

| اسلام میں سیاست | فراموش کردہ اسلام: سیاسی شعور کا فقدان اور راہ حل

فراموش کردہ اسلام: سیاسی شعور کا فقدان اور راہ حل
الشيخ معتصم السيد أحمد
جب ہم موجودہ اسلامی دنیا کے سیاسی منظرنامے کا تجزیہ کرتے ہیں تو ایک مبہم سی تصویرہمارے سامنے آتی ہے جو حقیقی اسلامی خدوخال سے مختلف ہے۔ اسلام، جسے زندگی کے تمام معاملات کی نگرانی اور رہنمائی کے لئے ایک ہمہ گیر نظام ہونا چاہئے تھا، اُسے سیاسی دائرے سے باہر نکال دیا گیا ہے اور اسے صرف ایک علامتی شناخت یا جذباتی نعرہ بنا دیا گیا ہے جو محض وابستگی کے عمومی اظہار سے آگے نہیں بڑھتا۔ بیشتر مسلم معاشرے اس بات پر راضی ہو گئے ہیں کہ اسلام بس ایک ثقافتی عنوان رہے، جو مناسبتوں پر یاد کیا جائے اور نعروں میں استعمال ہو، لیکن عملاً اسے ایک حاکم تمدنی منصوبے کی حیثیت نہ دی جائے۔
اسلام کی یہ ظاہری موجودگی دراصل صرف چند عقائدی اصولوں کی تاکید اور بعض فردی عبادات و معاملات کے التزام پر مبنی ہے، جبکہ ان عقائد کے گہرے فلسفیانہ اور سیاسی مضامین پر غور و فکر نہیں کیا جاتا، اور نہ ہی اسلامی نظام کے تمدنی و تشریعی پہلوؤں کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ اس طرح دین کے بڑے اور جامع معانی زندگی کے اجتماعی دائرے سے غائب ہو گئے ہیں اور امت اسلام کے اس کلّی تصور سے کٹ گئی ہے جو اسے ایک ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کرتا ہے۔
چنانچہ اسلامی ممالک میں ایسے سیاسی نظام رائج ہو گئے ہیں جو نہ ظاہری طور پر اسلام سے کوئی نسبت رکھتے ہیں اور نہ ہی حقیقی طور پر۔ بلکہ سیکولرازم ہی غالب ماڈل بن گیا ہے ، جو دین اور ریاست کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس علیحدگی کو اندرونی طور پر وسیع پیمانے پر کوئی مزاحمت بھی نہیں ملی، بلکہ امت کے شعور نے زیادہ تر اسے قبول کر لیا ہے، گویا اسلام اب کوئی ایسا سیاسی متبادل ہی نہیں رہا جسے پیش کیا جا سکے یا ممکن سمجھا جا سکے۔
پس امت نے اپنے اسلام کو ایک باقاعدہ نظام کے طور پر ایمان رکھنے اور دوسری طرف دائیں یا بائیں بازو سے درآمد شدہ سیاسی نظاموں کو اختیار کرنے کے درمیان کوئی تضاد محسوس نہیں کیا۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں جو الحادی پس منظر رکھتی تھیں ـ جیسے کمیونسٹ پارٹیاں ـ بھی کئی اسلامی ممالک میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں، اور لوگوں نے ان سے کسی قسم کی فکری یا اعتقادی اجنبیت محسوس کیے بغیر آسانی کے ساتھ انہیں قبول کیا۔ یہ کیفیت واضح طور پر اس شدید تضاد کو ظاہر کرتی ہے جو امت کی دینی شناخت اور اس کے سیاسی انتخاب کے درمیان موجود ہے۔
یہ حقیقت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک ہم امت کے اسلام کے بارے میں شعور کی نوعیت کو نہ دیکھیں۔ دین کو صرف انفرادی عبادات تک محدود کر دینا، اور اس کی ہمہ گیر ثقافتی، سیاسی اور حکومتی بصیرت سے صرفِ نظر کرنا، دین کے فہم میں ایک گہری خرابی کی عکاسی کرتا ہے۔ یہی وہ صورتحال ہے جو ایک ایسے جامع علمی منصوبے کی ضرورت کو جنم دیتی ہے، جو اسلام کو ایک جامع نظام کے طور پر دوبارہ پیش کرے، ایسا نظام جو دور حاضر کے انسان کی آرزوؤں اور ضروریات سے ہم آہنگ ہو، نہ کہ محض ایک تاریخی نظام جسے صرف تسلی یا تفاخر کے لیے یاد کیا جائے۔
اسی پس منظر میں، اسلام کے سیاسی منصوبے کا احیاء کرنے کی بعض کوششیں ضرور سامنے آئیں، مگر ان میں سے اکثر مبہم، غیر واضح اور فکر و منہج کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف رہی ہیں ۔ یہی انتشار اسلامی تحریکوں کے درمیان سخت اختلافات کی صورت میں ظاہر ہوا، یوں عموماً یہ امت کو اپنے سیاسی منصوبے پر قائل کرنے میں ناکام رہیں۔ حالانکہ فطری منطق تو یہ تقاضا کرتی ہے کہ اسلامی دھارا سب سے زیادہ مؤثر اور غالب ہوتا، کیونکہ وہی اکثریت کی شناخت کا نمائندہ ہے۔
اس تضاد نے بعض تحریکوں کو ’’اسلامی سیاست‘‘ اپنانے پر مجبور کیا، تاکہ موجودہ بگڑے ہوئے حالات میں مناسب ردّعمل ظاہر کیا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے موجودہ نظام کے ہر چیز کو مسترد کردیا ، حتیٰ کہ خود امت پر بھی اسلام کو ترک کرنے کا الزام لگایا، اور تاریخ میں اُس ’’کھوئے ہوئے اسلام‘‘ کی تلاش پر نکل کھڑے ہوئے۔ یوں ایسی انتہا پسند تحریکیں وجود میں آئیں جنہوں نے اسلام کو عملی ناکامیوں سے مکمل بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی اور سارا الزام اس امت پر ڈال دیا جس نے اسلام کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا ۔ اپنے فہم کے مطابق درستگی کی کوشش میں، ان تحریکوں نے ماضی کے تاریخی تجربات کو زندہ کرنے کی ٹھانی اور انہیں قابلِ تقلید نمونہ قرار دیا، خصوصاً خلافتِ اسلامی کو، جسے انہوں نے جمہوریت اور موجودہ طرزِ حکومت کا متبادل قرار دیا۔
لیکن یہ ماضی کی طرف واپسی تضاد سے خالی نہ تھی۔ کیونکہ اگر اسلامی تاریخ کے نظامِ حکومت کو مثالی قرار دیا جائے تو لازماً موجودہ نظاموں کی مکمل نفی کرنی پڑتی ہے، اور اس سے موجودہ مسلمان کے اندر ایک اندرونی کشمکش پیدا ہوتی ہے، وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اس وقت تک ’’سچا مسلمان‘‘ نہیں بن سکتا جب تک اُس ماضی کو زندہ نہ کرے جسے اُس نے کبھی جیا ہی نہیں، اور اُس حال سے کٹ نہ جائے جو چاروں طرف سے اُسے گھیرے ہوئے ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے دین اور زندگی کے درمیان جدائی جیسی بحران نے جنم لیا: جو دین چاہے وہ زندگی سے غائب ہو گیا اور جس نے زندگی چاہی وہ دین سے محروم رہ گیا۔
اس ذہنی و عملی تضاد کو سب سے زیادہ سلفی بیانیے نے بڑھایا، یہاں تک کہ ’’اسلامِ تاریخی‘‘ ہی سب سے طاقتور آواز بن گیا۔ ’’احیائے خلافت‘‘ کی بات ایک عام نعرہ بن گئی، باوجود اس کے کہ اس میں نہ صرف موجودہ سیاسی حقائق کے ساتھ بلکہ خود اسلام کی بنیادی اقدار کے ساتھ بھی واضح تضادات موجود ہیں۔ کیونکہ اسلام انسان کو اُس کے حال میں ایک مؤثر کردار کے طور پر پیش کرتا ہے، نہ کہ تاریخ کے سائے میں پناہ گزین کے طور پر۔ طالبان، داعش اور اس جیسے دیگر انتہا پسند گروہوں کا ظہور دراصل اسی ذہنیت کا عکاس ہے، یعنی حال سے فرار اور ماضی میں پناہ لینے کی نفسیاتی کیفیت۔ اس رجحان کو سمجھے بغیر نہ تو اجتماعی نفسیات کو سمجھا جا سکتا ہے، نہ اس ثقافتی پس منظر کو جس نے اسے جنم دیا، اور نہ ہی اُس سیاسی استعمال کو جو ان گروہوں کے ذریعے کیا گیا ۔
اسی سب کے پیشِ نظر، کوئی بھی معاصر اسلامی سیاسی منصوبہ اس وقت تک ثمر آور اور مفید نہیں ہو سکتا جب تک دین کے تاریخی شعور کا بنیادی طور پر جائزہ نہ لیا جائے اور ماضی کے سیاسی تجربات پر تنقیدی نگاہ نہ ڈالی جائے، وہ تجربات جو عموماً استبداد (آمریت) اور اقتدار کے لئے دین کے استحصال سے بھرے ہوئے تھے۔ افسوسناک تضاد یہ ہے کہ امتِ مسلمہ ـ باوجود اس کے کہ وہ مذہبی لبادہ اوڑھنے والے سیاسی ادوار کی ناکامی سے بخوبی واقف ہے، بالخصوص عہدِ اموی اور عباسی سے ـ پھر بھی ان ادوار کو تقدس کی نظر سے دیکھتی ہے اور انہیں تنقیدی طور پر زیرِ بحث لانے سے انکار کرتی ہے۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی اسلامی تحریکوں نے اپنے سیاسی تصورات انہی تاریخی نمونوں پر قائم کیے اور ان کے ازسرِ نو احیاء کی دعوت دی، یہ سمجھے بغیر کہ وہ بنیادی طور پر جابرانہ اور قبائلی نظام تھے جنہوں نے دین کے نام پر ظالمانہ حکومتیں قائم کیں۔ اسی لیے یہ تعجب کی بات نہیں کہ آج کے کئی مسلم ممالک میں رائج حکومتوں کو عوام کوئی غیر معمولی یا اسلام سے کٹا ہوا عمل نہیں سمجھتے، بلکہ انہیں اسی تاریخی سیاسی ورثے کا تسلسل مانتے ہیں جس پر کبھی تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی گئی، بلکہ دین کے نام پر مقدس بنا دیا گیا۔ اس علمی تنقید اور فکری بازپرس کے فقدان نے ایسے طرزِ حکمرانی کو راسخ کیا جو اسلام کی حقیقی اقدار سے تو بیگانہ ہے، مگر ماضی کی سیاسی تاریخ سے مذہبی جواز ضرور پاتا ہے۔
اس کی ایک واضح معاصر مثال شام میں نظر آئی، جہاں بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے بعد ’’ہیئة تحریر الشام‘‘ (سابقہ جبهة النصرة) کے سربراہ احمد الشرع المعروف ابو محمد الجولانی اور اس کے گروہ نے دمشق میں ’’دولتِ امویہ‘‘ کے نعرے بلند کیے۔ ان کے متعدد افراد نے ویڈیوز میں علانیہ کہا کہ عہدِ اموی کو دوبارہ زندہ کرنا ضروری ہے، گویا وہ اسلام کا مثالی سیاسی نمونہ ہے، حالانکہ وہ عہد اسلام کی بنیادی اقدار اور عدل و انصاف سے شدید انحرافات کا مظہر تھا۔ اس طرح انہوں نے ایک ایسی تاریخی آمریت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جس کا اسلام کی روحِ حکمرانی سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اس مخمصے سے نکلنے کے لئے اسلام کی ایک نئی تفہیم درکار ہے، ایسی تفہیم جو اس کی دینی شناخت اور اس کے تمدنی منصوبے کو ایک دوسرے سے الگ نہ کرے۔ جو نہ صرف ماضی کے احیاء یا تاریخی نمونوں کی بازگشت پر اکتفا نہ کرے، بلکہ ایک معاصر سیاسی تصور تشکیل دے جو دینی نصوص پر قائم ہو، عصرِ حاضر کے چیلنجز کا جواب دے اور اسلامی مرجعیت کے اندر رہ کر دورِ جدید کے سوالات سے مکالمہ کرے، نہ کہ اس کے حاشیے یا بیرون سے۔
اس تجزیے کی روشنی میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی دنیا میں سیاسی اختیارات کا بحران صرف خارجی عوامل کی پیداوار نہیں، بلکہ براہِ راست امت کے اپنے دین، اپنی شناخت اور اپنے تاریخی ورثے سے دوری کا عکاس ہے۔ اکثر اوقات امت نے اپنے حقیقی تمدنی منصوبے سے دستبردار ہو کر یا تو مغربی ماڈلز کو اپنایا یا پھر مسخ شدہ انداز میں ایسے تاریخی تجربات کو زندہ کرنے کی کوشش کی جو روحِ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتے تھے، بلکہ اکثر اوقات دین کے نام پر استبداد اور استحصال کے کی شکلیں تھیں ۔
اسلام کو بحیثیت ایک سیاسی، ثقافتی اور تمدنی منصوبے کے دوبارہ زندہ کرنا ممکن ہی نہیں جب تک اُس تراث کا سنجیدہ اور جرات مندانہ جائزہ نہ لیا جائے، اور اسلامی عقل کو ماضی کی اسیری اور حال کے تضادات سے آزاد نہ کیا جائے۔ آج کی ضرورت یہ نہیں کہ ہم عہدِ خلافت کو جوں کا توں دہرانے لگیں، اور نہ ہی یہ کہ ہم دوسروں کے ماڈلز میں جذب ہو جائیں، بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ ہم ایک نئی سیاسی بصیرت تراشیں، جو دینی نصوص سے الہام لے کر معاصر روح کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور حالیہ مسائل کا سامنا کرے، مگر ساتھ ہی حقیقی اسلامی اقدار سے کبھی منقطع بھی نہ ہو۔
تبھی امت دوبارہ ٹوٹے ہوئے رشتے جوڑ سکے گی اور اپنے اندر وہ صلاحیت پیدا کر سکے گی کہ اپنے لیے ایک منفرد انداز حکمرانی اور طرزِ حیات وضع کرے ۔ ایسا ماڈل جو نعروں یا اندھے تقدس پر نہیں، بلکہ زندہ شعور، اخلاقی ذمہ داری اور سچے تعلقِ دین پر قائم ہو۔