

| مقالات | ملحدین کے دین سے متعلق غلط تصورات

ملحدین کے دین سے متعلق غلط تصورات
الشيخ معتصم السيد أحمد
یہ بات نہایت ہی افسوسناک ہے کہ دین کے بارے میں کئی غلط فہمیاں بعض افراد کے ذہنوں میں اس حد تک راسخ ہو چکی ہیں کہ وہ انہیں ایسی ناقابل تردید حقیقت سمجھنے لگے ہیں جن پر کوئی گفتگو یا نظرِ ثانی ممکن نہیں۔یہ غلط تصورات نہ کسی سنجیدہ دینی تحقیق کا نتیجہ ہوتے ہیں، نہ ہی مذہبی نصوص یا عقائد کے گہرے مطالعے سے اخذ کیے گئے ہوتے ہیں، بلکہ اکثر اوقات یہ سطحی سوچ، ذاتی تجربات یا جہالت پر مبنی معاشرتی اثرات کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔اکثر لوگ اپنی دینی معلومات عوامی کہانیوں، سنی سنائی باتوں، یا موروثی عقائد سے حاصل کرتے ہیں، جو دین کی اصل روح سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تصورات ان دینی تجربات پر بھی مبنی ہوتے ہیں جنہیں سیاسی یا سماجی مقاصد کے تحت بگاڑ دیا گیا ہوتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ غلط فہمیاں انسان کے لاشعور میں اس قدر بیٹھ جاتی ہیں کہ آخرکار ایک "پکی دینی سوچ" کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں۔نتیجتاً، ایسا فرد دین اور دینداری کے بارے میں منفی یا دشمنی پر مبنی رویّہ اپنانے لگتا ہے۔
اسی زاویے سے اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ اکثر ملحدین اپنی رائے دین کے بارے میں کسی سنجیدہ تنقیدی یا فکری تحقیق کی بنیاد پر قائم نہیں کرتے۔عموماً انہیں دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے یا اس کی گہرائی میں جانے کا موقع ہی نہیں ملا ہوتا۔ان کے ذہنوں میں دین کا جو تصور قائم ہوتا ہے، وہ شدت پسند، ناپختہ اور گمراہ کن مذہبی رویوں سے اخذ کردہ ہوتا ہے، جو انہوں نے اپنے اردگرد کے ماحول یا معاشرتی تجربات سے سیکھا ہوتا ہے۔اسی بنیاد پر وہ دین کو ایک جامد، دقیانوسی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھے بیٹھے ہوتے ہیں، اور اسے محض پرانے خیالات و رسوم کا مجموعہ تصور کرتے ہیں، جس کا ان کی جدید زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔یہی سوچ رفتہ رفتہ انہیں دین سے بدظن کر کے دین مخالف نظریات کی طرف مائل کر دیتی ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں الحاد (دین سے انکار) کی صرف یہی ایک وجہ نہیں، مگر یہ ایک اہم اور مؤثر سبب ضرور ہے۔ان افراد کی نفسی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ دین کو رد کرنے اور اس کی اقدار پر شکوک و شبہات قائم کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہی نفسیاتی رجحان انہیں ہر اُس سوچ کو قبول کرنے پر آمادہ کر دیتا ہے جو ان کے خیالات کو تقویت دے۔وہ جن فکری سوالات، ذہنی الجھنوں اور وجودی اضطراب کا شکار ہوتے ہیں، ان کا حل وہ صرف الحاد میں دیکھتے ہیں۔اس تناظر میں الحادی نظریات ان کے لیے ایک ایسا راستہ بن جاتے ہیں جس کے ذریعے وہ اُن پابندیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ان کے نزدیک دین اُن کی سوچ، آزادی اور تخلیقی صلاحیتوں پر زبردستی مسلط کرتا ہے۔وہ الحاد کو ایک موقع سمجھتے ہیں کہ وہ مذہبی روایات سے ذہنی آزادی حاصل کر کے اپنی فکر کو نئے سرے سے مرتب کر سکیں۔ ان کے نزدیک مذہبی تعلیمات ترقیِ فکر کی راہ میں رکاوٹ ہیں، چنانچہ وہ الحاد کے ذریعے ایک ایسے ذہنی سکون اور آزادی کا تجربہ کرتے ہیں جو انہیں مذہب کے دائرے میں ممکن نظر نہیں آتا۔
یہ افراد دین کو ایک محدود نظریے کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ذہن میں موجود بگڑی ہوئی باتیں ہی دراصل دین کی اصل بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تصورات دین کے اصل پیغام کی عکاسی ہی نہیں کرتے بلکہ وہ تحریفات اور بگاڑ کا نتیجہ ہیں جو دینی عقائد و نظریات کے ساتھ وقت کے ساتھ ساتھ پیش آئے۔ یہ بگاڑ غلط تشریحات، یا ثقافتی اور سماجی اثرات کی وجہ سے پیدا ہوا جس نے دین کے اصل مفہوم کو کمزور کر دیا اور اس کے حقیقی معنی کو بھی نقصان پہنچایا۔
بناوٹی مؤقف کا مغالطہ (اصل بات کو بگاڑ کر مخالفت کرنا)
بہت سے ملحدین بڑی فکری غلطی کرتے ہیں کہ وہ دین کو ان نظریات کی بنیاد پر جانچتے ہیں جو دراصل دین کی حقیقی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ دین کے بارے میں ان کے غلط فہم کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس فکری غلطی کو "آدمِ تنکے" (بات کو غلط رنگ دے کر جھٹلانا) کہا جاتا ہے، جس میں کوئی شخص کسی نظریے یا مؤقف کا غلط، کمزور یا سادہ سا خاکہ بناتا ہے اور پھر اسی مصنوعی خاکے پر تنقید کرتا ہے یعنی اصل اور حقیقی نظریے پر بحث کرنے کی بجائے اس غیر حقیقی کمزور نظریے پر بحث کی جاتی ہے۔مثال کے طور پرکچھ ملحد، دین کو صرف ایسی چیز سمجھتے ہیں جو لوگوں پر احکامات اور پابندیاں لگا کر ان کے ذہن بند کرنا چاہتی ہے جبکہ حقیقت میں دین انسان کو آزادانہ سوچنے، کائنات اور زندگی پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس غلط سوچ کی بنیاد پر وہ دین پر تنقید کرتے ہیں اور اسے پسماندہ قرار دیتے ہیں۔ملحدین جستجو نہیں کرتے کہ وہ گہرائی میں جا کردین کی اُن تعلیمات کو سمجھیں جو تحقیق، سچ کی تلاش اور منطقی سوالات کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
دین کے ساتھ گہرا تعلق
جب ہم دین کی بات کرتے ہیں تو اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کی اصل اور معتبر بنیادوں کی طرف رجوع کریں یعنی اس کے مقدس متون اور اس کی حقیقی روح سے استفادہ کریں۔ دین کو غلط تشریحات یا ذاتی رائے کی بنیاد پر سمجھنا جو کسی خاص ثقافت یا فقط نامکمل تجربات سے متاثر ہوں درست طریقہ نہیں ہے۔ دین کو سطحی خیالات یا کمزور تاویلوں سے نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اسے سائنسی اور غیر جانبدار تحقیق کے اصولوں کے مطابق، دقت اور دیانت داری سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے تحقیقی طریقے دین کے اصل مفہوم کو واضح کرتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ دین انسان کی زندگی کو منظم کرنے کے لیے کس طرح اعلیٰ مقصد کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
دین صرف چند روایتی عقائد یا ثقافتی رسومات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظامِ اقدار ہے جو انسان اور اس کے خالق کے درمیان تعلق کو واضح کرتا ہے۔ یہ ایمان، اطاعت اور غور و فکر جیسے بنیادی اصولوں پر اس تعلق کی بنیاد رکھتا ہے۔ یہ اصول صرف عبادات تک محدود نہیں رہتے بلکہ انسان کی پوری زندگی پر محیط ایک ہمہ گیر نظریہ پیش کرتے ہیں۔ دین انسان کو ایسے اصول فراہم کرتا ہے جو اس کے اردگرد کی کائنات سے اس کے تعلقات اور رویوں کو اعلی سمت دیتے ہیں۔ اس طرح دین صرف عبادات تک محدود نہیں رہتا بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو شامل ہوتا ہے اور انسان کو روحانی کمال اور اخلاقی بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔
اللہ پر ایمان، دین کا جوہر
دین کی درست تفہیم اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب اس کے بنیادی تصورات کے ساتھ گہرا اور شعوری تعلق قائم کیا جائے اور اس عظیم مقصد کو سمجھا جائے جس کے لیے دین آیا ہے۔ دین صرف عبادات یا رسمی اعمال کا نام نہیں بلکہ یہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو شامل کرنے والا ایک مکمل نظریہ حیات ہے۔ اس دقیق فہم کے لیے ضروری ہے کہ انسان دین کے بنیادی اصولوں جیسے عقیدہ، عبادت اور اخلاق کے ساتھ تعلق قائم کرےتاکہ وہ ایک ایسی زندگی گزار سکے جو معنی اور مقصد سے بھرپور ہو جیسا کہ دین اس کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام کی مثال لی جائے تو اللہ پر ایمان دین کا مرکزی نکتہ اور اسے سمجھنے کی چابی ہے۔ اللہ پر ایمان محض زبانی یا ذہنی اعتراف کا نام نہیں بلکہ یہ اللہ تعالی کے ساتھ ایک مکمل قلبی وابستگی کا نام ہے ۔ یہ ایمان انسان کو خالقِ کائنات کے ساتھ براہ راست تعلق قائم کرنے کی طرف لے جاتا ہے جہاں اللہ ہر شے کا سرچشمہ بن جاتا ہے۔ اس تعلق میں انسان درست طور پر اللہ کی طرف سے آئے ہوئے حق کو قبول کرتا ہے اور اُس کے وجود، وحدانیت اور مطلق حکمت کا اقرار کرتا ہے۔
لیکن یہ تسلیم کرنا (یعنی اللہ پر ایمان) صرف ایک نظری یا زبانی اعتراف تک محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک فکری اور روحانی عمل ہے جو انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے ایمان کا اظہار اپنے اعمال اور رویوں کے ذریعے کرے۔ یہ محض اس بات کا اندرونی اعتراف نہیں کہ اللہ موجود ہےبلکہ اس کی بھی گواہی ہے کہ اللہ نے کائنات کو اپنی مرضی سے پیدا کیا ہے اور وہ اسے عدل و رحمت کے اصولوں کے تحت چلا رہا ہے۔ جب انسان اس طرح مکمل طور پر اللہ کے سامنے تسلیم ہو جاتا ہےتو وہ کائنات کے ساتھ اپنا تعلق عدل اور رحمت جیسی اعلی اخلاقی اقدار کی بنیاد پر قائم کرتا ہے جنہیں دین فروغ دیتا ہے۔ اس طرح انسان کی عقل اور روح میں ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جو اُس کی روزمرہ زندگی میں توازن اور معنویت لاتی ہے۔
غیب اور مشاہدہ (شہود) کے درمیان توازن
انسان کو فکری اور علمی توازن تب ہی حاصل ہوتا ہے جب وہ زندگی کو غیب اور مشاہدہ (یعنی جو چیزیں نظر آتی ہیں) کو یکجا کر کے سمجھے۔ زندگی کو صرف ایک پہلو سے دیکھ کر مکمل طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ جو چیزیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، سنتے ہیں یا روزمرہ تجربے سے سمجھتے ہیں (یعنی مشاہدہ) ان کا صحیح مطلب تب ہی سمجھ آتا ہے جب ہم انہیں غیب (یعنی وہ حقیقتیں جو ہماری حس سے ماورا ہیں جیسے اللہ، فرشتے، قیامت وغیرہ) کے تناظر میں دیکھیں۔ اسی طرح غیب کو بھی ہم تب بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں جب ہم اس کے اصولوں کو اپنی روزمرہ زندگی پر لاگو کریں اور ان کا تجربہ کریں۔
غیب اور مشاہدہ کا یہ باہمی تعلق ہی ایک دوسرے کو مکمل کرتا ہے اور ہمیں زندگی کے بارے میں متوازن اور جامع فہم عطا کرتا ہے۔ غیب پر ایمان ہمیں زندگی میں روحانیت، مقصد اور اخلاقی معنی دیتا ہے جبکہ مشاہدہ ہمیں وہ عملی میدان فراہم کرتا ہے جہاں ہم ان خیالات کا تجربہ کر سکتے ہیں اور اپنا بھی سکتے ہیں۔ جب یہ دونوں پہلو ہم آہنگ ہو جائیں تو انسان ایک مکمل نظریہ حیات حاصل کر سکتا ہے اور وہ ذہنی و روحانی توازن بھی حاصل کر لیتا ہے۔یہ دونوں پہلو غیبی اور مشاہداتی، ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور انسان کے اللہ اور کائنات سے تعلق کو متوازن بناتے ہیں۔ اللہ پر ایمان صرف اس کے وجود کو ماننے کا نام نہیں بلکہ ان چیزوں کو بھی تسلیم کرنا ہے جو نظر نہیں آتیں اور ساتھ ہی اپنی اس دنیا میں اخلاقی اور روحانی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنا ہے۔ جب انسان غیب پر ایمان اور ظاہری دنیا کے مشاہدے کے درمیان توازن قائم کرتا ہے تو وہ اپنے دل و دماغ کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہےاور ایک ایسی زندگی گزارتا ہے جو معنی، مقصد اور سکون سے بھرپور ہوتی ہے۔
الحاد اور فکری توازن کی کمی
جب انسان خالق کے وجود کاانکار کرتا ہے تو دراصل وہ اپنی موجودگی کی بنیاد کو ہی رد کر رہا ہوتا ہے۔ خالق پر ایمان وہ بنیادی ستون ہے جس پر کائنات اور زندگی کے بارے میں ہمارے تصورات قائم ہوتے ہیں۔ الحادی فکر اللہ کے وجود کا رد کرتی ہے اور ایک ہم آہنگ اور مکمل نظریہ حیات کی صلاحیت کو ہی نقصان پہنچاتی ہے۔ انسان کیسے کسی مخلوق کے وجود پر ایمان رکھ سکتا ہے جبکہ وہ اس کے خالق کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا؟ یہ سوال الحادی فکر میں موجود اندرونی تضاد کو ظاہر کرتا ہےجہاں انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی چیز کے وجود کو تسلیم کرے اور اس کے اصل مصدر کو نہ مانے۔یہ تضاد ہے جس کی وجہ سے ملحد کو ایک ہم آہنگ فلسفیانہ نظریہ تشکیل دینے میں مشکل پیش آتی ہے جو کائنات اور زندگی کے بارے میں اس کے سوالات کا جواب دے سکے۔ حقیقت میں الحاد کائنات کو سمجھنے کے لیے کوئی منطقی متبادل فراہم نہیں کرتابلکہ انسان کو فکری اور جذباتی اضطراب کی حالت میں چھوڑ دیتا ہےکیونکہ خالق کے وجود کو رد کرنے سے وہ تمام اصول بھی رد ہو جاتے ہیں جن پر اخلاق اور اقدار کے معیارات قائم ہیں۔ نتیجتاً ملحد بے شمار سوالات میں پھنس جاتا ہے جن کے جواب اسے نہیں مل پاتےاور اس کے لیے ایک مکمل اور متوازن نظریہ تشکیل دینا مشکل ہو جاتا ہے جو اس کی روحانی اور مادی خواہشات کو پورا کر سکے۔
اس نقطہ نظر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایمان صرف اللہ کے وجود کا عقلی طور پر اعتراف کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں اس علم کو روزمرہ زندگی کے حالات میں عملی طور پر نافذ کرنے کا عہد بھی شامل ہوتا ہے۔ صحیح ایمان کا مطلب صرف اللہ کے وجود کا ذہنی طور پر اقرار کرنا نہیں بلکہ دین کی اقدار اور اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہے۔یہ اصول و اقدار انسان کی زندگی کے مختلف مقامات میں رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ جب انسان ایمان کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر سمجھتا ہے تو یہ ایمان فطرت کے مطابق بلند مقاصد حاصل کرنے کی طاقت دیتا ہے اور متوازن اور مکمل شخصیت بنانےکی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
جب ایمان اچھے عمل کے ساتھ ملتا ہے تو انسان کا ہر عمل اس کے ایمان کا سچا عکس بن جاتا ہے جس سے وہ اندرونی اور بیرونی توازن حاصل کرتا ہے۔ یہ توازن ذہنی سکون دیتا ہےکیونکہ فرد اپنی مذہبی اور اخلاقی اقدار کے مطابق زندگی گزار کر اندرونی سکون محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح اچھا عمل سماجی امن کے قیام میں مدد دیتا ہے کیونکہ ایک مومن دوسروں کے ساتھ انصاف اور محبت پر مبنی مثبت تعلقات قائم کرتا ہے جو کہ معاشرتی استحکام اور ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔اس کے برعکس، جب انسان خالق کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ اس توازن کو حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔ اس کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی میں مقصد کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ہمیں اس حقیقت کی طرف واپس لے آتا ہے کہ ایمان بالله وہ بنیاد ہے جس پر سب کچھ قائم ہے اور انسان اپنی زندگی میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ اس بنیاد کو تسلیم نہ کرے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے ملحدین نے دین کو غلط تفہیم کی بنیاد پر مسترد کیا ہے جو دین کی اصل حقیقت کو نہیں دکھاتی۔ انہوں نے دین کو یا تو ثقافتی ورثے سے غلط سمجھا یا پھر معمولی تجربات جن سے اسے اصل بات سمجھ ہی نہیں آئی۔ اصل جوہر اور صحیح مفہوم کو سمجھے بغیر ان غلط تصورات کی وجہ سے انہوں نے دین کا مکمل طور پر انکار کر دیا ۔اس انکار نے انہیں متبادل تلاش کرنے کا موقع نہیں دیا جو کچھ وہ دین میں کھو چکے تھے وہ فراہم کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ دین زندگی میں مقصد اور اندرونی سکون کی ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہےجو ان کے دریافت کیے گئے خلا کو پر کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فکری اور روحانی طور پر گمراہی کی حالت میں پھنسے رہے اور اپنی زندگی کے لیے کوئی اچھا نظریہ نہیں بنا سکے۔