5 محرم 1447 هـ   1 جولائی 2025 عيسوى 6:59 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  مؤمن کی نظر میں نظریۂ ارتقاء: ایک عقلی و ایمانی مطالعہ
2025-06-18   5

مؤمن کی نظر میں نظریۂ ارتقاء: ایک عقلی و ایمانی مطالعہ

الشيخ مقداد الربيعي

انسان ازل سے اپنے اردگرد کی دنیا کو سمجھنے، اس کے اسرار کو ڈھونڈنے اور مظاہرِ کائنات کی تشریح کرنے کی جستجو میں مصروف رہا ہے۔ اس طویل فکری سفر کے دوران تین بنیادی علمی نظام سامنے آئے: دین، عقل، اور علم۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں بہت سے لوگوں نے ان نظاموں کو ایک دوسرے کا مخالف اور متضاد سمجھا، گویا ان میں سے کسی ایک کے باقی رہنے کے لیے دوسروں کو ختم کرنا ضروری ہے۔ لیکن جب ان پر گہرائی سے غور کیا جائے تو ایک بالکل مختلف حقیقت سامنے آتی ہے: یہ تینوں نظام نہ صرف ہم آہنگ ہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں اور ہر ایک وجود کے فہم اور اس کی تفسیر میں اپنے اپنے درجے پر ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

نظریۂ ارتقاء شاید اس تصور کو جانچنے کے لیے ایک مثالی نمونہ پیش کرتا ہے۔ جب سے چارلس ڈارون نے 1859ء میں اپنی کتاب "اصل الانواع" کے ذریعے اس نظریے کو پیش کیا، اس وقت سے یہ خیال مذہبی عقائد کے ساتھ اس کے بظاہر تضاد کے باعث شدید بحث و مباحثے کا موضوع بن گیا ہے۔ اس حوالے سے مختلف حلقوں نے دو انتہاؤں کا رخ اختیار کیا کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مذہب کے نام پر اس نظریے کو بالکل ہی رد کر دیا اور دوسری جانب وہ جو اس نظریے کو اپنا کر خدا اور دین کے خاتمے کا اعلان کرنے لگے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں گروہوں نے اصل مسئلے کو غلط سمجھا اور ایک بڑے علمی مغالطے کا شکار ہوئے،جو یہ ہے کہ انہوں نے علت و سبب کی مختلف سطحوں کے باہمی تکامل کو سمجھا ہی نہیں۔

تجربیاتی علم، جس میں نظریۂ ارتقاء بھی شامل ہے، قدرتی مظاہر کی وضاحت اُن قریب ترین اور قابلِ مشاہدہ اسباب کے ذریعے کرتا ہے جنہیں ناپا اور جانچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بنیادی اور ناگزیر کردار ہے جو فطرت کے عمل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ دوسری طرف انسانی عقل محض محسوسات تک محدود نہیں رہتی بلکہ ان سے آگے بڑھ کر اُن درمیانی علل اور عمومی قوانین کی تلاش کرتی ہے جو ان مظاہر کو ایک ترتیب اور ربط عطا کرتے ہیں۔ جبکہ دین، ان دونوں سے آگے بڑھ کر، تمام اسباب کی اصل علت اور ہر سبب کے پیچھے کارفرما حقیقت کو واضح کرتا ہے،اور وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ جس نے اس عظیم الشان نظام کو تخلیق کیا اور اس کے اندر اپنے حکیمانہ قوانین رکھ دیے۔

کانٹ کا نظریۂ عقل: انسانی شعور کی ترقی کے تین ادوار

فرانسیسی فلسفی اوگست کانٹ (1798–1857ء) نے انسانی عقل کی ارتقائی تاریخ کے بارے میں ایک مشہور نظریہ پیش کیا، جس کے مطابق انسان نے کائناتی مظاہر کی تشریح کے لیے تین مرحلے طے کیے: پہلا، الہٰیاتی مرحلہ جس میں مظاہر کو مافوق الفطرت قوتوں سے منسوب کیا گیا؛ دوسرا، مابعد الطبیعیاتی مرحلہ جس میں ان قوتوں کو تجریدی تصورات سے تعبیر کیا گیا؛ اور تیسرا، سائنسی یا وضاحتی مرحلہ جس میں صرف محسوس تجربے اور سائنسی طریقہ تحقیق کو حقیقت کی بنیاد تسلیم کیا گیا۔ کانٹ کے مطابق یہ تینوں مرحلے ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ہر نیا مرحلہ پچھلے کی نفی کرتا ہے۔

یہ نقطۂ نظر ایک بنیادی غلطی پر مبنی ہے۔ مغرب کی طرف سے باقی تمام معرفت کی اقسام کو مسترد کر کے صرف حسی سائنس اور تجربہ گاہ کی پیداوار پر انحصار  جسے آج "علم پرستی" (Scientism) کہا جاتا ہے اسی غلطی کا نتیجہ ہے۔ گہرے غور و فکر سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تینوں سطحیں متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ الہٰیاتی مرحلہ تمام اسباب کی علتِ اوّل اور حقیقتِ کلی کی وضاحت کرتا ہے، مابعد الطبیعیاتی مرحلہ عمومی قوانین اور درمیانی اسباب کا جائزہ لیتا ہے اور سائنسی مرحلہ قریب ترین، محسوس اسباب اور مادی مظاہر کی تشریح کرتا ہے۔ یہ تینوں دراصل انسانی ادراک کے مختلف درجات ہیں، جن میں کوئی تعارض نہیں بلکہ ایک مکمل ہم آہنگی اور توازن پایا جاتا ہے۔

قرآن کریم کی عظمت اور اعجاز یہی ہے کہ اُس نے ان تمام سطحوں کی طرف ایک جامع اور متوازن انداز میں صدیوں پہلے ہی اشارہ کر دیا تھا جیسا کہ سورۃ الواقعہ میں بیان ہوا ہے  جہاں تخلیق، قدرت، نظم اور حکمت کے مختلف پہلوؤں کو ایک ساتھ بیان کر کے عقل، وجدان اور ایمان کو ایک ہی سرچشمے سے سیراب کیا گیا ہے۔

(أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُونَ ﴿۵۸﴾أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ ﴿۵۹﴾(سورہ واقعہ )

مجھے بتلاؤ کہ جس نطفے کو تم (رحم میں) ڈالتے ہو،۵۹۔ کیا اس (انسان) کو تم بناتے ہو یا بنانے والے ہم ہیں؟

قرآن مجید انسانی تولید کے فطری و مادی اسباب کا انکار نہیں کرتا بلکہ ان کو تسلیم کرتا ہے مگر ساتھ ہی نگاہوں کو ان اسباب کے پیچھے کارفرما اصل سبب یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف موڑتا ہے:

﴿أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ﴾

 (کیا تم اسے پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں؟)۔

 اسی طرح نباتات، پانی اور آگ کے بارے میں آنے والی آیات میں بھی قرآن ان کے مادی اسباب کو تسلیم کرتا ہے مگر بالآخر ان سب کو ان کے اولین موجد اور سب سے بڑے خالق کی طرف منسوب کرتا ہے۔

نظریۂ ارتقاء: علم اور دین کے درمیان

جب ہم نظریۂ ارتقاء کو ایک جامع اور متوازن زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں تو اس سے وابستہ بہت سی فرضی اشکالات خود بخود ختم ہو جاتی ہیں اور واضح ہو جاتا ہے کہ یہ نظریہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، اُس کے خالقِ کائنات اور مبدعِ حیات ہونے کے عقیدے سے کسی طرح  بھی متصادم نہیں۔ اگر اس نظریے کو درست تسلیم بھی کر لیا جائےتو یہ صرف اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ جاندار مخلوقات میں تنوع اور ارتقائی تبدیلیاں کس طرح، یعنی کن فطری ذرائع جیسے کہ قدرتی انتخاب، جینیاتی تغیرات اور دیگر عوامل کے ذریعے، لاکھوں سالوں میں وقوع پذیر ہوئیں۔ لیکن یہ نظریہ نہ تو اس بات کی وضاحت کرتا ہے اور نہ ہی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خود "زندگی کے آغاز" یا "ان قوانین کے ماخذ" کو بیان کر سکتا ہے، جو اس ساری ارتقائی ترتیب کو چلانے والے ہیں۔

ایمان باللہ سائنسی تشریحات کا متبادل نہیں بلکہ خود اس بات کی تشریح ہے کہ کائنات کسی تشریح کے قابل کیوں ہے۔ علم "کیسے" (How) کا جواب دیتا ہے، جبکہ ایمان "کیوں" (Why) کا۔ اسی نکتے پر معروف موحد فلسفی جون لینکس زور دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں: "ہم جس بات پر یہاں روشنی ڈالنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ خدا کو علم کے متبادل کے طور پر نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ ہی اسے صرف اُن خلاؤں کو پُر کرنے والا معبود سمجھا جائے جنہیں سائنس ابھی سمجھنے سے قاصر ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خدا تمام تشریحات کی بنیاد ہے۔ اس کا وجود ہی ہر قسم کی تفہیم، خواہ وہ سائنسی ہو یا غیر سائنسی، کے ممکن ہونے کی اصل وجہ ہے۔" وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ بڑے  سائنسی مصنفین جیسے کہ رچرڈ ڈاکنز، خدا کو ایک سائنسی تشریح کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں جو کہ ایک من گھڑت بات ہے اور مذہبی فکر کی کسی بھی گہرائی میں اس کا وجود نہیں۔ درحقیقت، ڈاکنز ایسے دشمنوں سے لڑ رہے ہیں جو حقیقت میں موجود ہی نہیں۔(بحوالہ: أقوى براهين جون لينكس، مرتب: احمد حسن، ص 208)۔

علم پرستی (Scientism) کا دعویٰ اس وقت کمزور پڑ جاتا ہے جب خود اعلیٰ پائے کے سائنس دان اور محققین اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ تجرباتی علم اپنی فطری حدود اور مخصوص طریقۂ کار کے باعث انسانی عقل کو درپیش بہت سے بنیادی اور جوہری سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ موجودہ سائنسی شعور میں یہ بات مستحکم ہو چکی ہے کہ تجرباتی علم، اگرچہ انسانی فہم کا ایک مؤثر ذریعہ ہے مگر وہ حقیقت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا دائرہ صرف ان امور تک محدود ہے جنہیں محسوس کیا جا سکے، جانچا جا سکے اور تجربے کی گرفت میں لایا جا سکے۔

اسی تناظر میں معروف برطانوی ملحد فلسفی برٹرینڈ رسل بھی علم کی محدودیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:"سائنس دان انکساری سے تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں علم خود کو عاجز پاتا ہے" (الدين والعلم، ص 171)۔مشہور طبیعیات دان آئن سٹائن بھی انسانی عقل کی کمزوری اور علم کی حد بندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نہایت دل نشین انداز میں کہتے ہیں:"انسانی عقل، چاہے وہ کتنی ہی اعلیٰ تربیت یافتہ ہو یا اس کی فکر کتنا ہی بلند ہو، کائنات کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ ہم اس بچے کی مانند ہیں جو ایک بہت بڑی لائبریری میں داخل ہوا ہو، جس کی کتابیں چھت تک لگی ہوئی ہوں اور جن کی زبانیں مختلف ہوں۔ وہ بچہ بس اتنا جانتا ہے کہ ضرور کوئی ہے جس نے یہ کتابیں لکھی ہیں لیکن نہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کون ہے، نہ یہ کہ اُس نے کیسے لکھا اور نہ ہی وہ اُن زبانوں کو سمجھتا ہے جن میں وہ لکھی گئی ہیں"(آئن سٹائن، عبد الرحمن مرحبا، ص 145؛ از: قيس القرطاس، قصور العلم البشري، ص 96)۔

اسی مفہوم کو سر جیمز جینز نے نہایت بلیغ تشبیہ کے ذریعے بیان کیا ہے:"علم حقیقت کے سمندر میں مخصوص قسم کے جال کے ذریعے شکار کرتا ہے، جسے 'سائنسی طریقۂ کار' کہا جاتا ہے، مگر ممکن ہے اس بے کنار سمندر میں بہت کچھ ایسا بھی ہو جسے یہ جال پکڑنے سے قاصر رہے"(بساطة العلم، بيك ستانلي، ص 229)۔

معروف حیاتی طبیعیات دان بول کلارنس ایبرسولد اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ سائنس اپنی تمام تر ترقی کے باوجود کائنات، ایٹم اور شعور جیسے بنیادی امور کے کئی پہلوؤں کو یا تو حل نہیں کر سکی یا وہ انسانی فہم سے باہر ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ سائنس لاکھوں سال آگے بڑھتی رہے تب بھی وہ زیادہ سے زیادہ یہ بتا سکے گی کہ چیزیں "کیسے" واقع ہوتی ہیں، لیکن وہ آج تک یہ واضح نہیں کر سکی کہ چیزیں "کیوں" واقع ہوتی ہیں۔ یہ جملہ اس بنیادی حد کو نمایاں کرتا ہے کہ تجرباتی علم علتِ غائی یعنی اشیاء کے مقاصد اور وجود کے پس پشت حکمتوں کی وضاحت سے قاصر ہے اور یہی وہ میدان ہے جہاں عقل، وجدان اور ایمان کا سفر شروع ہوتا ہے۔

علم اور انسانی عقل اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ہمیں یہ نہیں بتا سکتے کہ یہ ذرّات، ستارے، سیارے، زندگی اور انسان جو غیرمعمولی صلاحیتوں کا حامل ہے کیوں وجود میں آئے؟ اگرچہ سائنسی تحقیقات ہمیں نیبولا، کہکشاؤں، ستاروں، ذرات اور دیگر مظاہرِ کائنات کے بارے میں قیمتی نظریات فراہم کرتی ہیں لیکن وہ یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ وہ مادّہ اور توانائی کہاں سے آئی جس سے یہ کائنات بنی اور یہ بھی کہ کائنات نے یہی مخصوص شکل اور نظام کیوں اختیار کیا؟(بحوالہ: اللہ سائنس کے دور میں جلوہ گر ہوتا ہے، مرتب: جون کلوفر مونسیما، ص 42)۔

اور یہی حقیقت قرآن کریم نے نہایت بلیغ انداز میں سورۃ الواقعہ کی ان آیات میں بیان فرمائی ہے جن کا ہم نے ذکر کیا، جہاں قدرتی اور مادی اسباب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، انسان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی ہے کہ یہ تمام فطری علل، خواہ کتنی ہی باریک اور پیچیدہ کیوں نہ ہوں، دراصل اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے نفاذ کے لیے محض ذرائع اور واسطے ہیں ۔ اصل فاعل اور مسببِ حقیقی تو صرف وہی ہے۔قرآن مجید میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:

﴿أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ   أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ * لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاهُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَكَّهُونَ﴾

۶۳۔مجھے بتلاؤ کہ جو کچھ تم بوتے ہو،۶۴۔ اسے تم اگاتے ہو یا اسے اگانے والے ہم ہیں؟۶۵۔ اگر ہم چاہیں تو اسے ریزہ ریزہ کر دیں پھر تم حیرت زدہ، بڑبڑاتے رہ جاؤ،

ارتقائی نظریے کی تفہیم میں علم، عقل اور دین کی ہم آہنگی

جب ہم نظریۂ ارتقاء کا مطالعہ ایک تکمیلی (تکاملی) زاویے سے کرتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دین، عقل اور تجرباتی علم  تینوں معرفتی نظام  باہم مل کر ارتقاء جیسے پیچیدہ مظہر کو گہرائی اور وسعت کے ساتھ سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ تجربیاتی علم ہمیں حیاتیاتی ارتقاء کے مادی شواہد فراہم کرتا ہے، جیسے فوسلز، جینیاتی مماثلتیں، جسمانی ساخت کا تقابلی مطالعہ، حیاتیاتی تقسیم اور مشاہدہ شدہ ارتقائی تبدیلیاں۔ یہ سائنسی طریقے ہمیں ارتقائی عمل کے اسباب مثلاً قدرتی انتخاب، جینیاتی تغیرات اور دیگر فطری میکانزم کی وضاحت دیتے ہیں۔ عقل انسانی ان شواہد کی مدد سے عمومی قوانین اور کلی اصول اخذ کرتی ہے، مختلف مظاہر کو مربوط کرتی ہے اور مجرد سطح پر ایسے معانی و نظریات کو ترتیب دیتی ہے جو صرف محسوسات پر محدود نہیں ہوتے۔ جبکہ دین اس پورے نظام کے پیچھے موجود الٰہی حکمت، اس کے مقصد اور غایت کو ظاہر کرتا ہے اور اُن وجودی سوالات کا جواب دیتا ہے جن سے تجرباتی علم عاجز ہے  مثلاً: زندگی کا آغاز کیوں ہوا؟ یہ مخصوص قوانین ہی کیوں طے پائے؟ اور اس تمام کائناتی عمل کا حتمی مقصد کیا ہے؟ اس طرح یہ تینوں سطحیں مل کر ایک ہم آہنگ اور جامع فہم تشکیل دیتی ہیں، نہ کہ یہ تنیوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

ایمان اور نظریۂ ارتقاء میں ہم آہنگی

اللہ تعالیٰ کو خالقِ کائنات ماننے کا ایمان، جانداروں میں تنوع کی وضاحت کے لیے نظریۂ ارتقاء کو بطور ایک سائنسی تشریح تسلیم کرنے سے کسی طرح متصادم نہیں۔ بلکہ جب مومن ان پیچیدہ اور نہایت دقیق ارتقائی نظامات کو سمجھتا ہے تو اس کا ایمان اللہ کی عظمت اور حکمت میں اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ جیسے ہم کائنات کی حرکت کو بیان کرنے والے طبیعیاتی قوانین کو جان کر یہ نہیں کہتے کہ خدا اس کا خالق نہیں رہا، بالکل ویسے ہی ارتقاء کے فطری اسباب کو سمجھنا یہ ہرگز ثابت نہیں کرتا کہ خدا نے زندگی کو پیدا نہیں کیا۔ بلکہ یہ سب کچھ اُس حکیم خالق کے علم، قدرت اور تقدیر کے تحت ہی ہو رہا ہے۔

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ * ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ * ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ﴾ [المؤمنون: 12-14]

۱۲۔ اور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا۔۱۳۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ پر نطفہ بنا دیا۔۱۴۔ پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے۔

یہ آیاتِ کریمہ انسانی جنینی ارتقاء کو مراحل کی صورت میں بیان کرتی ہیں اور ہر مرحلے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتی ہیں حالانکہ آج ہم ان مراحل کی حیاتیاتی تفصیلات بخوبی جانتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، جاندار مخلوقات کے ارتقائی سفر کو  جو طویل ارضی ادوار میں وقوع پذیر ہوا ۔ اُسی انداز میں سمجھا جا سکتا ہے: یعنی فطری اسباب کے ساتھ ساتھ اس سارے عمل کا خالق اور مدبر اللہ تعالیٰ ہی ہے۔

اختتامیہ: وجود کی تکمیلی تفہیم

دین اور سائنس کے درمیان جس تصادم کو عمومی طور پر پیش کیا جاتا ہے، خاص طور پر نظریۂ ارتقاء کے ضمن میں، وہ درحقیقت ایک فرضی اور مصنوعی تصادم ہے جو معرفت کی نوعیت اور اس کی مختلف سطحوں کو درست طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اصل تضاد دین اور علم کے درمیان نہیں، بلکہ انسانی سطح پر کی جانے والی مذہبی تشریحات اور سائنسی تاویلات کے درمیان ہو سکتا ہے۔ جہاں تک خود دینی اور سائنسی حقائق کا تعلق ہے وہ اپنی اصل میں متضاد نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ سب ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلوؤں کا اظہار ہیں۔

جب ہم یہ بات سمجھ لیتے ہیں کہ دین، عقل اور تجرباتی علم تینوں کا اپنا مخصوص دائرہ اور کردار ہےاور یہ وجود کی مختلف سطحوں کو واضح کرتے ہیں تو ہم اس مصنوعی کشمکش سے بلند ہو کر وجود کو ایک ہم آہنگ، مربوط اور جامع زاویۂ نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں۔قرآن کریم نے بھی سورۃ الواقعہ کی ان آیات میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے، جہاں وہ تولید، نباتات، بارش اور آگ جیسے فطری مظاہر کے مادی اسباب کو تسلیم کرتے ہوئے، انسان کی توجہ ان کے حقیقی اور اولین خالق، اللہ تعالیٰ کی طرف مبذول کراتا ہے یوں عقل، علم اور ایمان سب ایک ہی حقیقت کی تکمیلی پرتیں بن جاتے ہیں۔اللہ تعالی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ﴾ (واقعہ ۵۹)

۵۹۔ کیا اس (انسان) کو تم بناتے ہو یا بنانے والے ہم ہیں؟

 ﴿أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ﴾، (واقعہ۶۴)

۶۴۔ اسے تم اگاتے ہو یا اسے اگانے والے ہم ہیں؟

﴿أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ﴾(واقعہ ۶۹)

۶۹۔ اسے بادلوں سے تم برساتے ہو یا اس کے برسانے والے ہم ہیں؟

﴿أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ﴾(واقعہ ۷۲)

۷۲۔ اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟

چنانچہ نظریۂ ارتقاء اگر اسے درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو یہ ہرگز اللہ تعالیٰ کے وجود یا اُس کے تخلیقِ کائنات اور نظامِ تدبیر میں کسی قسم کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس، یہ نظریہ اُن اسالیب و ذرائع میں سے بعض کی وضاحت کرتا ہے جنہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں اپنے ارادے کے نفاذ کے لیے منتخب فرمایا۔ اس تکمیلی زاویۂ نظر کے ساتھ ہم "کتابِ کائنات" اور "کتابِ وحی" کو ایک ہی ہم آہنگ اور مربوط قراءت کے طور پر پڑھ سکتے ہیں ایک ایسی قراءت جو ہمیں علم اور ایمان دونوں میں آگے بڑھاتی ہے اور خالق کی عظمت، حکمت اور قدرت کو مزید گہرائی سے سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018