18 ربيع الثاني 1446 هـ   22 اکتوبر 2024 عيسوى 11:27 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | افکارو نظریات |  سائنسی نظریات کی وضاحت: علمی اور فکری نقطہ نظر سے
2024-10-09   114

سائنسی نظریات کی وضاحت: علمی اور فکری نقطہ نظر سے

شیخ مقداد ربیعی

سائنسی نظریات کی بنیاد تحقیق،تجربات اور ان کے تجزیے کی بڑی کوششوں پر ہوتی ہیں۔ان کا بنیادی مقصد قدرتی مظاہر کی وضاحت کرنا اور کائنات کس طرح چل رہی ہے اس کے نظام کو سمجھنا ہے۔

ہر دور میں سائنسی نظریات نے نئی نئی ایجادت کی ہیں جس سے انسانی زندگیاں تبدیل ہو جاتی ہیں۔یہاں سائنسی نظریات کو ایک خاص رخ دینے سے ایک مسئلہ سامنے آیا ہے کیونکہ کچھ لوگوں نے ان نظریات پر اپنی فکری اور فلسفیانہ بنیاد بنانے کی کوشش کی ہے جیسے الحاد ہے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سائنسی نظریہ کسی خاص فکری یا فلسفیانہ نظریے کو ثابت کرنے کے لیے نہیں بنتا بلکہ  اس کی بنیاد شواہد اور تجربات پر ہوتی ہے اس میں کائنات کے مظاہر کی غیر جانبدار وضاحت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سائنس کی بہترین تشکیل تجربہ سے ہوتی ہے،تجربہ کے لیے مشاہدے اور تجزیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔اس سے ان نتائج تک پہنچاجاتا ہے جن کی تصدیق و پڑتال کی جا سکتی ہے۔کچھ سائنسدان اور دیگر لوگ بھی سائنس کی ایک ایسی تعبیر کے درپے ہیں جو ان کے فکری نظریات کو درست ثابت کرے۔جیسے زندگی کا ارتقاء،کائنات کا آغاز اور اس طرح کے نظریات جن کی سائنسی تشریح کو الحاد کی بنیاد بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ویسے تو بہت سی سائنسی تشریحات کی اپنے من پسند نظریات کو ثابت کرنے کے لیے غلط تشریحات کی گئیں ،سب زیادہ جس نظریہ کی سب سے زیادہ غلط تشریح کی گئی وہ ڈارون کا نظریہ ارتقا ء ہے۔اگر غور کیا جائے تو یہ نظریہ بنیادی طور پر جینیاتی اور ماحولیاتی مشاہدات کی بنیاد پر  مرور زمانہ کے ساتھ ہونے والی حیاتیاتی تبدیلیوں کی وضاحت کرتا ہے۔کچھ لوگ اسے خالق کے وجود کے انکار کے لیے بطور سائنسی ثبوت پیش کرتے ہیں۔ہمیں معروضی شکل میں  پیش کیے گئے سائنسی نظریہ  اور نظریاتی مقاصد کے لیے اپنی ذاتی تشریحات کے ساتھ  بیان کرنے میں فرق کرنا چاہیے۔

ملحدین کو دیکھیں تو انہوں نے پورا زور اس سے الحاد کے اثبات پر لگا دیا ہے۔جب ہم ڈارون کو دیکھتے ہیں تو اس نے نظریہ ارتقاء اور الحاد کے درمیان میں کوئی تعلق نہیں چھوڑا اس کے برعکس اس نے کہا:اس کائنات کے لیے حاکم کا وجود ایسا نظریہ ہے جس پر بڑے بڑے صاحبان عقل کا اتفاق ہے۔انسان کی ابتداء، صفحہ 131 ۔اس نے اپنے ایک رسالے میں خود کو توحید پرست قرار دیا۔چارلس ڈارون کی سوانح عمری، صفحہ 92-93۔اس نے اپنے دوست آساگرے کے جواب میں یہ بھی لکھ دیا کہ ارتقاء کے بارے میں اس کے نظریات کو کو ملحدانہ نظریہ کے اثبات کے لیے نہ پڑھا جائے۔ہیومن جینوم پراجیکٹ کے سابق سربراہ، فرانسس کولنزجنہوں نے الحاد کو ترک کر دیا تھا  اپنے اس ترک کرنے کی وجہ نظریہ ارتقاء کا اپنے انداز سے کیا گیا مطالعہ  قرار دیا۔وہ لکھتے ہیں کہ نظریہ ارتقاء خالق  کے مخلوق کے حسن انتظام کی عالی شان ترتیب کو ثابت کرتا ہے۔خدا کی زبان کتاب؛اسی طرح عظیم ماہر حیاتیات مائیکل ڈینٹن، جو بے مثال تنقیدی کتاب : Theory of Evolution in Crisisکے مصنف ہیں،اس سے پہلے، اپنے وقت کے اہم ارتقاء پسند، تھیوڈور ڈوبزہانسکی اور قدیم اور جدید دور کے  ارتقاء پسندوں کے ایک بڑے گروہ نے نے ارتقاء کو دیکھا  کہ  ارتقاء خالق  کےسبب ہونے پر دلیل ہے جو عدم سے زندگی کی مختلف شکلوں کو پیدا کرتا ہے۔

بعض کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ فزکس کے نتائج کا ملحدانہ انداز میں مطالعہ کریں۔ مثال کے طور پر، یہ دعویٰ کریں، کہ کوانٹم فزکس نے علت کو ختم کر دیا ہے (یہ چاہے جیسے بھی ہو) اور انسانی منطق کے اصولوں کو منسوخ کر دیا ہے (یہ چاہے جیسے بھی ہو)، جیسے  اجتماع نقیضین کا ہونا ، شناخت کے قانون  ھویت کا بطلان نہ ہونا واضح ہو، وجود ذات باری تعالی ممتنع ہو اور ایک ہی ذات کا دو مختلف زمانوں میں ہونا ممتنع ہو ا ہو۔ میں کہتا ہوں: کچھ لوگوں کے لیے طبیعیات کے نتائج کو اس طرح پڑھنا چاہیے، لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے نظریہ ارتقاء میں کہا، ہم یہاں کہتے ہیں: اس حقیقت کے علاوہ کہ جدید طبیعیات کے نتائج سے الحاد لازم نہیں آتا، کیونکہ دوسروں نے اسے مختلف طریقے سے پڑھا ہے، اور جو کچھ انہوں نے دیکھا  اور طرح سے ایمان کے ساتھ پڑھا، جس سے انہوں نے خدا کے علم کی عظمت، اس کی قدرت کی عظمت اور انسان کے علم کی  کمزوری کا اندازہ لگایا بلکہ، انہوں نے اس میں اس بات کی سچائی کے ثبوت دیکھے ہوں گے ایمانوئل کانٹ – جو خالق پر یقین رکھتے ہیں– نے اس گہری خلیج کے بارے میں بتائے جو دماغ اور باہر کی چیزوں کے حقائق کے درمیان ہے۔ ہم مزید آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوانٹم تھیوری کے بانی میکس پلانک نے کہا تھا کہ ’’ہر صاحب عقل  انسان کو اپنے اندر موجود مذہبی حس کو پہچاننا چاہیے تاکہ اس کی روح اور نظریات میں ہم آہنگی پیدا ہو اور وہ سکون سے رہے۔ وجود کا راز۔ص161

کچھ لوگ خیر و شر کے مسئلے کو ملحدانہ انداز میں بیان  کرتے ہیں، اس لیے ہم یہ کہتے ہیں، جس طرح سے آپ چیزوں کو دیکھتے ہیں یہ آپ کے جذباتی موقف کے مطابق ہے  مگر غیر علمی رویہ ہے ۔ دوسرے اسے دوسری طرح سے اپنے نظریے  کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ وہ عناصر کے درمیان جدلیاتی تعلق کو دیکھتے ہیں،انہوں اس سے انہیں   الہی حکمت کے  اعلی  رموز ملتے ہیں۔اس  میں اللہ کے وجود کے ثبوت دیکھتے ہیں اور ان پر مطمئن ہیں۔کچھ لوگ ایسے ارادے کرتے ہیں جن کے ذریعے وہ منزل تک نہیں پہنچ سکتے،وہ خالق کے خلاف ایسی باتیں کرتے ہیں جو  اس کے سزاوار نہیں ہیں۔

کچھ لوگ اسباب کے ذریعے عالم غیب کی نفی کرتے ہیں اور اس کے ذریعے استدلال کرتے ہیں کہ اسباب سے عالم غیب کی کوئی گواہی نہیں ملتی۔ وہ جن نتائج پر چلتے ہیں اتفاق کی بات یہ ہے کہ حس کے ذریعے نکلنے والا نتیجہ بھی الحاد کی طرف نہیں جاتا۔ھیوم  جو کہ ادیان میں اسباب کے ذریعے تشکیک پیدا کرنےو الا تھا اس نے  اپنی آخری کتاب  میں لکھا کہ انسان کو وحی کی ضرورت  کیوں ہے؟ !Dialogues and Natural History of Religion. P129

یہاں سے یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ سائنسی نظریات کی تاویل کے بارے میں متباین نظریات پائے جاتے ہیں اب انسان اس تفسیر کو لے گا جو اس کے ذاتی عقائد و نظریات کے مطابق ہو گی۔تاہم، سائنسی سچائی غیر جانبدار رہتی ہے، اور اپنے اندر کوئی فلسفیانہ یا اخلاقی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ صحیح اور منصفانہ  بات یہ ہے کہ سائنس کے نظریات مذہب کے اثبات پر زیادہ دلالت کرتے ہیں۔

سائنسی نظریات کو  یوں اپنے الحادی نظریات کے اثبات کے لیے استعمال کرنا سائنس کے حقیقی کردار کو راستے سے ہٹانے کے مترادف ہے جو غلط فہمی کا سبب بن سکتا ہے۔سائنس زندگی کا مقصد خالق کے وجود کے بارے میں مابعد الطبیعاتی سوالات کا جواب دینا نہیں ہے۔سائنس ایک ذریعہ ہے جس کا مقصد کائنات کے امور کو سمجھنا ہے۔یہ سائنسی نظریات  اگر کائنات کی ابتداء یا حیاتیات کے ارتقاء کے کچھ پہلوؤں کی وضاحت کرتے بھی  ہیں تو بھی یہ ان مظاہر کے مقاصد یا فلسفیانہ جہتوں کے تعین سے متعلق نہیں ہوتی۔

یہاں فلسفیانہ اور عقلی تحقیق کا کردار سامنے آتا ہے، جیسا کہ ہر علمی شعبہ کا اپنا  دائرہ کار ہوتا  ہے، آج کی اصطلاح میں سائنس کا مطلب وہ ہے جو تجربات اور حس میں آئے اور یہ صرف مادی معاملات کو ثابت کرنے کے  ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے بعد انسان کے اہم سوالوں کے جواب دینے کے لیے ذہن کا کردار سامنے آتا ہے ( کہاں سے اور کہاں تک) اس میں تفصیلات کو ذکر نہیں کیا جاتا۔ عقل اس بات پر قادر ہے کہ کلی مسائل کو ثابت کرے جیسے مبدا ور معاد  کو ثابت کرنا تاکہ اس کے ذریعے ایک تیسری چیز ثابت ہو وہ  وحی ہے اس کے  ذریعے ان کلی طور پر ثابت نظریات کی تفاصیل بتائی جاتی ہیں۔وحی عقل  کو نقصانات سے بچانے کے لیے  اس کی رہنمائی کرتی ہے۔

جان بوجھ کر سائنس کو الحاد یا کسی اور فلسفیانہ رجحان سے جوڑنا سائنسی فکر کو سیاست کی نذر کرنے والی بات  ہے۔ سائنس کو اپنے غیر جانبدار علمی فریم ورک کے اندر رہنا چاہیے جو ثبوت اور شواہد پر انحصار کرتا ہےاور مخصوص فکری اور فلسفی  نظریات کو ثابت  نہیں کرتا۔ سائنس کی دریافتوں کو ذاتی عقائد کےاثبات یا عدم اثبات کرنے کی کوشش کرنا ایک غلطی ہے۔ سائنسی نظریات نئے شواہد کی بنیاد پر وقت کے ساتھ بدلتے اور ترقی کرتے ہیں اور یہ ان کی متحرک فطرت کا حصہ ہے جو انہیں فکری جمود سے دور رکھتا ہے۔

آخر میں، ہمیں اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ سائنسی نظریات کی کسی بھی تشریح کو نظریاتی تخمینوں سے دور رہنا چاہیے۔ سائنسی نظریات فطری دنیا کو سمجھنے کا ذریعہ ہیں، ذاتی عقائد کی تصدیق یا تردید ان کا موضوع نہیں ہےاس سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ عقائد مذہبی ہوں یا الحادی ہوں۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب دوسروں نے ہیوم کے بارے میں یہ رائے قائم کی وہ  جب شک و نقص کی بنیاد سببیت پر رکھتا ہے اس میں حق پر ہے  اور وہ خود یہ نہیں جانتا تھا کہ ایسا بھی ہے ممکن ہے ۔جو کچھ اس نے کیا وہ کئی طرح سے غلط ہے۔

ان قواعد و ضوابط کی روشنی میں یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کسی ملحد کے پاس کوئی جائے فرار اور دلیل نہیں ہے۔اس میں خوب دقت کریں کچھ چیزیں ہم نے ذکر کر دی ہیں اور بہت سی ذکر نہیں کی ہیں۔مادہ پر جیسی بھی تحقیقی ہو جو مادہ کی وضعیت کو جاننے کے لیے ہو اس کا خالق کے عدم وجود سے کوئی تعلق نہیں ہے۔بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جب تک  مادہ پرغور و فکر ہوتا رہے گا اور اس کو انسان اپنے محدود علم میں سمجھنے کی کوشش کرتا رہے گا تو وہ اس  بات کا ضرورت قائل رہے گا کہ کوئی نہ  کوئی خالق ہے جو جانتا ہےا ور یہ سارے امور انجام دے رہا ہے کیونکہ خالق کے بغیر تخلیق ممکن نہیں ہے۔

کونسی فطری منطق حکم دیتی ہے؟جو ہمارے تجربے کے  نتائج سے پوری طرح مطابقت رکھتاہو،ہم اپنے تجربے کے مطابق ہی کام کرتے ہیں اس سے زیادہ کے ہم عقلا و شرعا پابند نہیں ہیں۔اس  لیے اس سے انکار کی کیا  وجہ ہو گی؟مطلب یہ کہ غلط ضد کیوں کی جا رہی ہے؟اس سوال کی بنیاد ملحد ین کا یہ اصول ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جب تک خالق کے وجود کا کوئی ثبوت نہ ملے اس  جہاں عظیم الشان کا کوئی خالق ہی نہیں ہے۔اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم وجود کو مجرد وجود  کا اضافی معنی سمجھیں۔یہ زائد ہی ہماری اصل دلیل ہے کہ ایک خالق جو ارادہ رکھتا ہےموجود ہے۔یہ اس وقت تک ثابت رہے گا کہ جب تک اس کے عدم ثبوت کی دلیل نہ آجائے تو اس دلیل سے زیادہ مضبوط،زیادہ واضح اور زیادہ درست نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اثبات  نفی پر مقدم ہوتا ہے،کیونکہ اثبات میں نفی کی نسبت زیادہ علم ہوتا ہے۔اللہ اللہ ہمارے اصول کتنے شاندار ہیں، اور ہمارا مذہب کتنا مضبوط ہے!

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018