

| افکارو نظریات | تیز رفتار تبدیلی: ٹیکنالوجی کس طرح معاشروں کی تشکیل نو کر رہی ہے؟

تیز رفتار تبدیلی: ٹیکنالوجی کس طرح معاشروں کی تشکیل نو کر رہی ہے؟
شيخ مقداد الربيعي
تاریخ دراصل انسانی معاشروں کے واقعات کا ایک ایسا مسلسل بہاؤ ہے جو عمومی طور پر آہستہ آہستہ اور تدریجی انداز میں تغیر پذیر ہوتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی کوئی خاص واقعہ یا مظہر ایسا رونما ہو جاتا ہے جو تاریخ کے اس معمولی اور تدریجی بہاؤ کو توڑ کر، غیر معمولی اور تیز رفتار تبدیلیوں کا باعث بن جاتا ہے۔اول، سماج میں اس کے نتیجے میں آنے والی تبدیلی کی وسعت دوم، اس تبدیلی کی رفتار تاریخ گواہ ہے کہ جب عیسائیت یا اسلام جیسی آسمانی تعلیمات کا پرچم بلند ہوا تو انسانی تمدن، ثقافت اور فکری سانچوں میں ایسی انقلابی تبدیلیاں آئیں، جنہوں نے صدیوں پر محیط انسانی شعور کی جہت کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔اسی طرح یورپ میں اٹھنے والی صنعتی انقلاب کی لہر نے نہ صرف پیداوار اور معیشت کے میدان میں انقلاب برپا کیا، بلکہ معاشرتی طبقات، خاندانی نظام، علمی نظریات اور تہذیبی رجحانات کو بھی ایک ایسی برق رفتاری سے بدل ڈالا کہ انسانی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔
موجودہ دور میں ہم یہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ معاشرتی تبدیلیوں کی رفتار روز بروز تیزی اختیار کر رہی ہے، جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان انقلابی تغیرات کے پس پردہ کچھ عظیم اور اثر انگیز مظاہر کارفرما ہیں۔تاہم یہ مظاہر اپنی ماہیت میں ثقافتی نوعیت کے نہیں ہیں؛ کیونکہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران نہ کوئی نیا دین منظرِ عام پر آیا ہے اور نہ ہی کوئی نئی فلسفیانہ تحریک وجود میں آئی ہے۔درحقیقت، یہ ہمہ گیر تبدیلیاں ٹیکنالوجی اور اس کے گہرے اثرات کا نتیجہ ہیں، جنہوں نے فرد کے رویے اور معاشرتی ڈھانچوں پر اپنے گہرے اثرات نقوش چھوڑے ہیں۔
ڈیجیٹل انقلاب: انسانی تاریخ میں ایک بے نظیر تبدیلی
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ایسا ہمہ گیر اور تیز رفتار تغیر برپا کیا ہے جو حجم اور رفتار دونوں اعتبار سے ماضی کی تمام تہذیبی تبدیلیوں پر سبقت لے گیا ہے۔مشہور مؤرخ یووال نوح ہراری اپنی معروف کتاب (اکیسویں صدی کے لیے 21 اسباق) میں لکھتے ہیں "آج جو کچھ دنیا میں رونما ہو رہا ہے، وہ محض ایک سادہ ٹیکنالوجیکل انقلاب نہیں بلکہ خود انسانی شعور و ادراک کی ساخت میں ایک بنیادی تبدیلی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ انسانوں کے رویے، ان کے طرزِ فکر اور زندگی کے انداز محض چند دہائیوں میں بدل رہے ہیں، جبکہ ماضی میں ایسے تغیرات کے لیے صدیوں درکار ہوا کرتی تھیں۔ آج سماجی تبدیلی کی رفتار اس قدر تیز ہوچکی ہے کہ وہ خود انسانی حیاتیاتی ارتقاء اور نفسیاتی ہم آہنگی کی رفتار کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ (یووال نوح ہراری، 2018، اکیسویں صدی کے لیے 21 اسباق، ترجمہ: محمد عبد الرحمن)
یہ تبدیلی اب محض ایک ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں رہی، بلکہ یہ ایک فکری اور شعوری انقلاب کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو آنے والے زمانوں میں انسانی تمدن کی شکل و صورت کو یکسر بدل سکتا ہے۔
علم عمرانیات کےعالم مانوئل کاسٹلز اپنی معروف کتاب "عصرِ معلومات" میں اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسے تاریخی موڑ پر ہیں جس میں ہماری مادی ثقافت ایک نیا ٹیکنالوجیکل ماڈل اختیار کر رہی ہے جو بنیادی طور پر معلوماتی ٹیکنالوجیز پر مبنی ہے۔ وہ کہتے ہیں:"ہم ایک نہایت فیصلہ کن تاریخی لمحے میں زندہ ہیں، جس کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ہماری مادی ثقافت ایک نئے تکنیکی ماڈل کے ذریعے تبدیل ہو رہی ہے، جو مکمل طور پر اطلاعاتی ٹیکنالوجیز کے گرد گھومتا ہے۔ اور یہ پہلا موقع ہے کہ انسانی عقل صرف پیداوار کے نظام کا ایک اہم جزو نہیں رہی، بلکہ اب یہ براہِ راست پیداوار کی ایک طاقتور قوت بن چکی ہے۔"(کاسٹلز، مانوئل۔ 2020۔ عصرِ معلومات: معیشت، سماج اور ثقافت، ترجمہ: حسن قبیسی)
آج کے دور میں انسان کا دماغ، جو پہلے صرف ایک آلہ یا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، اب عالمی معاشی، سماجی، اور ثقافتی ڈھانچوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ انسان کی ذہنی صلاحیتیں اور تخلیقی طاقتیں اب دنیا کی معیشت اور معاشرتی ترقی کے محرکات بن چکی ہیں۔
اجتماعی مواصلات کے وسائل: سماجی تبدیلی کی طاقت
سماج پر اثر انداز ہونے والی ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی اور اہم مظاہر
میں سے ایک اجتماعی مواصلات کے وسائل ہیں۔ ان نیٹ ورکوں نے نہ صرف
لوگوں کے درمیان بات چیت کے انداز کو بدل دیا ہے بلکہ پورے معاشرتی
ڈھانچے میں گہرے اور وسیع اثرات مرتب کیے ہیں۔سماجی محقق شریف عرفة
اپنی تحقیق
(تأثير شبكات التواصل الاجتماعي على العلاقات الاجتماعية للشباب
العربي)
میں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صرف ایک دہائی میں، سوشل میڈیا نے
وہ سماجی تبدیلیاں پیدا کر دیں جو روایتی ذرائع ابلاغ دہائیوں میں
بھی نہیں کر پائے۔وہ کہتے ہیں:"سوشل
میڈیا نیٹ ورکس نے صرف دس سال کے اندر ایسے گہرے سماجی تبدیلیاں
پیدا کیں جو روایتی میڈیا اپنے پورے وجود میں نہ لا سکا۔ ان
تبدیلیوں میں سب سے اہم یہ تھی کہ معاشرتی ڈھانچے کی بندشوں سے کھلے
اور آزادانہ معاشروں کی جانب منتقلی ہوئی، اور اس کے ساتھ ساتھ جہاں
روایتی میڈیا میں سامعین یا ناظرین کا ردعمل محض منفعل
(passive)
ہوتا تھا، وہیں سوشل میڈیا نے لوگوں کو ایک فعال
(active)
شریک بنا دیا۔"
(تأثير
شبكات التواصل الاجتماعي على العلاقات الاجتماعية للشباب العربي،
المركز العربي للأبحاث ودراسة السياسات)
یعنی روایتی ذرائع ابلاغ عموماً محدود اور یک طرفہ ہوتے تھے، لیکن سوشل میڈیا نے مواصلاتی دائرہ کو بے حد وسیع کر دیا اور نوجوانوں کو نہ صرف اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا بلکہ ان کو ایک متحرک معاشرتی کردار بھی عطا کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف افراد کے تعلقات کا نوعیت بدلی ہے، بلکہ سماجی تعلقات اور شخصی آزادی میں بھی بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔
تحقیقاتی نتائج: نوجوانوں کے سلوک پر ٹیکنالوجی کا اثر
مؤسسة بيو للأبحاث نے 2023 میں ایک اہم مطالعہ کیا جس کا عنوان تھا (تأثير التكنولوجيا على سلوك المراهقين)، جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 97% نوجوان روزانہ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، اور ان میں سے 88% نوجوانوں کا یہ ماننا تھا کہ سوشل میڈیا نے ان کی زندگی گزارنے کے انداز میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں۔ یہ تبدیلیاں صرف ان کے طرزِ زندگی تک محدود نہیں، بلکہ ان کے سماجی روابط اور معاشرتی طرزِ عمل میں بھی نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ، 65% نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ان کی اجتماعی شناخت اب بیشتر ان کے ڈیجیٹل تعاملات کے ذریعے تشکیل پاتی ہے، نہ کہ حقیقی دنیا کے روابط سے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں کی آن لائن موجودگی نے حقیقی دنیا میں ان کی موجودگی سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر لی ہے، اور ان کے سماجی تعلقات اور شخصی شناخت کا بڑا حصہ اب ڈیجیٹل سوشل نیٹ ورکنگ پر منحصر ہو چکا ہے۔
یہ نتائج اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی سوچ، تعلقات اور خود کی شناخت کو ایک نئے انداز میں تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج کے دور میں، جب دنیا بھر کے نوجوانوں کا زیادہ تر وقت آن لائن گزرتا ہے، ان کے ڈیجیٹل رویے اور سوشل میڈیا پر تعاملات نہ صرف ان کی سماجی موجودگی بلکہ ان کے ثقافتی اور اجتماعی نظریات کو بھی زیادہ متاثر کر رہے ہیں۔ یہ تبدیلیاں ایک ایسی سماجی حقیقت کو جنم دے رہی ہیں جو روایتی سماجی تعلقات اور اقدار سے مختلف ہے، اور جس میں ڈیجیٹل نیٹ ورکنگ ایک اہم قوت بن چکی ہے، جو نوجوانوں کی پہچان اور شناخت کو نئی شکل دے رہی ہے۔
ارٹیفیشل انٹلیجنس: مارکیٹ اور معیشت میں ایک انقلابی تبدیلی
آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) موجودہ دور کا سب سے طاقتور عنصر ہے جو دنیا بھر میں تبدیلیوں کا سب سے بڑا محرک بن رہا ہے۔ چین کے معروف ٹیکنالوجی ماہر اور معہدِ تحقیقاتی ذہانتِ اصطناعی کے صدر کائی فو لی نے اپنی کتاب (قفزة الذكاء الاصطناعي) میں کہا: "ذہانتِ اصطناعی کا انسانیت پر اثر پچھلی کسی بھی ٹیکنالوجی سے کہیں زیادہ گہرا ہوگا، چاہے وہ بجلی ہو یا انٹرنیٹ۔ اگلے بیس سالوں میں یہ موجودہ 40% سے 50% نوکریوں کا متبادل بنے گا، جو ایک ایسا سماجی اور معاشی چیلنج پیدا کرے گا جس کا پہلے کبھی سامنا نہیں کیا گیا۔ (کائی فو لی، قفزة الذكاء الاصطناعي، ترجمہ: لؤی عبد المجيد السيد، الدار العربية للعلوم ناشرون)
ورلڈ اکنامک فورم کی 2024 کی رپورٹ "مستقبل میں ملازمتیں" میں بھی یہی بات کہی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے 2030 تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں ہونے والی ترقی کی بدولت ملازمتوں کے بازار میں ایسی بنیادی اور اہم ترین تبدیلیاں آئیں گی جو پچھلے کسی بھی صنعتی انقلاب سے کہیں زیادہ گہری ہوں گی۔ ان تبدیلیوں کی رفتار اتنی تیز ہوگی کہ یہ انسانیت کی تاریخ میں بے مثال ہوگی، جس کا اثر دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی روزگار کی صورت حال پر پڑے گا۔ اس کا تقاضا یہ ہوگا کہ دنیا بھر میں کم از کم 1.1 ارب افراد کو اپنی مہارتوں کو اپ ڈیٹ کرنے یا نئی مہارتیں سیکھنے کے لیے دوبارہ تربیت دی جائے، تاکہ وہ اس تیز رفتار بدلتے ہوئے ماحول میں کام کرنے کے قابل ہو سکیں۔(ورلڈ اکنامک فورم، "مستقبل میں ملازمتیں", دافوس، سوئٹزرلینڈ)
ڈیجیٹل شناخت: خودی کے تصور میں تبدیلی
ٹیکنالوجی نے انسان کی شناخت کے تصور میں گہرے اور اہم تبدیلیاں لائی ہیں۔ مشہور سماجی ماہر نفسیات شیری ٹیرکل اپنی کتاب "معاً ولكن وحيدون" میں کہتی ہیں: "ہم ٹیکنالوجی کو ڈیزائن کرتے ہیں، اور پھر وہ ٹیکنالوجی ہمیں ڈیزائن کرتی ہے۔ ہمارا اسمارٹ فون اب ہماری ذات کا ایک حصہ بن چکا ہے، اور ہماری ڈیجیٹل شناخت ہماری حقیقی شناخت کے مقابلے میں ایک طاقتور حریف بن گئی ہے، بلکہ کبھی کبھی یہ ہماری حقیقت کا متبادل بن جاتی ہے۔ ہم اب دو مختلف دنیاوں میں جینا سیکھ رہے ہیں: ایک وہ جو حقیقت پر مبنی ہے اور دوسری وہ جو ورچوئل (افتراضی) ہے، اور یہ انسانیت کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔" (معاً ولكن وحيدون). ترجمہ: احمد خریص. عالم المعرفة، المجلس الوطني للثقافة والفنون والآداب، الكويت۔
معاشرتی تبدیلیوں کے اثرات
پہلا اثر : روایتی اداروں کا زوال
ڈاکٹر سعد البازعی، جو کہ سعودی عرب کی "ملک سعود یونیورسٹی" میں سماجی فکر کے استاد ہیں، اپنی کتاب "المجتمع في عصر الرقمنة" میں لکھتے ہیں: "وہ روایتی ادارے، جیسے خاندان، اسکول، مسجد اور کلیسا، جو کئی صدیوں میں قائم ہوئے اور جو معاشرتی زندگی کا ایک اہم حصہ تھے، اب ایسے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں جنہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی اقدار اور شناخت کی بنیادیں اب کمزور پڑ چکی ہیں اور ان کی جگہ ڈیجیٹل ذرائع نے لے لی ہے، جو سرحدوں اور ثقافتوں سے آزاد ہیں۔ یہ تبدیلی سماجی روابط کی نوعیت کو تبدیل کر رہی ہے اور اس کا اثر معاشرتی تعلقات پر پڑ رہا ہے۔"
(المجتمع في عصر الرقمنة. مرکز ملک فیصل برائے تحقیق و اسلامی مطالعات، ریاض)
دوسرا اثر ۔ نسلوں کے درمیان خلا
ٹیکنالوجی نے جو سب سے بڑی سماجی تبدیلی کی ہے، وہ نسلوں کے درمیان بڑھتا ہوا خلا ہے۔ ڈاکٹر جلال امین، مصر کے معروف اقتصادی ماہر اور مفکر، اپنی کتاب (ماذا حدث للمصريين) میں لکھتے ہیں: "یہ پہلی بار ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے کہ اولاد اپنے والدین سے زیادہ علم اور مہارت رکھتی ہے، خاص طور پر ایک ایسے میدان میں جو جدید زندگی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ تبدیلی نسلوں کے درمیان علمی سطح پر ایک انقلاب کی طرح ہے، جس نے خاندان اور معاشرتی ڈھانچے کے اندر گہری تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور طاقت کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کیا ہے"۔("ماذا حدث للمصريين". دار الشروق، قاہرہ)
تیسرا اثر : نجی زندگی کے مفہوم میں تبدیلی
ٹیکنالوجی نے جو سب سے گہری تبدیلیاں کی ہیں، ان میں سے ایک نجی زندگی کے مفہوم میں تبدیلی ہے۔ سعودی محقق اور مفکر فہد العرابی الحارثی اپنی تحقیق (الثقافة الرقمية والخصوصية الاجتماعية) میں لکھتے ہیں: "گزشتہ دو دہائیوں میں، عرب معاشروں میں نجی زندگی کا تصور مکمل طور پر بدل چکا ہے، اور یہ تبدیلی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسی گہرائی تک پہنچی ہے۔ جو چیز پہلے خاندان کی نجی باتوں یا رازوں کے طور پر سمجھی جاتی تھی، اب وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عوامی طور پر شیئر کی جا رہی ہے۔ یہ نجی زندگی کی اہمیت کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ثقافتی اور سماجی رویوں میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، اور آج کے عرب معاشروں میں یہ تبدیلی سب سے اہم ثقافتی تحولات میں سے ایک بن چکی ہے"۔(الثقافة الرقمية والخصوصية الاجتماعية، مرکز أسبار للدراسات والبحوث، الرياض)
خلاصہ: ہم ایک تہذیبی انقلاب کے دور میں ہیں
جدید ٹیکنالوجی نے جو تبدیلیاں پیدا کی ہیں، وہ رفتار اور گہرائی میں اس قدر تیز اور عمیق ہیں کہ ان کا موازنہ تاریخ کے بڑے مذہبی اور فکری انقلابوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ معروف مفکر مہدی المنجرہ اپنی کتاب "الحرب الحضارية الأولى" میں اس صورتحال کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں: "ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں تاریخ کی رفتار تیز تر ہو چکی ہے۔ جو تبدیلیاں کبھی صدیوں میں واقع ہوتی تھیں، اب وہ محض چند سالوں میں رونما ہو رہی ہیں۔ ہم محض تبدیلی کے دور میں نہیں ہیں، بلکہ پورے عہد کے بدلنے کی گواہی دے رہے ہیں۔ (الحرب الحضارية الأولى، مرکز ثقافتی عربی، دار البیضاء)
جتنی تیز رفتاری سے تبدیلیاں ہم آج دیکھ رہے ہیں، وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کر رہی ہیں۔ زندگی کے انداز اور سماجی تعلقات اتنی تیز رفتار سے بدل رہے ہیں کہ اس کا موازنہ ماضی میں ممکن نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں ہمیں ان تبدیلیوں کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ایک نیا شعور درکار ہے تاکہ ہم ان نئے چیلنجز اور مواقع سے بخوبی آگاہ اور نمٹ سکیں اور انسانی معاشروں کے مستقبل کو بہتر بنا سکیں۔