3 شوال 1446 هـ   2 اپریل 2025 عيسوى 2:56 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  آپ نے اسے مبہم کیوں بنایا؟- ڈاکنز کے سوالات اور مذہبی اختلافات کا مسئلہ
2025-01-19   164

آپ نے اسے مبہم کیوں بنایا؟- ڈاکنز کے سوالات اور مذہبی اختلافات کا مسئلہ

مقداد الربیعی

دستاویزی فلم "دی ایکسپیلڈ" میں، جو مغربی تعلیمی معاشرے کی جانب سے نظریہ تخلیق کے حامی سائنس دانوں- باوجود اس کے کہ ان کے دلائل مضبوط اور قابل غور تھے- اخراج کے موضوع پر مبنی ہے، میزبان نے جدید الحادی تحریک کے رہنما "رچرڈ ڈاکنز" سے ایک سوال کیا۔ اس نے پوچھا: اگر آپ کی وفات کے بعد آپ کو معلوم ہو کہ خدا موجود ہے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ ڈاکنز نے جواب دیا: میں اس سے پوچھوں گا "آپ نے اسے مبہم کیوں بنایا؟

ادیان کے بارے میں زمانہ قدیم سے اب تک اٹھنے والے سب سے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ان مذاھب کا تنوع اور باہمی اختلافات ہیں۔ یہ مسئلہ اس بنیاد پر قائم ہے کہ مذاہب آپس میں شدید تضاد رکھتے ہیں، کیونکہ ہر مذہب کے ماننے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف وہی حق پر ہیں اور دیگر تمام مذاہب باطل ہیں، جن کا انجام ہلاکت ہے۔ اسی کے ساتھ، ہر مذہب کے پیروکار یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ ان کا مذہب ہی وہ واحد مذہب ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور اس کی مرضی کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ دیگر مذاہب جھوٹے ہیں اور صرف اللہ کے غضب کی طرف لے جاتے ہیں۔

دنیا مذاہب سے بھری ہوئی ہے، جو اپنی ماہیت، اقسام اور باہمی تنازعات میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ یہ بات انسان کے لیے مشکل بنا دیتی ہے کہ وہ تمام مذاہب کا مطالعہ کرکے حقیقت تک پہنچ سکے۔ مسئلہ صرف مختلف مذاہب تک محدود نہیں، بلکہ ایک ہی مذہب کے اندر بھی درجنوں فرقے اور مسالک موجود ہیں، جو کسی بھی مذہب کی صحیح تصویر تک پہنچنا انسانی صلاحیتوں کے لیے تقریباً ناممکن بنا دیتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ تحقیق اور مطالعہ کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن انسانی اکثریت اس اہلیت سے محروم ہے۔ تو پھر سب سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ درست مذہب کا انتخاب کریں، جب کہ وہ اس کے قابل ہی نہیں؟

بلکہ مسئلہ اس وقت اور پیچیدہ ہو جاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مذاہب کے پیروکار خدا کی حقیقت پر بھی متفق نہیں ہیں۔ ہر مذہب خدا کی ایک الگ تصویر پیش کرتا ہے، جو دوسرے مذاہب کی پیش کردہ تصویر سے مختلف ہوتی ہے۔ اگر واقعی خدا موجود ہے، جیسا کہ مذاہب کے ماننے والے دعویٰ کرتے ہیں، تو پھر اس کی ذات اور صفات کے بارے میں اتنا بڑا اختلاف کیوں پیدا ہوا؟ یہ تنوع اور اختلافات الٰہی حکمت کے بارے میں سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ اگر دین انسان کی تخلیق کا سب سے بڑا مقصد ہے اور اس کا مقصد لوگوں کو ہدایت دینا اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرنا ہے، تو یہ اتنا مبہم اور ناقابل فہم کیوں ہے؟ اگر خدا حکیم ہے، تو کیا حکمت کا تقاضا یہ نہیں تھا کہ دین واضح ہوتا اور اس تک پہنچنا آسان بنایا جاتا؟ جیسا کہ ژان جیک روسو نے کہا: "ایک حکیم خدا کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اس قدر عظیم الجھن میں ڈال دے؟" دیکھیے: (دین الفطرة، ص91-93)۔

اسی طرح، فروئڈ نے اپنی کتاب" جدید دروس برائے تحلیلِ نفسی میں " ایمان کو متزلزل کرنے میں اس الجھن کے اثرات کی نشاندہی کی ہے (ص201)۔ جبکہ ول ڈیورانٹ نے قصة الحضارة میں اس مسئلے کو تہذیبوں پر اس کے اثرات کے زاویے سے بیان کیا ہے (27/367)، اور رچرڈ ڈاکنز نے اپنی کتاب وهم الإله میں واضح کیا ہے کہ یہ الجھن الحاد کے بڑے دلائل میں شامل رہی ہے (ص33، 346)۔

یہی دلیل ربوبي تحریک نے الہامی ادیان کی صحت پر شکوک پیدا کرنے اور لوگوں کو محض عقلِ مجرد یا انسانی ضمیر کو بطور رہنما اپنانے کی دعوت دینے کے لیے استعمال کی۔ الحادی تحریک نے بھی اسے خدا کے وجود اور اس کی کمالیت پر شک پیدا کرنے کے لیے اپنایا، جیسا کہ یہ دلیل ابوبکر الرازی نے ہزار سال قبل پیش کی تھی۔ دیکھیے:( أعلام النبوة،ص66)

اگرچہ یہ اعتراض بہت مشہور ہے، لیکن یہ غلط مقدمات اور بغیر دلیل کے تسلیم شدہ اصولوں پر مبنی ہے، جس کے نتیجے میں باطل نتائج پیدا ہوتے ہیں جو انسانی علم میں انتشار کا سبب بنتے ہیں۔ اس اعتراض کو رد کرنے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

اولاً: اختلاف کی کثرت حقیقت کی نفی نہیں کرتی

یہ دعویٰ کہ اختلاف کی کثرت ادیان کی باطل ہونے کی دلیل ہے، بالکل غیر منطقی بات ہے۔ اختلاف کسی چیز کے فساد کی علامت نہیں بلکہ اکثر اوقات اس کی اہمیت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ کئی علوم، مثلاً فلسفہ، میں دیکھا جاتا ہے، جو اپنے مکاتبِ فکر اور مختلف نظریات کی وجہ سے مشہور ہے۔ جیسا کہ توفیق الطویل نے أسس الفلسفة (ص217) میں کہا: "اختلاف فلسفے کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔

اسی اصول کا اطلاق ادب کے علم پر بھی ہوتا ہے، جہاں ادبی مکاتبِ فکر میں بے پناہ اختلافات موجود ہیں۔ اگر ہم اس اعتراض کے تقاضے کو تسلیم کریں، تو ہمیں ادب کو بھی باطل قرار دینا ہوگا اور لوگوں کو اسے چھوڑنے کی تلقین کرنا ہوگی۔ اسی طرح، جمالیات کی حقیقت میں بھی لوگوں کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے، اور ان کے نظریات ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ اگر ہم اس اعتراض کو یہاں بھی نافذ کریں، تو ہمیں جمالیات کو، جو کہ ایک واضح وجودی حقیقت ہے، باطل اور غیر حقیقی قرار دینا ہوگا

یہی نہیں، بلکہ سائنسی تجرباتی علوم بھی اس قسم کے اختلافات سے محفوظ نہیں۔ ان علوم میں پیروکاروں کے مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان اختلافات اور نظریاتی تناقضات بھی انتہائی شدت اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود، ہم ان علوم کو باطل قرار نہیں دیتے بلکہ ان اختلافات کو ان کی ترقی کا ایک لازمی عنصر سمجھتے ہیں۔

علمِ اخلاقیات بھی اس اصول کی ایک نمایاں مثال ہے، جہاں اس علم کی نوعیت کے اعتبار سے اختلافات اور تناقضات بڑی شدت کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔ جو شخص اخلاقیات پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرے گا، وہ اس میں پائے جانے والے اختلافات کی وسعت کو واضح طور پر محسوس کرے گا۔ جیسا کہ گستاف لوبون نے کہا: "اخلاقیات کے محققین اس علم کے مستقل اصول وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور اس کا ثبوت وہ گہری ابتری ہے جو اس قدیم موضوع کے بارے میں آج بھی واضح طور پر موجود ہے۔" (حياة الحقائق، ص81)

لوبون مزید لکھتے ہیں:"کئی بڑے اخلاقی مفکرین ایک کانفرنس میں جمع ہوئے، لیکن ان کے درمیان بنیادی مسائل پر موجود تناقضات اور الجھن اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ موجودہ دور میں انسانوں کے دل و دماغ میں کتنی افراتفری ہے۔" (حياة الحقائق، ص81) وہ آخر میں کہتے ہیں: "اخلاقیات کے میدان میں تحقیق دراصل ذہنی شور و غوغا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔" (حياة الحقائق، ص83)

معاصر فلسفی طہ عبد الرحمن بھی اس نقطہ نظر کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں:

" ابہام یا اختلاف صرف عقلانیت کے تصور تک محدود نہیں، بلکہ فلسفے کے زیادہ تر معانی اور حقائق کو متاثر کرتا ہے، معاصر فلسفے میں شاید ہی کوئی ایسا باب ہو جس کے تصورات اور احکام نے اخلاقیات کے باب کی طرح اشتباہ اور اختلاط کے مظاہر کونہ سمویا ہو۔" (سؤال الأخلاق، ص15)

تو ان تمام میدانوں پر ہم ان لوگوں کے طریقۂ فکر کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے جو ادیان کے ناقدین ہیں اور انہیں باطل اور فاسد قرار دیں گے، کیونکہ ان میں اختلافات اور تضادات کی کثرت پائی جاتی ہے، اور یہی ایک لازم اس دعوے کی بطلان کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔

دوسرا: یہ اشکال ایک غلط مفروضے پر مبنی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مطلق حقیقت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے مخالف تمام موقفوں کو باطل ثابت کیا جائے۔ اس رائے کے حاملین یہ سمجھتے ہیں کہ ادیان کے ماننے والوں کے مابین تضادات کی کثرت حق دین تک پہنچنا ناممکن بنا دیتی ہے، کیونکہ تمام دینی رجحانات کی صحت یا بطلان کی جانچ انسان کی استطاعت سے باہر ہے۔ لیکن یہ مفروضہ نہ منطقی بنیاد رکھتا ہے اور نہ ہی کوئی عقلی دلیل، بلکہ یہ صحت مند فکر کی بدیہیات کے بھی خلاف ہے۔ کسی قضیے کو درست ماننے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کے تمام مخالف یا متضاد امور کا احاطہ کیا جائے، بلکہ کافی ہے کہ ایسے واضح اور قطعی دلائل موجود ہوں جو اس قضیے کی سچائی  کو ثابت کریں۔

 حقائق اپنی دلیلوں کے اثبات سے ثابت ہوتی ہیں اور ان کے لیے ہر مخالف امکان کو رد کرنا ضروری نہیں۔ اس شرط کو ماننا کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے تمام معارضات کے بطلان  کوثابت کیا جائے، فکر کو مفلوج کرنے اور علم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے، اور کوئی صاحب عقل اس شرط کو قبول نہیں کر سکتا۔

اسی طرح منطقی قاعدہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کسی قضیے کی صحت پر دلیل قائم کرنا اس کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے اور یہ ضروری نہیں کہ تمام مخالف آراء کے بطلان کو بھی ثابت کیا جائے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص کے سامنے سو راستے ہوں اور کسی قطعی دلیل سے یہ جان لے کہ ان میں سے ایک راستہ اسے اس کی منزل تک لے جائے گا، تو اسے باقی تمام راستوں کے بطلان کی تصدیق کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف اس راستے کی صحت کو دلیل سے ثابت کرنا کافی ہے جسے اس نے اختیار کیا ہے۔ یہ عقلی طرزِ فکر منطقی سوچ کی بنیاد ہے، جہاں کسی موقف کی صحت اس کی دلیلوں کی بنیاد پر دیکھی جاتی ہے، نہ کہ دیگر موقفوں کی بطلان پر۔ جیسا کہ قطب الدین رازی نے تحریر القواعد المنطقية صفحہ 119 میں کہا: "کسی بھی قضیے کے درست ہونے پر دلیل قائم کرنے کا مطلب اس کے نقیض کا بطلان اور اس کے نقیض کے بطلان کا مطلب خود اس قضئے کی صحت ہے۔" اسی بات کی تصدیق عبد الرحمن المیدانی نے اپنی کتاب ضوابط المعرفة وأصول الاستدلال والمناظرة صفحہ 151 میں بھی کی ہے۔ 

نتیجہ.. دین میں کثرتِ اختلافات پر مبنی اشکال درحقیقت کئی نکات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جن پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ اختلاف دین کے فساد کی دلیل نہیں، بلکہ یہ انسان کی فطرت اور ان کے فہم کے تنوع کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح، حقیقت تک پہنچنے کا راستہ اتنا مشکل نہیں جتنا کہ اسے پیش کیا جاتا ہے، بلکہ اس کے لیے ایک کھلے ذہن اور حق کی تلاش میں سرگرداں دل کی ضرورت ہوتی ہے۔


جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018