20 محرم 1447 هـ   16 جولائی 2025 عيسوى 5:49 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  کیا نظریۂ ارتقاء خالق پر ایمان سے متصادم ہے؟ سائنسی و فلسفیانہ نقطۂ نظر سے تجزیاتی مطالعہ
2025-07-12   11

کیا نظریۂ ارتقاء خالق پر ایمان سے متصادم ہے؟ سائنسی و فلسفیانہ نقطۂ نظر سے تجزیاتی مطالعہ

الشيخ مقداد الربيعي

نظریۂ ارتقاء اور ایمان کے درمیان تعلق ہمیشہ سے علمی اور مذہبی حلقوں میں بحث و مباحثے کا بڑا موضوع رہا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان یقینی طور پر ایک ٹکراؤ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹکراؤ ضروری نہیں۔ ماضی اور حال کے کئی سائنس دانوں اور مفکرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نظریۂ ارتقاء اور خالق کے وجود پر ایمان کے درمیان ہم آہنگی کا امکان موجود  ہے۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہم چارلس ڈارون کے مؤقف سے بحث کا  آغاز کرتے ہیں جو جدید نظریۂ ارتقاء کا بانی ہے۔ عام خیال کے برعکس، ڈارون کا اصل نظریہ یہ نہیں تھا کہ خالق کے وجود کا انکار کیا جائےبلکہ وہ اس بات پر تحقیق کر رہا تھا کہ مخلوقات کیسے وجود میں آئیں اور ان کے پیدا ہونے کا نظام کیا ہے؟ڈارون خود اپنے مؤقف کو ان الفاظ میں واضح کرتا ہے:"مجھے اس بات میں ذرا برابر شک نہیں رہا کہ جس بات پر میں اور دوسرے فطریات دان پہلے یقین رکھتے تھے  کہ ہر جاندار نوع کو خالق نے الگ الگ پیدا کیا وہ سراسر غلط ہے۔ اب میں پوری طرح اس بات کا قائل ہوں کہ جاندار انواع ہمیشہ تبدیلی کا شکار ہوتی ہیں اور جو انواع آج موجود ہیں، وہ ان قدیم انواع کی نسلیں ہیں جو ختم ہو چکی ہیں۔"(اصل الانواع، چارلس ڈارون، صفحہ 60)

یہ بات واضح ہے کہ ڈارون کے نزدیک ارتقاء کا نظریہ اللہ کے خالق ہونے سے ٹکراؤ نہیں رکھتابلکہ وہ صرف اس خیال سے مختلف رائے رکھتا ہے کہ اللہ نے ہر جاندار کو الگ الگ، ایک دوسرے سے بالکل جدا طریقے سے پیدا کیا ہے۔ڈارون نے خود اس مؤقف کا دفاع کیا جب بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ وہ "قدرتی انتخاب" کو گویا خالق کی جگہ پر رکھ رہا ہے۔ اس پر اس نے جواب دیا:"لیکن کوئی بھی اس مصنف پر اعتراض نہیں کرتا جو کششِ ثقل کے ذریعے سیاروں کی حرکت کو بیان کرتے ہوئے کہے کہ وہ کشش ہی سب کچھ کنٹرول کر رہی ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ایسے جملے مجازی (تشبیہی) انداز میں بولے جاتے ہیں، اور اکثر اوقات ان کا استعمال صرف بات کو مختصر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔"(اصل الانواع، صفحہ 161)

اسی بات کی تائید مائیکل ریوس بھی کرتا ہےجو کہ ڈارون کا مداح اور خودبھی ایک ملحد ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کتاب "اصل الانواع" (Origin of Species) میں پیش کی گئی دلیلیں کسی کو لازماً ملحد بنانے کے لیے ہی نہیں ہیں۔ اس کے الفاظ ہیں:"ہم جانتے ہیں کہ 'اصل الانواع' میں دی گئی دلیلوں نے خود ڈارون کو بھی ملحد نہیں بنایا کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ کوئی نہ کوئی خالق (ڈیزائنر) موجود ہے۔"اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ڈارون نے اپنی زندگی کے آخر میں خداباور فلسفے سے ہٹ کر شکّی الحاد کی طرف رجوع کیاتو اس تبدیلی کی وجہ ارتقاء کا نظریہ نہیں تھابلکہ اس کے پیچھے کچھ اور اسباب تھے جیسے کائنات میں موجود شر کا مسئلہ یا ڈیوڈ ہیوم کی فلسفیانہ فکر کا اثر وغیرہ۔

جدید دور کے مشہور ماہرین ارتقاء میں سے ایک اسٹیفن جے گولڈ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ارتقاء کے نظریے اور خالق پر ایمان کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔اس نے اس موضوع پر ایک خاص کتاب بھی لکھی جس کا نام ہے:"وقت کی دو چٹانیں: دین اور سائنس بھرپور زندگی میں"(Rocks of Ages: Science and Religion in the Fullness of Life)اس کتاب میں اس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سائنس اور دین دونوں اپنی اپنی الگ دنیائیں ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے دائرے میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یعنی ہر ایک کا اپنا میدانِ کار ہےاور وہ ایک دوسرے سے متوازی انداز میں چل سکتے ہیں، کسی تصادم کے بغیر ایسا ہونا ممکن ہے۔(صخرتا الزمن، صفحہ 61)

ہدایت یافتہ ارتقاء کا نظریہ

گزشتہ چند دہائیوں میں ایک نظریہ سامنے آیا ہے جسے "ہدایت یافتہ ارتقاء" کہا جاتا ہے۔اس نظریے کے مطابق جاندار انواع کو براہِ راست پیدا نہیں کیا گیا بلکہ وہ ارتقائی مراحل سے گزر کر وجود میں آئیں جیسا کہ ڈارون کے پیروکار کہتے ہیں۔البتہ اس نظریے میں فرق یہ ہے کہ ارتقاء کو محض اتفاق اور اندھی فطری قوتوں کا نتیجہ نہیں سمجھا جاتابلکہ یہ مانا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی مرضی، ارادے اور حکمت کے تحت ہوا۔

ایڈورڈ لوٹر کیسل، جو جانوروں اور حشرات (کیڑوں) کے ماہر ہیں، اس مؤقف کو یوں واضح کرتے ہیں:"قدرتی انتخاب (Natural Selection)، ارتقاء کے عمل کا ایک مکینکی (طبعیاتی) ذریعہ ہے اور ارتقاء خود تخلیق (یعنی مخلوقات کے وجود میں آنے) کے عمل کا ایک حصہ ہے۔ لہٰذا، ارتقاء بھی دراصل کائنات کے ان اصولوں یا قوانین میں سے ایک ہے جو اللہ نے بنائے ہیں۔یہ دیگر سائنسی قوانین کی طرح ایک ثانوی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ یہ خود بھی کسی تخلیق کرنے والے کا محتاج ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اللہ کی پیدا کردہ اور بنائی ہوئی چیز ہے۔"(کتاب: اللہ کا ظہور سائنس کے دور میں، مرتب: جون کلوفر مونسیما، صفحہ 35)

مالیکیولر بایولوجی کے ممتاز ماہر فرانسِس کولنز اپنی کتاب "خدا کی زبان" (The Language of God) میں لکھتے ہیں:"میں خود کو اس تصور کی طرف کھنچتا ہوا محسوس کرتا ہوں اور موجودہ دور میں جب سائنس ہر لمحے ایک نئی پیچیدگی کا پردہ چاک کر رہی ہےتو مجھے اس تصور کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا۔یہ تصور ہے: الٰہی ارتقاء یا ہدایت یافتہ ارتقاء ہے۔یہ میری اپنی ایجاد نہیں بلکہ بہت سے مخلص دیندار افراد کا بھی یہی فہم ہے جنہوں نے ارتقاء کے نظریے کو اپنا لیا ہے۔"(ماخذ: کیف بدأ الخلق از عمرو شریف، صفحہ 234)

نوبل انعام یافتہ ماہرِ حیاتیات کرسٹیان ڈی ڈو (Christian de Duve) پر زور دے کر کہتے ہیں کہ:"یہ کہنا بے معنی ہے کہ الحاد (خدا کا انکار) سائنس کی طرف سے لازمی یا ناگزیر طور پر مسلط کیا گیا ہے۔"اسی طرح براون یونیورسٹی کے حیاتیات کے پروفیسر کینتھ ملر (Kenneth Miller) نے بھی واضح الفاظ میں کہا:"نظریۂ ارتقاء خدا کے خلاف نہیں ہے۔"(ماخذ: القضیۃ الخالق از لی اسٹروبل، صفحہ 27)

فلسفیانہ مؤقف کی تائید

فلسفی اور قدرتی تاریخ کے ماہر مائیکل روز (Michael Ruse) سے جب یہ سوال کیا گیا کہ:"کیا کوئی شخص جو ارتقاء کے نظریے پر ایمان رکھتا ہو، عیسائی بھی ہو سکتا ہے؟ اس نے جواب دیا:ہاں، بالکل ہو سکتا ہے۔اس نے مزید کہا کہ اب تک کوئی مضبوط دلیل ایسی پیش نہیں کی گئی جو یہ ثابت کرے کہ ڈاروِن کا نظریہ (داروِنیت) الحاد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔"(ماخذ: حوالہ سابق، صفحہ 27)

ڈاکٹر رالف لنٹن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ:"ارتقاء پر ایمان رکھنا کبھی بھی ایک خلاق اور الہامی عقل (خدا) کے وجود پر ایمان کے منافی نہیں ہے۔ارتقاء کا مطالعہ دراصل تخلیق کے طریقہ کار کا مطالعہ ہے، اس اعتراف کے ساتھ کہ یہ عمل (تخلیق) مسلسل جاری ہے۔"(ماخذ: انسان کا مطالعہ، صفحہ 18)

خلاصہ

تاریخی اور سائنسی شواہد واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نظریہ ارتقاء کی بنیادی سوچ خالق کے وجود کے انکار کو لازمی قرار نہیں دیتی۔خود ڈارون سے لے کر عصر حاضر کے کئی سائنس دانوں اور مفکرین تک، بہت سے افراد نے اس بات پر زور دیا ہے کہ خالق پر ایمان اور ارتقاء کو تخلیق کے ایک طریقے کے طور پر قبول کرنا دونوں آپس میں ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔یہ نقطۂ نظر سائنس اور دین کے درمیان ایک تعمیری مکالمے کی راہ ہموار کرتا ہے۔یہ کچھ لوگوں کے اس نظریے کے خلاف ہے جو ہر صورت میں ارتقاء اور خالق پر ایمان کے ٹکراو کا اعلان کرتے ہیں۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018