14 رمضان 1446 هـ   14 مارچ 2025 عيسوى 7:40 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلام میں سیاست |  عوام کی نفسیات: اسلام اور گوستاو لیبون (Gustave Le Bon) کے نظریات کا موازنہ
2025-02-09   158

عوام کی نفسیات: اسلام اور گوستاو لیبون (Gustave Le Bon) کے نظریات کا موازنہ

الشيخ باسم الحلي

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ عوام کے شعوری اور لاشعوری ردِعمل کو بیرونی محرکات یا تحریک کے تناظر میں سب سے بہتر انداز میں گُستاف لیبون (Gustave Le Bon) نے اپنی مشہور کتاب (سائیکولوجی الجمہور)میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے عوامی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ عوامی رویے کس طرح تاریخ کے دھارے کو بدل سکتے ہیں، خواہ وہ مذہب کا میدان ہو، یا سیاست، معیشت، انقلاب یا ثقافت کا میدان ہو۔ اگرچہ گُستاف لیبون کے تمام نتائج حقیقت اور منطق سے مکمل طور پر ہم آہنگ تو نہیں ہیں، یہاں تک کہ ان کے بعض خیالات  تو مبالغہ آرائی یا مایوسی کا شکار محسوس ہوتے ہیں، تاہم ان کے پیش کردہ کئی نکات اپنی علمی و فکری اہمیت کے باعث قابلِ توجہ ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم ان ہی نکات کا جائزہ لیں گے اور ان کا اسلامی نظریات کے ساتھ تقابل کریں گے، کیونکہ یہ ایسے امور ہیں جنہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔

گوستاو لیبون(متوفی1931ء) ایک فرانسیسی طبیب اور ماہرِ عمرانیات تھے ۔ان کی مشہور تصنیف (سائیکولوجی الجمہور) میں انہوں نے عوام کے غیر شعوری اثرات پر بحث کی ہے، جو اجتماعی نفسیات کے زیرِ اثر اور بیرونی محرکات کے نتیجے میں ابھرتے ہیں۔ لیبون کے مطابق، یہ اثرات تاریخ اور معاشرے کی مادی ساخت کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں اکثر مذہبی، سیاسی، معاشی اور انقلابی پہلوؤں میں منفی رجحانات کو جنم دیتی ہیں، جیسا کہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے، اگرچہ بعض مواقع میں یہ مثبت اثرات بھی مرتب کر سکتی ہیں، لیکن ایسا  بہت کم  ہوتا ہے۔

گوستاو لیبون اپنی کتاب "سائیکولوجی الجمہور" میں لکھتے ہیں: "یہ درست ہے کہ عوام اکثر اوقات مجرمانہ رجحانات رکھتے ہیں، لیکن بعض اوقات وہ غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ انہیں جدوجہد، عقیدے، عظمت اور عزت کے نام پر قربانی کے لیے آسانی سے آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ روٹی اور پانی کے بغیر بھی متحرک ہو سکتے ہیں، خواہ یہ تحریک کسی مقدس مقام کے دفاع کی غرض سے ہو یا سرزمینِ وطن کی حفاظت کے لیے۔ یہی کچھ ہمیں انقلابِ فرانس (1793ء) کے بعد نظر آتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ یہ کارنامے شعوری طور پر انجام نہیں پاتے ، لیکن تاریخ کی تشکیل ایسے ہی غیر شعوری جذبوں اور قربانیوں کے ذریعے ہوتی ہے۔" (سائیکولوجی الجمہور، صفحہ 60، ترجمہ: ہاشم صالح)

گوستاو لیبون اپنی کتاب "سائیکولوجی الجمہور"میں مزید لکھتے ہیں کہ:  "عوام ایسے کام انجام دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے جو بلند درجے کی ذہانت کے متقاضی ہوں، کیونکہ اجتماعی روح کے زیرِ اثر، افراد کی انفرادی فکری صلاحیتیں تحلیل ہو جاتی ہیں اور وہ غیر شعوری اثرات کے تابع ہو جاتے ہیں۔"(سائیکولوجی الجمہور، صفحہ 57)

گوستاو لیبون کے نزدیک "غیر شعوری اثر" کا مطلب یہ ہے کہ عوام کی ذہنی کیفیت اکثر اجتماعی روح کے زیرِ اثر مقناطیسی نیند میں چلی جاتی ہے۔ وہ تقدس اور عظمت کے افسانوں سے مسحور ہو کر اپنی عقل و فہم کھو بیٹھتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ نہ تو تخلیقی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی مستقل مزاجی۔ وہ ہوا کے رخ کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک فرد، اجتماعی اثرات کی زد میں آ کر، اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے، خواہ وہ کسی ایسے بت کی پرستش میں ہو جسے ہجوم نے دیوتا سمجھ لیا ہو، یا کسی ایسی شخصیت کی عبادت میں، جسے نجات دہندہ مان لیا گیا ہو اور جس میں مقدس صفات تلاش کر لی گئی ہوں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہی عوام، جو ایک وقت میں اپنے رہنماؤں کی عقیدت سے سرشار تھے، بعد میں انہی کو مسترد کر دیتے ہیں۔ آخر، کیا فرانسیسیوں نے نپولین کی پرستش نہیں کی؟ کیا کمیونسٹوں نے اسٹالن کو دیوتا نہیں مانا؟ کیا اطالویوں نے موسولینی کو نجات دہندہ تصور نہیں کیا؟ مگر پھر وہی عوام تھے جنہوں نے بعد میں انہی شخصیات سے منہ موڑ لیا۔(سائیکولوجی الجمہور، صفحہ 92)

فرد کا انتہا پسندانہ رویہ :

گوستاو لیبون اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ : "ہجوم میں شامل فرد کی بنیادی خصوصیات یہ ہیں:

اوّل: اس کی شعوری شخصیت مٹ جاتی ہے۔

دوّم: لاشعوری جبلّت اس پر حاوی ہو جاتی ہے۔

سوّم: وہ اشتعال اور تقلید کے زیرِ اثر آسانی سے قابو میں آجاتا ہے۔

چہارم: اس میں اشتعالی خیالات کو فوری عملی صورت دینے کا شدید رجحان پیدا ہو جاتا ہے۔ یوں، وہ ایک خودکار مشین کی مانند ہو جاتا ہے، جو جذبات کے طوفان میں بہہ کر عمل کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔"

گوستاو لیبون کا یہ قول غالباً صحیح ہے، اور اس کا استثنا صرف انبیاء اور فطری افراد ہیں، جو سرخ کیمیا کے مانند نایاب ہیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهًا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ، وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ أَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى آلِهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ يُرَادُ، مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ، أَأُنْزِلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ مِنْ بَيْنِنَا، كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ...، وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ أُولَئِكَ الْأَحْزَابُ، إِنْ كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ)

ترجمہ: کیا اس نے بہت سے معبودوں کی جگہ صرف ایک معبود بنا لیا؟ یہ تو یقینا بڑی عجیب چیز ہے۔اور ان میں سے قوم کے سرکردہ لوگ یہ کہتے ہوئے چل پڑے: چلتے رہو اور اپنے معبودوں پر قائم رہو، اس چیز میں یقینا کوئی غرض ہے۔ہم نے کبھی یہ بات کسی پچھلے مذاہب سے بھی نہیں سنی، یہ تو صرف ایک من گھڑت (بات) ہے۔کیا ہمارے درمیان اسی پر یہ ذکر نازل کیا گیا؟' ان سے پہلے نوح کی قوم، عاد، ثمود، قوم لوط، اصحابِ اکہ، یہ سب امتیں تھی، جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا، اور ان پر عذاب آ کر رہا۔"(قرآن: سورہ ص، 38:5-14)

گوستاو لیبون کہتا ہے کہ: "وہ فرد جو کسی ہجوم کا حصہ بن جاتا ہے، اجتماع کی کثرت کے ذریعے ایک شدید قوت کا احساس حاصل کر لیتا ہے، اور یہی چیز اسے بعض جبلّتوں کے آگے جھکنے پر آمادہ کرتی ہے، جن کے سامنے وہ بصورتِ دیگر نہ جھکتا۔ اور وہ اپنی مرضی اور اختیار سے ایسا کرتا ہے؛ کیونکہ ہجوم اپنی فطرت میں نادان ہوتا ہے۔"(سائیکولوجی آف کراؤڈز، صفحہ 58)

اور یہی کچھ خوارج، نہروان اور صفین کی جنگوں میں ہوا؛ لیکن یہ حقیقت اس آیتِ کریمہ کے مفہوم کو باطل نہیں کرتی: اللہ تعالی فرماتے ہیں:"اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری طاقت جاتی رہے گی، اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" (الأنفال: 46) یہ آیت اجمالی طور پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک ایسی طاقت موجود ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو ہمیشہ فتح سے ہمکنار کر سکتی ہے، بشرطیکہ مسلمان عوام متحد ہوں، اپنے باہمی اختلافات سے بچیں اور اپنی فطری جبلّتوں اور غفلت کے سبب باہم نہ ٹکرائیں کیونکہ یہ ایک ایسی قوت ہے جو پورے عالم سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

باشعور عوام کا طبقہ!

اگر ہم فرض کریں کہ معاشرے میں کچھ نایاب، باشعور اور تعلیم یافتہ افراد موجود ہیں(جو ہمیشہ اکثریتی عوام کے مقابلے میں قلیل تعداد میں ہوتے ہیں) تو بھی ان کا اثر عمومی عوامی فضا کے مقابلے میں بہت کم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی فضا میں ایک سحر انگیز قوت موجود ہوتی ہے، جو ان نادر افراد کو بھی اپنی اجتماعی ہیجان انگیزی میں جذب کرکے انہیں عوامی جہالت کے سانچے میں ڈھال دیتی ہے۔گوستاو لیبون  کہتا ہے: "جیسے ہی کوئی فرد ہجوم کا حصہ بنتا ہے، وہ تہذیب کے درجے میں کئی سطح نیچے گر جاتا ہے۔ جب وہ اکیلا ہوتا ہے تو شاید ایک تعلیم یافتہ اور معقول شخص ہو، لیکن جونہی وہ ہجوم میں شامل ہوتا ہے، تو جبلّت کے تابع ہو جاتا ہے اور بالآخر وحشی بن جاتا ہے۔" (سائیکولوجی آف کراؤڈز، صفحہ 60، ترجمہ: ہاشم صالح)

اسی لیے اقتدار، طاقت اور دولت کے جابروں، یا انبیاء کے خلاف برسرِ پیکار قوتوں کی سب سے بڑی خواہش یہی ہوتی ہے کہ عوام کو جہالت اور بربریت کے گڑھے میں ہی گرارہنے دیں۔ کیونکہ شعور یقینی طور پر ظالموں کے تخت کو ہلا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے خلاف ان کے سب سے مؤثر ہتھیاروں میں سے ایک یہ تھا کہ وہ اپنے پیروکاروں کو قرآن کو تدبر اور عقل کے ساتھ سننے سے منع کرتے، بلکہ اسے ہنسی مذاق اور جہالت کے ساتھ نظر انداز کرنے کا حکم دیتے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا: (وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا) لجماهيرهم (لَا تَسْمَعُوا لِهَذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ) اور کافروں نے کہا" اپنی عوام سے "اس قرآن کو مت سنو، اور اس میں شور مچاؤ، تاکہ تم غالب آ جاؤ" (فصلت: 26)

یہ قانون اکثریت پر ہمیشہ لاگو ہوتا ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انبیاء—حضرت ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، بالخصوص نبی اکرم محمد -صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم-—کو پوری دنیا کی بادشاہت پیش کی گئی، مگر انہوں نے اسے ٹھکرا دیا، صرف اس لیے کہ وہ انسان کو نجات دینا چاہتے تھے۔ اور تعجب کی بات نہیں کہ ان کے سب سے بڑے دشمن صرف جابر حکمران ہی نہیں تھے، بلکہ وہ اجتماعی جاہلانہ اور وحشی عوامی جذبات بھی تھے، جنہیں اقتدار اور دولت کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اگر ان کے پاس معجزے تھے، تو ان کا سب سے بڑا معجزہ یہی تھا!

جہالت سے آلودعرب معاشرے کے افراد

قرآن کریم، اس عرب معاشرے کے بااثر افراد کو، جس میں نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا، سخت دل، ظلم، جبر، سیاست، تجارت اور اقتدار میں ناانصافی کے زیرعنوان بیان کرتا ہے۔ ان کے زیرِ اثر عوام، جن میں اکثریت عرب بدوؤں پر مشتمل تھی، مکمل جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے اور وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ ان کی نمایاں خصوصیات میں سب سے غالب صفت وہ جاہلی تعصب تھا، جسے قرآن نے یوں بیان کیا: (فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ) (الفتح: 26)ان کے دلوں میں جہالت کی حمیت تھی"

بعثت کے تقریباً پندرہ سال بعد، قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے: (وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ) "اور تمہارے گرد و نواح کے بعض دیہاتی (اعراب) منافق ہیں، اور اہلِ مدینہ میں بھی کچھ ایسے ہیں جو نفاق میں سرکشی کی حد تک پہنچ چکے ہیں" (التوبہ: 101)

یہ آیت ہمیں غور کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ابتدائے بعثت میں ان جاہل اعراب کے مقابل کس قدر شدید آزمائشوں کا سامنا کیا ہوگا۔ کیونکہ وہ  معاشرے کے افراد (سواے کچھ افراد کے) سب کے سب جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اور اس جہالت کا خلاصہ قرآن میں یوں بیان ہوا: (وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ) وقال: و: (النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ). "لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے" (الاعراف: 187 )  اور فرمایا: "لوگ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں" (یونس: 44)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اپنی قوم کو جہالت چھوڑنے، فکری جمود سے نکلنے، عقل و شعور کو اپنانے اور بھلائی و فلاح کے راستے پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے انہیں نیکی اختیار کرنے، اس کی ترغیب دینے، برائی اور فساد سے بچنے اور دوسروں کو اس سے روکنے کی تلقین کی، تاکہ ان کا دین اور دنیا دونوں سنور جائیں، اور وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ...، يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ، وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ، وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ، فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)

 (وہ) رسول نبی امی  جو انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے، ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے اور ناپاک چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اور بیڑیاں اتارتا ہے جو ان پر (جہالت میں) تھیں، تو جو لوگ اس پر ایمان لائے، اس کی تعظیم کی، اس کی نصرت کی، اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا، وہی کامیاب ہیں۔ (الاعراف: 157)

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ دین، انبیاء کی بعثت اور آسمانی کتابوں کا عملی مقصد صرف سادہ عبادات اور معمولی رسومات تک محدود ہے، تاکہ جنت حاصل کی جا سکے اور دوزخ سے نجات پائی جا سکے۔ لیکن اگر ہم ذرا غور کریں تو صاف نظر آتا ہے کہ معاملہ قطعی طور پر صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے۔ کیونکہ اگر دین محض عبادات اور رسمی رسومات پر مشتمل ہوتا، تو پھر بھلا رومی سلطنت نے حضرت عیسیٰؑ سے دشمنی کیوں رکھی؟ اور یہودیوں کے ساتھ سازباز کرکے انہیں کیوں مصلوب کیا؟ حالانکہ وہ نہ تو ان سے اقتدار، ملک یا دولت چھیننے آئے تھے، اور نہ ہی کسی پر اپنا دین زبردستی مسلط کر رہے تھے۔ یہی صورتِ حال جاہل عربوں کی تھی، جنہوں نے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شدید مخالفت کی، باوجود اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کسی دنیوی طاقت کے ذریعے مجبور نہیں کیا۔

اس مخالفت کا واحد سبب انبیاء کی وہ حیران کن صلاحیت تھی کہ جس کے ذریعے وہ عوام کو عقل و شعور کی روشنی میں لے آتے، انہیں جہالت کے اندھیرے سے نکال کر عدل و اصلاح کے لیے متحد کرتے، اور انہیں ظلم و غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرا کے مساوات، عدل اور حتیٰ کہ آزادی کی راہ پر گامزن کرتے—چاہے وہ آزادی اور انصاف کا ابتدائی درجہ ہی کیوں نہ ہو، یا اس راہ پر پہلا قدم ہی کیوں نہ ہو۔یہ حقیقت کسی بھی طرح بادشاہت، اقتدار، حاکمیت اور دولت کے نظام سے مطابقت نہیں رکھتی، کیونکہ سلطنتوں کے پیٹ صرف انسانوں کو غلام بنا کر ہی بھرتے ہیں، جہاں لوگ خرید و فروخت کی جانے والی ایک حقیر جنس بن  کے رہ جاتے ہیں۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تمام انسانی سلطنتوں میں جنگیں اور وحشیانہ حملوں کے ذریعے غلام بنائے گئے افراد کی قیمت بعض اوقات ایک بکری، گدھے یا خچر سے بھی کم ہوتی تھی۔ بلکہ اکثر سلطنتوں کے قوانین میں یہ شامل تھا کہ اگر کوئی اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس پر کوئی فوجداری سزا لاگو نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ) كما قد قال: (طَغَوْا فِي الْبِلَادِ، فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ) خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے، تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید کہ وہ باز آ جائیں" (الروم: 41) اور مزید فرمایا:"انہوں نے شہروں میں سرکشی کی، اور وہاں بہت زیادہ فساد پھیلایا (الفجر: 11-12) یہی وہ برائیاں ہیں جو کسی بھی معاشرے میں کسی نبی کی بعثت سے قبل پائی جاتی ہیں۔ یعنی ہر نبی کے دشمن، جابر حکمرانوں اور سرکش ظالموں کا سب سے بڑا خوف یہی ہوتا ہے کہ یہ نبی، عوام کو جہالت اور جہالت کے گڑھے سے نکال کر شعور، عقل، منطق، انصاف، آزادی اور انسانی وقار کے مقام تک لے جائے گا اور کہ وہ لوگوں کو یہ احساس دلائے گا کہ ان کی قدر و قیمت ایک گدھے، خچر یا بکری سے کہیں زیادہ ہے، اور وہ کسی بھی صورت بیچنے اور خریدنے کی چیز نہیں ہیں۔

تاریخ ایک بہترین گواہ ہے کہ دین اور انبیاء کی بعثت کا مقصد صرف عبادت اور آخرت نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ) "اور اگر وہ تورات اور انجیل کو قائم رکھتے اور جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا تھا، اس پر عمل کرتے، تو وہ اوپر سے اور نیچے سے رزق حاصل کرتے" (المائدہ: 66)

اللہ نے انبیاء کرام کو اس لیے بھیجا تاکہ لوگوں کی اصلاح ہوجائے، آخرت سے پہلے دنیا کو سنوارا جائے۔ تاکہ انسانوں کی جہالت اور فساد کا مقابلہ کیا جا سکے، یا کم از کم انہیں اس میں مزید مبتلا ہونے سے روکا جا سکے۔ اور یہ سب عوام کی مدد سے ہی ممکن ہے، کیونکہ عوام عموماً سادہ، غافل اور جاہل ہوتے ہیں، جو سازشوں اور لڑائیوں کے پیچیدہ حالات کو نہیں سمجھ پاتے۔ اگرچہ عوام میں مساوات، انصاف اور انسانیت کے لیے ایک قدرتی جذباتی رجحان پایا جاتا ہے، لیکن اس جذبات کو بروئے کار لانا عموماً مشکل ہوتا ہے، کیونکہ عوام کو ان جذبات کے لیے تحریک دینے کے لیے کسی معجزہ جیسی طاقت، ایک جادوئی عزم، اور ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے، جو کم ہی دستیاب ہوتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے عوام کو کس طرح اپنی طرف مائل کیا؟

گوستاو لیبون نے کہا: "محض انصاف کے نظریاتی اصولوں پر مبنی قوانین کبھی بھی عوام کو اپنی طرف نہیں لے جا سکتے اور یہ کہ صرف وہ تاثرات جو عوام میں پیدا کیے جا سکتے ہیں، وہی انہیں اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ وہ قانون ساز جو عوام کی روح سے ناواقف ہیں، وہ کبھی بھی اس نکتے کو ن نہیں سمجھ سکتے کیونکہ تجربے نے انہیں یہ نہیں سکھایا کہ انسان کبھی بھی محض خالص نظریاتی عقل کی بنیاد پر عمل نہیں کرتے۔"(سائیکولوجی آف کراؤڈز: 48-49، ترجمہ: ہاشم صالح)

یہ اقتباس ہمیں بتاتا ہے کہ نبی  اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے جو عوام کو اپنی طرف مائل کیا، وہ محض فلسفیانہ یا نظریاتی دلائل سے نہیں تھا، بلکہ وہ عوام کے جذبات اور تاثرات کو سمجھ کر ان کے ساتھ تعلق بنایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سچائی، اخلاق، اور جذباتی تعلق کے ذریعے عوام کے دلوں میں ایک مضبوط اثر قائم کیا۔ انہوں نے انہیں عقل و شعور کے راستے پر لانے کے لیے ان کے اندر چھپی ہوئی فطری خواہشات کو بیدار کیا، جیسے انصاف، مساوات، اور انسانیت کے بنیادی اصول۔ پوری تاریخ  میں عوام کی غالب خصوصیت یہ رہی ہے کہ ان کے پاس عقل، علم، ثقافت اور ترقی کے اصول و اقدار کی کمی رہی ہے، یہاں تک کہ جب یہ کچھ ترقی اور علم کے زیر سائے ہوتے ہیں، جیسے آج یورپی عوام جدید ٹیکنالوجی اور سمارٹ فونز کے استعمال میں ہیں، پھر بھی وہ مختلف برائیوں میں ملوث ہیں، جیسے منشیات، شراب، زنا، ہم جنس پرستی، اور دیگر اخلاقی گراوٹ۔

یہی صورت حال جزیرہ نما عرب کی جاہل  عوام کے بارے میں بھی تھی۔ ان کے ذہنوں میں عقل اور علم کی کمی تھی، سوائے شعر و ادب اور کچھ باقیات اخلاقی قدروں کے جو انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وراثت میں ملی تھیں۔ لیکن یہ قدریں کسی طور پر بھی ان کی جہالت، ظلم، فقر، فسق و فساد کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں تھیں۔ اس بات کا پختہ ثبوت یہ ہے کہ اگر کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلے  پر حملہ کرتا، تو یہ شجاعت، بہادری اور عزت کی علامت سمجھی جاتی تھی، اور اس میں مال کی لوٹ مار کرنا بھی جائز سمجھا جاتا تھا۔ اس سے بڑھ کر، لڑکیوں کا زندہ دفن کرنا، فحاشی کے کاروبار کو جائز سمجھنا، سود کا لین دین، اور دیگر اخلاقی جرائم معاشرتی طور پر تسلیم شدہ تھے۔

یہ خاصیت اگرچہ جزیرہ نما عرب کی ثقافت کی غالب خصوصیت تھی (جو کہ ان کی جہالت کا اظہار تھی)، تاہم یہ خصوصیت دوسرے ممالک کے عوام میں بھی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ کوئی ایک فرد ان برائیوں پر غور و فکر کرتا ہے اور ان کی وحشت اور درندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن ان کی اجتماعی لاشعور روح انہیں یہ سب جائز اور معمولی لگتا ہے۔ جو چیز ان کے شعور میں وحشیانہ، غیر انسانی، یا اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے، وہ اجتماعی ذہن میں کبھی کبھی بالکل مختلف طریقے سے دیکھی جاتی ہے۔ اجتماعی روح ہمیشہ غالب آتی ہے، چاہے وہ انفرادی سطح پر عقل اور شعور کے ساتھ متصادم ہو، اور یہ انبیاء کے مقابلے میں ہمیشہ شکست کھاتی ہے، چاہے فرد کی سطح پر یہ کامیاب نظر آئے۔ یہاں تک کہ اگر اجتماعی ذہن کبھی کامیاب دکھائی دے، تو یہ حقیقت میں غلط راستے پر ہوتا ہے، کیونکہ اس کا مقصد انسانیت کی فلاح نہیں، بلکہ عارضی، غیر اخلاقی، یا جاہلی مقاصد کا حصول ہوتا ہے۔

گوستاو لیبون  کہتا ہے کہ : "جب فرد عوام میں شامل ہوتا ہے، تو وہ ابتدائی نوعیت کے وجود کی طرف مائل ہوتا ہے... عوام کا رویہ خواتین کی طرح ہوتا ہے، جو براہ راست انتہا پسندی کی طرف بڑھتے ہیں... عوام میں، احمق، جاہل، اور حسود اپنی کمی، ناکامی، اور بے کار ہونے کے احساس سے آزاد ہو جاتے ہیں، اور ایک زبردست طاقت کے ذریعے متحرک ہو جاتے ہیں۔"(سائیکولوجی آف کراؤڈز: 74)

یہ سب دیکھتے ہوئے، ہم حیرت زدہ ہوتے ہیں کہ کس طرح نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ان جاہل عوام کو، جو اپنی جہالت میں ڈوبے ہوئے تھے، دنیا و آخرت کی فلاح کی طرف رہنمائی دی۔ یہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ان کے ہاتھ پکڑ کر انہیں شعور دے دیا تھا، یا پھر کیا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ان میں ایک نیا شعور پیدا کیا، جس کے ذریعے وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں کھڑے ہوئے؟ اس شعور کی بدولت، ان کی تہذیب نے دنیا میں اپنی ایک عظیم مقام حاصل کیا اور صدیوں تک انسانیت کے لیے ایک رہنمائی کا ذریعہ بنی، خاص طور پر اخلاقی اصولوں اور انسانی کرامت کی بنیاد پر۔ آج بھی یہ اصول اور اقدار، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ذریعے فراہم کیے گئے، آج کی جدید تہذیبوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں، حتیٰ کہ جو تہذیبیں دنیا میں سب سے طاقتور ہیں، جیسے ایٹمی ہتھیاروں کی تہذیب۔

گوستاو لیبون  نے اپنی کتاب حضارة العرب میں کہا: "حق یہ ہے کہ قوموں نے عربوں جیسے روادار فاتحین نہیں دیکھے، اور نہ ہی کسی دین کو ان کے دین جیسا پایا۔" (حضارة العرب، صفحہ 630، ترجمہ: عادل زعیتر(

کوئی شک نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ان میں ایک نیا مزاج پیدا کیا، جو رواداری، اخلاق، عزت، وقار اور انسانی احترام پر مبنی تھا۔اور اگر صاف الفاظ میں کہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ان کی اس انسانیت کو بیدار کیا، جس کی حفاظت ضروری ہے اور جسے ذلیل نہیں کیا جانا چاہیے، اور ان کی عقلوں کو سوچنے پر آمادہ کیا۔

گوستاو لیبون  لکھتے ہیں:"یہ خود واقعات نہیں ہوتے جو عوام کے تخیل پر اثر انداز ہوتے ہیں، بلکہ وہ طریقہ جس میں یہ واقعات پیش کیے جاتے ہیں... حقیقت یہ ہے کہ عوام کے تخیل پر اثر ڈالنے کا فن جاننا، دراصل ان پر حکمرانی کے فن کو جاننے کے مترادف ہے۔" (سايكولوجيّة الجماهير، صفحہ 89)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اسی طرح  حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کا اثر ہمیشہ باقی رہنے والا، مسلسل بڑھنے والا اور زندہ و پائندہ ہے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی وفات کے صدیاں بعد بھی قائم ہے۔ یہ صرف جذبات کو متاثر کرنے کا فن نہیں ہے، جیسا کہ گوستاو لیبون  سمجھتے ہیں، بلکہ اس سے کہیں بلند تر حقیقت ہے، جو منطق کی گرفت سے باہر ہے۔ کیونکہ جذبات وقتی اور بدلتے رہتے ہیں، ان کی عمر محدود ہوتی ہے، جبکہ انبیاء کا پیغام عقل و فہم کا ایسا معجزہ ہے جو صدیوں سے انسانی فکر کو جِلا بخشتا آ رہا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ) اور دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے، اور بے شک آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ (سورۂ انعام: 32)

استاد گوستاو لیبون  نے اپنی کتاب میں ایک مکمل بحث کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عقل اور منطقی استدلال کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہوتا، یا اگر ہوتا بھی ہے تو نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ عوام کو درحقیقت جذبات ہی چلاتے ہیں۔ تاہم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے پیروکاروں کا آج تک ان کی تعلیمات سے جُڑے رہنا، باوجود اس کے کہ بعد میں بعض تفصیلات میں تحریفات اور بگاڑ پیدا ہوئے، ایک زندہ حقیقت ہے جو گوستاو لیبون  کی اس تھیوری کو چیلنج کرتی ہے اور جس کا ادراک وہ کرنے سے قاصر رہا۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: گوستاو لیبون ، ص 125) انہوں نے مزید کہا:"اجتماعی مشاہدات اکثر حقیقت سے دور ہوتے ہیں... اور عمومی طور پر، وہ کسی ایک فرد کے تخیل کا نتیجہ ہوتے ہیں، جو بعد میں دوسروں تک پھیل جاتا ہے... کیا ہمیں ان عظیم شخصیات کے بارے میں، جنہوں نے تاریخ کا دھارا موڑا، جیسے ہرقل، بدھ، مسیح اور محمد، کوئی ایک بھی مکمل درست معلومات ملتی ہیں؟!! عموماً نہیں۔" (سايكولوجيّة الجماهير، ص 72) گوستاو لیبون  کی بات (انہوں نے تاریخِ بشریت میں بڑا کردار ادا کیا) خود ہی اس کے سوال کا جواب ہے—یہ کردار آج بھی زندہ اور جاری ہے۔

اجتماعی نفسیات: نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نپولین

گوستاو لیبون  نے لکھا کہ نپولین فرانسیسی عوام کی نفسیات کو گہرائی سے سمجھنے میں مہارت رکھتا تھا۔ اسی مہارت کے ذریعے اس نے انہیں اپنی قیادت میں متحد کیا اور ایک طاقتور سلطنت (امپراتوریہ) قائم کی، جو اپنی جنگی فتوحات کی بڑی وجہ بھی بنی۔ تاہم، دوسری طرف، جب اس نے ہسپانیہ، روس اور دیگر ممالک میں جنگیں لڑیں، تو وہ زیادہ تر میں شکست کھا گئی۔ اس کا سبب اس کی پہلی کامیابیوں پر غرور اور ان اقوام کی اجتماعی نفسیات کو نظرانداز کرنا تھا۔ یہی غلطی اس کے زوال اور جلاوطنی کا پیش خیمہ بنی۔ گوستاو لیبون  نے اسے "قانونِ نفسی  اور عوامی ذہنیتِ " یا کسی اور مقام پر "عوام کی اجتماعی عقلی وحدت" کا نام دیا۔ یہ  ایک حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جنگ کا اصول

یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے کبھی کسی کے خلاف جنگ کا آغاز نہیں کیا، حتیٰ کہ ان مشرکین کے خلاف بھی نہیں، جو آپ کے قتل کے درپے تھے۔ تاہم، مسلمانوں کے وجود کو خونریزی، عزت، زمین اور عقیدے کے حوالے سے شدید خطرات لاحق رہے، جس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو تقریباً اسی (80) دفاعی جنگیں لڑنی پڑیں۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے ایک بھی جنگ میں شکست نہیں کھائی، باوجود اس کے کہ آپ کے پاس وہ مادی طاقت، ساز و سامان اور افواج نہیں تھیں جو نپولین کے پاس تھیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ صرف تاریخ بلکہ اجتماعی نفسیات کے اصولوں کو بھی چیلنج کرتی ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے کبھی کوئی جنگ نہیں ہاری، سوائے اس وقت جب آپ کے بعض صحابہ نے آپ کی ہدایت کی خلاف ورزی کی، جیسا کہ غزوۂ احد میں، جہاں مالِ غنیمت کے لالچ یا یوں کہیے کہ جاہلی سوچ کی کچھ باقیات کی بنا پر وہ جبلِ رمات (تیر اندازوں کی پہاڑی) چھوڑ کر نیچے اتر آئے۔یہ واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی غیرمعمولی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اپنے دشمنوں کی نفسیات کو اپنے ساتھیوں سے بھی زیادہ گہرائی میں سمجھا۔ اسی لیے آپ نے احد کے میدان میں پچاس ماہر تیر اندازوں کو پہاڑی پر متعین کیا تھا، تاکہ دشمن کی نفسیاتی چالوں کا توڑ کیا جا سکے۔ اور یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے اپنی زندگی میں کوئی بھی دفاعی جنگ نہیں ہاری، یہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اپنے جوارِ رحمت میں بلا لیا۔

گوستاو لیبون  لکھتے ہیں کہ : "عوام میں کوئی چیز سوچی سمجھی یا گہری منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوتی؛ وہ محض جذبات کے زیرِ اثر زندہ رہتے ہیں اور محرّک کے اثر میں آ کر پلک جھپکتے ہی ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف چلے جاتے ہیں۔"(سايكولوجيّة الجماهير، ص 64)

گوستاو لیبون  نے یہاں حقیقت کو مکمل طور پر ادراک نہیں کیا۔ اگرچہ ہم اس سے متفق ہیں کہ زیادہ تر عوام جذبات کی رو میں بہہ جاتی ہے، لیکن اس کے باوجود تاریخ کا رخ موڑنے والی ایک قلیل تعداد ہمیشہ موجود رہی ہے، جو انسانی تہذیب و تمدن کو آج تک سنوار رہی ہے۔درحقیقت، انسانیت کی عقلی بنیادیں، جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلماور قرآن نے پیش کیا، آج بھی اپنی اصل شکل میں باقی ہیں—بغیر کسی تحریف یا تبدیلی کے۔ہاں، تفصیلات میں ضرور بگاڑ آیا، اور یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہوا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے پیروکار کہلائے، لیکن ان کا مطمحِ نظر اللہ کا کلمہ بلند کرنا نہیں، بلکہ دنیاوی فائدے اور غنائم حاصل کرنا تھا۔یہ لوگ نہ صرف تاریخ میں اپنا کردار ادا کر چکے، بلکہ آج بھی اسی روش پر قائم ہیں۔

عوام کی لاشعوری کیفیت : قرآن کریم اور گوستاو لیبون :

گوستاو لیبون  لکھتے ہیں:"غیر معمولی محققین کی مشاہدہ کرنے کی صلاحیت اور علمی تنقیدی سوچ، جیسے ہی عوام کے اجتماعی لاشعور کی ہیجان خیزی کا شکار ہوتی ہے تو وہ  کمزور ہو جاتی ہے اور غائب ہو جاتی ہے۔" (سايكولوجيّة الجماهير، ص 69) ۔یہ بیان اجتماعی لاشعور کے خطرے کی وضاحت تو کرتا ہے، لیکن وہ انبیاء کے پیغام کی طاقت کو نظرانداز کر دیتا ہے، جو اجتماعی نفسیات کو صرف وقتی جوش و جذبے سے نہیں، بلکہ مستقل فکری تبدیلی سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں۔ قرآن کی دعوت اسی لیے آج تک قائم ہے، کیونکہ یہ محض عارضی جذبات کے تابع نہیں، بلکہ مستقل عقلی اصولوں پر مبنی ہے۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں: (وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ، أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ)  اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں: ہم تو بس اصلاح کرنے والے ہیں۔ یاد رہے! فسادی تو یہی لوگ ہیں، لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے۔ (سورہ بقرہ: 11-12) لاشعور=عوام کے اجتماعی وہم و خیال

وقال: (وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ).

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ دیگر لوگوں کی طرح تم بھی ایمان لے آؤ تو وہ کہتے ہیں: کیا ہم (بھی ان) بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ یاد رہے! بیوقوف تو خود یہی لوگ ہیں لیکن یہ اس کا (بھی) علم نہیں رکھتے۔(سورہ بقرہ: 13)

وقال سبحانه: (مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ، وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ).

تم لوگ اللہ کے سوا جن چیزوں کی بندگی کرتے ہو وہ صرف تم اور تمہارے باپ دادا کے خودساختہ نام ہیں، اللہ نے تو ان پر کوئی دلیل نازل نہیں کی، اقتدار تو صرف اللہ ہی کا ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو، یہی مستحکم دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (سورہ یوسف: 40)

(الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا) انسان یقینا بڑا ظالم اور نادان ہے۔ (سورہ الاحزاب: 72) یہی عوام کی حقیقت ہے، اگر ان کے جوش و جزبے کو عقل و دانش کا قانون قابو میں نہ رکھے، جو انسانی نظام کے تحفظ کا فیصلہ کرتا ہے۔

اور اللہ تعالی فرماتے ہیں: (كَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا) (الإسراء: 11)، یعنی وہ بے صبری اور جلد بازی میں مبتلا ہے، ناپختہ فیصلے اور بے سمجھی کے رجحان کے ساتھ۔گوستاو لیبون  کہتا ہے کہ"عوام—سارے کے سارے—بنیادی طور پر ناپختگی (= بے سمجھی) اور جذباتیت کی حامل ہوتی ہیں، مگر مختلف اور بدلتی ہوئی شدت کے ساتھ۔"(سائیکالوجی آف دی کراوڈ، صفحہ 65، ترجمہ: ہاشم صالح)

قال سبحانه: (وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ، أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ)

اور لوگوں میں سے اکثر یقینا فاسق ہیں۔ ۔کیا یہ لوگ جہالت کے دستور کے خواہاں ہیں؟ اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ (مائدہ: 49-50)

 اور پھر فرماتے ہیں: (إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ).(سورہ یونس: 44) اللہ یقینا لوگوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔اور فرمایا: (وَكَانَ الْإِنْسَانُ كَفُورًا) اور انسان انتہائی ناشکرا ہے (الإنسان: 6)، یعنی وہ نعمتوں کی ناشکری کرنے والا ہے، حق کو قبول کرنے میں سخت اور حقیقت کے آگے سر جھکانے میں مشکل پسند: (أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ)   اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے (البقرة: 243) اور (وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا) اور انسان سب چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے (الكهف: 54)، یعنی وہ بلا دلیل اور بغیر ہدایت کے کثرتِ کلام کرتا ہے، بحث مباحثے میں الجھا رہتا ہے، بغیر کسی اصول و ضابطے کے۔ (إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا) اوربے شک انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے (المعارج: 19)، یعنی وہ کم حوصلہ اور بےحد حریص ہے۔

گوستاو لیبون   لکھتا ہے (معمولی ترمیم کے ساتھ) کہ: "عوام میں فکری یا ذہنی سرایت (عدوی) کو باآسانی دیکھا جا سکتا ہے، مگر اب تک اس کی مکمل وضاحت نہیں ہو سکی۔" (سائیکالوجی آف دی کراوڈ، صفحہ 57) اسی طرح، وہ کہتے ہیں کہ: "ہمارے اعمال کے ظاہری اسباب کے پیچھے کچھ خفیہ وجوہات چھپی ہوتی ہیں، جن سے ہم خود بھی ناواقف ہوتے ہیں، اور ہماری روزمرہ کی بیشتر سرگرمیاں ایسے پوشیدہ محرکات کا نتیجہ ہوتی ہیں جو ہماری فہم سے ماورا ہوتے ہیں۔"(سائیکالوجی آف دی کراوڈ، صفحہ 57)

گوستاو لیبون  کی فکر پر ایک اہم تنقیدی نکتہ یہ ہے کہ وہ "دوام" (یعنی کسی چیز کے مستقل رہنے) اور "مرحلیّت" (یعنی وقتی یا عارضی ہونے) میں خلط کرتا ہے۔ گوستاو لیبون  کے نظریے کے مطابق، عوام ہمیشہ غیر منطقی، جذباتی اور آسانی سے قابو پانے والی ہوتی ہیں، جس کی بنیاد پر وہ مجموعی طور پر عوامی حرکات کو ایک مایوس کن اور مستقل حقیقت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ تاہم، قرآن کی یہ آیت ایک اور زاویہ پیش کرتی ہے:

(قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ، وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ، فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ).

"کہا ان لوگوں نے جو سمجھتے تھے کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں: کتنی ہی کمزور جماعتیں اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آ چکی ہیں، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکر کے سامنے نکلے، تو انہوں نے دعا کی: اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے، ہمارے قدم جما دے اور کافروں کی قوم پر ہمیں فتح دے۔ چنانچہ، انہوں نے انہیں اللہ کے حکم سے شکست دی، اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا۔" (البقرة: 249-251)

چاہے گوستاو لیبون  ملحد ہو، یا کسی بھی  مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہو، اصل مسئلہ اس کی عوام کے بارے میں عمومی اور مایوس کن نظر یہ ہے۔ تاہم، قرآن  کریم کی مذکورہ آیات اس کی اس شمولیت پسندی کو چیلنج کرتی ہے۔ہم گوستاو لیبون  سے اتفاق کرتے ہیں کہ تاریخ میں اکثر عوام سادہ لوح، غیر شعوری، جاہل، اور کسی بھی بدنیت تحریض (اشتعال انگیزی) کا تیزی سے شکار ہونے والے رہے ہیں، اور ان کا تاریخی سفر پر ایک واضح منفی اثر رہا ہے۔لیکن گوستاو لیبون  نے جس نکتے پر توجہ نہیں دی، وہ یہ ہے کہ یہ منفی اثر محض عارضی اور وقتی ہوتا ہے، اسے تاریخ اور انسانیت کے اہم ترین موڑ پر کوئی دوام حاصل نہیں ہوتا۔ نیرون، سکندر، نپولین، ہٹلر اور مسولینی آئے اور اپنی عوام کے ساتھ مٹ گئے، محض ایک یادگار بن کر رہ گئے۔ پھر دوسرے لوگ اپنی عوام کے ساتھ آئے اور ہلاک ہو گئے۔ یونانی، رومی اور فارسی سلطنتیں پیدا ہوئیں اور ختم ہو گئیں، اور یہی سلسلہ ہمیشہ جاری رہا ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود، انسانی روح آج تک برقرار ہے۔ وہی روح، جو اگر کسی پیاسے کتے کو دیکھے تو اسے پانی پلاتی ہے، کسی بھوکے مسکین کو دیکھے تو اسے کھانا کھلاتی ہے، کسی بیمار بچے کو دیکھے تو اس کے لیے آنسو بہاتی ہے۔ حالانکہ تمام تہذیبیں اور ان کی عوام مٹ چکی ہیں، کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لیے—مگر یہ حقیقت واضح ہے۔اور اس سے بھی زیادہ واضح حقیقت یہ ہے کہ عوام میں سے ایک نایاب، کم یاب اور منتخب گروہ ہمیشہ زندہ رہا، خواہ ان کے جسم فنا ہو گئے ہوں، مگر وہ علم، فکر، ثقافت، اقدار، فن، جمالیات، اور تہذیب کے تمام عناصر کو ہزاروں سال تک آنے والی نسلوں تک وقار اور سربلندی کے ساتھ منتقل کرتے رہے۔ کیا ارسطو، افلاطون، سقراط، ارخمیدس، ابن خلدون، ابن سینا، آئن سٹائن، ٹیسلا، اور میکس پلانک کے پیروکار تاریخ کے دھارے میں گم ہو گئے؟ تاریخ اور انسانیت کا تسلسل ان غیر شعوری عوام پر قائم نہیں، چاہے وہ ہمیشہ اکثریت میں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اکثریت تاریخ کی رفتار کو سست، بسا اوقات مسخ اور گمراہ کر سکتی ہے، مگر یہ اثر وقتی اور عارضی ہوتا ہے۔ جیسے گھنے بادل سورج کی روشنی کو لمحہ بھر کے لیے ڈھانپ سکتے ہیں، مگر حقیقت کے نور کو زیادہ دیر تک چھپا نہیں سکتے۔

کیا رومیوں اور یہودیوں کی وہی وحشی، غیر شعوری، سادہ لوح اکثریتجو اس وقت کے بیشتر انسانوں پر مشتمل تھی—ارسطو اور سقراط کے ذکر کو مٹا سکی؟ بلکہ، کیا وہ حضرت مسیح اور ان کے چند مخلص حواریوں (جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے) کے ذکر کو ختم کر سکے، چاہے کیتھولک تحریف نے عیسائیت کو جتنا بھی مسخ کر دیا ہو؟!

کیا دنیا بھر کی بے شعور عوام محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلماور قرآن کریم  کے ذکر کو مٹا سکی، جب کہ چودہ صدیوں سے اب تک وہ عالمی استکباری تحریض (اشتعال انگیزی) کے تمام ہتھیاروں کے زیرِ اثر رہی ہے؟ یہ سب آج تک نابود نہ ہو سکا، حالانکہ تشہیر کی بیماریاں، مسخ کرنے والی وبائیں، تشویش پھیلانے والے وائرس، اور الٹی منطق کی سرطان زدہ سوچ اس پر حملہ آور رہی۔ بے شک، ان بیماریوں نے بہت سے لوگوں کو ہلاک کر دیا، لیکن یہ کبھی بھی انسانی روح کی بقا اور اس کی عقلی جستجو کو ختم نہ کر سکیں۔

جو بات مسٹر گوستاو لیبون  سے مخفی  رہ گئی اور جس سے وہ دھوکہ کھا بیٹھا، وہ یہ ہے کہ عوام کے غیر شعوری اثرات کے بارے میں اس کی تمام باتیں درست تو ہیں، مگر یہ صرف وقتی  اور  عارضی حالات کے تابع ہیں ، کیونکہ یہ اثرات اپنی مخصوص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اوریہ واضح حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کا تسلسل، اس کی اخلاقی اقدار، سائنسی ایجادات، اور تہذیبی ترقی کا سبب یہ غیر شعوری، سادہ لوح عوام نہیں ہیںجو ہمیشہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنے  رہے ہیں—بلکہ یہ عوام خود تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئے، اور کسی نے انہیں یاد بھی نہ رکھا۔ گویا تاریخ کے پہیے نے انہیں ہمیشہ کے لیے اس طرح کچل دیا، کہ وہ گویا کبھی وجود ہی نہ رکھتے تھے۔جبکہ وہی باشعور طبقہ تاریخ کے دھارے پر سوار رہا جوکہ بہت کم تعداد میں ہے، وہی وجود اور تمدن کے سفر کا حقیقی راہی بنا۔ اور یہی دائمی اور عارضی حقائق کا بنیادی فرق ہے۔یقینا دائمی اثرات کا موازنہ وقتی اور زوال پذیر اثرات سےہرگز نہیں  کیا جا سکتا ۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018