19 جمادي الاول 1446 هـ   21 نومبر 2024 عيسوى 11:53 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | مقالات  |  تجربہ گاہ سے ماوریٰ ۔۔۔۔۔ کس طرح مذہب اور عقل سائنسی ترقی کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں؟
2024-10-25   112

تجربہ گاہ سے ماوریٰ ۔۔۔۔۔ کس طرح مذہب اور عقل سائنسی ترقی کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں؟

شیخ مقداد ربیعی:

یہ تصور کریں کہ ایک قتل کی واردات ہوئی ہے، اور جائے وقوعہ پر فرانزک ٹیم کو ثبوت جمع کرنے اور انہیں لیبارٹری میں تجزیہ کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ لیکن کیا صرف لیبارٹری کے نتائج قاتل کی شناخت کے لیے کافی ہوں گے؟ یا ان تجزیوں کے ساتھ ایک ایسی تفسیر کی ضرورت ہوگی جو ان نتائج کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو؟

لہذا، لیبارٹری کے تجزیے خود سے مکمل وضاحت نہیں دے سکتے؛ اس کے لیے دیگر عوامل بھی ضروری ہیں۔ مثال کے طور پر، سائنسی نظریات نے ثابت کیا کہ 13.8 ارب سال پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا جس سے کائنات وجود میں آئی۔ لیکن کیا یہ دھماکہ کسی خالق کے وجود کا ثبوت ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کےلیے ہمیں ایک مختلف علمی ذریعہ چاہیے جو تجرباتی سائنس سے مختلف ہو، جیسے کہ مذہب یا فلسفیانہ منطق۔ اور یہی بات معروف سائنسدانوں نے کہی ہے، چاہے وہ ملحد ہوں یا مومن۔

امریکی اکیڈمی آف سائنسز نے واضح کیا ہے کہ سائنس مادی دنیا سے ماورا معاملات پر رائے دینے سے ںقاصر ہے۔ خدا کے وجود کا سوال سائنس کے دائرے سے باہر ہے، جیسا کہ انہوں نے کہا: "سائنس قدرتی دنیا کے بارے میں علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور یہ قدرتی دنیا کی وضاحت صرف قدرتی اسباب کے ذریعے کرتی ہے، لہٰذا سائنس ماورا قدرت چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ خدا کے وجود یا عدم وجود کا سوال ایسا ہے جس پر سائنس غیر جانبدار رہتی ہے" (من خلق اللہ، ایڈگار اینڈریوز، صفحہ 70)

اس تصور کی تصدیق اسٹیفن جے گولڈ بھی کرتے ہیں، جب وہ کہتے ہیں: "سائنس اپنے جائز طریقوں کے ذریعے خدا کے وجود کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتی؛ ہم نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ اس کی تردید کرتے ہیں، اور بحیثیت سائنسدان ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنے کے قابل نہیں ہیں" (العلم ووجود الله، کیا سائنس نے خدا کے وجود پر ایمان کو ختم کر دیا؟ جون لینکس، صفحہ 160

آسٹن فاور اس اصول کو یوں واضح کرتے ہیں: "ہر علم دنیا کی چیزوں کے ایک پہلو کو منتخب کرتا ہے اور ہمیں یہ دکھاتا ہے کہ وہ کیسے کام کرتی ہیں، اور جو کچھ اس دائرے سے باہر ہے وہ اس علم کے دائرے سے باہر رہتا ہے۔ چونکہ خدا اس دنیا کا حصہ نہیں ہے، اس لیے خالق کے بارے میں جو بھی کہا جائے - چاہے وہ حق بھی کیوں نہ ہو – وہ کسی بھی قسم کے علوم کے دائرے میں شامل نہیں ہو سکتا" (Fan 1997. P. 26. Is science a religion? The Humanist. Jan)

اس نقطہ نظر کے مطابق، سائنس اس بات کا جواب دیتی ہے کہ کوئی واقعہ کیسے پیش آیا، لیکن ایسے سوالات جیسے "کس نے کیا؟" اور "کیوں کیا؟" سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہیں اور ان کا جواب دینے کے لیے دیگر علمی شعبے، جیسے مذہب اور فلسفہ، درکار ہیں۔ نوبل انعام یافتہ سر پیٹر میڈاور اپنی کتاب "نصیحت ایک نوجوان سائنسدان کے لیے" میں اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ "سائنس ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتی جو بنیادی سطح کے سوالات ہیں، جیسے: 'سب کچھ کیسے شروع ہوا؟' یا 'ہم یہاں کیوں ہیں؟' یا 'زندگی کا مقصد کیا ہے؟' "۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ان سوالات کے جوابات صرف افسانوی ادب اور مذہب میں ہی مل سکتے ہیں

 (Hannah Devlin. Hawking: God Did Not Create The Universe. 12 Sep 2010)

دوسری جانب، جینوم انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر فرانسس کولنز اس بات کی تصدیق کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں: "سائنس ایسے سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے جیسے: 'کائنات کیوں وجود میں آئی؟'، 'انسانی وجود کا کیا مطلب ہے؟'، اور 'ہم مرنے کے بعد کیا ہوگا؟" (أقوى براهين، جون لینکس، صفحہ 70)

ہم جو کہنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ تجرباتی سائنس کا دائرہ مادی دنیا تک محدود ہے، اور اس کا کردار فرانزک ٹیم کی طرح ہے، جو صرف یہ بتاتی ہے کہ جرم کیسے وقوع پذیر ہوا۔ لیکن سوال "کس نے یہ کام کیا؟" وہ ہے جسے محقق اپنی عقل سے فرانزک شواہد کی بنیاد پر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح، سائنس وہ معلومات فراہم کرتی ہے جن پر فلسفی اپنے نظریات کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر سائنس یہ دریافت کر لے کہ ہمارے موجودہ کائنات کا سبب ایک بڑے کائنات کے وجود سے ہے، جو کثیر کائناتوں میں سے ایک ہے، تب بھی یہ سوال باقی رہے گا کہ اس بڑے کائنات کو کس نے پیدا کیا؟! اس لیے، سائنس جتنی بھی دریافتیں کرے، وہ ایسے سوالات کا جواب نہیں دے سکتی جیسے " ان سب كا پیدا كرنے والا کون ہے؟

لہذا، دنیاوی زندگی کے ظاہری علم کے باوجود، یہ علم انہیں خالق اور فاعل کے سوال کا جواب دینے کے لیے کافی نہیں تھا۔ صاحبِ کشاف نے اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا جب انہوں نے آیت "يعلمون ظاهراً من الحياة الدنيا" کی تفسیر کی، اور یہ بتایا کہ جملہ "يعلمون" آیتِ سابقہ کے جملے "ولكن أكثر الناس لا يعلمون" کا بدل ہے۔ اس تبدیلی میں یہ حکمت ہے کہ اس سے یہ سمجھایا جائے کہ جہالت (علم نہ ہونا) اور وہ علم جو دنیا کی ظاہری حد سے آگے نہ بڑھے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔

اسی لیے ہم قرآن کریم کے گہرے التفات میں یہ اشارہ و التفات پاتے ہیں کہ غیر مومنوں کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ ان کا علم صرف "دنیا کی ظاہری زندگی" تک محدود ہے، جو کہ خلق کے سوال کا جواب دینے کے لیے کافی نہیں ہے: (.. وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (6) (يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ) لوگ تو دنیا کی ظاہری زندگی کے بارے میں جانتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں۔ (7) (أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ) کیا انہوں نے اپنے (دل کے) اندر یہ غور و فکر نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو برحق اور معینہ مدت کے لیے خلق کیا ہے؟ اور لوگوں میں یقینا بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں. الروم: 6 ـ 8

چنانچہ، قرآن ان کا دنیاوی ظاہری علم اور اس پر انحصار کو جہالت کے برابر قرار دیتا ہے، تاکہ یہ واضح ہو کہ حقیقی علم وہ ہے جو اعلیٰ علل و اسباب سے متعلق ہو، نہ کہ صرف ظاہری اسباب سے۔

اسی بنا پر، علم و یقین کا راستہ محض حسّی تجربے تک محدود نہیں کیا جا سکتا، بلکہ بعض اوقات عقل بھی حسّی علم کے دائرے میں مداخلت کرتی ہے۔ لہٰذا، سائسدان کی تصویر صرف اس شخص تک محدود نہیں ہونی چاہیے جو سفید کوٹ پہن کر لیبارٹری میں کھڑا ہو۔ دراصل، یہ تصویر صرف پچھلی دو صدیوں میں عام ہوئی ہے۔ اس سے پہلے، جو لوگ فطرت کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے انہیں "فلاسفرز آف نیچر" (فلسفیانِ فطرت) کہا جاتا تھا۔ مثلاً، نیوٹن خود کو "عالم" نہیں بلکہ "فطری فلسفی" کہتے تھے، اور ان کی مشہور کتاب کا عنوان "المبادئ الرياضية للفلسفة الطبيعية" تھا، جو اس تصور کی عکاسی کرتا ہے۔

اسی طرح، لاطینی لفظ Scientia، جس سے "سائنس" کا لفظ نکلا ہے، کا مطلب صرف "یقین" تھا اور اسے کسی بھی یقینی حقیقت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، چاہے وہ تجربے سے معلوم ہو یا عقلی استدلال سے۔ چنانچہ، تجربے سے حاصل ہونے والا علم سائنس کی ایک شاخ کے طور پر شمار ہوتا تھا

"سائنس" کے اصطلاح کو صرف تجرباتی علم تک محدود کرنے کا عمل انیسویں صدی میں شروع ہوا، جیسا کہ فلسفیانِ علم نے ذکر کیا ہے (روس 1962: ص71-72)۔

کلی کلیرک سوال کرتے ہیں: "میری بیٹی کا شوہر نظریاتی طبیعیات کا عالم ہے، اور وہ شاذ و نادر ہی لیبارٹری جاتا ہے، اور اگر جاتا بھی ہے، تو اس کا دورہ مختصر ہوتا ہے، جیسے کہ کسی سیاح کی لیبارٹری کی سیر ہو، نہ کہ کسی تجرباتی ماہر کی۔ اس کے کام کے اوزار ایک پین اور ایک پیلی نوٹ بک ہیں، اور اس کی لیبارٹری اس کا تخیل ہے۔ وہ دنیا کو نہیں دیکھتا، بلکہ بیٹھ کر سوچتا ہے، اور دنیا کو اعداد کی شکل میں دیکھتا ہے، پھر ان عددی نمونوں کو کاغذ پر لکھتا ہے۔ وہ نظریات کو بدیہیات اور بنیادی مفروضات سے اخذ کرتا ہے۔ تو کیا ان کے مطابق، وہ عالم نہیں کیونکہ اس نے اپنی نتائج لیبارٹری میں نہیں آزمائے؟" (الدين وعلوم النشأة، ص 38

اسی طرح، البرٹ آئن سٹائن، جو کہ عظیم ترین نظریاتی طبیعیات دانوں میں سے ایک ہیں، روایتی سانچوں کو رد کرنے کی ایک مثال ہیں۔ انہوں نے ایک بڑا نظریہ اس تصور کے ذریعے وضع کی کہ وہ خود کو روشنی کی ایک کرن پر سوار تصور کرتے ہیں۔ آئن سٹائن نے اس روایتی خیال کو مسترد کیا کہ روشنی سیدھی لکیر میں سفر کرتی ہے، بلکہ یہ دعویٰ کیا کہ روشنی بڑے اجسام، جیسے سورج، کی جانب جھکتی ہے۔ انہوں نے مکمل طور پر تخیل اور غور و فکر پر انحصار کیا، بغیر اس کے کہ اسے تجربے کے ذریعے ثابت کرنے کی ضرورت پڑے۔ جب 1919 میں سورج گرہن کے دوران ان کی نظریہ کو آزمانے کا موقع آیا، تو وہ خود اس کی تصدیق کرنے نہیں گئے۔ اس کے باوجود، نتائج ان کی نظریہ کے مطابق آئے، جس نے انہیں عالمی سطح پر مشہور کر دیا (ایزاکسن: ص 335

بلکہ کچھ سائنسدانوں نے بڑے نتائج اور نظریات خوابوں کے ذریعے دریافت کیے ہیں۔ 1920 میں، ایسٹر کی شب سے پہلے، نوبل انعام یافتہ جرمن سائنسدان اوٹو لیوی، جنہیں "علمِ اعصاب کا روحانی باپ" کہا جاتا ہے، نیند سے جاگے اور ان کے ذہن میں ایک اہم خیال آیا۔ انہوں نے اسے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھا اور دوبارہ فوراً سو گئے۔ جب وہ دوبارہ جاگے، تو ان کی تحریر ناقابلِ فہم تھی۔ خوش قسمتی سے، اگلی رات انہیں وہی خواب دوبارہ آیا، اور اس مرتبہ انہوں نے چوکنا ہو کر جلدی سے اس خیال کو لکھا۔ یوں انہوں نے دریافت کیا کہ اعصابی نبضات کیسے کیمیائی طریقے سے منتقل ہوتی ہیں، اور یہی دریافت انہیں 1936 میں طب کا نوبل انعام دلانے کا سبب بنی۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018