5 محرم 1447 هـ   1 جولائی 2025 عيسوى 6:54 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  زندگی کے کیمیائی ارتقا کے مفروضے اور ان کا رد
2025-05-23   126

زندگی کے کیمیائی ارتقا کے مفروضے اور ان کا رد

الشيخ معتصم السيد أحمد

زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی ؟ یہ وہ قدیم ترین سوال ہے جو انسان اپنی فلسفیانہ سوچ کے آغاز سے ہی اپنے ذہن میں بٹھائے ہوئے ہے، اورجیسے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں نے وقت کے ساتھ ساتھ اسے مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔ علم کی ترقی کے ساتھ، کئی سائنس دانوں نے اس سوال کا جواب سائنسی اور تجرباتی طریقوں سے دینے کی کوشش کی، خصوصاً 'کیمیائی ارتقاء' کے نظریے کے ذریعے، جس کے مطابق زندگی زمین پر پیچیدہ کیمیائی تعاملات سے وجود میں آئی۔تاہم، یہ نظریہ محض ایک قیاس ہے جسے سائنسی طریقۂ کار سے نہ تو پرکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت، یہ ایک فلسفیانہ مفروضہ ہے جو عقلی اور نظری دلائل پر مبنی ہے، اور اس کی تصدیق اُن سائنسی آلات سے ممکن نہیں جن پر تجرباتی سائنس کا انحصار ہے۔ اس مضمون میں ہم اس موضوع کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیں گے اور واضح کریں گے کہ آخر کیوں 'کیمیائی ارتقاء' کا نظریہ سائنسی لحاظ سے ناقابلِ تصدیق ہے۔

سائنس کی تحقیقاتی حدود:

سائنسی تحقیق اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی ایسا مفروضہ پیش کیا جائے جسے تجربات اور مشاہدات کے ذریعے جانچا اور پرکھا جا سکے۔ جبکہ اس میدان میں سائنس کی کچھ واضح حدود و قیود بھی موجود ہیں۔چنانچہ جب ہم "زندگی کی ابتدا" کی بات کرتے ہیں، تو ہم ایک ایسے آغاز کی بات کر رہے ہوتے ہیں جسے ہم نہ تو براہِ راست دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی تجربہ گاہ میں آزما سکتے ہیں۔گویا، زندگی کی ابتدا سے متعلق سوال تجربہ گاہ میں قابلِ تصدیق تجربات کے دائرۂ کار سے کہیں آگے کا معاملہ ہے۔اگرچہ سائنس جینیاتی وراثت اور حیاتیاتی ارتقاء جیسے اصولوں کی بنیاد پر زندگی کے ارتقاء کی وضاحت کر سکتی ہے، لیکن وہ یہ نہیں بتا سکتی کہ زندگی کی شروعات خود ابتدا میں کس طرح ہوئی۔

زندگی کے کسی پیچیدہ کیمیائی تعامل کے نتیجے میں وجود میں آنے کا نظریہ، درحقیقت، ایک سائنسی نہیں بلکہ نمایاں طور پر ایک فلسفیانہ مفروضہ ہے۔کیونکہ سائنسی اور فلسفیانہ مفروضات کے درمیان بنیادی فرق اُن طریقوں میں ہے جن سے اُنہیں ثابت یا رد کیا جاتا ہے۔ جبکہ سائنسی مفروضہ مشاہدے، بار بار دہرانے کے قابل تجربات، اور تجربہ گاہ کی فضا میں عملی جانچ پر مبنی ہوتا ہے،جس کی بدولت اسے دستاویزی شکل دینا اور محسوساتی سطح پر ناپنا ممکن ہوتا ہے۔اس سیاق میں، سائنسی مفروضات کو سائنسی آلات، تجربات، پیمائشوں، اور ریاضیاتی ماڈلز کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے،اور ماہرین ان کی درستگی کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر پرکھتے اور ان پر نظرِ ثانی کر سکتے ہیں۔

جہاں تک فلسفیانہ مفروضات کا تعلق ہے، تو وہ محسوساتی تجربات کی بجائے منطقی سوچ اور عقلی تجزیے پر مبنی ہوتے ہیں۔کیونکہ فلسفہ کا موضوع بنیادی سوالات ہوتے ہیں جیسے وجود، علم، اور اقدار، اور ان کے تجزیے کے لیے یہ علم منطقی دلائل اور عقلی غور و فکر کو بنیادی ذریعہ سمجھتا ہے۔ اسی لیے فلسفیانہ مفروضات کے لیے ایسے محسوساتی تجربات کی ضرورت نہیں ہوتی جنہیں دیکھا یا دہرایا جا سکے،بلکہ یہ نظری سوچ پر قائم ہوتے ہیں، جو تنقیدی تدبر اور عقلی استدلال کے ذریعے مظاہر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

زندگی کی تشریح کو اگر (کیمیائی ارتقاء) کے نظریے کے ذریعے دیکھا جائے، تو واضح ہوتا ہے کہ یہ نظریہ سائنسی تجربے سے جانچنے کے دائرہ کار سے باہر ہے کیونکہ (کیمیائی ارتقاء) یہ مفروضہ پیش کرتا ہے کہ زندگی بے جان ذرات کے مابین کسی پیچیدہ کیمیائی تعامل کے نتیجے میں وجود میں آئی، مگر اب تک سائنس اس تعامل کو کسی تجربہ گاہ میں بار بار ددہرا کربھی دوبارہ تخلیق نہیں کر سکی۔ اسی وجہ سے یہ نظریہ سائنسی تجربے کی بجائے زیادہ تر فلسفیانہ دائرے میں آتا ہے، نہ کہ ایک قابلِ آزمائش سائنسی حقیقت کے طور پر۔

مزید یہ کہ، اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ زندگی کسی کیمیائی تعامل سے پیدا ہوئی ہے،تو اُس پر لازم ہے کہ وہ اس تعامل کو تجرباتی طور پر ثابت کرے، اور اس عمل کو دہرانے کے قابل بنائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج تک کوئی بھی سائنسی تجربہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ بے جان مادہ محض ایک کیمیائی تعامل کے نتیجے میں زندہ مخلوق میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہی بات (کیمیائی ارتقاء) کے نظریے کو سائنسی ثبوت سے ماوراء، اور سائنسی توثیق سے محروم رکھتی ہے۔فرض کریں کہ زندگی کی ابتدا ایک کیمیائی واقعہ تھی، جو مخصوص مالیکیولز کے درمیان کسی خاص ماحول میں ہونے والے تعامل سے پیدا ہوا۔ تو اصل سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ وہ مالیکیولز کہاں سے آئے؟ کیا وہ مالیکیولز خود زندگی رکھتے تھے یا وہ محض غیر جاندار مادّے تھے؟

بالفرض اگر یہ کہا جائے کہ وہ مالیکیولز غیر جاندار تھے، تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایک غیر جاندار مادہ صرف کیمیائی تعامل کے ذریعے زندہ مخلوق میں تبدیل ہو سکتا ہے؟ حتیٰ کہ اگر ہم یہ ثابت بھی کر لیں کہ کوئی کیمیائی تعامل پیچیدہ مرکبات پیدا کر سکتا ہے، تو بھی یہ اس بنیادی سوال کا جواب نہیں بنتا کہ یہ مرکبات ابتدا میں کہاں سے آئے؟ اور وہ کون سا نظام یا قوت تھی جس نے ان مرکبات کو اس طرح مربوط اور فعال کیا کہ ان سے زندگی کا ظہور ممکن ہوا؟

"سائنس" کا مغالطہ اور ڈی این اے سے منسوب دعوے: 

اکثر (کیمیائی ارتقاء) کے حامی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈی این اے (DNA) جیسے نظام اس بات کا ثبوت ہیں کہ زندگی ایک پیچیدہ کیمیائی مادے سے شروع ہوئی۔ لیکن اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ڈی این اے بذاتِ خود اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ زندگی کسی کیمیائی تعامل سے وجود میں آئی۔کیونکہ ڈی این اے دراصل ایک نہایت پیچیدہ مالیکیولی نظام ہے جو نسل در نسل موروثی معلومات منتقل کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔

جبکہ تاحال کوئی سائنسی ثبوت ایسا موجود نہیں جو یہ ثابت کرے کہ ڈی این اے کسی کیمیائی تعامل کے ذریعے ازخود وجود میں آ سکتا ہے۔ یعنی یہ بات ثابت نہیں ہو سکی کہ غیر جاندار مادّوں کے درمیان محض ایک کیمیائی عمل کے نتیجے میں ڈی این اے جیسا پیچیدہ سالمہ خودبخود بن سکتا ہے بغیر کسی خارجی مداخلت کے۔

آسان پرائے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈی این اے زندگی کے جاری عمل کامحض ایک جزو ہے، نہ کہ بذات خود زندگی کی ابتدا کا ثبوت۔ ڈی این اے کو زندگی کے آغاز سے جوڑنا دراصل اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔ اور وہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پہلی بار مادّہ کس طرح زندہ مخلوق میں تبدیل ہوا؟

بالفرض ہم تجربہ گاہوں میں RNA یا DNA جیسے پیچیدہ مالیکیولز بنانے کا کوئی طریقہ تلاش کربھی لیں پھر بھی اس سے زندگی کی اصل حقیقت کے بارے میں واضح جواب نہیں ملتا۔ وہ سوال جو ابھی تک بلا جواب ہے وہ یہ ہے، کہ یہ مالیکیولز کہاں سے آئے؟ زندگی کا ماخذ کیا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ زندگی بغیر کسی اعلیٰ قوت یا اصول کے موجود ہو جو اس  کیمیائی عمل کو منظم کرے اور اسے اس بابت رہنمائی فراہم کرے؟

اسی تناظر میں، ہم ایک عظیم قرآنی آیت یاد کر سکتے ہیں جو انسانی علم کی حدود کو ظاہر کرتی ہے، خاص طور پر زندگی کی ابتدا کے بارے میں: (مَّا أَشْهَدتُّهُمْ خَلْقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلْقَ أَنفُسِهِمْ وَمَا كُنتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّينَ عَضُداً) (سورۃ الکہف، آیت 51)۔

ترجمہ: میں نے انہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا مشاہدہ نہیں کرایا اور نہ خود ان کی اپنی تخلیق کا اور میں کسی گمراہ کرنے والے کو اپنا مددگار بنانے والا نہیں ہوں۔

یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کچھ امور ایسے ہیں جو انسان کی سمجھ اور تشریح کی طاقت سے باہر ہیں،اور کچھ سوالات، جیسے ، زندگی کہاں سے آئی؟ اور زندگی کیسے وجود میں آئی؟، ہمیشہ سائنسی اور تجرباتی علم کی حدود سے باہر رہیں گے۔

خلاصہ:

زندگی کی ابتدا کی وضاحت کے لیے (کیمیائی ارتقاء) کے نظریے کی کوشش محض ایک قیاس ہے جسے سائنسی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ دنیا میں کوئی ایسا سائنسی تجربہ موجود نہیں جو اس نظریے کی صداقت کو ثابت کر سکے۔ آخرکار، زندگی کی ابتدا کا مسئلہ ایک گہرا فلسفی سوال ہے جس کا سائنسی طور پر حتمی جواب ممکن نہیں۔ لہٰذا، زندگی کی ابتدا کی وضاحت صرف سائنسی اصطلاحات میں کرنے کی کوشش، درحقیقت ایک فلسفی خیال کو حقائق سے ہٹ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018