

| افکارو نظریات | روایتی یہودیت اور صیہونیت:مذہبی نظریہ اور سیاست میں اس کا استعمال

روایتی یہودیت اور صیہونیت:مذہبی نظریہ اور سیاست میں اس کا استعمال
الشيخ معتصم السيد احمد
گزشتہ کچھ دہائیوں سےروایت پسندی کی ترکیب بہت استعمال کی جارہی ہے اور فکری محافل میں اس پر توجہ دی جا رہی ہے۔یہ ان مذہبی تحریکوں کے لئے استعمال ہونے لگی ہے جو شدت پسندی اور مقدس متون کی لفظی تشریح پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس تصور کو مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے استعمال کیا ہے، جن میں یہودیت بھی شامل ہے۔جس میں شدت پسند روایتی تحریک کا ظہور ہوا ہے، جو تورات اور تلمود پر مبنی ایک سخت مذہبی نظریے کو اپناتی ہے۔ دوسری طرف، صہیونیت ایک سیاسی تحریک کے طور پر ابھری ہےاور اس نے کچھ مذہبی نظریات بھی اپنائے ہیں لیکن اس نے یہودی ورثے کی ایک عملی تشریح اپنائی ہے۔ اس تحریک نے یہودیت کو ایک منتظر گروہ سے نکال کر سیاست میں لا کھڑا کیا۔یہ اپنے مقاصد کو مادی اور فوجی ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس تحقیق میں ہم روایتی یہودیت اور صہیونیت کے فرق کو دینی نقطہ نظر سے اجاگر کریں گے اور ان کی فکری جڑوں، سیاسی اور سماجی نظریات کو بھی واضح کریں گے۔
روایت کا مفہوم: دینی مفہوم اور سیاسی استعمال کے درمیان
روایت کا لفظ عموماً مذہبی روایات پر سختی سے عمل کرنے اور مقدس متون کی لفظی تشریحات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ یہ اصطلاح پہلی بار بیسوی صدی کے آغاز میں امریکہ میں مسیحی روایت کے حوالے سے استعمال کی گئی، جہاں اس تحریک نے پروٹسٹنٹ کلیسیا کے اندر جدیدیت کے رجحانات کے مقابلے میں کچھ عقائد پر سختی سے عمل کرنے کا مطالبہ کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لفظ دوسرے مذاہب میں بھی شدت پسند رجحانات کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہونے لگا، جن میں یہودیت بھی شامل ہے۔
یہودی مذہب میں روایت مذہبی متون سے جڑی ہوئی ہے جو یہودیوں کی دیگر قوموں سے الگ شناخت پر زور دیتی ہیں اور ایک سخت موقف اختیار کرتی ہے جو دوسروں کے ساتھ تعلقات کو مسترد کرتا ہے۔ یہ رجحان مذہبی تصورات پر مبنی ہے جو یہودیوں کی برتری اور دوسری قوموں سے علیحدگی کا احساس پختہ کرتا ہے۔ یہ تلمود کے بعض متون میں ملتا ہے جو یہودیوں کو دوسروں سے اعلیٰ مرتبے پر فائز سمجھتے ہیں اور انہیں غیر یہودیوں کے ساتھ صرف ضرورت کی حد تک تعلق رکھنے کا حکم دیتے ہیں۔
صہیونیت ایک سیاسی تحریک ہے جو انیسویں صدی کے آخر میں یورپی قوم پرستی کے اثرات میں پیدا ہوئی اور اس کا مقصد ایک آزاد یہودی ریاست کا قیام تھا۔ اگرچہ اس تحریک کا کچھ حصہ مذہبی بنیادوں پر مبنی تھا لیکن یہ روایتی یہودی روایت سے ایک انقطاع تھا،کیونکہ روایتی یہودیت یہ سمجھتی تھی کہ یہودیوں کی نجات کا حصول الہی مدد سے جڑا ہے۔اس میں انسانی کوششوں کو دخل نہیں ہے۔ اس طرح، یہودی روایت پسندی جو مذہبی پابندی اور نجات کے لیے انتظار پر زور دیتی ہے اور صہیونیت دین کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے، روایتی یہودیت اور صیہونیت کے درمیان یہ فرق کیا جا سکتا ہے۔
روایتی یہودی: الہیاتی پہلو اور مذہبی شدت پسندی
روایتی یہودیت مذہبی متون کی لفظی تشریح پر مبنی ہے، خاص طور پر تورات اور تلمود کی اس کی بنیاد ہیں، جہاں یہودیوں کو ایک منتخب قوم کے طور پر بیان کیا جاتا ہے جو اللہ کے نزدیک خاص مقام رکھتی ہےاور باقی انسانوں کا درجہ کم سمجھا جاتا ہے۔ اس عقیدہ نے مذہبی تنہائی اور برتری کے احساس کو بڑھایا، جس کے نتیجے میں شدت پسند یہودی گروہ سامنے آئے جو غیر یہودیوں کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کو نادرست سمجھتے ہیں۔
یہ خیالات تلمود کے بعض متون میں واضح طور پر بیان ہوئے ہیں، تلمود میں آیا ہے: "اگر غیر یہودی کنویں میں گر جائے تو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔" یہ غیر یہودیوں کے خلاف ایک جارحانہ رائے کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک اور متن میں آیا ہے: "اگر غیر یہودی کسی یہودی کو مارے تو وہ قتل کا مستحق ہےلیکن اگر یہودی غیر یہودی کو مارے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اور جو کچھ بھی یہودی غیر یہودی سے چوری کرے، وہ اسے رکھ سکتا ہے۔" (غرائب التلمود، صفحہ 27-28)۔ یہ متون غیر یہودیوں سے معاندانہ رویے اور عدم تعلق کے تصور کو مضبوط کرتے ہیں اوردوسرے انسانوں کو انسانیت میں مساوی شریک کے طور پر تسلیم نہ کرنے کے اصول کو پختہ کرتے ہیں۔
صہیونیت: سیاسی پہلو اور روایت پسندوں کا استحصال
اس کے برعکس صہیونیت ایک قومی تحریک ہے جو زیادہ تر سیاسی بنیادوں پر قائم ہے، اس کی ساری بنیادیں مذہبی نہیں ہیں،اس کا مقصد ایک آزاد یہودی ریاست کا قیام تھااور اس نے اپنی قانونی حیثیت کو بڑھانے کے لیے مذہب کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ جبکہ روایتی یہودی مسیح کے آنے سے پہلے یہودی ریاست کے قیام کے خیال کو ہی مسترد کرتے ہیں۔ صہیونیت نے اس نظریے کو بدل دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ یہودی خود اپنی نجات حاصل کریں گے اور الہی مداخلت کا انتظار نہیں کرتے رہیں گے۔
یہ تبدیلی داؤد بن گوریون- جو صہیونی ریاست کے بانیوں میں سے ایک تھا-کے ایک بیان سے واضح طور پر پتہ چلتی ہے، اس نے کہا: "یہودیت کو اب سے کسی الہٰی مدد کا انتظار نہیں کرنا چاہیے تاکہ اس مدد سے وہ تقدیر کا تعین کرے بلکہ اسے معمول کے فطری ذرائع استعمال کرنا چاہیے۔ اسرائیلی فوج تورات کی سب سے بہتر تشریح کرنے والی ہے۔" (عبد الوہاب المسیری، صہیونیت اور تشدد، صفحہ 44) یہ بیان صہیونیت کے نقطہ نظر کو ظاہر کرتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ فوجی اور سیاسی طاقت یہودی اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے نہ یہ کہ مذہبی غیبیات پر انحصار کیا جائے۔اس لیے صہیونی بنیاد پرستی روایتی یہودی بنیاد پرستی سے مختلف ہے کیونکہ یہ صرف مذہبی شدت پسندی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اسے حقیقت میں نافذ کرنے کے لیے توسیعی اور جارحانہ پالیسیوں کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے۔ اس رجحان نے صہیونی ریاست کے اندر انتہاپسند گروہوں کو ابھرنے کا موقع دیا جیسے "گوش ایمونیم" تحریک اور شدت پسند آبادکار جو یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی علاقوں پر قابض ہونا یہودیوں کے لیے الہی وعدے کا حصہ ہے۔
یہودیت کی بنیاد پرستی اور صہیونیت کے سیاسی اور سماجی اثرات
یہودی بنیاد پرستی اور صیہونیت کی مداخلت نے قبضے اور آباد کاری کی پالیسیوں کو تقویت بخشی ہےکیونکہ انتہا پسند یہودی گروہ فلسطینیوں پر اپنے حملوں کا جواز پیش کرنے کے لیے مذہبی متن پر انحصار کرتے ہیں۔ اسی وقت، صیہونیت ان نصوص کو عالمی رائے عامہ کے سامنے اپنی پالیسیوں کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اسرائیل کا قیام بائبل کی پیشین گوئیوں کی تکمیل ہے۔سماجی طور پر یہودی بنیاد پرستی نے اسرائیلی معاشرے میں تنہا پسندی کی سوچ کو مضبوط کیا ہے، جہاں سخت گیر مذہبی گروہ جدید معاشرے میں ضم ہونے سے انکار کرتے ہیں اور اپنے پیروکاروں پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہیں، جیسے اختلاط اور سیکولر تعلیم پر پابندی وغیرہ۔ صیہونیوں نےمذہب کو ایک ذریعہ بنا کر فلسطینی زمینوں پر قابض ہونے اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے ان رجحانات کو سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا۔
خاتمہ:اس ساری بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہودی بنیاد پرستی اور صہیونیت اگرچہ کچھ پہلوؤں میں مشترک ہیں لیکن ان کے مقاصد اور طریقے مختلف ہیں۔ یہودی بنیاد پرستی مقدس متون کی سخت دینی تشریح پر مشتمل ہے اور یقین رکھتی ہے کہ نجات صرف خدائی مدد سے حاصل ہو سکتی ہے۔ جبکہ صہیونیت نے اس ایمان کو ایک سیاسی منصوبے میں تبدیل کیا ہےجو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے فوجی اور سیاسی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔دین اور سیاست میں اس مداخلت نے علاقے میں تنازعہ کو مزید بڑھا دیا ہے، جہاں صہیونیت مذہبی جواز استعمال کر کے قبضے اور آبادکاری کو جائز ٹھہراتی ہےجبکہ یہودی بنیاد پرستی خود کو برتر سمجھنے اور خود کو علیحدہ کرنے کی ذہنیت کو مستحکم کرتی ہے۔ ان دونوں نظریات کے درمیان فرق کو سمجھنا فلسطینی مسئلے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح مذہب کو قبضے اور پھیلاؤ کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔