

| مقالات | تجرباتی سائنس کی حدیں اور مادی نقطہ نظر کی کمزوریاں

تجرباتی سائنس کی حدیں اور مادی نقطہ نظر کی کمزوریاں
الشيخ معتصم السيد أحمد
جدید دنیا میں مادی سوچ کو ایک بڑا فلسفیانہ رجحان سمجھا جاتا ہے۔جبکہ در حقیقت یہ ایک بنیادی مفروضے پر قائم ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وجود صرف اسی چیز کا ہے جو مادی ہواور محسوس کی جاسکتی ہوجبکہ وہ چیز جو حواس کی گرفت میں نہ آئے یا تجربۂ گاہ میں ثابت نہ کی جا سکے، وہ محض ایک واہمہ یا خیالی تصور ہے جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں۔
یہیں سے مادیّت کے مسائل شروع ہوتے ہیں اورپھر یہ مختلف شاخوں میں بکھر جاتے ہیں۔ چونکہ مادی فکر صرف محسوسات کو مانتی ہے، اس لیے جب وہ وجود کے آغاز اور اس کے مقاصد کے بارے میں سوال اٹھاتی ہے، تو وہ پہلے ہی ایک ایسے محدود اور ناقص طریقۂ کار کے تحت سوچنے پر مجبور ہوتی ہے، جو ذرات، خوردبین، اور تجربہ گاہ سے آگے کچھ نہیں دیکھ سکتا۔ فلسفے وہ سوال جو ہمیشہ پوچھے جاتے ہیں کہ"ہم کہاں سے آئے؟ ہم یہاں کیوں ہیں؟ اور ہمارا انجام کیا ہے؟" مادی فکر ان سوالات کا کوئی قانع جواب دینے سے قاصر ہے، کیونکہ اس کا زاویۂ نگاہ میں کائنات کو صرف ذرات اور فزیکل تعاملات کا مجموعہ سمجھتا ہے۔ پس یہی وہ چیز ہے جو مادی نظریے کو وجود کی حقیقت کے حوالے سے ایک مسخ شدہ اور نامکمل تصویر تک محدود کر دیتی ہے۔
جب وجود کی حقیقت کو صرف زمان و مکان تک محدود کر دیا جائے، اور مادے سے ماورا ہر چیز کا انکار کر دیا جائے، تو انسان کے اعلیٰ تجربات - جیسے شعور، ضمیر، حسن، مقصدیت اور روح - سب غیر واضح اور ناقابلِ فہم بن جاتے ہیں، اور ان کی کوئی معقول توضیح ممکن نہیں رہتی۔ ایسے میں یہ اشکال صرف فلسفے کی حد تک محدود نہیں رہتا، بلکہ خود سائنس تک پھیل جاتا ہے۔ مادی فکر صرف غیب کا انکار ہی نہیں کرتی، بلکہ وہ حقیقتِ علمی پر بھی اجارہ داری کا دعویٰ کرتی ہے، گویا کہ کائنات کی آخری اور حتمی تشریح اسی کی مرہوں منت ہے۔ تاہم، یہ تصور خود علم کی فطرت سے ٹکراتا ہے، خاص طور پر فطری علوم کی نوعیت سے، جو استقرائی طریقۂ کار پر قائم ہیں۔ استقراء کا مطلب ہے: جزوی مشاہدات کو بنیاد بنا کر عمومی قواعد اخذ کرنا۔
لیکن استقرائی طریقہ اپنی فطرت کے لحاظ سے کبھی بھی مکمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ حقیقت جسے سائنس بیان کرنا چاہتی ہے، وہ اپنے مظاہر اور جہات میں لامحدود ہے، جبکہ سائنس کے ذرائع جیسے حواس، خوردبینیں، اور تجربہ گاہیں فطری طور پر محدود ہیں، خواہ وہ مشاہدے کی صلاحیت ہو یا زمان و مکان کی قید۔چنانچہ اگرچہ سائنس دان ہزاروں تجربات اور تعاملات کا مشاہدہ کر لیں، تب بھی کچھ ایسے ممکنات باقی رہ جاتے ہیں جو مشاہدے میں نہ آئے ہوں، اور جو کسی بھی قائم کردہ عمومی قاعدے کو رد کر سکتے ہیں۔
چنانچہ جسے ہم "سائنس کے قوانین" کہتے ہیں، وہ درحقیقت عارضی اور مشروط فارمولے ہیں، جن میں کسی بھی وقت نئے شواہد کی روشنی میں ترمیم یا تنسیخ ممکن ہے۔ اور یہ صرف ایک نظری امکان نہیں، بلکہ تاریخِ علم میں ایسا بارہا ہو چکا ہے؛ کتنے ہی نظریات ایسےتھے جو عشروں تک مسلمہ حقیقت سمجھےجاتے رہے،لیکن پھر اُن پر نظرِ ثانی کی گئی یا انہیں دوسرے نظریات سے بدل دیا گیا۔یہ سب اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ یقینِ مطلق تجرباتی سائنس کی فطرت کا حصہ نہیں۔
لہٰذا، یہ دعویٰ کہ (مادی سائنس)کائنات کی ابتدا سے لے کر زندگی، شعور، ضمیر اور اخلاق ، الغرض ہر شے کی تشریح کر سکتی ہے یہ محض ایک شدت پسندانہ فکری موقف ہے، جس کا اصل سائنس کی روح سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ سائنس کی بنیاد تو منظم شک اور معرفت میں انکساری پر ہے۔تجرباتی و حسی طریقۂ کار کو اس حد تک تقدیس دینا کہ اسے مطلق معیارِ حقیقت بنا لیا جائے، خود علم کی اصل روح سے انحراف ہے۔ یہ طرزِ فکر درحقیقت ایک نئی شکل کا (سیکولر ایمان) بن جاتا ہے، جو نفسیاتی ساخت کے لحاظ سے اسی "غیبی ایمان" جیسا ہے، جس پر وہ تنقید کرتا ہے۔اصل حقیقت پسندی تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسانی ادراک کے تمام ذرائع ، جیسے عقلِ مجرد، وجدان، اور وحی کو تسلیم کیا جائے، نہ کہ صرف ایک تنگ روش (یعنی حسی تجربہ) کو واحد راستہ قرار دے کر باقی تمام ذرائع کو پس انداز کر دیا جائے، اور اس رویے کو "علمی حقیقت" کا نام دے دیا جائے۔
یہ ایک غلط روش ہے جسے مادی فکر تسلیم نہیں کرتی، بلکہ اس کے باوصف وہ خالص تجرباتی بنیادوں پر اپنے ماورائی (میٹافزیکل) نظریات قائم کرتے رہتے ہیں، اور خود کو حقیقت پسند قرار دیتے ہیں، حالانکہ ان کا طریقۂ کار صرف ان چیزوں کو ثابت کرتا ہے جو دیکھی، چھوئی یا ناپی جا سکیں۔چنانچہ ایک طرف وہ سائنسی غیر جانب داری اور اپنے روش پر فخر کرتے ہیں، لیکن دوسری طرف جب وہ وجود و عدم، زندگی و موت، روح و انجام جیسے موضوعات پر ماورائی نوعیت کے حتمی فیصلے صادر کرتے ہیں تو ایک واضح تضاد میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام موضوعات حسی دائرے سے باہر ہیں، اور تجرباتی طریقہ ان کے اثبات یا انکار کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صرف عقلِ کہ جو ہر فلسفیانہ اور منطقی تفکر کی بنیاد ہے ، یکسر نظرانداز کر دیتے ہیں، اور اسی طرح وحی کو بھی مسترد کر دیتے ہیں، حالانکہ وحی ایک مستقل معرفتی ماخذ ہے، جس کی اپنی مخصوص منطق اور جداگانہ سیاق ہوتا ہے۔پس ، یہ سب کچھ ترک کر کے وہ ایک ایسی جمود فکری طریقہ کار پر انحصار کرتے ہیں، جو صرف مادی اور محسوس چیزوں کو تسلیم کرتا ہے، حالانکہ محسوسات کائنات کے تمام پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
مادی فکر کا تضاد اس وقت اور نمایاں ہو جاتا ہے جب وہ دینی یا روحانی نظریات کو کسی منطقی یا قطعی دلائل کی بنیاد پر رد نہیں کرتی، بلکہ انہیں محض اس لیے مسترد کر دیتی ہے کہ وہ اُس دائرۂ فہم سے باہر ہیں، جسے اس فکر نے پہلے ہی "حقیقت" کا واحد معیار قرار دے رکھا ہے۔ یہ طرزِ عمل دراصل مطلوب پر پیشگی قدغن لگانے کے مترادف ہے، جو علمی تحقیق کے منہج میں روا نہیں۔سائنس کے اصولوں کے مطابق کسی نظریے کو صرف اس لیے رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ محقق کے اختیار کردہ فکری سانچے سے مطابقت نہیں رکھتا، بلکہ اسے اسی کے پس منظر میں سمجھنا اور جانچنا چاہیے ۔خالق کے وجود کا انکار، روح کی نفی، یا کائنات کے اصل مقصد کا مذاق، اگر بغیر کسی عقلی و استدلالی مکالمے کے کیا جائے، تو یہ علمی طریقہ نہیں بلکہ ایک ایسی طرزِ فکر پر مبنی تعصب ہے، جو سائنسی لبادہ اوڑھ کر درحقیقت ایک بند ذہنیت اور تنقیدی شعور کی کمی کا اظہار ہے۔
یہ دعویٰ کہ"حقیقت پسندی" کے ایک نئے دور کی جدید شدت پسندی میں بدل جاتا ہے، جو غیب کا انکار اس لیے نہیں کرتی کہ اس نے اسے جانچا اور ناکام پایا، بلکہ اس لیے کہ وہ صرف اسی کو مانتی ہے جو اس کے مائیکروسکوپ کے نیچے آئے۔ حالانکہ خود وہ مائیکروسکوپ بھی بہت سی ایسی اشیاء کے وجود سے عاجز ہے، جنہیں حواس نہیں پا سکتے جیسے مقناطیسی میدان، تاریک توانائی، یا حتیٰ کہ شعور اور ارادہ جیسے انتزاعی مفاہیم۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہر وہ چیز جو حواس کی گرفت میں نہ آئے، وجود ہی نہیں رکھتی؟انسانی عقل جو خود مادی فکر کا بنیادی تجزیاتی آلہ ہے وہ مادی نہیں ہے۔ انسانی شعورکو کسی تجربہ گاہ میں قید نہیں کیا جا سکتا، اور ریاضی جس پر طبیعیاتی سائنس کی بنیاد قائم ہےمحض ایک مجردعقلی نظام ہے۔تو کیا ہم ان سب کو محض وہم کہہ کر رد کر دیں؟
دوسری طرف، خالق پر ایمان محض مذہبی تعلیمات پر مبنی نہیں، بلکہ یہ مضبوط عقلی دلائل پر بھی استوار ہے،کہ خالق مادی نہیں ہو سکتا، کیونکہ اگر وہ مادی ہو تو اسے لازماً زمان و مکان کی قید میں ہونا پڑے گا، اور جو چیز خود محدود ہو، وہ مطلق کو پیدا نہیں کر سکتی۔اللہ کا مطلق وجود ایک عقلی ضرورت ہے تاکہ ہم اس نظامِ کائنات کی اصل کو سمجھ سکیں۔ کیونکہ مادہ نہ خود اپنے وجود کی وضاحت دیتا ہے، نہ خود کو منظم کرتا ہے، اور نہ ہی اپنے لیے کوئی غایت متعین کرتا ہے۔رہی بات قرآنِ کریم کی، تو اس نے اس بحث کا فیصلہ نہایت جامع اور محکم الفاظ میں کر دیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ﴾ کیا یہ خود بخود پیدا ہو گئے ہیں، یا یہ خود اپنے خالق ہیں؟
یہ آیت عقل کے سامنے ایک آئینے کی مانند کھڑی ہو جاتی ہے، کہ اگر انسان نے خود کو پیدا نہیں کیا، اور نہ ہی وہ بغیر کسی خالق کے عدم سے پیدا ہو گیا ہے، تو ایسے میں عقل خود پکار اٹھتی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ایسا موجود ہے جو عالم، حکیم اور قادر ہے۔
اور اگر کوئی مادہ پرست یہ دعویٰ کرے کہ تخلیق ایک اتفاقیہ عمل تھا، تو ہم اس سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا محض اتفاق ایسی کائناتی ترتیب، ایسا ہم آہنگ نظام پیدا کر سکتا ہے جو لاکھوں برس سے جاری ہے اور ذرا سا خلل بھی نہیں آیا؟ اور اگر وہ کہے کہ زندگی کا آغاز ایک خلیےسے ہوا، تو ہم پھر سوال کرتے ہیں کہ اس خلیے کو کس نے وجود بخشا؟ اس میں وہ پیچیدہ جینیاتی رمزکس نے رکھ دی؟ اسے ذاتی تشخص اور شعورکس نے عطا کیا؟ قرآنِ کریم صرف خالق کے وجود کا اثبات نہیں کرتا، بلکہ اس کی کامل صفات کو بھی واضح کرتا ہے:وہ اول و آخر ہے، ظاہر و باطن ہے، علیم و حکیم ہے، اس کی کوئی مانند نہیں، اور وہ ہر قسم کی کمی اور نقص سے پاک ہے۔قرآن اس بات کا چیلنج بھی پیش کرتا ہے کہ جو کوئی بھی خود کو خالق یا خود مختار فاعل کہتا ہے، وہ دلیل لے کر آئے:﴿إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَاباً وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ﴾ بے شک وہ جو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے، چاہے سب مل جائیں۔
یہ چیلنج آج بھی قائم ہے،حالانکہ انسان نے صنعت، مصنوعی ذہانت، اور جینیاتی انجینئرنگ جیسے میدانوں میں بے پناہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن جو کچھ انسان کرتا ہے وہ محض خدا کے پیدا کردہ اجزاء کی نئی ترتیب ہے، نہ کہ عدم سے کوئی نئی تخلیق۔اور عجیب بات یہ ہے کہ مادی نظریے کو ماننے والے، باوجود اس کے کہ وہ غیب کو رد کرتے ہیں،ان میں وہی غیب پایا جاتا ہے جس کی خبر قرآن نے چودہ سو سال پہلے دی تھی:﴿مَا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ﴾ میں نے انہیں کبھی آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا گواہ نہیں بنایا، اور نہ ہی اپنی ذات کی تخلیق کا۔
اللہ کی وحی نے ہمیں بتایا کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بغیر علم کے تخلیق کے بارے میں بات کریں گے،وہ ایسی باتیں کریں گے جو وہ نہیں جانتے، وہ ان چیزوں کا انکار کریں گے جو وہ نہیں دیکھتے،اور ایسے ہی دگر موضوعات پر دلیل کے بغیر بحث کریں گے۔پھر بھی وہ سمجھیں گے کہ وہ روشن خیال ہیں،حالانکہ وہ اندھیرے میں کھڑے ہیں اور ہراس چیز کو رد کرتے ہیں جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چھو نہیں سکتے۔مادی نظریہ نہ تو حقیقت کو صحیح طریقے سے سمجھاتا ہے اور نہ ہی علم میں اضافہ کرتا ہے، بلکہ یہ چیزوں کو اور زیادہ الجھا دیتا ہے اور شک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ یہ انسان کو علم کی روشنی نہیں دیتا بلکہ اسے اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔ سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ نظریہ غیب (یعنی نہ دیکھنے والےحقائق) کا انکار تو کرتا ہے، لیکن جب قرآن کی پیش گوئیاں سچ ثابت ہوتی ہیں، تو خود یہی نظریہ غیب کی سچائی کا ثبوت بن جاتا ہے۔
آخر میں، وہ خالق جس نے سورج کو پیدا کیا،اس نے اپنا نام اس پر لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی،کیونکہ اس نے فطرت اور عقل کو ایسا سبق دیا جو اس کیاز خود نشان دہی کرتا ہے،جبکہ بیان کا کام قرآن کو سونپ دیا۔ جو اسے نہیں دیکھ سکتا وہ درحقیقت انکھوں کا اندھا نہیں بلکہ وہ دل کا اندھا ہے۔