14 رمضان 1446 هـ   14 مارچ 2025 عيسوى 6:38 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  الحاد اور لبرل ازم: کیا الحاد اور لبرل ازم میں ہم آہنگی ممکن ہے؟
2025-02-03   248

الحاد اور لبرل ازم: کیا الحاد اور لبرل ازم میں ہم آہنگی ممکن ہے؟

شیخ معتصم السید احمد

جدید الحاد محض خدا پر ایمان کے انکار تک محدود نہیں ہے، جیسا کہ روایتی الحاد میں ہوتا تھا، بلکہ یہ ایک مکمل نظریاتی منصوبہ ہے جو خود کو مختلف شعبوں میں، جیسے اخلاقیات، اقدار، سیاست اور معاشرت میں، مذاہب کے متبادل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اگرچہ لبرل ازم سیاسی اور سماجی میدان میں اس مقصد کے حصول کے لیے سب سے قریبی متبادل معلوم ہوتا ہے، لیکن نیا الحاد صرف مذاہب کی مخالفت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر خود لبرل ازم سے بھی ٹکراتا ہے۔ یہ ٹکراؤ الحاد کے اس نئے نظریے کی داخلی تضادات کو ظاہر کرتا ہے، جو ایک ہم آہنگ سماجی نظریہ پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الحاد اور لبرل ازم کے باہمی تعلق کا مطالعہ آج پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

الحاد اور لبرل ازم کے درمیان فلسفیانہ بنیادوں پر تضاد:

لبرل ازم، ایک فکری فلسفے کے طور پر، انفرادی آزادی کے تصور پر مبنی ہے، جسے کسی بھی سیاسی یا سماجی نظام میں اعلیٰ ترین قدر کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ آزادی صرف مادی پہلوؤں یا شہری حقوق تک محدود نہیں رہتی، بلکہ عقیدہ، اظہارِ رائے اور فکر کی آزادی تک بھی پھیلتی ہے، جو ہر فرد کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ کسی جبر یا ریاستی و سماجی مداخلت کے بغیر اپنی زندگی کا راستہ خود چن سکے۔یہ فلسفہ بنیادی طور پر تکثیریت (Pluralism) کو ایک مرکزی قدر کے طور پر اپناتا ہے، جس کے تحت یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ اقدار اور عقائد میں تنوع کسی معاشرے میں ہم آہنگی کے لیے رکاوٹ نہیں، بلکہ ایک منصفانہ سماج کے قیام کے لیے ناگزیر شرط ہے جو سب کے لیے مساوات اور وقار کی ضمانت دیتا ہے۔

دوسری جانب، نیا الحاد محض ایک فردی مؤقف نہیں رہا جو ایمان یا اس کے انکار سے متعلق ہو، بلکہ یہ ایک ایسی نظریاتی تحریک بن چکا ہے جو خدا پر ایمان رکھنے والوں کے ساتھ بقائے باہمی کو ناممکن سمجھتی ہے۔ اس طرح، نیا الحاد ایک مکمل خارج کرنے والی قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے جو ایمان رکھنے والوں کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے اور انہیں عملی زندگی سے بے دخل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

یہ رجحان لبرل ازم کی بنیادی آزادی کے اصولوں سے صریحاً متصادم ہے، کیونکہ لبرل ازم ہر فرد کے لیے اپنے عقیدے کے انتخاب کے حق کو مقدس تصور کرتا ہے، جسے کسی بھی جبر کے ذریعے—خواہ وہ ایمان کے حق میں ہو یا الحاد کے حق میں—متاثر نہیں کیا جا سکتا۔ لبرل ازم کی اصل روح کے مطابق، مذہب ایک لازمی عنصر ہے جو سماجی تکثیریت کا حصہ ہے اور جس کا احترام اور تحفظ ضروری ہے۔ چنانچہ، مذہب کو مٹانے یا کسی مخصوص الحادی نقطہ نظر کو مسلط کرنے کی کوئی بھی کوشش ان بنیادی اقدار کو کمزور کر دیتی ہے جن کے تحفظ کا دعویٰ لبرل ازم خود کرتا ہے

اسی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ الحاد اور لبرل ازم کے درمیان ایک بنیادی تضاد موجود ہے۔ جب الحاد ایک نظریاتی تحریک کے طور پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ تکثیریت کے اس تصور سے متصادم ہو جاتا ہے جو لبرل ازم کی اساس ہے۔ اگر الحاد اپنی دنیاوی نظریہ کو حتمی حقیقت کے طور پر مسلط کرنے کا داعی بن جاتا ہے، تو وہ دوسروں کے اس حق کا انکار کرتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جس عقیدے پر چاہیں ایمان رکھ سکیں۔یہ انکار براہ راست لبرل ازم کی بنیادی تعلیمات کے خلاف ہے، جو انفرادی آزادی کو ایک اعلیٰ ترین قدر تسلیم کرتی ہے، جسے کسی بھی یکطرفہ نظریہ کے تابع نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے

الحاد اور اخلاقی اقدار کا سوال

نئے الحاد کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایک ایسا مضبوط اور قابلِ قبول اخلاقی نظام پیش کرنا ہے جو مذہب کی غیر موجودگی میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں مذاہب بنیادی ماخذ رہے ہیں جنہوں نے خیر و شر کے معیارات طے کیے، انسانی تعلقات کو منظم کیا، اور معاشرتی استحکام کو یقینی بنایا۔ مذہب کا یہ اخلاقی کردار محض سماجی حقیقت کا ردِعمل نہیں تھا، بلکہ یہ ایک وسیع نظریاتی تصور کا حصہ تھا جو انفرادی مفاد سے بالاتر تھا اور مطلق اقدار کے وجود پر مبنی تھا، جو خدا پر ایمان سے اپنی قوت حاصل کرتی تھیں۔

الحاد، اپنی اصل میں، خدا کے وجود کا انکار کرتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی کسی ماورائی اخلاقی ماخذ کو بھی مسترد کر دیتا ہے۔ یہی انکار الحادی فکر کو ایک علمی اور اخلاقی مخمصے میں ڈال دیتا ہے، اگر کوئی خدا نہیں، تو اخلاقی اقدار کا سرچشمہ کیا ہوگا؟ اور ایسے پیچیدہ اور غیر یقینی دنیا میں خیر و شر کی حدود کو کیسے متعین کیا جا سکتا ہے؟ الحاد میں کسی ماورائی (Transcendent) اخلاقی فریم ورک کی عدم موجودگی ایک گہرا وجودی سوال پیدا کرتی ہے  اگر نہ کوئی خدا ہے اور نہ ہی کوئی مطلق حقیقت، تو پھر انسان کو اپنی خواہشات اور جذبات کا غلام بننے سے کون روک سکتا ہے؟ اور کیا طاقت ہی سچائی کا واحد معیار بن جائے گی؟ اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے، مشہور ملحد ریچرڈ ڈاکنز نے اپنے الحادی نظریے کے ساتھ مکمل مطابقت ظاہر کی جب اس نے کہا:"اس دنیا میں نہ کوئی شر ہے، نہ کوئی خیر؛ یہاں صرف اندھی اور بے رحم لاتعلقی (indifference) ہے۔"اسی طرح، وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتا ہے کہ "غیر مذہبی بنیادوں پر مطلق اخلاقیات کا دفاع کرنا انتہائی مشکل ہے۔"[i]

یہ اعتراف اس بنیادی مسئلے کو واضح کرتا ہے کہ جب اخلاقی اقدار کو کسی ماورائی بنیاد کے بغیر قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو وہ صرف انسانی خواہشات، معاشرتی معاہدوں، یا طاقت کے اصولوں پر مبنی رہ جاتی ہیں، جو فطری طور پر متغیر اور غیر مستحکم ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ الحاد، اگرچہ وہ مذاہب پر تنقید کرتا ہے اور متبادل نظریات پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، پھر بھی وہ اس گہرے اخلاقی کردار کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کر سکتا جو مذاہب نے تاریخ کے ہر دور میں ادا کیا ہے۔ اخلاقیات محض ایک سماجی معاہدہ نہیں، بلکہ یہ انسانی جستجو کا حصہ ہیں جو مطلق اقدار اور حتمی معنویت کی تلاش میں ہے—اور ایسا لگتا ہے کہ صرف مذاہب ہی اس سوال کا تسلی بخش جواب فراہم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

دوسری طرف، لبرل ازم، اگرچہ وہ زندگی کے عوامی امور سے مذہب کو الگ رکھنے پر زور دیتا ہے، پھر بھی وہ مذہب کے گہرے اثرات سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتا۔ لبرل فکر کی بنیادی اقدار—جیسے آزادی، مساوات، اور انسانی وقاردرحقیقت انہی تعلیمات سے ماخوذ ہیں جو بڑی مذہبی روایات نے پیش کی ہیں اور جنہیں مختلف تہذیبوں نے صدیوں تک اپنایا۔ یہ اقدار محض جدید عقلی یا سماجی ایجادات نہیں، بلکہ قدیم مذہبی اصولوں کا تسلسل ہیں، جہاں مذاہب نے ہمیشہ فرد کی آزادی، انسانی وقار، اور سماجی انصاف کو بنیادی حیثیت دی ہے۔

اسی تناظر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ لبرل ازم نے مذہبی ورثے کے ایک بڑے حصے کو جذب کر لیا ہے اور اسے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دوبارہ ترتیب دیا ہے، لیکن بغیر کسی براہ راست مذہبی بنیاد کے۔ اس تاریخی مذہبی اقدار پر انحصار لبرل ازم کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ مذہب کے ساتھ بقائے باہمی قائم رکھ سکے اور جدید معاشروں کی مذہبی و ثقافتی تنوع کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکے۔یہ ہم آہنگی ان لبرل نظاموں میں نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے جو عقیدے کی آزادی کا احترام کرتے ہیں اور ہر فرد، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا نظریاتی پس منظر سے ہو، اس کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح، لبرل ازم ایک ایسا فریم ورک فراہم کرتا ہے جو مذہبی اور غیر مذہبی طبقات کو ایک ساتھ چلنے کے مواقع فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ وہ بنیادی انسانی حقوق اور تکثیریت کے اصولوں کو تسلیم کریں۔

اس تناظر میں ایک اہم سوال ابھرتا ہے: کیا لبرل ازم، جو اپنی بنیادی اقدار کے لیے تاریخی طور پر مذہبی تعلیمات سے متاثر رہا ہے، الحاد کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتا ہے، جب کہ نیا الحاد خود انسانی اقدار، حتیٰ کہ آزاد ارادے (Free Will) کو بھی ایک سراب سمجھتا ہے؟ اور کیا کوئی ایسا سماجی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے جو لبرل ازم اور الحادی رجحانات کے درمیان توازن قائم رکھ سکے، خاص طور پر ایک ایسی دنیا میں جو عقائد کی تکثیریت کو تسلیم کرتی ہے؟

الحاد، جب مذہب کو زندگی کے عمومی معاملات سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ ایک بڑا اخلاقی اور نظریاتی خلا چھوڑ دیتا ہے۔ مذاہب تاریخی طور پر وہ بنیادی ستون رہے ہیں جنہوں نے افراد کے طرزِ عمل کو منظم کیا اور معاشروں کو استحکام بخشا۔ جب اس بنیاد کو ختم کر دیا جائے، تو پھر یہ سوال ناگزیر ہو جاتا ہے۔ وہ کون سے متبادل نظریات یا اخلاقی نظام ہوں گے جو معاشرتی توازن کو برقرار رکھ سکیں اور انفرادی حقوق کا تحفظ کر سکیں؟ یہی وہ سوال ہے جس کا واضح اور عملی جواب آج بھی جدید الحادی نظریات فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

تاریخی طور پر، بیسویں صدی میں ابھرنے والے الحادی نظام، جیسے سوویت یونین اور کمیونسٹ چین، اس چیلنج کی واضح مثالیں پیش کرتے ہیں۔ ان نظاموں نے مذہب کو نئے سیاسی اور فلسفیانہ نظریات سے بدلنے کی کوشش کی، لیکن نتائج تباہ کن رہے۔ اپنے نظریات کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش میں، یہ نظام آمرانہ اور جابرانہ شکل اختیار کر گئے، جو فکری یا عقیداتی تنوع کو قبول نہیں کرتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے انصاف اور مساوات کے نعرے لگائے، لیکن ان اصولوں کا عملی اطلاق الحاد کے بنیادی اقدار، جیسے فرد کی آزادی اور انسانی وقار، سے کوسوں دور تھا۔

تاریخی تجربات واضح طور پر بتاتے ہیں کہ مذہبی یا فلسفیانی مرجعیت کے فقدان سے ایسے جابرانہ نظام جنم لے سکتے ہیں جو افراد کے حقوق کا احترام نہیں کرتے اور معاشرے کے استحکام کو یقینی نہیں بناتے۔ اس لیے جدید الحاد کا مسئلہ صرف مذہب کے انکار تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ان متبادل نظاموں کی عدم موجودگی سے بھی ہے جو معاشرے کے توازن کو برقرار رکھ سکیں اور اسے آمریت کی طرف جانے سے بچا سکیں۔

دوسری طرف، اگرچہ لبرل ازم کثیرالثقافتی اور مختلف عقائد کو قبول کرنے میں لچکدار کا مظاہر کرہے ہیں، لیکن اسے معاشرے کے استحکام اور افراد کے درمیان پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ بنیادی اقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اقدار عموماً مذاہب اور ثقافتی روایات سے ماخوذ ہوتی ہیں، جیسے انسانی حقوق کا احترام، انصاف، مساوات اور آزادی۔ ان مشترکہ اقدار کے بغیر، لبرل ازم ٹوٹ پھوٹ اور تقسیم کا شکار ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں مذہبی اور فکری تنوع پایا جاتا ہے۔

آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ الحاد اور لبرل ازم کے درمیان بقائے باہمی تب تک ممکن نہیں ہو گا جب تک کہ الحاد اپنی مسلسل کوششوں کو ترک نہ کر دے کہ وہ دنیا سے مذہب کو ختم کر دے۔ اسے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ معاشرے کے استحکام اور افراد کے درمیان تعلقات کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مشترکہ اقدار کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، لبرل ازم بھی حقیقی آزادی اور جامع مساوات کے تصورات کو تب ہی حاصل کر سکتا ہے جب وہ تنوع کے ساتھ بقائے باہمی کو اپنائے اور لوگوں کے عقائد اور آراء میں اختلافات کا احترام کرے۔


[i] - الاخلاق والإلحاد، أسماعيل عرفة، http://midan.aljazeera.net/intellect/philosophy/2017/9/19

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018