3 شوال 1446 هـ   2 اپریل 2025 عيسوى 2:54 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  ایمان کی عقلی اور عقلانی بنیادیں
2025-03-01   98

ایمان کی عقلی اور عقلانی بنیادیں

علي العزّام الحسيني

مادی رجحانات اور الحادی نظریات کے علمبردار ایمان کو صرف جذباتی اور احساساتی معاملہ قرار دیتے ہیں، وہ اسے فرسودہ افسانوں اور پرانی خرافات کا ایک ٹکڑا سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ایمان کا عقل یا عقلانیت سے کوئی تعلق نہیں۔اسی بنا پر، یہ مختصر مضمون ان چار عقلی اور عقلانی بنیادوں کو واضح کرنے کی غرض سے ضبط تحریر مین لایا گیا ہے جن پر صاحبان ایمان خالقِ عظیم پر اپنے یقین کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔

اس بحث میں داخل ہونے سے قبل، یہ نکتہ قابلِ ذکر ہے کہ ان میں سے بعض بنیادیں خالصتاً عقلی ہیں، جبکہ بعض دیگر عقلانی نوعیت کی حامل (عقلائے عالم کے نزدیک تسلیم شدہ) ہیں۔ تاہم، اصطلاحی طور پر ان سب کو "عقلانی" کہنا غلط نہیں، کیونکہ ہر عقلی حکم درحقیقت عقلائی ہی ہوتا ہے، جسے انسان قبول کرتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اس بنا پر "عقلانیتِ ایمان" کا عنوان بالکل درست اور موضوع سے ہم آہنگ ہے۔

ایمان اور وہ اصول جس سے اس کا منکر بھی بے نیاز نہیں:

یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں کہ ایمان کا معاملہ اصولِ سببیت پر مبنی ہے اور خدا کے وجود پر جملہ دلائل اسی قانونِ علیت پر استوار ہیں۔ یہ قانون انسانی عقل کے لیے نا فقط سب سے زیادہ بدیہی اور واضح اصولوں میں سے ایک ہے، بلکہ اس کی بداہت اس قدر مسلم ہے کہ اس کا منکر بھی اسے اپنے انکار کی توجیہ کے لیے ناگزیر طور پر استعمال کرتا ہے!تو کیا کسی نے کسی اور قانون کو اس شان کا حامل پایا؟ سید محمد باقر الصدر لکھتے ہیں:"ہر استدلال کی بنیاد مبدأ علیت پر ایمان رکھنے پر موقوف ہے، ورنہ وہ ایک بے ثمر اور عبث کوشش بن جائے گی۔ یہاں تک کہ وہ فلاسفہ یا سائنس دان جو مبدأ علیت کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کا اپنا استدلال بھی اسی اصول پر قائم ہوتا ہے۔ کیونکہ جب وہ اسے رد کرنے کے لیے کسی دلیل کا سہارا لیتے ہیں، تو درحقیقت وہ پہلے سے ہی یہ تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی پیش کردہ دلیل اس اصول کے بطلان کے علم کے لیے ایک کافی سبب ہے۔ اور یہی مبدأ علیت کا عملی نفاذ ہے۔" (فلسفتنا، ص 355)

ایمان اور علتِ غائی پر اس کی بنیاد

فلسفی اعتبار سے، مذہبِ الہٰی اور مادی نظریہ کے مابین جوہری اختلاف اس بات میں مضمر ہے کہ مادی فکر علت (سبب) کو صرف دو اقسام—مادی اور صوری—تک محدود رکھتی ہے، جبکہ الہٰیاتی فلسفہ اس میں مزید دو اقسام کو شامل کرتا ہےیعنی علتِ فاعلی اور علتِ غائی۔ چنانچہ جہاں مادی نظریہ علت کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے، وہیں ایمان کی فلسفیانہ اساس اسے چار اجزاء میں تقسیم کرتی ہے۔اس کی وضاحت کے لیے ایک کلاسیکی مثال کرسی کی دی جاتی ہے کہ کرسی کی علتِ مادی اس کا بناوٹی مواد، یعنی لکڑی ہے، اور اس کی صوری علت (Formal Cause) وہ مخصوص شکل و ہیت ہے جو اسے میز یا کھڑکی سے ممتاز کرتی ہے۔ اس کا علتِ فاعلی بڑھئی ہے جو اسے بناتا ہے۔ لیکن سب سے اہم پہلو، جو یہاں موضوعِ بحث ہے، وہ علتِ غائی ہے—یعنی وہ مقصد اور غایت جس کے تحت یہ کرسی تخلیق کی گئی۔ یہ وہ تصور ہے جو پہلے بڑھئی کے ذہن میں موجود ہوتا ہے اور بعد میں اس کے عملی ڈیزائن میں ظاہر ہوتا ہے۔

اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے، مشہور فلسفی وولٹیر انسانی عقل میں موجود اس غائی سوچ کی گہرائی کو یوں بیان کرتا ہے۔"مجھے اس بات پر ایمان نہیں کہ انسان کی ناک اس لیے بنائی گئی تاکہ ان پر چشمے آرام سے ٹک سکے، لیکن میں اس پر قائل ہوں کہ وہ سونگھنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ کیا یہ انتہائی مضحکہ خیزاورحماقت پر مبنی بات نہیں ہوگی کہ ہم یہ کہیں کہ آنکھ دیکھنے کے لیے نہیں بنی، کان سننے کے لیے نہیں بنے، اور معدہ ہضم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا؟" (قصة الحضارة، ج 38، ص 164)

اگر ہم کرسی کی مثال کو پوری کائنات پر منطبق کریں، تو مادی نظریے کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کائنات کسی تصور، کسی معنی، کسی عقل یا روح سے عاری ہے۔ اس میں نہ کوئی غایت (مقصد) ہے، نہ کوئی ہدف، نہ کوئی حسن، اور نہ ہی کوئی ایسی حقیقت جو مادہ اور توانائی (Energy) سے ماورا ہو۔ اس کے برعکس، جس حقیقت کو مادی فکر محض خرافہ اور جذباتیت قرار دے کر رد کرتی ہے، وہ درحقیقت دو بنیادی اصولوں پر استوار ہے جو انسانی عقل کے لیے بدیہی حیثیت رکھتے ہیں: قانونِ سببیتہر موجود کا کوئی سبب ہوتا ہے۔قانونِ غایتہر چیز کسی مقصد کے تحت وجود میں آتی ہے۔ جب ان دونوں قوانین کو اپنی کمال درجے کی وضاحت میں سمجھا جائے، تو وہ انسان کو اعلیٰ ترین دینی عقائد تک پہنچا دیتے ہیں(عقیدۂ توحید (کہ اس کائنات کا ایک خالق و منتظم ہے)عقیدۂ خلود (کہ وجود کا تسلسل کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتا ہے۔

اس کے برعکس ، شرک، بت پرستی، اور فناء کے نظریات دراصل غفلت یا فکری سستی کا نتیجہ ہیں، جو عقل کو اس کے منطقی سفر کے بیچ میں ہی روک دیتے ہیں اور اسے حقیقت کے مکمل ادراک تک پہنچنے نہیں دیتے۔جیسا کہ کہا گیا:"جب عقل کو اس کے پورے سفر کا موقع دیا جائے، تو وہ بالآخر حقیقتِ توحید اور بقاء تک پہنچتی ہے۔ جبکہ شرک اور الحاد فکری کاہلی کا نتیجہ ہیں، جو کسی درمیانی مرحلے پر ٹھہر کر حقیقت کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ (بحوث ممهدة في تاريخ الأديان، ص 104)

ایمان: اخلاقی اقدار کی بنیاد

یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض ملحدین اچھے اخلاق کے حامل ہوسکتے ہیں، لیکن الحاد بذاتِ خود اخلاقی اصولوں کی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک غیر مذہبی شخص کے اخلاقی رویے دراصل کسی نہ کسی شکل میں دین سے ماخوذ ہوتے ہیں—ایک ایسا دین جو ماضی میں غالب تھا، پھر وقت کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہوگیا، مگر اس کے اثرات اب بھی معاشرت، ادب، فلموں، خاندانی نظام اور یہاں تک کہ فنِ تعمیر میں دکھائی دیتے ہیں۔

یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے سورج توغروب ہوچکا ہو، مگر رات کی تاریکی میں جو حرارت باقی ہو، وہ گزرے دن کے سورج کی دین ہو۔کتاب (اسلام بین الشرق والغرب) کے ص 209میں اسی تصور کو"اخلاقی استدلال کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو درج ذیل دو نکات پر مشتمل ہے:مطلق اخلاقی اقدار کا وجود:انسانی معاشرہ عدل، خیر اور سچائی جیسی اقدار کو مسلمہ اصولوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ہر ذی شعور فرد عدل کو اچھا اور ظلم کو برا مانتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی نظریے سے ہو۔اخلاقی اقدار کا ماخذ اخلاقی اصول کسی نہ کسی مطلق ماخذکے متقاضی ہوتے ہیں، جو انہیں غیر متبدل حیثیت عطا کرے۔

اخلاقیات کے اس ماخذ کے دو پہلو ہیں:وجودی پہلو (Ontological Aspect)وہ ہستی جس نے ان اقدار کو تخلیق کیا۔معرفتی پہلو (Epistemological Aspect):وہ مطلق حقیقت جس سے یہ اقدار اپنا استحکام حاصل کرتی ہیں۔لہٰذا، اگر کوئی مطلق بنیاد موجود نہ ہو، تو اخلاقی اصول بھی محض نسبتی (Relative) بن کر رہ جاتے ہیں، جو کہ اخلاقیات کی حقیقی روح کے منافی ہے۔ ایمان، اسی لیے، اخلاقیات کو محض وقتی سماجی معاہدے کی بجائے ایک ایسی ابدی حقیقت سے جوڑتا ہے، جو انسان کو عدل، خیر، اور سچائی پر مضبوطی سے قائم رکھتا ہے۔

ایمان: ایک سماجی ضرورت

مشہور فلسفی جان لاک مادی نظریے اور الحاد کے شدید ناقد تھے، اور وہ ملحدین کے ساتھ رواداری برتنے سے سختی سے انکار کرتے تھے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ وعدہ، معاہدہ اور قسم جیسی انسانی معاشرت کی بنیادی اقدار ایک ملحد کے لیے کوئی حقیقی معنویت نہیں رکھتیں، کیونکہ جب کوئی شخص خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے، خواہ وہ محض فکری سطح پر ہی کیوں نہ ہو، تو اس کے نتیجے میں پورے سماجی ڈھانچے کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔ (التسامح، ص 57)

اسی طرح، وولٹیر کا بھی یہ قول نقل کیا جاتا ہے: "اگر دنیا میں کوئی مذہب نہ ہوتا، تو ہمیں اسے ایجاد کرنا پڑتا تاکہ زندگی خوشگوار ہو سکے؛ کیونکہ اسی کی وجہ سے نہ میری بیوی مجھ سے بے وفائی کرے گی، اور نہ ہی میرا خادم مجھے لوٹے گا!"

نتیجہ: مندرجہ بالا دلائل واضح طور پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایمان محض ایک جذباتی تسلیم یا موروثی خرافہ نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بدیہی عقلی اصولوں اور منطقی استدلال پر استوار ہے۔ایمان نہ صرف انسانی فکر اور فلسفہ کی بنیاد رکھتا ہے، بلکہ معاشرتی توازن، اخلاقیات اور زندگی کے عمومی استحکام کے لیے بھی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018