

| افکارو نظریات | کیا نظریۂ ارتقاء ہماری عقل پر اعتماد کو متزلزل کرتا ہے؟ ڈارون شک کرتا ہے اور ہوسرل تسلیم کرتا ہے

کیا نظریۂ ارتقاء ہماری عقل پر اعتماد کو متزلزل کرتا ہے؟ ڈارون شک کرتا ہے اور ہوسرل تسلیم کرتا ہے
الشيخ مقداد الربيعي
نظریۂ ارتقاء کو جب محض مادی تعبیر کے طور پر سمجھا جاتا ہے، تو یہ ایک بنیادی فلسفیانہ چیلنج سے دوچار ہوتی ہے، جو خود انسانی علم کی بنیاد کو ہی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ یہ چیلنج نظریے کے باہر سے نہیں، بلکہ خود اس کے اندر سے اٹھتا ہے، کیونکہ اس کے منطقی مقدمات ایسے نتائج تک لے جاتے ہیں جو انسانی عقل پر اعتماد کو ہی متزلزل کر دیتے ہیں۔نظریۂ ارتقاء اس تصور سے شروع ہوتی ہے کہ انسانی عقل ایک بے ترتیب ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے، جس پر قدرتی انتخاب (natural selection) اور بقاء کے اصول کا غلبہ ہے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق، عقل اس لیے نہیں بنی کہ وہ حقیقت کو سمجھے، بلکہ اس لیے بنی کہ وہ جاندار کی بقاء اور نسل کو جاری رکھنے میں مدد دے۔ یہ منطق ان لوگوں کو جو اس نظریے پر ایمان رکھتے ہیں، ایک الجھن میں ڈال دیتا ہے: آخر ہم ایسے عقل کی باتوں پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں، جو ایسی بنیادوں پر بنی ہو جن کا مقصد حقیقت تک پہنچنا ہی نہ ہو؟
خود چارلس ڈارون اس فلسفیانہ الجھن سے بے خبر نہ تھے۔ ایک نجی خط میں، جو انھوں نے جولائی 1881ء میں اپنے دوست ولیم گراہم کو لکھا، انھوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "مجھے ہمیشہ ایک گہرا شک لاحق رہتا ہے کہ آیا انسانی عقل کی وہ آرا، جو خود ایک ادنیٰ حیوانات کی عقل سے ارتقائی طور پر نکلی ہیں، ، کسی بھی طرح قابلِ اعتماد ہے یا اس پر یقین کرنا مناسب ہے؟ (Charles Darwin to W. Graham, July 3, 1881, in The Life and Letters of Charles Darwin, Vol. 1, London, p. 285)
اپنی سوانح عمری میں بھی ڈارون اس مسئلے کی جانب مزید وضاحت سے اشارہ کرتے ہیں:
"لیکن یہاں ایک شک مجھے لاحق رہتا ہے کہ کیا واقعی ہم اس عقل پر بھروسا کر سکتے ہیں، جس کے بارے میں میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایسی مخلوقات کی عقل سے ارتقاء پذیر ہوئی ہے جو انتہائی پست درجے کی تھیں، اور پھر وہی عقل اب بڑے بڑے استدلالات کرتی ہے؟"(ماخذ سابق، ص ۲۸۲)
فلسفی ایڈمنڈ ہیوسرل کا موقف
فلسفی ایڈمنڈ ہیوسرل نے اس مسئلے کی اہمیت کو بخوبی سمجھا اور اسے علم کے ممکنات کے حوالے سے درپیش چیلنجز کو واضح کرنے کے لیے ایک اہم مثال کے طور پر استعمال کیا۔ ہیوسرل کہتے ہیں: "ہمیں زندگی کے کسی علم سے متعلق کچھ باتیں ذہن میں آ سکتی ہیں، جیسے کہ جدید ارتقائی نظریہ، جس کے مطابق انسان اپنے وجود کے لیے فطرتی انتخاب کے ذریعے ترقی کرتا ہے۔ اس عمل میں اس کا دماغ بھی بتدریج ترقی کرتا ہے، اور دماغ کے ساتھ وہ تمام تصورات جو انسان کے لیے خاص ہیں، خصوصاً منطقی تصورات بھی۔ کیا یہ ہمیں اس نتیجے تک نہیں پہنچاتا کہ منطقی تصورات اور قوانین صرف انسان کی نوع کی عارضی خصوصیت ہیں، اور یہ ممکن ہے کہ یہ مختلف ہوں، اور آئندہ ارتقائی عمل میں ان میں تبدیلی آ جائے؟"(فینومینالوجی کا تصور، ترجمہ: ڈاکٹر فتحی انقزو، مرکزِ مطالعہ وحدت عربیہ، ٢٠٠٧م، صفحہ ٥٤۔)
مسئلے کا اصل نکتہ اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ مادی ارتقائی نظریہ اپنے اندر اپنی ہی تباہی کی بنیاد رکھتا ہے۔ اگر عقل محض تصادفی اور بے مقصد عملوں کا نتیجہ ہے جو حقیقت تک پہنچنے کا مقصد نہیں رکھتے، تو پھر اس کے نتائج پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے، بشمول خود ارتقاء کے نظریہ کے؟ یہ صورت حال اس نظریہ کے حامیوں کو ایک منطقی تناقض میں مبتلا کر دیتی ہے، جہاں وہ اپنی ہی بنیادوں پر سوالات اٹھانے لگتے ہیں۔
خلاصہ: اگر نظریۂ ارتقاء کو کسی حکیم خالق کی رہنمائی کے بغیر تسلیم کیا جائے، تو اس سے انسان کے دماغ اور اس کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت پر اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے۔ یہ اندرونی تضاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وجود کے بارے میں کوئی گہرا اور جامع تفسیر کی ضرورت ہے جو محض مادی نقطہ نظر سے آگے ہو، اور اس کے ذریعے دماغ کو ایک معتبر اور قابل اعتماد ذریعۂ علم کے طور پر تسلیم کیا جائے۔ اس کے بغیر، انسان کا علم اور حقیقت تک پہنچنے کی صلاحیت شک و شبہات میں گھری رہے گی۔