

| افکارو نظریات | خدا اور سائنس: خدا کا تصور بطور "خالی جگہ پُر کرنے والا"یا پھرسائنسی تشریحات کی بنیاد

خدا اور سائنس: خدا کا تصور بطور "خالی جگہ پُر کرنے والا"یا پھرسائنسی تشریحات کی بنیاد
الشيخ مقداد الربيعي
اسکاٹ لینڈ کے معروف مذہبی مفکر ہنری ڈرمنڈ نے انیسویں صدی میں "خُدا برائے خلاء (God of the gaps) کی اصطلاح وضع کی، تاکہ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو خبردار کیا جا سکے کہ وہ خدا کو محض ان علمی خلاؤں کو پُر کرنے والا نہ بنا دیں جنہیں سائنس ابھی تک نہیں سمجھ سکی۔ ڈرمنڈ کو خدشہ تھا کہ جیسے جیسے سائنسی علم میں اضافہ ہوگا، لوگوں کے ذہنوں میں خدا کا تصور سکڑتا جائے گا، اور یوں ایمان مسلسل پسپائی کا شکار ہوگا۔ جیسا کہ نطشے (Nietzsche) نے بھی راہبوں کے عمل کو یوں بیان کیا کہ "وہ ہر خلا میں اپنی وہم پرستی کو ٹھونس دیتے ہیں، یا کسی ایسی چیز کو جو اس خلا کو بند کرے — اورپھر اُسے خدا کا نام دے دیتے ہیں۔"
یہ تصور بعد میں مذہب کے ناقدین کے ہاتھ میں ایک ہتھیار بن گیا، جو یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے جیسے سائنس ترقی کرتی ہے، ایمان کی گنجائش کم ہوتی جاتی ہے، یہاں تک کہ خدا کو کسی بھی چیز کی توضیح کے لیے خدا کا تصور غیر ضروری ہو کر رہ جاتا ہے۔
علم اور ایمان کے درمیان تعلق : تکمیلی نہ کہ تصادمی
بعض ملحدانہ فکر رکھنے والے افراد یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنسی وعلمی انقلاب نے خالق کے وجود پر ایمان کی ضرورت کو ختم کر دیا ہے، اور وہ علم و ایمان کے درمیان تعلق کو ایک ایسے تصادم کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں کسی قسم کی ہم آہنگی ممکن نہیں۔ تاہم، یہ نقطۂ نظر ایک بنیادی فکری خلط مبحث کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ سائنس اور ایمان کے درمیان موجود اصل تکمیلی تعلق کو نظر انداز کرتا ہے۔
یہ ملحدین اپنے ملحدانہ نظریات کو ایک ایسے فکری منہج کے طور پر پیش کرتے ہیں جوصرف تجرباتی علم کو سچی معرفت کا ذریعہ سمجھتا ہے، اور یہ خیال کرتا ہے کہ جو پیمائش اور تجربہ کی کسوٹی پر پوری نہ اترے، وہ لائقِ توجہ نہیں۔ یہ نظریہ اپنی محدودیت کی وجہ سے فرض کرتا ہے کہ سائنسی طریقہ کارہی ہر قسم کے مظاہر کی تشریح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اسی بنیاد پر خالق پر ایمان کو غیر ضروری قرار دیتا ہے۔
نام نہاد تصادم اور مغالطہ
یہ تصور ایک فکری مغالطے کا نتیجہ ہے جسے "فرضی تضاد " کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ علم اور ایمان کے درمیان تعلق کو ایک ایسا دوٹوک انتخاب بنا کر پیش کرتا ہے جس میں دونوں کا باہم موجود ہونا ممکن نہیں: یا تو علم ہے یا پھرایمان۔ حالانکہ گہرا تجزیہ یہ واضح کرتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک بنیادی تکمیلی تعلق موجود ہے۔ اللہ کے وجود پر ایمان، سائنسی توضیحات (تشریحات) سے متصادم نہیں، بلکہ ان کی بنیاد فراہم کرتا ہے اور انہیں ایک مربوط علمی فریم ورک مہیا کرتا ہے۔
خدا پر ایمان، سائنسی علوم کی تشریح و توضیح کی بنیادہے، نہ کہ اس سے متصادم
معروف فلسفی رچرڈ سوینبرن نے اس فکری خلط کو کچھ یوں واضح کیا۔ جان لیں کہ میں (خلا کا خدا) یعنی ایسا خدا جو صرف ان چیزوں کی وضاحت کرتا ہے جن کی سائنس تاحال وضاحت نہیں کر سکی، کے وجود کا قائل نہیں ہوں، بلکہ میں ایک ایسے خدا کا قائل ہوں جو میرے لئے یہ وضاحت کرے کہ سائنس وضاحت کیوں پیش کرتی ہے۔ میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ سائنس وضاحت کرتی ہے، مگر میں ایک ایسے خدا کا قائل ہوں جو یہ واضح کرے کہ سائنس کو وضاحت کرنے کی صلاحیت کیوں حاصل ہے۔ قدرتی دنیا کے گہرے نظم کو سائنس کے ذریعے ثابت کرنا، اس نظم کے پیچھے کسی گہرے سبب پر ایمان لانے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے (أقوى براهين جون لينكس، احمد حسن، ص ۲۰۸)
یہ نقطۂ نظر "خلا کا خدا" کے روایتی خیال سے کہیں آگے بڑھ کر ایک گہرا تصور پیش کرتا ہے: اللہ پر ایمان کا مقصد ان چیزوں کی وضاحت کرنا نہیں جن کی سائنس عارضی طور پر وضاحت نہیں کر سکی، بلکہ یہ اس امر کی وضاحت پیش کرتا ہے کہ خود کائنات سائنسی وضاحت کے لیے قابلِ فہم کیوں ہے۔
اللہ پر ایمان: تشریح (تفسیر) کی بنیاد، نہ کہ اس کا متبادل
جون لینکس اس نقطۂ نظر کو یوں بیان کیا ہے،ہم یہاں اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ کو سائنسی تشریح (تفسیر) کے متبادل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اُسے صرف 'خلا کا خدا' سمجھنا درست نہیں۔ اس کے برعکس،اللہ ہی تمام تشریحات کی بنیاد ہے۔ اس کا وجود ہی وہ امکان فراہم کرتا ہے جس کے تحت تشریح — خواہ سائنسی ہو یا غیر سائنسی — ممکن ہو سکے۔
اس بات کو واضح کرنا نہایت اہم ہے، کیونکہ بڑے بڑے معروف مصنفین، جیسے کہ رچرڈ ڈاؤکنز، اللہ کو سائنسی تشریح کے متبادل کے طور پر پیش کرنے پر اصرار کرتے ہیں، حالانکہ یہ ایک بہتان ہے جس کا کسی بھی سنجیدہ مذہبی فکر میں کوئی وجود نہیں۔ چنانچہ ڈاؤکنز خیالی دشمنوں سے جنگ لڑ رہے ہیں۔"(ماخذ: حوالہ سابق، ص ۲۰۸، نیز دیکھیں ص ۲۱۳، اور اس تصور پر تفصیلی گفتگو کے لیے جون لینکس کی کتاب العلم ووجود الله، هل قتل العلم الإيمان بوجود الله؟ صفحات ۷۱-۸۰،۸۲-۸۵ کا مطالعہ بھی مفید ہے )
سائنس "کیسے" کا جواب دیتی ہے، ایمان "کیوں" کا جواب نہیں دیتی
ملحدین کی صورت حال اُس محقق کی مانند ہے جو ایک نہایت پیچیدہ مشین کے سامنے آیا، اور برسوں اس کے پرزوں، کام کے طریقہ کار اور اندرونی تعاملات کا مطالعہ کرتا رہا۔ پھر وہ اعتماد کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچا کہ چونکہ وہ اس مشین کے کام کرنے کے اصولوں کو سمجھ چکا ہے، لہٰذا اس کے لیے کسی بنانے والے یا خالق کی ضرورت نہیں!مگر ہر شخص اپنی عقل سے یہ جانتا ہے کہ کسی مشین کے کام کے اصولوں کو جان لینا اس کے بنانے والےکی ضرورت کو ختم نہیں کرتا، بلکہ یہ اس صانع کی ذہانت اور اس کی تخلیق کی نفاست پر مزید حیرت اورجذبہ تحسین پیدا کرتا ہے۔
کائنات کے کام کرنے کے طریقوں (جو سائنس کا دائرہ ہے) کے بارے میں سوالات کرنا، اس کے وجود کے مقصد اور اس کے حیرت انگیز نظم و نسق کے ماخذ (جو ایمان اور فلسفے کا دائرہ ہے) کے بارے میں سوالات کی اہمیت کو ختم نہیں کرتا۔ان مختلف سطحوں کی تشریحات کو آپس میں خلط ملط کر دینا ایک سنگین فکری لغزش ہے، جو گمراہ کن نتائج کی طرف لے جا سکتی ہے۔
علم اور ایمان: حقیقت کی تلاش ہمسفر
اللہ کے وجود پر ایمان، سائنسی تشریحات سے متصادم نہیں، بلکہ انہیں ایک وسیع تر اور مزید گہرا تناظر فراہم کرتا ہے۔ سائنس ہمیں ان قوانین کے بارے میں بتاتی ہے جو کائنات کو منظم رکھتے ہیں، جبکہ ایمان ان قوانین کے ماخذ اور ان کے مقصد پر سوال اٹھاتا ہے۔ سائنس زندگی کی ارتقاء کی کیفیت بیان کرتی ہے، اور ایمان اس کی معنویت اور قدر و قیمت پر غور کرتا ہے۔
جب ہم "یا تو سائنس یا ایمان" جیسے مصنوعی تضاد سے آگے بڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے دونوں کے درمیان ایک تکمیلی تعلق نمایاں ہوتا ہے، جہاں ہر ایک دوسرے کو تقویت بخشتا ہے۔ اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب سائنسی تحقیق سے دستبردار ہونا ہرگز نہیں، بلکہ اس کے برعکس، یہ ایمان محقق کو کائناتی نظم و ضبط اور اس کی ہم آہنگی کی عظمت دریافت کرنے کے لیے مزید تحریک فراہم کرتا ہے۔
اور اللہ کو صرف "علمی خلا کو پُر کرنے والا" سمجھنے کے بجائے، ہم اُسے پورے کائناتی نظام کی بنیاد کے طور پر سمجھ سکتے ہیں — وہ بنیاد جو سائنسی فہم کو ممکن بناتی ہے۔ اس زاویہ نظر سے دیکھا جائے تو جوں جوں سائنس کائنات کے قوانین کو زیادہ گہرائی سے سمجھتی جائے گی، توں توں وہ اپنے طور پر خالق کی عظمت کی غیر مستقیم گواہی پیش کرتی جائے گی ۔