

| اسلام میں سیاست | خلافت: اسلامی سیاسی فکر پر تاریخ کی گرفت

خلافت: اسلامی سیاسی فکر پر تاریخ کی گرفت
الشيخ معتصم السيد أحمد
اہل سنت اسلامی تحریکوں کے سیاسی منصوبے کو اُس تاریخی یادداشت کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا جس نے ان کی فکری ساخت کو تشکیل دیا اور نظامِ حکومت کے بارے میں اُن کے نقطۂ نظر کو ڈھالنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ اہل سنت سیاسی فکر، شیعہ فکر کے برعکس ہے، کیونکہ شیعہ فکر "انتظار" اور "غیبت" کے تصور پر قائم ہوئی، جب کہ سنی فکر اقتدار کے سائے میں پروان چڑھی ہے۔ یہ فکر اسلامی خلافت کے اس تجربے سے براہ راست متاثر رہی، جو تقریباً نو صدیوں تک اسلامی تاریخ پر غالب رہی۔ اور خلافت کے اس طویل اس دور میں صرف ایک ہی قبیلے(قریش)نے حکومت کی جس نے پہلے تو ایک اجتماعی دینی شعور پیدا کرتے ہوئے اسلام کو ریاست کے ساتھ جوڑ دیا،اور پھر اسے سیاسی جواز بنا کرنافقط بیعت اور خلیفہ کی اطاعت سے وابستہ کیا، بلکہ خلیفہ کے خلاف بغاوت کو دین سے انحراف کے مترادف قرار دےدیا۔
چنانچہ اسی پس منظر میں امت کا ایک ایسا "روایتی سیاسی شعور" وجود میں آیا جس میں خلافت کے تصور کو محض ایک سیاسی ادارہ نہیں بلکہ عقیدے کا لازمی حصہ بنا دیا گیا۔اور کسی مسلمان کے لیے اس دائرے سے باہر سوچنے کی گنجائش نہیں رکھی۔یہاں تک کہ خلیفہ کے خلاف بغاوت کی ہر کوشش کو "اسلام کی تلوار" کے نام پر کچل دیا گیا اور بغاوت کرنے والوں کو قتل کر دیا گیا۔ یہی وہ جواز تھا جس کے تحت مدینہ کے باشندوں کی واقعۂ حرّہ میں جانوں،اور آبرو عزت سے کھیلا گیا، مسجدِ نبوی کی حرمت پامال کی گئی، کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا گیا، امام حسینؓ کو کربلا میں شہید کیا گیا، اور بزرگ صحابہ جیسے حجر بن عدی اور سعید بن جبیر کو وقت کی حکومتوں نے قتل کیا۔ اوریوں خلافت ایک ایسی سخت گیر اور ناقابلِ سوال ادارہ بن گئی جس نے امت پر یہ جابرانہ تصور مسلط کر دیا کہ اسلام خلافت کے بغیر نامکمل ہے، جماعت بیعت کے بغیر قائم نہیں ہو سکتی، اور اسی طرح سیاسی جواز اطاعت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
نسل در نسل یہ تصور منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ موجودہ اسلامی تحریکیں خلافت کو اسلامی حکومت کی واحد ممکنہ شکل سمجھنے لگیں۔ یوں یہ خیال ایک طرح کی "سیاسی حسرت" میں بدل گیا، جس میں دین کو ایک رسالی و روحانی تجربے کے بجائے اقتدار کی انسانی جدوجہد سے مربوط کر دیا گیا۔ اسی وجہ سے اکثر اوقات سنی اسلام پسند خلافت کو ایک انسانی و تاریخی ادارے کے طور پر سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں، جو مخصوص تاریخی حالات میں طاقت، عصبیت اور وراثت کے اصولوں پر قائم ہوئی اور انہی کے تحت پروان چڑھی، نہ کہ براہِ راست وحی یا الٰہی تعلیمات کے مطابق۔
یہ پورا سلسلہ اُس ابتدائی لمحے سے شروع ہوا جسے "سقیفہ بنی ساعدہ" کہا جاتا ہے، جہاں خلافت کا فیصلہ قریش کے حق میں ہوا اور انصار کو اقتدار میں شراکت سے محروم کر دیا گیا، حالانکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ حکومت میں ان کا بھی حصہ ہو، جیسے وزراء کے طور پر انصار اور امیروں کے طور پر قریش۔ یہیں سے سیاسی قدغن و بندش کا آغاز ہوا اور امت سے حقیقی شراکتِ اقتدار کا امکان تک چھین لیا گیا۔ فطری طور پر اس واقعے نے کیونکہ اسلامی شعور پر گہرے اثرات ڈالے، لہذا بعد کی بہت سی سیاسی تباہیوں اور بڑے بڑے فتنوں کو اسی ابتدائی طاقت کے ارتکاز سے جوڑا جا سکتا ہے۔
اہلِ فکر کے ہاں یہ موضوع کئی دہائیوں سے زیرِ بحث ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتاہے کہ کیا اسلامی خلافت دراصل دینِ اسلام کی روح کا مظہر تھی یا محض چند مخصوص طبقات کا ایک دنیوی سیاسی تجربہ؟ اگر چہ تاریخ کو تنقیدی اور بیدار شعور کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کا جواب واضح ہے، لیکن عمومی شعور اب بھی پہلے ہی تصور کے اندر مقید ہے، جس کے تحت خلافت کو ایک دینی شعار سمجھا جاتا ہے اور خلفاء کو پیغمبروں جیسا درجہ دیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کی قیادت خلافت کے ماڈل کو مطلق اور حتمی مرجع کے طور پر پیش کرنے پر اصرار کرتی ہے۔ اسی تناظر میں، اخوان المسلمون کے بانی حسن البنّا نے اپنے پانچویں اجلاس کے پیغام میں "الاخوان المسلمون والخلافة" کے عنوان سے لکھا: "یہ مناسب ہے کہ میں اخوان المسلمون کے موقف کو خلافت اور اس سے متعلق امور کے بارے میں بیان کروں۔ اخوان کا عقیدہ ہے کہ خلافت امتِ مسلمہ کی وحدت کی علامت ہے اور مسلمانوں کے درمیان ربط و تعلق کی مظہر ہے۔ یہ ایک اسلامی شعار ہے جس کے بارے میں مسلمانوں کو سوچنا اور اس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ خلیفہ دینِ الٰہی کے بہت سے احکام کا مرکز ہے، اسی لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین سے پہلے خلافت کا مسئلہ طے کیا اور اس کے بعد ہی مطمئن ہو کر دیگر امور انجام دیے"۔
اخوان المسلمون اسی لیے خلافت کے قیام اور اس کی بحالی کو اپنے طریقۂ کار کا بنیادی مقصد سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا یہ بھی یقین ہے کہ اس کے لیے ضروری تیاریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔یعنی خلافت کے فوری قیام سے پہلے مختلف تدریجی اقدامات کی ضرورت ہے، جیسے تمام مسلم قوموں کے درمیان ثقافتی، سماجی اور اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانا، پھر معاہدے اور اتحاد قائم کرنا، اور مشترکہ کانفرنسیں منعقد کرنا۔ جب یہ سب مراحل مکمل ہو جائیں تو امت ایک ایسے امام پر متفق ہو سکتی ہے جو سب کو جوڑنے والی کڑی ہو، وحدت کی علامت ہو، دلوں کا مرکز ہو اور زمین پر خدا کے سائے کی حیثیت رکھتا ہو۔"
حسن البنّا کا یہ تصور کسی ایک ملک میں قومی سطح کی اسلامی ریاست قائم کرنے کے بجائے پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک متحد حکومت کے قیام کا ہے جو ایک ہی خلیفہ کی قیادت میں ہو۔ یہ سوچ دراصل قرآن کے نصوص یا موجودہ دور کی ضروریات سے نہیں بلکہ تاریخی یادداشت سے اخذ کی گئی ہے۔
اسی طرح برصغیر کی اسلامی تحریکوں کے فکری رہنما ابوالاعلیٰ مودودی بھی جو کہ خلافت کے بڑے نظریہ سازوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اسے "حاکمیتِ الٰہی" کے نظریے کے تحت بیان کیا۔جیساکہ اپنی کتاب (نظریۂ اسلام) میں وہ لکھتے ہیں کہ : "اسلامی ریاست خداے واحد کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔لہذا حکم دینا، فیصلے کرنا اور قانون سازی یہ سارے معاملات صرف اللہ کے لیے مخصوص ہیں۔ لہذا کسی فرد، خاندان، طبقے، قوم بلکہ پوری انسانیت کو بھی یہ اختیار نہیں دیا گیا۔کیونکہ صرف حکمران ہی اللہ کا خلیفہ ہوتا ہے،اور اس کا کام اللہ کی جانب سے دی گئی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے۔ لہٰذا کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ حکم دے یا منع کرے جب تک کہ اس کے پاس اللہ کی طرف سے اختیار نہ ہو۔"
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جس "الٰہی اختیار" کی مودودی صاحب بات کرتے ہیں وہ دراصل اُس حکمران میں مجسم ہوتا ہے جس کے ماتحت سب ریاستیں آ جاتی ہیں، چاہے وہ زبردستی اور غلبے کے ذریعے ہی تخت پر کیوں نہ بیٹھا ہو، بالکل اسی طرح جیسے مسلمانوں نے امیر معاویہ، ان کے بیٹے یزید اور پھر بنی اُمیہ و بنی عباس کے دیگر حکمرانوں کی اطاعت کی۔ اور اسی بات سے ان کے کلام کی منطقی تعبیر بنتی ہے، کیونکہ انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آخر کس طرح حکمران کو براہِ راست اللہ کی طرف سے اختیار ملتا ہے اور اللہ نے اسے کس طرح اس منصب پر مقرر کیا ہے۔
اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کی اسلامی نشاۃِ ثانیہ کی نمایاں شخصیت رشید رضا نے بھی اپنی کتاب (الخلافة أو الإمامة العظمى)میں خلافت کے بارے میں اسی تقدیس آمیز لہجے میں گفتگو کی ہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ : "اسلامی خلافت ہی بہترین طرزِ حکومت ہے، جس کے بغیر انسانیت کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی، یہ محض مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے سب سے اچھی حکومت ہے۔"
لیکن اس بڑے دعوے کی کوئی تاریخی شہادت ہمیں خلافت کے حقیقی تجربے میں نہیں ملتی، سوائے اس تقدس مآب اور غیر تنقیدی نظر کے جس سے سلفِ امت کی کاوشوں کو دیکھا گیا ہے۔
اسی سوچ پر عمر عبد الرحمن بھی عمل پیرا تھے، جو مصر کی "الجماعة الإسلامية" کے مفتی تھے۔ جنہوں نے انور السادات کے قتل کا فتویٰ دیا اور اسیوط کے پولیس ہیڈکوارٹر پر حملے کی قیادت کی، جس میں 118 پولیس اہلکار مارے گئے۔ موصوف اپنی کتاب حتمية المواجهة میں وہ لکھتے ہیں کہ : "اسلام میں امامت دراصل نبوت کی جانشینی ہے، جس کا مقصد دین کی حفاظت اور دنیا کی سیاست کو دین کے تحت چلانا ہے۔"
دراصل سنی مسلمانوں کی نظر میں خلافت محض ایک حکومتی ڈھانچہ نہیں، بلکہ یہ ایک خواب ہے کسی کھوئے ہوئے جاہ و جلال کاجسے وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں افسوس اور رنج کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اسی درد کو سلیم العوا(جو اخوانی فکر کی نمایاں شخصیت میں سے تھے)بھی بیان کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ: جب سے خلافتِ عثمانیہ ٹوٹی ہے، مسلمانوں کی قوت بکھر گئی ہے اور ان کے دشمن نے ان کے تمام ملکوں کی تقدیر پر قابو پا لیا ہے۔"
یہ دعوی صرف کتابوں اور نظریاتی مباحث تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ مختلف شکلوں میں عملی زندگی میں بھی ظاہر ہوا، جو اس بات کی علامت ہیں کہ جدید دور میں خلافت کے ماڈل کو زندہ کرنے کی سنجیدہ(اگرچہ محدود)کوششیں کی گئیں۔ بعض لوگوں نے تو خود کو خلیفہ کے مرتبے پر فائز بھی قرار دیا اور عوام کو اپنی بیعت کی دعوت دے ڈالی۔ مثال کے طور پر شکری مصطفیٰ، جو "جماعة التكفير والهجرة" کا سربراہ تھا، اس نے 1977ء میں مصر کے وزیرِ اوقاف حسن الذہبی کا قتل کروایا۔ شکری نے خود کو "امیر" مقرر کیا اور اپنی جماعت کا نام جماعة الحق في آخر الزمان رکھا ۔ وہ اپنے لیے یہ لقب اختیار کرتا تھا: طه المصطفى شكري أمير آخر الزمان۔
اسی طرح افغانستان میں ملا عمر نے بھی اپنے آپ کو "امیر المؤمنین" قرار دیا، اور طالبان تحریک نے اس کی بیعت کی۔ بعد میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن نے بھی اس کی بیعت کی۔ مگر خلافت کے منصوبے کا سب سے واضح اور خطرناک اعلان تنظیم "الدولة الإسلامية" (جسے میڈیا میں داعش کہا جاتا ہے) نے کیا، جب انہوں نے عراق اور شام کے بڑے حصے پر قبضہ کر کے اپنی خلافت کا اعلان کیا اور ابو بکر البغدادی کو "خلیفۃ المسلمین" مقرر کیا، اور تمام مسلمانوں کو اس کی بیعت کا حکم دیا۔ اس اعلان کے بعد دنیا بھر سے سینکڑوں نوجوان اس منصوبے کی بیعت کے لیے پہنچے۔ اس طرح خلافت کا یہ تصور محض ایک فکری تمنا سے نکل کر ایک خونریز حقیقت میں بدل گیا، جو پوری دنیا کے لیے خوف اور تشویش کا باعث بن گیا۔
لیکن اصل المیہ جو ان تمام ماڈلز سے واضح ہوتا ہے(چاہے وہ شکری مصطفیٰ کا ماڈل ہو یا ابوبکر البغدادی کا)یہ ہے کہ مسئلہ صرف ان کے سخت اور پرتشدد طریقوں کا نہیں بلکہ اُن کی فکری بنیاد کا جواز بھی ہےکہ یہ تمام تحریکیں اپنی حکمرانی کی جوازیت اُن تصورات سے حاصل کرتی ہیں جو حقیقت سے کٹے ہوئے ہیں، اور یوں ایک ایسے تاریخی تجربے کو دہراتی ہیں جو اکثر مقامات پر جبر اور زبردستی پر مبنی تھا، نہ کہ شوریٰ اور عوامی رضامندی پر۔ ان سب میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ یہ معاصر دور کے سماجی اور فکری حالات سے غافل رہتے ہیں۔ جدید ریاست نہ تو عارضی بیعتوں سے بنتی ہے، نہ محض جذباتی خطابات سے چلتی ہے، اور نہ ہی اسے فوری قبضے یا قرونِ وسطیٰ کے ماڈلز کو خودکار انداز میں دہرا کر قائم رکھا جا سکتا ہے۔
اس رجحان کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ دین اور سیاست کو اس طرح مخلوط کر دیا جاتا ہے کہ حکمران کو ایک ایسی دینی حیثیت دے دی جاتی ہے جو احتساب سے بالاتر ہو، اور اسے "خلافتِ نبوت" یا "حاکمیتِ الٰہی" کے نام پر مطلق جواز فراہم کر دیا جاتا ہے۔بغیر کسی معقول میکنزم کے جو اسے جواب دہ بنائے یا اس کی اصلاح کرے۔ یہ حکمران پرستی، اگرچہ فقہِ سلطانی سے ورثے میں ملی ہے، لیکن موجودہ تحریکوں میں اس نے اور بھی زیادہ شدت اور انتہاپسندی کی شکل اختیار کر لی ہے، جہاں پوری امت کو صرف "بیعت" میں سمیٹ دیا جاتا ہے، اسلام کو صرف "امارت" میں محدود کر دیا جاتا ہے، اور تنوع، اجتہاد اور شراکت داری کے تمام اصولوں کو عملاً ختم کر دیا جاتا ہے۔
خلافت کو اس انداز میں زندہ کرنا دراصل اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اسے براہِ راست عصرِ حاضر کی اقدار کے مقابل لا کھڑا کرتا ہے۔ یہ رویہ اسلام کے مخالفین کے لیے دروازہ کھول دیتا ہے کہ وہ اسے ایک ایسے دین کے طور پر پیش کریں جو نہ تہذیب کو قبول کرتا ہے، نہ کثرتیت (pluralism) کو مانتا ہے، اور نہ ہی انسانی حقوق کو تسلیم کرتا ہے۔ یوں خلافت ایک وحدت کے منصوبے سے لڑائی کے منصوبے میں بدل جاتی ہے، اور ایک سیاسی امید سے شدت پسندی اور استبداد کے جواز کے ہتھیار میں ڈھل جاتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اس تصور کی ہمہ گیر اور عمیق نظرِ ثانی کا تقاضا کرتا ہے۔ایسی نظرِ ثانی جو تاریخی جذبات سے ہٹ کر ایک تنقیدی نقطۂ نظر اپنائے، اور اسلامی فکر کو زمان و مکان کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی صلاحیت دوبارہ عطا کرے۔
یوں اسلامی شعور میں خلافت کی ایک ایسی تصویر جم گئی ہے جو مقدس اور ماورائی سمجھی جاتی ہے، جس پر نظرِ ثانی یا احتساب کی اجازت ہی نہیں۔درحقیقت اسلامی تحریکوں نے دین کو بطور وحی اور تاریخ کو بطور انسانی عمل کے درمیان فرق نہیں کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اموی یا عباسی ماڈل کو اس طرح دہراتی رہیں، جیسے وہ براہِ راست الٰہی نظام حکومت ہوں، حالانکہ ان ادوار میں بھی زیادتیوں اور خونریزی کی کمی نہ تھی۔