

| مقالات | ڈاکنز نہ نبی ہے، نہ اس کی کتاب (The God Delusion) وحی کا درجہ رکھتی ہے

ڈاکنز نہ نبی ہے، نہ اس کی کتاب (The God Delusion) وحی کا درجہ رکھتی ہے
تحریر: شیخ مقداد الربیعی
آج کے فکری منظرنامے میں جو ایک نمایاں رجحان ہمارے سامنے آ رہا ہے، اسے "جدید الحاد" کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا فکری دھارا ہے جو بےباکی، جراتِ اظہار اور اپنے فکری نتائج پر غیر معمولی اعتماد کے ساتھ نمایاں ہے۔ اس رجحان کی اشاعت مختلف ذرائعِ ابلاغ اور اظہار کے جدید وسائل کے ذریعے تیزی سے ہو رہی ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اس کے مضامین، اس کی اساس اور اس کے فکری اثرات پر سنجیدہ اور تنقیدی انداز میں غور کریں تاکہ عصر حاضر کے فکری حلقوں میں اس کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
عصر حاضر کے ملحدین کی تحریروں کے چونکا دینے والے عنوانات ہی اُن کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کا پتہ دیتے ہیں، جو قاری کی توجہ کھینچتے ہیں۔ مثال کے طور پر، رچرڈ ڈاوکنز کی متنازع کتاب The God Delusion"" یا کرسٹوفر ہچنز کی اشتعال انگیز تصنیف "God Is Not Great"، اسی طرح سیم ہیرس کی دو کتابیں "ایمان کا خاتمہ" اور "خالق کا ناممکن ہونا"— یہ سب دراصل ایک طویل فہرست میں سے چند نمونے ہیں۔یہ حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی "نئے الحاد" کی سب سے نمایاں اور پہچانی جانے والی خصوصیت ہے۔ قرآنِ کریم نے اس ذہنی کیفیت کو "اطمینان" کے لفظ سے تعبیر کیا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ ( (یونس: 7)
ترجمہ: بے شک وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے، اور دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے ہیں، اور اسی پر مطمئن ہو بیٹھے ہیں، اور جو ہماری آیات سے غافل ہیں" پس یوں قرآنِ مجید واضح کرتا ہے کہ ملحد کے دل میں بھی ایک طرح کا اطمینان یا اعتماد جنم لیتا ہے، جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی گھٹتا ہے،بالکل ویسے ہی جیسے ایک مؤمن کے دل میں ایمان کی کیفیت کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔
یہ بڑھی ہوئی خود اعتمادی کئی زاویوں سے ظاہر ہوتی ہے، جو اس فکری رجحان کی اصل حقیقت اور اس کے مقاصد کو آشکار کرتی ہے۔ نئے ملحدین کے نزدیک الحاد ہی واحد منطقی انتخاب ہے، جسے کوئی بھی صاحبِ عقل نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ان کے خیال میں یہ آزاد، غیر جانبدار اور خالص فکری غور و فکر کا قدرتی نتیجہ اور ناگزیر خلاصہ ہے۔
نئے ملحد کی یہ خود اعتمادی اس کے مخصوص رویّوں میں جھلکتی ہے، جیسے کہ وہ عام یا خاص محافل، مباحثوں، مناظروں اور فکری پروگراموں میں اپنے آپ کو نہایت پُراعتماد، مطمئن اور پُروقار انداز میں پیش کرتا ہے۔یہ اعتماد اس کی اس تیاری سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دینی بیانیے سے ٹکرانے کے لیے نا فقط ہر وقت تیار رہتا ہے۔بلکہ وہ خود کو ایک ایسے مصلح اور نجات دہندہ کے طور پر دیکھتا ہے جو انسانی نسل کو اُن گھ تعداد وہم و گمان سے بچانا چاہتا ہے جو صدیوں سے انسانوں کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں۔ ہم اس گھمنڈ اور فکری غرور کو اُس کے اس انداز میں بھی محسوس کرتے ہیں کہ جب وہ خود کو ایک درد مند، جذبہ ایثار اور قربانی دینے سے سرشار انسان دوست رہنما سمجھتا ہے۔ ایک ایسا رہنماجو انسانیت کے انجام پر فکرمند رہتا ہے، ماضی پر افسوس کرتا ہے،وہ حال پر ترس کھاتا ہے اور مستقبل کے لیے پرامید رہتا ہے۔
مذہبی مؤرخ کارن آرمسٹرانگ کے بیان کے مطابق: "جہاں تک رچرڈ ڈاوکنز کا تعلق ہے ( اور اسی قبیل کے دیگر نئے ملحدین جیسے سیم ہیرس، جو ایک ابھرتے ہوئے امریکی فلاسفر اور اعصابیات کے طالب علم ہیں، اور کرسٹوفر ہچنز، جو ایک نقاد اور صحافی ہیں) تو ان سب کے نزدیک مذہب ہماری دنیا کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ ان کے خیال میں مذہب سراسر برائی کا منبع ہے، جو ہر چیز کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ یہ افراد خود کو ایک ایسے علمی اور عقلی کارواں کے سرخیل سمجھتے ہیں، جو آخرکار انسانی شعور سے خدا کے تصور کو ہمیشہ کے لیے مٹا دے گا۔"(Armstrong, K. (2009) The Case for God, p. 289)
تہذیب اور الحادی نظریات کا موازن
کچھ لوگ اس خصوصیت کے تعین پر یہ کہتے ہوئے اعتراض کر سکتے ہیں کہ "روشن خیالی"کے دور کا الحاد بھی اعتماد سے خالی نہ تھا، بلکہ ممکن ہے وہ زیادہ پُراعتماد اور مضبوط ہو۔ یہ اعتراض نوعِ اعتماد کے اعتبار سے درست ہو سکتا ہے، لیکن جب ہم "نئے الحاد" کی موجودہ لہر کے ساتھ جو وابستہ خود اعتمادی کی نوعیت کو دیکھتے ہیں، تو یہ اعتراض اس معاملے پرپوری طرح سے منطبق نہیں ہوتا۔
عہد روشن خیالی کے ملحدین کا اعتماد ایک بے لگام اور جذباتی نوعیت کا تھا، یہاں تک کہ اُس دور کے بڑے بڑے ملحدوں نے ہر اُس چیز کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا جو مقدس سمجھی جاتی تھی۔ انہوں نے عبادت گاہوں کو مسمار کیا، مذہبی پیشواؤں کا پیچھا کیا، اور مقدس متون کو نذرِ آتش کر دیا۔ یہ طرزِ عمل مغربی ضمیر کے لیے ایک انتباہ تھا، ایک ایسا انتباہ جو ایک نئی قسم کی اس انتہا پسندی کے خطرے سے آگاہ کر رہا تھا، جو کلیسا کی قرونِ وسطیٰ کی ان تفتیشی عدالتوں کے ظلم سے کچھ کم نہ تھی۔ چنانچہ جلد ہی لوگوں کو یہ ادراک ہوا کہ اس الحادی اعتماد کا تعلق کسی پُرسکون اور متوازن انسانی خود اعتمادی سے نہ تھا، بلکہ یہ ایک غیر محتاط، وحشیانہ بغاوت تھی جس کے نتائج کا انہیں کوئی شعور نہ تھا۔
اس کے برعکس، "نئے الحاد" کے اندر جو عمومی طرزِ اعتماد نظر آتا ہے، وہ مجموعی طور پر ایک "نرم"اعتماد ہے نہ کہ "سخت" ، ایک "مکالماتی"اعتماد ہے، نہ کہ "اخراجی"،"پرامن" ہے، نہ کہ "جارحانہ"،"متوازن" ہے، نہ کہ "بے قابو"، اور "تبلیغی" ہے، نہ کہ "دھمکی آمیز"۔یہی نرمی اور توازن ہے جس نے نئے الحاد کو عوامی شعور میں ایک حد تک قبولیت بخشی، کیونکہ انسانی فطرت ایک ایسے تصورِ کائنات و حیات کو ترجیح دیتی ہے جو سیکولر اور انسان دوست ہو۔
مختصرا ، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اعتماد یا خود اعتمادی کی یہ خصوصیت ہی وہ بنیادی سرچشمہ ہے، جس سے الحادِ جدید کی دیگر نمایاں خصوصیات جنم لیتی ہیں۔کیونکہ جو شخص اپنے الحادی مؤقف کی حقانیت اور ایمانی نقطۂ نظر کی خطا پر اس درجہ یقین رکھتا ہو، وہ نہ صرف اپنے مخالفین کو کمتر سمجھے گا بلکہ ان کی زندگی کے نظریاتی اصولوں کو بھی تمسخر کا نشانہ بنائے گا۔ وہ خود کو اس بات کا اہل سمجھے گا کہ وہ طے کرے کہ کن سوالات کو اٹھانا چاہیے اور کن کو نہیں۔ پس وہ پورے دینی ورثے کو محض چند جملوں یا چند صفحات میں بے وقعت بنا کر زمین بوس کر دینے کی جسارت بھی کرے گا۔
اسی رجحان پر تنقید کرتے ہوئے معروف برطانوی نقاد ٹیری ایگلیٹن نے رچرڈ ڈاوکنز کی کتاب "خدا کا فریب" پر ایک مشہور، تلخ اور گہری تنقیدی تحریر لکھی، جس میں ڈاوکنز کے اس دعوے کو نشانہ بنایا گیا کہ وہ علمِ الٰہیات (Theology) پر سند رکھتے ہیں۔ ایگلیٹن نے طنزیہ انداز میں اپنی تحریر کا آغاز کچھ یوں کیا: "ذرا تصور کریں کہ کوئی شخص حیاتیات (Biology) پر ایک طویل گفتگو کر رہا ہو، جبکہ اس کا کل علم صرف 'برطانوی پرندوں' کی ایک کتاب تک محدود ہو." (Eagleton, T. (2006). Lunging, Flailing, and Mispunching, London Review of Books, Vol. 28, No. 20)
پھر وہ قاری کو دعوت دیتا ہے کہ سوچو، تمہارا کیا حال ہوگا جب تم رچرڈ ڈاوکنز کی علمِ الٰہیات پر لکھی ہوئی تحریریں پڑھو گے!
نفسیاتی اور تاریخی بنیادوں کی تحقیق: میری ذاتی رائے یہ ہے کہ "نئے الحاد" کی فکری طرز گفتار میں جو ایک "بگڑی ہوئی خود پسندی" یا "نرم لیکن غرور بھری رعونت" پائی جاتی ہے، اس کو پوری طرح سمجھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اس رجحان کو جنم دینے والے تاریخی اور نفسیاتی محرکات کو دریافت نہ کریں۔
اور جب ہم اس اعتماد کی جڑوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو یہ طرز عمل نہ صرف ہمیں فائدہ دیتا ہے بلکہ خود ملحد کو بھی۔ کیونکہ نیا ملحد اپنے تیئں "سچائی" کا دعوے دار ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم اسی مفروضے پر اس کے ساتھ بات کریں۔ کیوں؟ تاکہ ہم اس کی بات سنیں، اس کے دلائل کو سنجیدگی سے پرکھیں، اوراس طرح ممکن ہے کہ ہمیں اپنی نجات مذہب کی بجائے الحاد میں، اور خوشی ایمان کی بجائے کفر میں دکھائی دے۔نئے ملحد کی کم سے کم توقع یہ ہے کہ ہم ہر شے کو اسی زاویۂ نظر سے دیکھیں جو موجودہ انسانی تہذیب کے آخری مرحلے نے ہم پر مسلط کر دیا ہے۔
لیکن اس کی توقعات کی بلندی کی کوئی حد نہیں، جو کرسٹوفر ہچنز کی اس غیر محتاط جسارت سے شروع ہوتی ہیں کہ: "مذہب ہر چیز کو زہر آلود کر دیتا ہے"۔ پھر سام ہیرس کی اس دعوت تک پہنچتی ہے کہ: "لوگوں کو چاہیے کہ وہ ایک مخصوص قسم کی عقل سے عاری سوچ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیں"،اور آخرکار رچرڈ ڈاوکنز کے اس پُرزور اصرار پر منتج ہوتی ہیں کہ عام لوگوں کو سائنس کے ذریعے پیدا ہونے والے الحادی نتائج کی خوبیوں کا شعور دلایا جائے، جیسا کہ وہ یقین رکھتا ہے۔
سام ہیرس لکھتا ہے:
"اگر عیسیٰ (علیہ السلام) کچھ اس طرح کہتے کہ: ویٹیکن کی لائبریری میں بالکل 37,226 کتابیں موجود ہیں،اور پھر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ واقعی ایسا ہی ہے، تو ہم کم از کم یہ محسوس کرتے کہ ہم ایک ایسے شخص سے مکالمہ کر رہے ہیں، جو اس کائنات کی ساخت کے بارے میں کچھ حقیقی بات کہنے کی اہلیت رکھتا ہے۔" (Sam Harris, The End of Faith, 2006, p. 77)
یہ طرزِ فکر درحقیقت روحانی اور ماورائے فطرت معاملات سے متعلق نہایت سطحی سوچ کو بےنقاب کرتا ہے۔ یہ مذہب کی حقیقت کو محض چند مادی فارمولوں اور عددی مشاہدات تک محدود کر دیتا ہے، اور یوں وہ ماورائی معنویت اور باطنی حکمت نظرانداز ہو جاتی ہے جو دین کا اصل جوہر ہے۔
اسی طرح، کرسٹوفر ہچنز کی کتاب "God is Not Great" (اللہ اس سے پاک ہے جو وہ کہتے ہیں) کا ذیلی عنوان الحادِ جدید کی انتہائی عمومی، غیر متوازن اور جارحانہ سوچ پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔کیا واقعی آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ اس نوعیت کے بیانات، جو اتنے سخت، مبالغہ آمیز اور عمومی ہیں، کس قدر آسانی سے بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان مقبول ہو جاتے ہیں؟ کیا مذہب واقعی ہر چیز کو زہر آلود کرتا ہے؟ تاریخ کا ایک معمولی سا جائزہ بھی اس دعوے کو بے بنیاد اور کھوکھلا ثابت کرنے کے لیے کافی ہے،جیسے تنکے کو ہوا اڑا لے جاتی ہے، ویسے ہی یہ دعویٰ بھی ٹک نہ سکے گا۔ تو پھر ہم کیا کہیں گے پروٹسٹنٹ تحریک کی اُس تاریخی معاشی و فکری شراکت کے بارے میں جس نے سرمایہ دارانہ نظام کو جنم دیا،چاہے اس کے راستے میں انحراف آیا ہو اور اس کے مفہوم پر اعتراضات موجود ہوں،لیکن آج مغرب کی لادینی نسلیں اسی نظام کی ثمرات سے لطف اندوز بھی ہو رہی ہیں اور اس پر فخر بھی کرتی ہیں؟ اور پھر، کیا ہم اس اجماعی اعتراف کو نظرانداز کر سکتے ہیں جو دنیا کے ممتاز ترین مؤرخین کی ایک بڑی جماعت نے اس حقیقت پر کیا ہے کہ اسلام نے یورپ کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا؟
اسی ضمن میں معروف محقق پیٹر اوبرائن کا ایک علمی و مستند مقالہ بعنوان "اسلامی تہذیب کا قرونِ وسطیٰ کے خاتمے میں کردار" (The Role of Islamic Civilization in the Decline of the Middle Ages) سن 1999ء میں شائع ہوا، جس میں اس تاریخی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح اسلامی علوم و فنون اور تہذیبی اثرات نے یورپ کی فکری بیداری کی بنیاد رکھی
تنقیدی خلاصہ
نئے الحاد میں پائی جانے والی غیرمعمولی خود اعتمادی کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس فکری رجحان کو سطحی انداز میں نہ دیکھیں۔ اگرچہ یہ اعتماد بظاہر پُرکشش اور بااعتماد دکھائی دیتا ہے، مگر اس کے اندر بنیادی تضادات اور تاریخی و فلسفیانہ سچائیوں کی مضر پیوند کاری پوشیدہ ہے۔نئے الحاد کی جو لچکدار دعوت ہے(جسے وہ غیر جانبدار سوچ یا عقلی فیصلہ کہتا ہے)وہ درحقیقت کوئی ایسا معیار نہیں پیش کرتی جو تمام علمی اور فکری رویوں کو منصفانہ طور پر شامل کر سکے۔یہ "غیر جانبداری" دراصل ایسے اصولوں کے تحت سوچنے کی دعوت ہے جو خود الحاد نے طے کیے ہیں۔ وہ علم و تحقیق کی تمام راہوں پر ایک فکری حصار قائم کرتا ہے، یہاں تک کہ سوچنے والے انسان کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جائے: الحاد کا انتخاب۔
علمِ نفسیات میں ایک معروف اصول ہے کہ جو فریم تیار کرتا ہے، وہی نتیجہ پر حکمرانی کرتا ہے" حقیقی تہذیبی مکالمہ(چاہے ہم مؤمن ہوں یا غیر مؤمن)ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم مبالغہ آرائی پر مبنی اعتماد اور فکری برتری کے زعم کو ترک کریں۔ہمیں چاہیے کہ ہم انسانی و کائناتی وجود کی پیچیدگیوں کے لیے کھلے ذہن سے تیار ہوں، کیونکہ اس میں ایسے راز پنہاں ہیں جو آج بھی ہماری عقل کو چیلنج کرتے ہیں، اور ہمیں تخلیق کی عظمت اور وجود کی وسعت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرتے ہیں۔