
| افکارو نظریات | نظریہ وحدتِ دین اور کثرتِ مذاھب اور اسلام کی حقیقت

نظریہ وحدتِ دین اور کثرتِ مذاھب اور اسلام کی حقیقت
الشيخ معتصم السيد أحمد
دور حاضر کے فکری مباحث میں ایک خطرناک اشکال اٹھایا جا رہا ہے، جس کا مقصد اس بات میں شک پیدا کرنا ہے کہ کیا واقعی کوئی واحد اسلامی حقیقت موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کی مراد کی نمائندگی کرتی ہو۔ یہ اشکال اس نظریے سے جنم لیتا ہے کہ "حقیقت" اپنی فطرت میں ایک نسبتی چیز ہے، جس کے بارے میں یقین حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس خیال کے مطابق، تمام اسلامی مذاہب باوجود اس کے کہ ان میں شدید اختلافات اور تناقضات ہیں برابر طور پر اسی حقیقت کے مختلف اظہار ہیں ۔ یوں تمام مذاہب کو ایک جیسا قرار دیا جاتا ہے، چاہے ان کے عقائد کے اصول اور فہم کے مناہج ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہی کیوں نہ ہوں۔ بظاہر یہ دعویٰ رواداری اور وسعتِ نظری کی دعوت دیتا ہے، مگر درحقیقت یہ دین کی بنیاد کو منہدم کر دیتا ہے، کیونکہ یہ یقین اور برہان پر قائم دین کو ایک غیر واضح، متزلزل تصور میں بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق، اسلام خود ایک غیر متعین مفہوم بن جاتا ہے، اور وحی محض ایک انسانی تجربہ نظر آنے لگتی ہے جو تبدیلی اور تحریف کے نشانے پر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنی حقیقت میں ایک پیغام ہے، جو ایک ربّ کی طرف سے ایک رسول پر ایک کتاب کی صورت میں نازل ہوا، اور جس کا مقصد بھی ایک ہی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ واحد پیغام اپنی مختلف اور متناقض صورتوں میں ظاہر ہو کر سب کو درست قرار دے؟ قرآنِ کریم واضح طور پر بتاتا ہے کہ حق ایک ہی ہے، اس کے علاوہ سب باطل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ﴾
حق کے بعد سوائے گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے؟
لہٰذا، مذاہب کے درمیان اختلاف کو اسلام کی حقیقت واحدہ کے انکار سے حل نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ برہان و دلیل کی روشنی میں یہ معلوم کیا جائے کہ ان میں سے کون سا مذہب اللہ تعالیٰ کی اصل مراد کے زیادہ قریب ہے۔ اگرچہ بعض جدید فکری رجحانات نے نسبیت (ریلیٹیوزم)کے نظریے کو اپنا لیا ہے، لیکن اس نظریے کی جڑ دراصل انسان کی کمزوری کے پہلو سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ نظریہ علم و معرفت کو عقلِ فعال کی بجائے ماحول کے اثرات اور ذاتی حالات کا نتیجہ قرار دیتا ہے، گویا انسان اپنے گردوپیش اور نفسیاتی عوامل سے متاثر ہو کر چیزوں کو جانتا ہے، نہ کہ ایک ایسی عقلی قوت کے ذریعے جو ان اثرات سے بلند ہو کر حقیقت تک رسائی حاصل کر سکے۔
پس، جو انسان اپنے اوپر نفسیاتی اور سماجی عوامل کے غلبے کو تسلیم کر لیتا ہے، وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہر علم صرف ایک ذاتی موقف کا عکاس ہے، اور کوئی ثابت و معروضی حقیقت وجود نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس، اسلام نے انسان کے بارے میں اپنا نظریہ قوت اور ضعف کے توازن پر قائم کیا ہے۔ اسلام کے نزدیک عقل وہ سرچشمۂ قوت ہے جو انسان کو بلند کرتی ہے اور اسے زمان و مکان اور ذاتی میلان کی حدود سے ماورا کر دیتی ہے، جبکہ خواہشِ نفس وہ سرچشمۂ ضعف ہے جو انسان کو اپنی نفسانی خواہشات اور مادی حالات کا قیدی بنا دیتا ہے۔
اسی لیے قرآنِ کریم نے عقل اور خواہشِ نفس کے درمیان فرق کو نہایت اہمیت کے ساتھ واضح کیا ہے۔ جس طرح اس نے انسان کو عقل، غور و فکر اور تدبر کا حکم دیا، اسی طرح خواہشات کی پیروی سے سختی سے روکا ہے، کیونکہ خواہشات بصیرت کو اندھا کر دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ﴾
خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر، وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔
اور فرمایا: ﴿وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى﴾
اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف رکھا اور نفس کو خواہش سے روکے رکھا۔ اور فرمایا:
﴿وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطاً﴾
اور اس شخص کا کہنا نہ مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا، اور جس نے اپنی خواہش کی پیروی کی، اور جس کا کام حد سے بڑھ گیا۔
اگر ذاتی نقطۂ نظر اور نسبیت واقعی ناگزیر (حتمی) ہوتے، جیسا کہ نسبیت کے حامی کہتے ہیں، تو قرآن کبھی اس سے انکار نہ کرتا، اور نہ ہی انسان کو اس کے خلاف جدوجہد کی دعوت دیتا
درحقیقت، پورا قرآنی پیغام اسی بنیاد پر قائم ہے کہ انسان اپنی معرفت کو خواہشات اور شہوات کے غلبے سے آزاد کرے، کیونکہ انہی کے تابع ہو جانے سے حقیقت مسخ ہو جاتی ہے اور انسان حقیقت کو میلانِ نفس کے مطابق ڈھال لیتا ہے، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کے مطابق۔
یہی وجہ ہے کہ کہا جا سکتا ہے: معرفتی نسبیت صرف فکری گمراہی نہیں بلکہ اخلاقی انحراف بھی ہے، کیونکہ یہ انسان کو یہ جواز دیتی ہے کہ وہ بغیر کسی ذمہ داری کے جو چاہے عقیدہ اختیار کر لے،اور حقیقت کو محض ذوق اور پسند کا کھیل سمجھنے لگے۔جبکہ اسلامی منہج اس اصول پر قائم ہے کہ حقائق کا وجود انسان کے باطن سے باہر، ایک معروضی صورت میں موجود ہے، اور انسان کی ذمہ داری یہ نہیں کہ وہ انہیں گھڑ لے، بلکہ یہ ہے کہ وہ انہیں عقل و برہان کے ذریعے دریافت کرے۔
چنانچہ، جس قدرمحقق اپنی ذات، تعصب اور خواہش سے بلند ہو کر سوچتا ہے، اتنا ہی وہ حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔ اور جتنا زیادہ وہ اپنی خواہشات کا تابع بنتا ہے۔ اتنا ہی حقیقت سے دور چلا جاتا ہے۔ جب اسلامی مذاہب (فرقوں) کی تشکیل کا غیر جانبدارانہ اور تحقیقی مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں سے بہت سے مذاہب خالص علمی تحقیق کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئے، بلکہ ان کے پسِ منظر میں سیاسی، قبائلی یا شخصی محرّکات کارفرما تھے، جنہوں نے فہمِ دین اور تاویل کے میدان میں انحرافات پیدا کر دیے۔
لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ تمام مذاہب لازماً اسی اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے چاہا تھا۔ درحقیقت، ان میں سے بہت سے مذاہب انسانی کوششوں کے نتائج ہیں جو اپنے زمانی و تاریخی حالات سے متاثر ہوئے۔ تاہم، حقیقت کی نسبیت (Relativism)کو ردّ کرنا تعصّب یا مکالمے کے انکار نہیں، بلکہ اس کے برعکس، یہ عقل، برہان اور سائنسی منہج کے احترام کی دعوت ہے ۔ تاکہ اختلافی آراء کے باوجود گفتگو اور تحقیق کا دروازہ کھلا رہے۔اور مقصد یہ ہو کہ ہم ایک حق تک پہنچیں نہ کہ متضاد "حقائق" کے جواز تلاش کریں۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہم دو باتوں میں فرق کریں:
پہلی بات: یہ تسلیم کرنا کہ مختلف مذاہب سماجی و تاریخی حقیقت کے طور پر موجود ہیں یہ ایک ناقابلِ انکار امر ہے۔
دوسری بات: یہ مان لینا کہ کوئی مکتبِ فکر الہی حقیقت کی درست ترجمانی یہ تبھی تتب کر سکتا ہے جب اس کے پاس برہانِ قاطع موجود ہو۔ پس مذاہب کا احترام اس معنی میں نہیں کہ تمام مذاہب خدا تک پہنچنے کے یکساں راستے ہیں، کیونکہ اللہ ایک ہے، اس کا دین ایک ہے، اور اس کی شریعت ایک ہے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ حقائق متعدد ہیں، دراصل اس بات کے مترادف ہے کہ اسلام کے اندر خود کئی "ادیان" موجود ہیں۔ اور یہ تصور قرآن کے منطق اور توحیدِ دین کے اصول سے سراسر متصادم ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ حقیقت کی تلاش میں تعصّب، جذباتیت اور اندھی تقلید سے دُور رہے، اورِ فیصلہ کرنے میں اپنا معیارعقل و برہان کو بنائے، نہ کہ مذہبی وابستگی یا سماجی وراثت کو۔ مذہب یا مسلک کو حق کے پیمانے پر پرکھا جانا چاہیے، نہ کہ حق کو مسلکی پیمانوں کے تابع بنایا جائے۔ اگر لوگوں کے درمیان مذاہب کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں، تو اس کا حل یہ نہیں کہ حقیقت ہی کو منسوخ کر دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ حقیقی علمی مکالمے کے دروازے کھولے جائیں، تاکہ درست بات غلط سے الگ ہو جائے، اور اسلام کا حقیقی اور خالص چہرہ مختلف متضاد رجحانات کے درمیان واضح ہو سکے۔ یقیناً اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام نے خود اپنے اندر حقیقت کو دریافت کرنے کے اصول مقرر کیے ہیں، جن میں سب سے اہم اصول برہان (دلیل) کا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾
کہہ دو: اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو۔
پس برہان ہی وہ فیصلہ کن میزان ہے جو مختلف مذاہب کے درمیان حق و باطل کا فرق واضح کرتا ہے، نہ کہ جذبات، اکثریت یا تاریخی وراثت۔ اسی بنیاد پر یہ کہنا درست نہیں کہ ہر مذہب برابر درجے میں حق کا حصہ دار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو "کچھ حصے" کی سچائی تک پہنچنے کا نہیں، بلکہ مکمل حق کے دین تک رسائی کا مکلف بنایا ہے۔
اور جو کچھ اس کامل حق سے کم ہو، وہ "نسبی" اور ناقص و باطل ہے۔ اور اگر تشیع ایک منصف محقق کی نظر میں ایسی مکمل عقلی و استدلالی بنیادوں کی حامل منظم فکر ہے جو اسے رسالت کے حقیقی جوہر سے جوڑتی ہے، تو یہ بات کسی دعویٰ کے طور پر پیش نہیں کی جاتی، بلکہ اسے علمی مکالمے اور غیر جانبدارانہ تحقیق کے سپرد کیا جاتا ہے،تاکہ برہان کے ذریعے خود حقیقت ظاہر ہو۔ کیونکہ حق کا غلبہ نعروں یا وابستگیوں سے نہیں بلکہ دلیل اور خلوص سے حاصل ہوتا ہے۔ درحقیقت، حق کو پہچاننے کا معیار اس کی دلیل ہے، نہ کہ اس کے ماننے والوں کی تعداد۔
خلاصہ یہ کہ اسلامی عقل اس نظریے کو قبول نہیں کر سکتی کہ حقیقت نسبتی ہے، کیونکہ ایسا مان لینا ایمان کی بنیاد کو ہی ختم کر دیتا ہے چونکہ ایمان یقین پر قائم ہوتا ہے، احتمال پر نہیں۔ اسی لیے نسبیت کا انکار تنگ نظری نہیں بلکہ اس بات پر ایمان ہے کہ حقیقت تک رسائی ممکن ہے، بشرطیکہ انسان اپنے نفس کو خواہشات سے پاک کرے اور اپنی عقل کو جو دراصل خدا کی عطا کردہ ہدایت کا نور ہے بروئے کار لائے۔ یوں عقل اور خواہشِ نفس کے درمیان ہی انسان کی تقدیر طے ہوتی ہے: اگر وہ عقل کی پیروی کرے تو حق کو پہچانتا ہے، اور اگر خواہش کا اسیر ہو جائے تو باطل میں بھٹک جاتا ہے۔ قوموں کی تعمیر بھی انہی دو بنیادوں پر ہوتی ہے یا تو عقل و برہان پر، یا جذبات اور اندھی تقلید پر۔
نتیجہ کلام یہ ہے کہ:
اسلام یہ نہیں کہتا کہ حقیقت تک پہنچنے کا راستہ آسان ہے، بلکہ یہ کہتا ہے کہ وہ ناممکن بھی نہیں ہے۔ انسانی خودپسندی اور خواہشِ نفس اگرچہ بڑی رکاوٹیں ہیں، مگر یہ ناگزیر تقدیر نہیں، بلکہ قابلِ اصلاح کمزوریاں ہیں۔ اور چونکہ اللہ نے عقل سے کام لینے کا حکم دیا ہے اور خواہش کی پیروی سے روکا ہے،تو یہ بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقت کو جاننا ممکن ہے، اور یہ کہ وہ حقیقت ایک ہی ہے، متعدد نہیں، کیونکہ حق کا ربّ ایک ہے، اس کی کتاب ایک ہے، اس کا رسول ایک ہے، اور حق کبھی تقسیم یا متکثر نہیں ہو سکتا ۔


