

| افکارو نظریات | امراء اور سرکش دین کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟

امراء اور سرکش دین کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟
الشيخ باسم الحلي
اوسوالڈ اسپینگلر نے کہا ہے کہ: تمدن ایک عظیم چیز ہی نہیں بلکہ وہ نقطہ ہے جہاں انسان خود کو فطرت کی طاقتوں سے بلند کر لیتا ہے۔ چنانچہ تمدن اور اعلیٰ طبقہ (امراء) ایک دوسرے کے متبادل تعبیریں ہی ہیں، جو ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں۔(سقوط الحضارة الغربية، جلد 2، صفحہ 487)
مقدمہ ابن خلدون تاریخِ فلسفہ کی مشہور کتابوں میں سے ایک جو انسانی تہذیبوں کے زوال کے ناگزیر ہونے پر ایک اہم علمی ماخذ بن چکی ہے۔اس میں ابن خلدون نے اپنی نظریۂ ادواریہ (Cyclical Theory) کے تحت تہذیبوں کے زوال کے اصولوں کو بیان کیا ہے۔ اسی طرز پر اوسوالڈ اسپینگلر کی تصنیف "انحطاطِ مغرب" اور دیگر مفکرین کے نظریات بھی موجود ہیں۔درحقیقت ہر تہذیب پیدائش، شباب، بڑھاپے اور زوال کے مراحل سے گزرتی ہےاور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے ۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
(وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ، وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ)(سورہ سبا ۳۴،۳۵ ) اور ہم نے کسی بستی کی طرف کسی تنبیہ کرنے والے کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے مراعات یافتہ لوگ کہتے تھے جو پیغام تم لے کر آئے ہو ہم اسے نہیں مانتے۔ اور کہتے تھے، ہم اموال اور اولاد میں بڑھ کر ہیں ہم پر عذاب نہیں ہو گا۔
"ترف" (عیاشی) کی وضاحت کی جانی چاہیےفلاسفہ کے نزدیک یہ صرف کھانے پینے، لباس، رہائش اور شاندار عمارتوں تک محدود نہیں ہے۔ اگرچہ یہ چیزیں بھی زوال کا باعث بنتی ہیں لیکن اصل"ترف" وہ ہوتا ہے جب انسان منطق کا انکار کرنے لگے، ظلم و استبداد کو رواج دے، انسانی اقدار کو پامال کرےاور وہ کام آسانی سے کرنے لگے جو پہلے ناقابلِ تصور سمجھے جاتے تھے۔ جیسےمحرم رشتوں سے نکاح کرنا، بھائی کا بھائی کو قتل کرنا، بیٹے کا باپ کو مارنا، باپ کا بیٹے کو قتل کرنا،ماں کا اپنے بچے کو یا بچے کا اپنی ماں کو قتل کرنا اور یہاں تک کہ انقلاب کے ساتھیوں اور اسلامی بھائیوں کا ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگ لینا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس سے ہر بڑی تہذیب اپنے زوال سے گزرتی ہے، جیسے عباسی خلافت کے زوال سے قبل یہی ہوا، جب ہلاکو خان نے اسے تباہ کر دیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ کسی بھی تہذیب کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کوئی معاشرہ، قوم یا گروہ اپنے مخصوص نظریات، اقدار اور اصولوں کی بنیاد پر اقتدار حاصل کرنے اور ایک ریاست یا نظام قائم کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ یہ محرکات مذہبی، نظریاتی، سیاسی، قومی یا اقتصادی ہو سکتے ہیں۔ اس جدوجہد کا بنیادی مقصد اپنے وجود، عزت، ناموس، شرف، وقار، عظمت اور اصولوں کا تحفظ ہوتا ہے تاکہ انسانی تاریخ کی مسلسل جاری رہنے والے اس جدوجہد اور کشمکش میں اپنا وجود برقرار رکھا جا سکے، یہ کشمکش خونی ہی کیوں نہ ہو۔
شروع کے رہنما اور بانی شخصیات ابتدا میں عیش و عشرت، آرام دہ زندگی، سکون اور لذتوں میں مگن ہونے کی فکر نہیں کرتیں۔ ان کا سارا دھیان اس مقصد کو حاصل کرنے پر ہوتا ہے جو ان کی عظمت، عزت، وقار، اصولوں اور قومی تشخص کو محفوظ رکھ سکے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات اپنی قیمتی ترین چیزیں بھی اس راہ میں قربان کر دیتے ہیں۔
ابن خلدون کہتا ہے: "کسی ریاست کی عمر عام طور پر تین نسلوں سے زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ پہلی نسل ابھی تک بدوی زندگی کے سخت حالات، سادگی، بہادری، سخت جفاکشی اور اجتماعی عظمت کے جذبات سے جڑی ہوتی ہے۔ ان کا عزم مضبوط، ان کا رعب قائم اور لوگ ان کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ (مقدمہ ابن خلدون، صفحہ 214)
اس ابتدائی مرحلے میں، جو ترقی کے آغاز کا دور ہے، یہ بات نمایاں ہے کہ اس دور کے تمام افراد ایک دوسرے کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اس کا مقصد اس مشترکہ مقصد کو حاصل کرنا ہوتا ہے جو قوم، مذہب یا کسی نظریے کی عزت اور بقا سے جڑا ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تہذیب کے ابتدائی معماروں کی سوچ اجتماعی اور مقصد یکساں ہوتا ہے۔ اس مرحلے میں سوچنے کے انداز میں کوئی اختلاف یا تضاد نہیں ہوتا۔ رہنما اور پیروکار سب ایک ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاتے ہیں، کھانے پینے اور زندگی کی دیگر ضروریات میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔
پھر دوسرا مرحلہ آتا ہےجوعروج کا مرحلہ کہلاتا ہے۔ اس میں اقتدار اور بادشاہت کی کرسی پر قبضہ جما لیا جاتا ہے۔ اب دشمنوں کا خوف ختم ہو چکا ہوتا ہے، بقا کی ضمانت مل چکی ہوتی ہے اور مشترکہ مقصد حاصل کر لیا جاتا ہے۔ تلوار نیام میں رکھ دی جاتی ہے، یعنی جنگ و جدال کی ضرورت نہیں رہتی اور استحکام کا دور شروع ہو جاتا ہے۔اس مرحلے میں سکون، عیش و عشرت، تہذیب و تمدن اور آرام کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر عظمت کا احساس مدھم پڑنے لگتا ہے، اس پر فخر کمزور ہو جاتا ہے اور شرافت و غیرت کا مفہوم بھی رویوں میں ماند پڑ جاتا ہے۔ مقدس اصول اپنی اہمیت کھونے لگتے ہیں، بھائی چارے کی بنیاد کمزور ہو جاتی ہے اور طبقاتی نظام مضبوط ہو جاتا ہے۔ حسد بڑھنے لگتا ہے، باہمی نفرت شدت اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے برعکس عیش و آرام کی لذت اور اسراف میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کھانے، پینے، لباس، عمارتوں اور طرزِ زندگی میں دکھاوا اور فضول خرچی عام ہو جاتی ہے۔
ابن خلدون کہتے ہیں:دوسری نسل کی حالت بادشاہت اور عیش و عشرت کی وجہ سے بدل جاتی ہے۔ وہ بدویت (سادگی) سے تہذیب کی طرف، سختی اور مشقت سے نرمی اور آسائش کی طرف اور اجتماعی عظمت سے فردِ واحد کی اجارہ داری کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں، جبکہ باقی لوگ اس عظمت کے حصول کی جدوجہد ترک کر دیتے ہیں۔ پہلے جو قوت اور دلیری تھی وہ کمزوری اور فرمانبرداری میں بدل جاتی ہے اور ان میں ذلت اور اطاعت کا رجحان نمایاں ہونے لگتا ہے۔(مقدمہ ابن خلدون: 214)
اس مرحلے میں مقاصد مختلف ہو جاتے ہیں اور اہداف میں تضاد پیدا ہو جاتا ہے۔ تہذیب کے اولین معمار اور اس کے ابتدائی افراد جو ایک مشترکہ مقصد، عقل اور سوچ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے اب تقسیم ہو جاتے ہیں۔ وہ جو پہلے سادگی اور کفایت شعاری کی کم از کم حد پر تھے اور بھائی چارے کی برابری کی اعلیٰ منزل پر تھے اب طبقاتی فرق میں بٹ جاتے ہیں۔
بادشاہ وزیروں سے ممتاز ہوتا ہے، وزراء عام عوام سے الگ ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ عوام کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف، بادشاہ، اس کے درباری، وزراء اور فوجی سردار عیش و عشرت کے عروج پر پہنچ جاتے ہیں اور یہ عیش بعض اوقات اپنی بدترین شکل اختیار کر لیتا ہے۔اس کے باوجود، یہ حقیقت بن جاتی ہے کہ ریاست اس وقت اپنی طاقت اور عروج کے شباب پر ہوتی ہے۔ اس کے پاس بے پناہ اقتدار اور دولت ہوتی ہے اور اس کا تاریخ میں ایک شاندار مقام ہوتا ہے، جس میں وہ اپنی سابقہ فتوحات کو درج کر چکی ہوتی ہے۔ یہی کامیابیاں اس کے دشمنوں میں خوف پیدا کرتی ہیں یا کم از کم انہیں محتاط رہنے پر مجبور کر دیتی ہیں کیونکہ ریاست کی طاقت اور ماضی کی زبردست فتوحات اس کے مخالفین کے لیے ایک واضح خطرہ بنے رہتے ہیں۔
عیاشی کی بدترین شکل یہ ہوتی ہے کہ حکمران اپنے مخالفین کو ختم کرنا شروع کر دیتے ہیں!
قرآن میں عیش و عشرت کو نظام کےتبدیل کرنے میں مرکزی کردار کی مثال یہ آیت ہے:
(وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ) (البقرہ ۲۴۷ )
اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا: اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے، کہنے لگے: اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا؟ جب کہ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حقدار ہیں اور وہ کوئی دولتمند آدمی تو نہیں ہے، پیغمبر نے فرمایا: اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جسے چاہے عنایت کرے اور اللہ بڑی وسعت والا، دانا ہے۔
اس مرحلے پر جب عیش و عشرت، عظمت اور اقتدار کی طاقت سر چڑھ کر بولتی ہے تو بادشاہ یا حکمران پر دباؤ بڑھ جاتا ہے اور وہ دو مشکل راستوں کے درمیان پھنس جاتا ہے، جن میں سے کوئی بھی آسان نہیں ہوتا۔ یا تو وہ انقلاب کے اصولوں، مساوات اور انصاف پر قائم رہے اور ظلم و جبر اور اقتدار پر تنہا قابض رہنے کے خیال کو چھوڑ دےلیکن تاریخ میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوا ہے اور وہ بھی اس قدر کم کہ اس پر کوئی عمومی قاعدہ نہیں بنایا جا سکتا۔یا پھر وہ اپنے تخت، سلطنت اور اقتدار کو اپنی ذاتی میراث بنا کر محفوظ رکھے اور اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ظالم، جابر اور خونی آمر بن جائے۔ سوائے چند استثنائی مثالوں کےتقریباً تمام (یا زیادہ تر) تہذیبوں کے حکمران اسی راہ پر چلتے رہے ہیں۔
بادشاہ اپنے تخت اور اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے منصوبہ بندی شروع کرتا ہے۔ وہ اپنے راستے میں حائل ہر رکاوٹ کو سیاست کے نام پر ختم کرنے، قتل کروانے یا بے اثر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، چاہے وہ رکاوٹ اس کے اپنے رشتہ داروں یا بھائیوں کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔
اس صورتِ حال کے نتیجے میں وزراء اور فوجی کمانڈر دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایک گروہ بادشاہ کا ساتھ دیتا ہے، مگر محبت یا وفاداری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ ان کا وجود اور اقتداربادشاہ کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ بادشاہ کے اُن رشتہ داروں کی حمایت کرتا ہے جو اس کے اقتدار کے خلاف بغاوت کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کی حمایت بھی کسی اصول کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسی وجہ سے کہ ان کا اپنا وجود اور مفادات ان باغیوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔
یہ سب کچھ دو بہانوں کے پردے میں ہوتا ہے۔
حکمران اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے بغاوت کا الزام لگاتا ہے جبکہ اس کے اقتدار کے مخالفین انصاف قائم کرنے کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں بہانے جھوٹے ہوتے ہیں کیونکہ نہ بادشاہ کو واقعی وفاداری کی پروا ہوتی ہے اور نہ ہی بغاوت کرنے والوں کا مقصد حقیقی انصاف ہوتا ہے۔فرانسیسی انقلاب اس کی بہترین مثال ہے۔ ابتدا میں عوام اور ان کے رہنما متحدقوت، ایک جسم اور ایک روح بن کر مطلق العنان بادشاہ لوئس شانزدہم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب انقلاب کامیاب ہو گیا، تو روبسپیرجو انقلاب کے نمایاں رہنماؤں میں سے تھا اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ انقلاب کے ابتدائی قائدین کو انقلاب کے اصولوں سے غداری کے الزام میں قتل کروا دیا۔ یہ الزام درحقیقت ایک سیاسی ہتھیار تھا، جس کے ذریعے روبسپیر نے اپنے تمام مضبوط مخالفین کو راستے سے ہٹا دیا اور خود ایک آمر مطلق بن گیا۔مگر جلد ہی وہی انقلابی جنہوں نے بادشاہت کے خلاف بغاوت کی تھی روبسپیر کے خلاف بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور 1794 میں اسے بھی گلوٹین (مقصلة) کے ذریعے سزائے موت دے دی گئی۔
یہ مرحلہ، خونی عیش و عشرت کا دور ہے جو درحقیقت قتل و غارت، سازشوں اور آمریت کے استحکام کا دور ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ماں کے جڑواں بچوں کی طرح عیش و عشرت اور طغیانی ساتھ ساتھ چلتی ہیں جو عظمت، اقدار اور اصولوں کو نگل جاتی ہے۔ اس مرحلے میں حکمران طبقے کے اندرونی جھگڑے اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں اور شاہی خاندان کے افراد آپس میں ایک دوسرے کی خلاف قتل و غارت اور سازشوں میں الجھ جاتے ہیں، یہاں تک کہ یہ منظر گھناؤنا اور نفرت انگیزبن جاتا ہے۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو ماضی قریب میں اقدار، اصول، عزت اور قربانی کی علامت سمجھے جاتے تھے لیکن اب ان کا انجام غداری، جھوٹ، دھوکہ، خونریزی اور انسانی حرمت کی پامالی کی ایک واضح مثال بن کر رہ جاتا ہے۔
تاریخ کے گہرے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس مرحلے میں تقریباً تمام بادشاہ، شہنشاہ اور خلفاءجو تلوار اور خونریزی کے ذریعے اقتدار میں آئے اور بادشاہت کے تخت پر بیٹھے انہوں نے اصولوں سے غداری کی، مخالفین کا خاتمہ کیا بلکہ اپنے ہی رشتہ داروں کا خون بہانےکی روش اپنائی۔ یہ سب کچھ صرف اس لالچ میں کیا گیا کہ وہ خود اقتدار میں رہیں اور ان کی اولاد بے خوف و خطر بغیر کسی حریف یا مدِمقابل کے حکمرانی کرتی رہے۔
ہمارے لیے یہی مثال کافی ہے کہ خلیفہ سلیمان القانونی نے محض اس وجہ سے اپنے سب سے بڑے بیٹے کو قتل کروا دیا کہ وہ عوام میں مقبول ہو گیا تھا اور خاص طور پر انکشاری فوج (خلیفہ کے خصوصی اور سخت جان فوجی دستے) کے دلوں میں اس کی عزت بڑھ گئی تھی۔ یہ واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حکمران جب اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھتے ہیں تو خون کے رشتے بھی ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اس مرحلے پرریاست کے خزانے (ٹیکسوں) پر بھی دباؤ بڑھ جاتا ہےکیونکہ وہ حکمران طبقے کی عیش و عشرت کے اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔ یہ اخراجات خواتین، شراب، شاندار محلات، سرسبز باغات، قیمتی لباس، نایاب کھانوں اور بے شمار خدام و ملازمین پر بے تحاشا خرچ ہونے لگتے ہیں، جس سے ریاست کی معیشت کمزور پڑنے لگتی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عبدالرحمٰن الداخل (عبدالرحمٰن بن معاویہ بن ہشام بن عبدالملک بن مروان) جو اندلس کا بانی تھا، ابتدا میں عباسیوں کے ظلم و ستم سے جان بچانے کے لیے صرف زندہ رہنے کی دعا کرتا تھا۔لیکن جب اندلس میں اس کا اقتدار مضبوط ہو گیا تو اس نے انہی ساتھیوں سے غداری کی جنہوں نے اس کی حکمرانی قائم کرنے میں مدد دی تھی۔ اس نے اپنے وفادار حمایتیوں کو بغاوت کے الزام میں قتل کروا دیا تاکہ وہ اکیلا اقتدار پر قابض رہے۔ یہ آمریت کی وہی شکل ہے جو تاریخ کے ہر دور میں دیکھی جا سکتی ہے۔مزید برآں، اس کی عیش و عشرت کا یہ عالم تھا کہ وہ ستر ننگی لونڈیوں کے درمیان وقت گزارا کرتا تھاجو اس کے شاندار اور شاہانہ طرزِ زندگی کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ مرحلہ چاہے جتنا بھی طول پکڑ لے، باقی رہنے کے قابل نہیں ہوتا کیونکہ یہ زندگی کے ان تمام بنیادی اصولوں سے محروم ہو چکا ہوتا ہے جو کسی تہذیب کے وجود کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔وہ تمام عناصر جن سے تہذیب کی بنیاد رکھی گئی تھی چاہے وہ مذہب ہو، قومیت ہو یا کوئی نظریہ یہ سب عیش و عشرت کے دنوں میں جل کر راکھ ہو چکے ہوتے ہیں۔حالات یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ کوئی بھی مذہبی پیغام، قومی نعرہ یا نظریاتی تحریک جو معاشرے کو دوبارہ متحد کرنے کی کوشش کرے، محض مذاق اور دھوکہ سمجھی جاتی ہے۔اس تہذیب کے افراد ایسے تمام خطابات کو کھوکھلا، فریب دہی اور جھوٹ قرار دیتے ہیں کیونکہ اب ان کے نزدیک ان کی کوئی حقیقت یا عملی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
ابن خلدون کہتا ہے:تیسری نسل آتے آتے بدویت (سادگی) اور سختی کے عہد کو اس طرح بھلا دیتی ہے جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ وہ عزت، غیرت اور اجتماعی یکجہتی (عصبیت) کی مٹھاس کھو بیٹھتے ہیں کیونکہ وہ جبر و تسلط کی عادت میں ڈھل چکے ہوتے ہیں اور ان میں عیش و عشرت انتہا کو پہنچ چکی ہوتی ہے۔یوں وہ ریاست پر بوجھ بن جاتے ہیں۔پھر جب کوئی دشمن ان کے خلاف اٹھتا ہےتو وہ اس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔یہاں تک کہ اللہ اس تہذیب کے زوال کا حکم صادر فرما دیتا ہے۔(مقدمہ ابن خلدون: 214)
سرکش ادیان کے خلاف کیوں ہوتے ہیں؟
ہم نے جو کچھ بیان کیا، وہ اس سوال کے جواب کے لیے تمہید تھا، اور خلاصہ جواب یہ ہے:اس کی وجہ یہ ہے کہ دین انسانیت پر مثبت اثر ڈالنے، نسلِ انسانی کو زندہ اور ثابت قدم رکھنے اور تاریخ کے رخ کو بدلنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے،اسی طرح یہ ظالمانہ سرکشی کے تخت کو ہلا دینے اور اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دینے کی طاقت رکھتا ہے، قرآن کی یہ آیت مجیدہ اسی مطلب کی وضاحت کرتی ہے:
(أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا) (سورہ مریم ۷۷ ) مجھے بتلاؤ جو ہماری آیات کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے: مجھے مال اور اولاد کی عطا ضرور بالضرور جاری رہے گی؟
اور اس کے بالمقابل: دین ہر قسم کی سرکشی کے خلاف جنگ کرتا ہے اب سوال یہ ہے کہ دین ایسا کیوں کرتا؟!!مختصر یہ کہ دین سرکشی کو اس لیے روکتا ہے کیونکہ یہ انسانی حرمت کی بدترین پامالی کا سبب بنتی ہے، جیسے خون بہانا، عزتیں لوٹنا، محرم رشتوں سے نکاح کرنا اور حقوق کو پامال کرنا بلکہ آج کے دور میں اہلِ عیش و عشرت کی سنگدلی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کی ایک خفیہ مارکیٹ موجود ہے، جہاں وہ انسانی لاشیں تک فروخت کرتے ہیں تاکہ مخصوص تقریبات میں انہیں کھایا جا سکے، صرف اس لیے کہ وہ نئے اور انوکھے ذائقے آزمانا چاہتے ہیں۔
یہ وحشیانہ عیش و عشرت جنون کی حد تک پہنچ چکی ہے، جہاں کوئی ضابطہ باقی نہیں رہا اور اخلاقیات مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں۔ اس کی مثالیں بے لباس جزائر، بیویوں کے تبادلے، ہم جنس پرستی اور جنس کی تبدیلی جیسے گمراہ کن افعال میں نظر آتی ہیں۔
خلافت عباسیہ کے وسائل مال،تعداد اور عسکری قوت کے لحاظ سےاس قدر وسیع تھے کہ وہ باآسانی دس لاکھ فوجی بھرتی کر سکتے تھے، جبکہ ہلاکو خان کی قیادت میں منگول افواج کی تعداد محض ایک لاکھ تھی۔ اس کے باوجود، عباسی فوج کے جو سپاہی منگولوں کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلے، وہ سستی، بے دلی اور لاپرواہی کے ساتھ میدان میں آئےبلکہ اکثر کو زبردستی جنگ میں بھیجا گیا۔ ان کی مجموعی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ نہ تھی بعض تاریخی ذرائع کے مطابق یہ تعداد بیس ہزار سے بھی کم تھی۔
یہ سب عیش و عشرت (ترف) کا نتیجہ تھا، جس کا مطلب ابن خلدون اور قرآن کے نزدیک سستی، کاہلی، اصولوں سے بے اعتنائی، ورثے، دین، قومیت اور ان اقدار سے لاتعلقی ہے، جن کی بنیاد پر ان کے آبا و اجداد نے عظیم تہذیبیں قائم کی تھیں۔
سرکش (مترفین) خدا کے وجود کا انکار کیوں کرتے ہیں؟!!
مسئلہ محض معبودِ واحد و بے نیاز اللہ کی رسمی عبادت کا نہیں ہے کیونکہ صرف یہی چیز شاید ان کے عیش و عشرت سے براہِ راست متصادم نہ ہو۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی بظاہرمواحد مذہبی ادارے ایسی سلطنتوں کے ساتھ مفاہمت میں رہتے ہیں جو کفر پر قائم ہیں، جب تک کہ ان کے مفادات آپس میں نہ ٹکرائیں۔
یہی جان لینا کافی ہے کہ رومی سلطنت، جو مکمل طور پر مشرک تھی اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے اور قتل کرنے کا حکم دیا لیکن یہودیوں کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کیاحالانکہ دونوں ہی توحید پرست تھے اور بت پرستی کو کفر سمجھتے تھے۔
اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کا توحید کا تصور کھوکھلا، بے اثر اور محدود تھا، جو رومی سلطنت کے لیے کسی بھی طرح کا خطرہ نہیں تھا۔ اس کے برعکس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توحید نے دنیا میں ہلچل مچا دی کیونکہ وہ انسانی اصولوں، آسمانی اقدار اور اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھی، جو ظلم و استبداد کے خلاف ایک عملی پیغام تھا۔