھارتا ہے نہ کہ محض
حالات کا شکار یا دوسروں کے پیچھے چلنے والا غلام محض بنا دے۔اور جو
یہ سمجھتا ہے کہ پابندی اختیار کرنے سے عقل مر جاتی ہے، اسے اس
نظریے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیےکیونکہ ممکن ہے کہ وہی عقل جو کسی نظم
و ضبط کو قبول نہیں کر رہی، دراصل حقیقی آزادی سے خائف
ہو۔