11 رجب 1447 هـ   31 دسمبر 2025 عيسوى 10:27 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | دراسات |  مرد اورعورت کے مابین حیاتیاتی اختلافات: وہ حقیقت جسے فیمینسٹ نظرانداز کرتا ہے
2025-12-30   22

مرد اورعورت کے مابین حیاتیاتی اختلافات: وہ حقیقت جسے فیمینسٹ نظرانداز کرتا ہے

الشيخ مصطفى الهجري

مغربی دنیا میں مرد اور عورت، دونوں ہی فیمینسٹ نظریے کی مسلسل فکری یلغار کا نشانہ ہیں، تاہم اس کے باوجود وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی اپنی فطری حقیقت، انسانی مزاج اور تخلیقی ساخت سے جڑی ہوئی ہے۔ خصوصاً ایسے دور میں جب حد سے زیادہ خودمختاری اور برابری کے نام پر عورت کی غیر فطری تشکیل کا تصور، عملی زندگی اور سائنسی حقائق کے سامنے دم توڑ چکا ہے۔ فیمنسٹ تحریکیں مرد اور عورت کے درمیان زندگی کے ہر میدان میں مکمل مساوات کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر یہ دعویٰ حیاتیاتی علوم، نفسیاتی تحقیقات اور جدید سائنسی مطالعات کے سامنے پائیدار نہیں رہتا۔ تحقیق واضح کرتی ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان بنیادی اور پیدائشی فرق موجود ہے، جو نہ کسی ثقافتی دباؤ کا نتیجہ ہے اور نہ ہی سماجی کردار سازی کی مصنوعی پیداوار۔ یہ فرق انسان کی اصل خلقت، فطری شناخت اور حیاتیاتی ساخت میں پیوست ہے۔اور پیدائش سے ہی اپنی شکل و صورت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔یہ کسی ثقافتی، سماجی یا معاشرتی اثر کا نتیجہ نہیں ہوتا۔یہ خالصتاً فطرت اور حیاتیاتی ساخت سے تعلق رکھتا ہے۔

مثال کے طور پر ڈورین کیمورا اپنی کتاب ’’مرد کا دماغ اور عورت کا دماغ‘‘ میں یہ مؤقف پیش کرتی ہیں کہ مرد اور عورت کے درمیان بنیادی فرق حیاتیاتی ہے، جس کا تعلق دماغ کی ساخت اور اس کے عصبی نظام سے ہے۔ یہ نظام جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور اسی فرق کے نتیجے میں دونوں کی نفسیاتی کیفیات، ذہنی ترجیحات اور علمی صلاحیتیں یکساں نہیں ہوتیں۔یہی وجہ ہے کہ کیمورا کے مطابق مرد کا دماغ ایک منفرد نوعیت رکھتا ہے اور عورت کا دماغ ایک مختلف اور ممتاز شناخت کے ساتھ وجود رکھتا ہے۔

اسی مؤقف کی تائید ایکسَل کان بھی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق دماغ میں جنس کی بنیاد پر واضح اور ثابت شدہ فرق موجود ہے، جس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں۔ مرد اور عورت دونوں اپنی فطری ساخت کے مطابق مخصوص ذہنی و ادراکی صلاحیتیں رکھتے ہیں، اور یہی فرق ان کی شخصیت، رویّے اور قابلیتوں میں بھی نمایاں طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہی نتائج انگریزی جریدے سائیکلوجی کے شمارہ نمبر 202 (نومبر 2001ء) میں شائع ہونے والی تحقیق میں پیش کیے گئے تھے۔

دماغی ساخت کے علاوہ ہارمونی عوامل بھی شخصیت اور رویّوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ مردوں میں ٹیسٹوسٹیرون ہارمون مقابلہ آرائی، جرات اور بعض اوقات جارحیت کے رجحان کو بڑھاتا ہے۔ اس کے برعکس، عورتوں میں آکسیٹوسن ہارمون حمل، ولادت اور بچے کی پرورش کے دوران جذباتی وابستگی، تحفظ اور شفقت جیسے رویوں کو منظم کرتا ہے۔ یہی ہارمون پیدائش کے بعد ابتدائی ہفتوں میں ماں اور بچے کے درمیان گہری نفسیاتی ہم آہنگی اور تعلق قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس حقیقت کا ذکر مختلف طبی اور نفسیاتی مصادر جیسے ’’مادرانہ جبلّت‘‘میں بیان ہوئی ہے۔

اوٹو فینینجر کے نزدیک مرد و زن کے درمیان فرق صرف ہنر یا فنی مہارت تک محدود نہیں، بلکہ عبقریت (Genius) کے درجے تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ وہ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

مثال کے طور پر ہم ریاضی میں اعلیٰ مہارت حاصل کر سکتے ہیں اور مشکل سے مشکل ترین نظریات کو سمجھنے کے قابل ہو سکتے ہیں، مگر یہ صلاحیت عبقریت کے برابر نہیں۔ عبقریت وہ صفت ہے جو محض علم نہیں بلکہ اصل جدّت، انفرادیت اور تخلیقی بصیرت کو جنم دیتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ خاص قسم کی عبقریت بنیادی طور پر مردانہ صفت ہے اور عورت میں اس کا ہونا ممکن نہیں۔ یہ بات کتاب ’’جنس اور شخصیت‘‘، صفحہ 98میں پیش کی گئی ہے۔

جون گرے کے مطابق مرد اور عورت کے درمیان ایک اور بنیادی فرق ذاتی شناخت اور احساسِ قدر سے تعلق رکھتا ہے۔ مرد اپنی اہمیت اور مقام کا تعیّن عموماً کامیابی، کارکردگی اور نتائج کے حصول سے کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے اہداف تک نہ پہنچ پائے تو اس کا احساسِ ذات متاثر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، عورت اپنی جذباتی روابط، تعلقات اور باہمی اعتماد کے ذریعے بھی اپنے وجود کا اطمینان حاصل کر سکتی ہے اور بغیر کسی نمایاں حصول کے بھی خود کو باوقار محسوس کرتی ہے۔جون گرے اس فرق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہر مرد اپنی ذاتی قدر کو اس پیمانے سے جانچتا ہے کہ وہ کتنی کامیابیاں اور کتنے نتائج حاصل کر سکتا ہے

یہ تحقیق ان کی کتاب’’مرد مریخ سے اور عورت وینس سے آتی ہے‘‘ میں پیش کی گئی ہے۔

یہ نتائج مرد کی شناخت کی تصدیق کرتے ہیں اور اسے وہ اختیار اور طاقت دیتے ہیں جس کا وہ خواب دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس عورت اپنی فطرت کے مطابق اور نسوانی ثقافتی اثرات سے پہلے مرد کی طرح طاقت اور اختیار کی خواہش کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس بات کا اعتراف سیاستدان اور صحافی فرانسواز جيرو کرتی ہیں: ’’طاقت، کوئی بھی طاقت، عورت سے وہ کشش چھین لیتی ہے جو اسے فطری طور پر حاصل ہے اور اس میں اضافہ نہیں کرتی۔‘‘ یہ تحقیق ان کی کتاب’’مرد اور عورت‘‘میں پیش  کی گئی ہےجو فرانسواز جيرو اور برنار ہنری لیوی کی تحریر کردہ ہے۔

مرد اپنی فطری جبلت کے مطابق طاقت اور اختیار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ عورت اپنی فطرت کے مطابق اس میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتی۔ تاہم، فیمنزم کا نظریہ اس فطری فرق کو قبول نہیں کر سکتا اور اسی وجہ سے مرد کی طاقت یا اختیار کو ایک قسم کی نا انصافی سمجھا جاتا ہے جس کے خلاف لڑنا ضروری ہے۔ ابتدائی طور پر اس میں باپ کی اپنی خاندان اور بچوں پر حکمرانی بھی شامل ہوتی ہے۔

ہم یہ اقتباسات اس لیے پیش نہیں کر رہے ہیں کہ عورت کی کسی کمی یا نقص کو اجاگر کریں ۔ایسا ہرگز نہیں کہ عورت مرد سے کمتر ہے۔ اللہ کی پناہ! عورت انسان ہونے کے ناطے عزت، وقار، قابلیت اور حقوق میں مرد کی مکمل ہم مرتبہ ہے۔

اصل توجہ صرف اس حقیقت پر ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان حیاتیاتی اور فطری امتیازات موجود ہیں۔ یہی فرق ثابت کرتے ہیں کہ دونوں کو ہر میدان میں بالکل یکساں قرار دینا سائنسی اور عقلی طور پر درست نہیں۔ ان امتیازات کو مٹانے کی کوشش دراصل انسان کی اصل تخلیق اور ربانی حکمت سے انکار ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018