| مقالات | روشنی کی طرف سفر: فریڈ ہوئل کا الحاد سے ایمان کا سفر
روشنی کی طرف سفر: فریڈ ہوئل کا الحاد سے ایمان کا سفر
شیخ مقداد ربیعی
بیسویں صدی کے ممتاز فلکیاتی طبعیات دان سر فریڈ ہوئل اپنے منفرد نظریات کی وجہ سے سائنسی دنیا میں معروف ہیں، اور ان کی تحقیقات نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ جو چیز انہیں دیگر سائنسدانوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ ان کا ایک بڑے ملحد سے وجودِ خالق کو تسلیم کرنے کے سفر کی داستان ہے، جس میں ان کے اندر فکری تبدیلی کی ایک اہم لہر آئی۔ فریڈ ہوئل کوئی عام انسان نہیں تھے؛ ان کا الحاد سے دین کی طرف سفر ایک گہرا علمی سفر تھا، جو سوالات اور جوابات سے بھرپور تھا۔ انہوں نے ان تمام سائنسی سوالات کا سامنا کیا جو جدید سائنس نے پیدا کیے تھے۔
سائنسی اور فلسفیانہ آغاز:
ہویل جس دور میں پروان چڑھے، وہ سائنسی حتمیت اور تعینیت کا زمانہ تھا۔ اُس وقت سائنس سے وابستہ افراد سائنسی نظریات کو مذہب کے متبادل نظریات کے طور پر دیکھتے تھے۔ ہویل نے کیمبرج سے تعلیم حاصل کی، اور اپنی ذہانت و تنقیدی سوچ کی وجہ سے جلد ہی مشہور ہو گئے۔ اگرچہ انہوں نے کئی علمی نظریات کو واضح کیا، مگر ان کی سب سے بڑی کامیابی نیوکلیو سنتھیسس کا نظریہ تھا، جو یہ بتاتا ہے کہ ستاروں کے اندر بھاری عناصر کس طرح بنتے ہیں۔
ان کامیابیوں کے باوجود، ہوئل نے ابتدا میں کائنات کے آغاز میں کسی بیرونی مداخلت کے نظریے کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے لومیتر کی بگ بینگ تھیوری کو سختی سے رد کر دیا، جس کا تقاضا یہ تھا کہ کائنات کا ایک آغاز تھا، اور اگر کوئی آغاز تھا تو یہ لازم تھا کہ ایک خالق بھی ہو۔ بلکہ، انہوں نے 1950 کی دہائی میں برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا: "بگ بینگ تھیوری کا دعویٰ کرنا توہین آمیز اور نامناسب ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی لڑکی پارٹی میں کیک سے چھلانگ لگا رہی ہو(مذہب اور ارتقاء کے علوم - کلرک - صفحہ 14)
اس وجہ سے اس نے کائنات کی "مستحکم نمو" کا نظریہ اختیار کیا، جس کے لیے کائنات کے لیے ابتداء کے وجود کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے لیے ایک خالق کےوجود کی ضرورت ہے، کیونکہ اس کے مطابق کائنات کو کسی خاص آغاز کی ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ یہ مستقل اور مسلسل ہے۔
چیلنج: کیا کائنات بنائ گئی ہے؟
ہوئل کی فکری تبدیلی اس وقت شروع ہوئی جب اسے کائنات کی پیچیدگیوں اور درست معلومات کے حوالے سے مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ غور کریں کہ کائنات پر حکمرانی کرنے والے طبعی قوانین اس قدر درست طریقے سے منظم ہیں کہ ان میں معمولی سی تبدیلی بھی زندگی کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ ہوئل کا کہنا ہے کہ "قدرتی حالات کا درست توازن جو زندگی کو جنم دینے کی بنیاد بنتا د ہے یہ خود سے آیا مان لینا ایسے ہی ہے جیسے، یہ یقین کر لیں کہ ایک طوفان کباڑ خانے سے گزرا اور ایک بوئنگ 747 بنایا گیا"۔
اس مشاہدے نے اس کے ذہن میں سوالات اٹھائے کہ کیا یہ بہترین نظام محض ایک اتفاق ہو سکتا ہے؟ ہوئل نے یہ دیکھنا شروع کیا کہ کائنات کو فطرت کے بے ترتیب تعامل کے طور پر بیان کرنا ناکافی ہے۔ اس سوچ نے اسے یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ اس درستگی کے پیچھے "کچھ" ہے، اور وہ سوچنے لگا: کیا اس کائنات کے پیچھے کوئی ذہن یا تخلیقی ذہانت ہو سکتی ہے؟
خالق کو تسلیم کرنے کا اعلان
کئی سالوں کے غور و فکر اور تحقیق کے بعد، ہوئل نے اپنے شدید الحاد کو ترک کر دیا اور اپنے ایک مشہور بیان میں تخلیق کار کے امکان کو تسلیم کیا، وہ کہتے ہیں: "کائنات کو ایک عظیم ذہانت سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ فطرت پر حکومت کرنے والے قوانین محض قسمت نہیں بلکہ کسی گہری چیز کا اظہار ہیں۔ "The Intelligent Universe" (ذہین کائنات)۔
یہ نظریہ محض ایک فلسفیانہ تبدیلی نہیں تھی، بلکہ محتاط سائنسی مشاہدات کا نتیجہ تھی۔ ہوئل مزید اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا کہ کائنات خود سے ترتیب دے دی گئی ہے، اور اس کے لیے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ بے شمار بے ترتیب چیزیں خود سے منظم ہو گئیں۔ تاہم، ہوئل خدا کے کسی مخصوص مذہبی تصور پر یقین نہیں رکھتا تھا، بلکہ اس کا عقیدہ اس عقیدے کے زیادہ قریب تھا کہ کائنات کے ڈیزائن کے پیچھے کوئی پوشیدہ قوت یا کائناتی ذہن ہے۔
دیگر علماء کی آراء
ہوئل کے فکری سفر نے بہت سے علماء اور مفکرین کو متاثر کیا۔ سر مارٹن ریس، ایک برطانوی فلکیاتی طبیعیات دان نے سمجھا کہ "ہوئل ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے محسوس کیا کہ کائنات محض ایک موقع کے طور پر بہت درست معلوم ہوتی ہے۔" Rees نے مزید کہا: "یہ سوچنے کے لیے کہ سب کچھ اپنے آپ سے ہوا، ایک خالق کے وجود پر یقین سے بھی بڑی دلیل کی ضرورت ہے۔"
مشہور ماہر فلکیات اور طبیعیات دان اسٹیفن ہاکنگ نے بھی کائناتی ساخت کے سوال میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ اگرچہ ہاکنگ خود خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن اس نے اپنی کتاب "دی گرینڈ ڈیزائن" میں لکھا کہ "کائنات کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے جو زندگی کو ممکن بناتا ہے۔" یہ نظریہ Hoyle کے نظریہ سے کسی حد تک مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ ہاکنگ اور Hoyle دونوں نے کائنات کو ایک بے ترتیب اتفاق کے طور پر سمجھنے میں دشواری کا اعتراف کیا۔
نتیجہ: سائنس اور فلسفہ کے درمیان
فریڈ ہوئل کا الحاد سے تخلیقی ذہانت یا ذہن کے وجود کو تسلیم کرنے کی طرف تبدیلی کا سفر سائنس اور فلسفے کے درمیان توازن کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ ہوئل جس نے اپنے سفر کا آغاز ایک ملحد اور سخت سائنسی وضاحتوں پر یقین رکھنے والے کے طور پر کیا، آخر کار پایا کہ سائنس ہی ہر چیز کی وضاحت نہیں کر سکتی۔ اس نے دیکھا کہ کائنات میں بہت بڑے اسرار ہیں جن کی اتفاق سے وضاحت نہیں کی جا سکتی۔یہ کہ ترتیب اور درستگی جو اس پر حکمرانی کرتی ہے اس ڈیزائن کے پیچھے ایک بڑی طاقت کی نشاندہی کرتی ہے۔
فریڈ ہوئل کی کہانی فکری ناتوانی کا بتاتی ہے یہ اس کے بارے میں ایک اہم سبق ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو یہ مانتے ہیں کہ ان کے پاس سائنس کے ذریعہ تمام جوابات موجود ہیں جب کائنات اور زندگی کے بارے میں بڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انہیں اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا پڑ تی ہے۔ کائنات اس سے زیادہ پیچیدہ اور معجزاتی ہو سکتی ہے جتنا کہ انسانی دماغ سمجھ سکتا ہے اور اس کے اندر کسی پوشیدہ قوت یا ذہن کے اشارے ہو سکتے ہیں جو ہر چیز کو ہدایت دیتی ہے۔