18 ذو القعدة 1446 هـ   16 مئی 2025 عيسوى 4:53 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | دراسات |  سائنس اور الحاد:سائنسی طریقِ کار کا مغالطہ انگیز اور غلط استعمال
2025-05-10   79

سائنس اور الحاد:سائنسی طریقِ کار کا مغالطہ انگیز اور غلط استعمال

شيخ معتصم السيد أحمد

عصر حاضر کے ملحدین عموماً اپنے آپ کو علمی و تحقیقی لباس میں پیش کرتے ہیں، اور اس تاثر کو فروغ دیتے ہیں کہ گویا ’’سائنس ان کی پشت پر ہے۔ ان کا اندازِ بیان ایسا ہوتا ہے جیسے خدائے واحد پر ایمان رکھنا محض ایک قدیم، غیرعقلی تصور ہو، یا یوں کہ کسی عہدِ حجری کی باقیات کی مانند۔الحاد اور مذہب کے درمیان جاری مباحث میں یہ ایک سنگین فکری مغالطہ ہے کہ الحاد کو سائنسی فکر کا لازمی نتیجہ یا اس کا ہم معنی تصور کر لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض جدید ملحدین نہ صرف خود کو ’’سائنسی منطق‘‘ کے نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں، بلکہ ایمان رکھنے والوں کو وہ یوں پیش کرتے ہیں گویا وہ غیر معقول عقائد یا ایسے غیبی تصورات کے پابند ہوں جن کی نہ تجرباتی تصدیق ممکن ہو اور نہ عقلی توجیہ۔

یہ تصوراتی مہم، اگرچہ علمی لحاظ سے نہایت سطحی اور ناقص بنیادوں پر کھڑی ہے، پھر بھی وہ لوگوں کی ایک خاص تعداد پر اثرانداز ہو جاتی ہے-بالخصوص اُن افراد پر جنہیں سائنسی تحقیق کے مختلف میدانوں کی ماہیت، دائرہ کار، اور حدود کا شعور حاصل نہیں ہوتا، اور جو طبیعی علوم اور انسانی و فلسفی علوم کے مابین موضوعاتی فرق اور طریقۂ کار کا امتیاز نہیں کر پاتے۔اس تناظر میں یہ بات نہایت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ہم اُن بنیادی تصورات کی ازسرِنو وضاحت کریں جو ہمیں اس دعوے کا تنقیدی جائزہ لینے اور اس کی علمی و عقلی حیثیت کو پرکھنے کے قابل بنائیں۔ کیونکہ الحاد کو "سائنسی حقیقت" یا "علمی مؤقف" کے طور پر پیش کرنا دراصل ایک دوہری فکری مغالطہ آرائی پر مبنی ہے:

اولاً، اس میں "علم" کے مفہوم اور اس کے دائرہ کار کی حدود کو مسخ کیا جاتا ہے؛ اور ثانياً، "عالم" یعنی ماہرِ علم کی حیثیت، ذمہ داری اور منصب کو ایک مخصوص فکری ایجنڈے کے تحت غلط طور پر متعین کیا جاتا ہے۔یہ دونوں پہلو نہ صرف فکری بددیانتی کے زمرے میں آتے ہیں، بلکہ علمی اور فلسفیانہ مباحث میں ابہام پیدا کرتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سادہ فہم قارئین سائنسی اصطلاحات کے پیچیدہ استعمال سے مرعوب ہو کر اصل مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

طبیعیاتی علم(چاہے وہ فزکس ہو، کیمیا، حیاتیات یا دیگر تجربی علوم کی شاخیں) ان مظاہر کا مطالعہ کرتا ہے جو مشاہدے اور پیمائش کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ علوم متغیّرات کے مابین مستقل اور قابلِ تکرار تعلقات کی تلاش کرتے ہیں، اور سخت سائنسی اصولوں جیسے مشاہدہ، تجربہ، اور تجزیہ پر مبنی ہوتے ہیں۔اس کے برعکس، خدا کے وجود، کائنات کے مقصد، انسانی زندگی کے معنی اور انجام جیسے بنیادی سوالات نہ تو قابلِ پیمائش مظاہر میں آتے ہیں، اور نہ ہی تجربی طریقوں سے حل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سوالات دراصل فلسفہ، علمِ کلام، علمِ نفسیات، انسانیات اور ان جیسے دیگر شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں—ایسے علوم جو انسانی شعور، وجود اور معنویت سے سروکار رکھتے ہیں، اور جن کا دائرۂ تحقیق مادی مشاہدے سے کہیں وسیع تر ہے۔

اسی تناظر میں جب کوئی ماہرِ طبیعیات - جیسے رچرڈ ڈاکنز، اسٹیفن ہاکنگ یا ان جیسے دیگر سائنس دان - ایمان، الحاد یا مابعدالطبیعاتی سوالات پر اظہارِ خیال کرتا ہے، تو درحقیقت وہ اپنے سائنسی میدان سے باہر نکل کر ایک بالکل مختلف فکری دائرے میں داخل ہو جاتا ہے؛ ایسا دائرہ جہاں نہ تجربہ گاہ کے آلات کارگر ہوتے ہیں اور نہ ہی نتائج سائنسی مشاہدے یا تجربے کی بنیاد پر طے کیے جا سکتے ہیں۔

لہٰذا، جب کوئی فزکس یا حیاتیات کا ماہر خدا کے وجود یا مذہب سے متعلق رائے دیتا ہے، تو وہ ایک سائنس دان کے طور پر نہیں بلکہ ایک عام مفکر کی حیثیت سے گفتگو کر رہا ہوتا ہے — اور اس کی یہ رائے بھی دیگر فلسفیانہ آرا کی طرح سوال، تنقید اور تجزیے کے لیے کھلی ہوتی ہے۔یہ ایک  واضح  مغالطہ ہے کہ محض کسی ممتاز سائنس دان کے بیان کو، اس کی علمی شہرت کی بنا پر، ازخود سائنسی حقیقت تصور کر لیا جائے؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو رائے اپنے دائرۂ اختصاص سے باہر دی جائے، وہ اپنی قدر و قیمت مشہور ہونے سے نہیں بلکہ اپنی استدلالی طاقت اور عقلی پختگی سے حاصل کرتی ہے۔

بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خود فطری سائنسی منہج اپنی حدود کو پہچانتا ہے اور یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ غائی یا وجودی نوعیت کے سوالات کا احاطہ کر سکتا ہے۔ اس کا دائرۂ کار صرف اس امر تک محدود ہے کہ "کیسے" چیزیں واقع ہوتی ہیں؛ نہ کہ "کیوں"۔ علم، زندگی کے مظاہر کا مشاہدہ اور تجزیہ تو کرتا ہے، لیکن یہ طے کرنا اس کے دائرے سے باہر ہے کہ آیا زندگی کی کوئی غایت ہے یا نہیں، یا یہ کہ انسان کو ایک بامعنی زندگی گزارنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔ یہی وہ جوہری امتیاز ہے جو حقیقت کی توصیف اور اس کی تعبیر مادّی قوانین کے فہم اور اقدار، معنی اور غایت جیسے بڑے انسانی سوالات کی جستجو کے مابین پایا جاتا ہے۔

جب ایک ماہرِ طبیعیات، وجودی یا معنوی نوعیت کے موضوعات پر اظہارِ خیال کرتا ہے، تو اسے محض اپنی سائنسی مہارت کی بنیاد پر فلاسفہ، متکلمین، ماہرینِ نفسیات یا ان عام مفکرین پر کوئی فکری یا علمی تفوق حاصل نہیں ہوتا جنہوں نے زندگی، کائنات اور معنویت کے سوالات پر سنجیدہ غور و فکر کیا ہو اور جنہیں فکری یا روحانی تجربات حاصل ہوں۔ اس نوع کے سوالات ایک بالکل مختلف علمی دائرے سے تعلق رکھتے ہیں، جسے فلسفۂ معرفت میں "انسانی علوم" یا "تأملی میدان" کہا جاتا ہے—جہاں تحقیق کی اساس حسی تجربہ نہیں، بلکہ عقلی تدبر، منطقی تشکیل، تقابلی تجزیہ، اور بعض اوقات وجدانی و شخصی تجربات ہوتے ہیں۔

اکثر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جو کوئی "عالم" یا "سائنس دان" کہلائے، وہ ہر شعبۂ علم میں اتھارٹی سمجھا جائے گا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ علمی اعتبار و سند صرف تخصص کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، اور ہر علم کے داخلی منہج و اصولوں کے احترام سے مشروط ہوتی ہے۔ جس طرح کوئی ماہرِ فلکیات طبی امور میں فتوے دینے کا مجاز نہیں، اور نہ ہی کوئی ریاضی دان دماغی جراحی پر رائے دینے کی علمی حیثیت رکھتا ہے، بالکل اسی طرح ایک ماہرِ طبیعیات کا ایمان و الحاد پر اظہارِ خیال "حتمی سائنسی  نظریہ" شمار نہیں کیا جا سکتا۔

اس حقیقت کی مزید تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ کئی ممتاز ماہرینِ طبیعیات، اپنی فنی مہارت کے باوجود، جب مذہب پر بات کرتے ہیں تو اصطلاحات کو خلط ملط کر دیتے ہیں اور واضح علمی مغالطوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ چونکہ مذہب غیب کی بات کرتا ہے، اس لیے وہ سائنس کے منافی ہے؛ یا یہ کہ ایمان عقل کے خلاف ہے کیونکہ وہ تجرباتی بنیاد پر قائم نہیں؛ یا یہ کہ "خدا" صرف اُن خلاؤں کو بھرنے والا مفروضہ ہے جن کی توضیح سائنس سے ممکن نہ ہو۔ یہ تمام تصورات نہ صرف سادہ لوحی پر مبنی ہیں بلکہ فلسفیانہ و دینی روایت سے لاعلمی اور ایمان کی گہرائیوں سے ناواقفیت کا پتہ دیتے ہیں۔

اس کے برعکس، ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ بہت سے بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنس دان -یہاں تک نوبل انعام یافتہ افراد-یا تو خدا پر ایمان رکھتے ہیں، یا کم از کم اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایمان سے متعلق سوالات کو محض فطری سائنس کی روشنی میں نہ تو مکمل طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی حتمی طور پر حل کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، البرٹ آئن سٹائن رسمی معنوں میں کبھی بھی ملحد نہ تھا؛ اس نے بارہا اس کائنات کے جمالیاتی نظم اور قانونِ قدرت کی ہم آہنگی پر ایک نوع کے "کونیاتی ایمان" کا اظہار کیا۔ اسی طرح مشہور فزکس دان میکس پلانک واضح طور پر کہتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ دونوں کے موضوعات مختلف ہیں: مذہب معنویت اور غایت سے بحث کرتا ہے، جب کہ سائنس ظواہر اور قوانینِ فطرت کا مطالعہ کرتی ہے۔

یہاں ہمیں ایک نہایت اہم نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے علوم کی ذات و فطرت میں جوہری فرق پایا جاتا ہے، اور اسی فرق کو نظرانداز کرنا علمی و فکری سطح پر مہلک نتائج کا سبب بن سکتا ہے۔ فطری سائنس ایک نسبتاً معروضی تعلق پر استوار ہے، جس میں مشاہدہ کرنے والا انسان اور مشاہدہ کی جانے والی فطرت دو جداگانہ عناصر ہوتے ہیں، اور یہی جدائی بلند پایہ معروضیت کی بنیاد بنتی ہے۔ مثلاً کششِ ثقل، کیمیائی تعاملات، یا DNA کی ساخت جیسے مظاہر انسان کے اعتقادی نظام یا ذہنی کیفیات سے متاثر نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس، انسانی علوم میں موضوع اور مشاہد   دونوں انسان ہی ہوتے ہیں، اور اس باہمی تداخل کے باعث ایسے علم کی تشکیل کے لیے بالکل مختلف اوزار درکار ہوتے ہیں، جن میں فلسفیانہ تأمل، نفسیاتی تجزیہ، تاریخی شعور، لسانی مطالعہ، اور سماجی و ثقافتی سیاق کی تفہیم شامل ہیں۔

مثلاً جب ہم یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ "کیا انسان فطری طور پر خدا پر ایمان رکھنے والا ہے؟" تو یہ سوال صرف لیبارٹری میں تجربے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ اس نوع کے سوال کے لیے ایک ہمہ جہتی مطالعہ درکار ہے، جس میں انسانی شعور کی ساخت، معنویت کی طلب، مختلف تہذیبوں میں مذہب کی موجودگی، تاریخ میں ایمان کے عملی مظاہر، اور فنون و ادب میں مذہبی استعارات اور علامتوں کی معنویت شامل ہو۔ یہ وہ پہلو ہیں جن پر محض تجرباتی مہارت رکھنے والا ایک ماہرِ حیاتیات کوئی حتمی اور جامع رائے نہیں دے سکتا۔جب کوئی ملحد (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں) ہر مسئلے میں "سائنس" اور "سائنسدانوں" کو مطلق اتھارٹی ماننے کا مطالبہ کرتا ہے، تو وہ درحقیقت مغالطۂ کا شکار ہوتا ہے۔ وہ کسی ماہر کی علمی عظمت کو اُس کے مخصوص میدانِ تخصص سے نکال کر، بلا دلیل دیگر شعبہ ہائے زندگی پر منطبق کر دیتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص دانتوں کے ڈاکٹر سے قانون پر رائے طلب کرے، یا کسی انجینئر سے دل کے مرض کا علاج پوچھے۔ اہلِ فہم ایسی باتوں کو غیر معقول سمجھتے ہیں، لیکن جب کوئی مشہور سائنسدان یا میڈیا پر چھائے ہوئے شخصیت یہ بات کرے، تو لوگ اکثر اس فریب میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔

یہی فریب ہمیں خاص طور پر رچرڈ ڈاکنز، سیم ہیرس، اسٹیفن ہاکنگ اور ان جیسے دیگر مشاہیر کی تحریروں میں جابجا نظر آتا ہے۔ یہ افراد بلاشبہ اپنے سائنسی میدان میں قابلِ قدر خدمات رکھتے ہیں، مگر جب وہ "سائنس بمقابلہ مذہب" کا بیانیہ اختیار کرتے ہیں، تو دراصل وہ اپنے سائنسی رعب و دبدبہ کو ذاتی نظریات کی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے قارئین کو اس تاثر میں مبتلا کرتے ہیں کہ گویا وہی عقل کے علمبردار ہیں اور مذہب محض ایک قدیم واہمہ ہے۔ لیکن ان کی دلیلیں اکثر علمی بنیاد سے خالی اور جذباتی اثر پر مبنی ہوتی ہیں جہاں مقصد کسی حقیقی مخالف کا علمی رد نہیں، بلکہ ایک فرضی دشمن کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔

اور المیہ یہ ہے کہ ان کے معتقدین بھی انہی دلائل کو بلا تنقید دہراتے ہیں، محض اس لیے کہ بات ایک مشہور نام یا بلند تعلیمی سند رکھنے والے نے کہی ہے۔ ان کی نظر میں "کون کہہ رہا ہے" سب کچھ ہے، "کیا کہا جا رہا ہے" ثانوی ہو جاتا ہے۔ یہ فکری نابالغی کا مظہر ہے، جہاں صداقت کو افراد اور اشخاص کی بنیادوں پر  ماپا جاتا ہے، نہ کہ افراد کو صداقت کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔

ایسے میں جب کوئی کہے: ’’تم سائنس اور سائنسدانوں کی کیوں نہیں مانتے؟‘‘ تو عقلمند انسان کو بس اس سے ایک سادہ سوال کرنا چاہیے: کس سائنس کی بات ہو رہی ہے؟ کس شعبے میں؟ اور کیا کہنے والا واقعی اُس موضوع پر ماہر ہے؟ یا وہ اپنی ذاتی رائے کو سائنسی لباس پہنا کر پیش کر رہا ہے؟ اور کیا سائنس کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اخلاقیات کو وہم، محبت کو کیمیاوی عمل، اور انسانی معنی کو دماغ کا فریب مان لیں؟

علم و عقل کا احترام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سائنسدانوں کو نئے زمانے کے "کاہن" نہ بنا دیا جائے، جن کی ہر بات بغیر دلیل کے قبول کی جائے۔ سچا احترام تو یہ ہے کہ ہر بات کو دلیل کی کسوٹی پر پرکھا جائے، اور ہر خیال کو اس کے دائرۂ علم میں رکھا جائے۔ یہی رویہ علم کی توقیر بھی ہے اور شعور کا توازن بھی۔ ورنہ ہم ایک نئی "خرافہ" میں داخل ہو جاتے ہیں جسے سائنسی شدت پسندی کہا جا سکتا ہے، جہاں انسان کی حقیقت مٹ جاتی ہے، اور لیبارٹری کے آلات کو الوہیت حاصل ہو جاتی ہے۔ حالانکہ نہ عقل لیبارٹری کی غلام ہے، نہ سچائی صرف ٹیسٹ ٹیوب میں قید ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018