14 رمضان 1446 هـ   14 مارچ 2025 عيسوى 6:38 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلام میں سیاست |  اسلامی سیاست و اخلاقیات: معاصر دنیا کے چیلنجز اور نظریات
2025-01-19   240

اسلامی سیاست و اخلاقیات: معاصر دنیا کے چیلنجز اور نظریات

معتصم السيد احمد

اسلام سیاست کو ایک اخلاقی تحریک کے طور پر دیکھتا ہے، جس کا مقصد ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو سچائی اور نیکی کی اقدار پر مبنی ہو۔ اسلام ہر قسم کی ناانصافیوں، بشمول سیاسی جبر اور جابرانہ اقتدار، کو مسترد کرتا ہے۔ یہ انصاف، مساوات، حقوق کے قیام، خوشحالی، اور ترقی کے حصول پر زور دیتا ہے۔ اسلام کا مقصد قوموں اور معاشروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، جس میں انسانی تعاون کو فروغ دینا اور اسلامی اصولوں پر مبنی تہذیب کی تعمیر شامل ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے، اسلامی سیاست ایمانداری، اخلاص، اور اخلاقی اقدار کو بنیاد بناتی ہے۔

یہ نظریہ اسلام کی سیاسی تعبیر سے ہم آہنگ ہے، جو مذہب کو زندگی کے لیے ایک جامع نظام کے طور پر دیکھتی ہے۔ اس کے مطابق، مذہب کا کردار صرف آخرت کے معاملات کی تعلیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ انسانی زندگی کے ہر شعبے کو منظم کرنے پر مشتمل ہے، خواہ وہ روحانی ہو یا مادی۔اس نظریہ کے برعکس، عمومی سیاسی حقیقت مختلف رجحان کی عکاسی کرتی ہے۔ جدید سیاسی تصورات نے انسان کے اخلاقی اور روحانی پہلووں کو نظر انداز کرتے ہوئے ساری توجہ دنیاوی مفادات کے حصول پر ہی مرکوز کرلی ہے۔ اس نظریہ کے بعد سیاسی فکر کی تمام سرگرمیاں مادّی فوائد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اخلاقی اور روحانی اقدار کو مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے جو اسلام کے اصلی پیغام کی نمائندگی کرتی ہیں۔

اخلاقی اقدار کو نظر انداز کرنا صرف سیاسی فلسفہ تک محدود نہیں رہا بلکہ خود انسان بھی نظر انداز ہونے میں شامل ہے کیونکہ انسان کو بھی صرف ایک مادی وجود کے طور پر ہی دیکھا جا رہا ہے۔مادہ سے ہٹ کر انسان کے تکامل اور ترقی کے دیگر پہلووں کو نظر انداز کیا ہے۔جب پوری دنیا مادیت پرستی کی طرف مائل ہو رہی ہے، اسلامی تحریکیں بھی اس رجحان سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ یہ ایک بہت بڑا اخلاقی بحران ہے، جو آج پوری دنیا پر مسلط ہے۔ اگر ہم منصف بننا چاہتے ہیں، تو ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ اس وقت انسانیت کو سب سے بڑا چیلنج مادیت پرستی کی تحریکوں اور ان کے اثرات سے درپیش ہے۔ مادہ پرست تحریکوں میں شمولیت نے دنیا میں امن کے بڑے بحرانوں کو جنم دیا ہے۔اسلامی شدت پسندی کے اسباب کو صرف ان گروہوں پر ڈالنا غیر منصفانہ ہے، حالانکہ بہت سے تجزیہ نگار یہی کرتے ہیں۔ درحقیقت، عالمی سیاسی ماحول نے ان گروہوں کی نشوونما کے لیے موزوں حالات فراہم کیے ہیں۔ کسی بھی سیاسی یا سماجی رجحان کو اس تناظر سے جدا کر کے نہیں سمجھا جا سکتا جس میں وہ پیدا ہوا ہو۔

موجودہ دہشت گردی بنیادی طور پر عمیق تہذیبی تنازعات کا ایک مسخ شدہ اور غلط نتیجہ ہے۔ بالادستی کی پالیسی، بعض ممالک کی طرف سے اقتدار پر اجارہ داری اور کمزور طبقات کے حقوق غصب کرنے سے ایسے عفریت پیدا ہوتے ہیں، جن کی کارروائیوں پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے۔ یہ عالمی بالادستی اور اخلاقی پسماندگی کا ملاپ ہنگاموں سے بھرا سیاسی ماحول پیدا کرتا ہے۔اس کا سطحی اور عام حل موجود نہیں ہے، کیونکہ یہ اخلاقی اقدار کا بحران ہے، جس کا مکمل علاج کرنا ضروری ہے۔

دنیا کے موجودہ حالات میں جو چیز واضح طور پر کمیاب ہے، وہ سیاست میں اخلاقیات کا فقدان ہے۔ اگر اسلامی تحریکیں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں ایسی سیاست کو فروغ دینا چاہیے جو اخلاقیات پر مبنی ہو، نہ کہ ایسی سیاست جو عارضی مفادات کے لیے رائج سیاست کی اخلاقیات اپنائے۔ یہ وہ چیلنج ہے جس پر معتدل اسلامی تحریکیں بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔ جب یہ تحریکیں اقتدار کی تلاش میں ہوتی ہیں تو روایتی سیاست کے طریقے استعمال کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں بحران مزید بڑھتے ہیں اور لوگوں کی نظر میں اسلام کی تصویر بگڑ جاتی ہے۔

عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب یہ تحریکیں اپوزیشن میں ہوتی ہیں، تو وہ آزادی اور جمہور یت کے نعرے لگاتی ہیں اور عالمی طاقتوں سے آزادی کی بات کرتی ہیں، ساتھ ہی غریبوں اور محروموں کے حقوق کا دفاع کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جیسے ہی یہ اقتدار میں آتی ہیں، عموماً وہ ایسی راہ اختیار کرتی ہیں جو بالکل ان کے سابقہ دعووں کے  الٹ  ہوتی ہے یہ استبدادی رویے دکھاتی ہیں اور معاشروں کو مزید تقسیم اور تنازعات کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔اسے ثابت کرنے کے لیے زیادہ تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے،ہم عملی طور پر دیکھے ہیں چیزیں بالکل واضح ہیں۔ مثال کے طور پرسوڈان میں سیاسی نظام بتدریج جمہوریت کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں سیاسی پارٹیاں آزادی سے مقابلہ کر رہی تھیں اور اس ماحول میں جمہوری تجربے کی پختگی کی توقع کی جا رہی تھی۔ مگر اسلامی تحریک نے فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیاتو اس جمہوری تجربے کو ختم کر دیا گیااور وہ  اقتدار پر مکمل طور پر قابض ہو گئے، جس کے نتیجے میں سیاسی، اقتصادی، سماجی، بلکہ ثقافتی اور فکری ڈھانچہ بھی تباہ ہو گیا۔

بین الاقوامی سطح پرسب سے سیاہ کردار داعش جیسی تنظیموں کا ہے جس نے قتل، بمباری، غداری اور ظلم و جبر سے کام لیا۔ یہ اقدامات واضح طور پر بتاتے ہیں کہ یہ گروہ اسلامی اقدار اور اس کی اعلی تعلیمات کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔اسلامی تعلیمات رحم دلی اور درگزر کی دعوت دیتی ہیں۔یہ سب واضح کرتا ہے کہ ان تحریکوں میں اخلاقی بحران کس قدر پھیل چکا ہے، چاہے وہ ان کے تنظیمی ڈھانچے میں ہو یا اقتدار میں آ کر ان کی عملی پالیسیوں میں ہو۔

جدید دور میں اسلامی سیاسی نظریے کی حقیقی مشکل اس میں پنہاں ہے کہ جدید ریاست کا ماڈل موجودہ سیاسی سوچ پر غالب آچکا ہے، جس کی وجہ سے مسلمان حقیقی بحران کا شکار ہو جاتا ہے بچ نہیں پاتا۔ جب اسلامی تحریکیں اس ماڈل کے مطابق چلنے کی کوشش کرتی ہیں تو انہیں اکثر اسلامی اخلاقی اقدار کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ ایک ایسی اسلامی ریاست قائم کرنا جو اپنے اخلاقی اصولوں کو برقرار رکھے، وہ بھی ایک ایسے عالمی ماحول میں جہاں ایک ہی ماڈل کو غالب کیا جا رہا ہے جو اسلام کی اخلاقی اقدار سے متصادم ہے۔اس سب کے ہوتے ہوئے  ایسا اسلامی نظام قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے جو ان حالات سے ہم آہنگ ہو۔

موجودہ دور میں اسلام کاسیاسی نظریہ واقعی ایک بحران کا سامنا کر رہا ہے جو جدیدیت کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں اسلامی نظام دو راستوں کے درمیان ہے: پہلا راستہ حقیقت پسندی پر مبنی ہے اور جو موجودہ حالات کے مطابق فیصلے کرتا ہے تاکہ وہ عمومی رجحانات سے ہم آہنگ ہو سکے، جبکہ دوسرا راستہ ،شدت پسندی پر مبنی ہے اور جدیدیت کی مکمل طورپر نفی کرتا ہے۔ مگر ان دونوں کے درمیان ایک عملی موقع کو ضایع کر دیا جاتا ہے جس میں ایک زیادہ حقیقت پسندانہ اسلامی سیاسی نظریہ تیار کیا جاسکتا ہے جو اسلام کے اخلاقی اصولوں اور جدیدیت کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر سکتا ہے۔ یہ راستہ موجودہ پیچیدہ حالات میں ایک دور کا خواب بن کر رہ گیا ہے۔

بہترین حالات میں بھی کچھ اسلامی ممالک میں اسلام صرف احوال شخصیہ کے قوانین کا ماخذ بن کر رہ گیا ہےاور اسے ریاست کے آئین میں ایک قانونی ماخذ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ لیکن یہ عبارت عموماً گمراہ کن ہوتی ہے، کیونکہ یہ اسلام کو صرف چند قوانین تک محدود کر دیتی ہے جو سماجی اور سیاسی حقیقت سے الگ ہوتے ہیں۔ یہ حکمت عملی ان ممالک کے سیاسی منصوبوں کا حصہ ہوتی ہے، جن کے ذریعے وہ مسلمانوں کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعد ازاں ان قوانین کو اپنی داخلی سیاست کے مطابق ڈھال کر اسلام کے اصل پیغام کو ہی ختم کر دیتے ہیں اور اس کے سیاسی اثرات کو کم کر دیتے ہیں۔

اسلامی تحریکیں جو آج کل موجود ہ قومی ریاستوں کے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں حالانکہ یہ ریاستیں اسلام کو قانون سازی کا ماخذ تسلیم کرتی ہیں۔انہوں نے سیاست کے اسلامیانے کے لیے ایسے قابلِ عمل تصورات پیش نہیں کیے جو احوال شخصیہ کے قوانین سے ہٹ کر ہوں۔ جب ان میں سے بعض تحریکیں اقتدار تک پہنچی ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ریاست کے تصور کو محض سخت سزاؤں جیسے ہاتھ کاٹنا، کوڑے مارنا اور سنگسار کرنا تک محدود کر دیا، جو جدید ریاست کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں۔ طالبان کا تجربہ، جعفر نمیری کی سوڈان میں شریعت اور وہ علاقے جہاں اسلامی تحریکوں کی حکومت تھی جیسے شام اور عراق، ان سب میں اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوششوں اور جدید ریاست کے تصور کے درمیان واضح تضاد  نظر  آتا ہے۔ یہ تضاد جدید ریاست اور اسلامی ریاست کے درمیان موجود ہے، جسے بہت سے لوگوں نے قبول نہیں کیا، اور کچھ اسلامی رہنماؤں نے دونوں کے درمیان تضاد کو ہی رد کیا ہے۔ انہوں نے ایک ایسا تصور پیش کرنے کی کوشش کی جو ان دونوں کے درمیان توازن قائم کر سکے۔ یہ راستہ معقول اور موزوں نظر آتا ہے، لیکن اگر ہم اس کا انجام دیکھیں تو یہ اسلامی سیاست کے نظریے کو جدید ریاست کے نظریے کے حق میں قربان کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ ایسا کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ہی ہو گا، جو اسلامی اقدار کو پورا کرنے کی کوشش میں ہوں گی۔

مثال کے طور پر، ڈاکٹر عبد المنعم ابو الفتوح، جو سابقہ اخوان المسلمون کے رہنما اور مصر کے آزاد صدارتی امیدوار تھے، نے ایک مضمون میں لکھا:"جب ہم اسلامی متون کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ریاست کی ایک مخصوص شکل پیش نہیں کرتے، بلکہ وہ ان اعلیٰ اقدار اور اصولوں پر زور دیتے ہیں جن پر ریاست کا قیام ہونا چاہیے۔ ریاست کی شکل اور اس کے انتظام کے طریقے کو وقت اور جگہ کے مطابق لوگوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لہذا، ریاست جو معاشرے کی سیاست کی ضرورت ہے، لوگوں کے معاملات کو منظم کرنے اور نظام کو برقرار رکھنے کے لیے قائم کی جانی چاہیے، اور اس کی شکل اور انتظام کے طریقے لوگوں پر چھوڑے گئے ہیں تاکہ وہ انہیں اپنے بدلتے ہوئے مفادات کے مطابق ترقی دیں اور تبدیل کریں۔"

عبد المنعم ابو الفتوح مزید  لکھتے ہیں: "جدید ریاست کے طور پر 'مذہبی ریاست' کا تصور اسلام میں نہیں آیا۔ اسلام کسی 'تھیوکریسی' کی حکومت قائم کرنے کی حمایت نہیں کرتا۔ اگر اسلام یہ سمجھتا کہ اس میں لوگوں کے فائدے کی بات ہےتو وہ اسے واضح طور پر بیان کرتا۔ اسلام وہ دین ہے جس نے لوگوں کے معاملات کی ہر پہلو سے  رہنمائی فراہم کی ہے، چاہے وہ نکاح و طلاق ہو یا جنگ و امن۔ اسلام  کہتا ہے کہ ریاست کو ایک تنظیمی ادارے کے طور پر اسلام کے بنیادی اصولوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور کوئی قانون ایسا نہیں بنایا جانا چاہیے جو ان اصولوں سے متصادم ہو۔(www.ikhwanwiki.com،index.php?title  ويكيبيديا الاخوان المسلمين)

اگرچہ یہ مضمون ایک جدید فکر کو پیش کرتا ہے جو پچھلے مسئلے سے آگے بڑھتی ہےلیکن یہ اخوان المسلمون کے روایتی نعرے کے کے ساتھ ایک قسم کا سمجھوتہ ہے۔اخوان اب بھی "اسلامی ریاست" قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ غیر اسلامی ریاست ان کے لیے کفر کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ اگر قرآن میں "اسلامی ریاست" کا کوئی تصور موجود نہیں ہےتو پھر اسلامی ریاست کے نعرے کا مقصد کیا ہے؟ اور اگر ریاست کا مقصد لوگوں کے مفادات کی تکمیل ہے، تو ہم ایک خاص اسلامی پالیسی کو کس طرح سمجھیں گے جو ان مفادات کو ہر دور میں حاصل کرنے کے لیے ہو؟ جو کچھ اسلام کہا جا سکتا ہے وہ وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے بیان کیا۔جب دونوں نے ریاست کے نظام کو واضح طور پر بیان نہیں  کیا تو ہم اسلامی اجتہادات کو اسلام سے کیسے منسلک کر سکتے ہیں؟ حقیقت میں "اسلامی ریاست"، "اللہ کی ریاست" یا "رسول اللہ کی ریاست" کہنے میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب  ہمارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو اللہ کی طرف سے بات کر سکے، تو پھر کوئی بھی اسلامی ریاست کے بارے میں بات کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

لہذا، ہمیں اسلامی سیاسی عمل کو جماعتی سطح پر سمجھنا چاہیے، جہاں یہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے سیاسی پروگراموں کی بنیاد پر مقابلہ کرتا ہے۔ جیسے کچھ جماعتیں سوشلسٹ نظریات پر مبنی ہو سکتی ہیں، ویسے ہی اسلامی جماعتیں بھی اپنی اجتہادات کی بنیاد پر کچھ مخصوص نظریات پر متحد ہو سکتی ہیں جو اسلام کی تشریح کی نمائندگی کرتی ہیں۔ یہ وہ میدان ہے جہاں ہم اس اجتماعی انتخاب کو تسلیم کرتے ہیں، نہ اس لیے کہ یہ اسلام یا اللہ کی مرضی کی نمائندگی کرتا ہے۔یہ سب کچھ اسلام کے نام پر اور خدا کی طرف سے لوگوں کے حقوق کی غصب کو روکنے کے لیے ہے۔

اسلامی تحریکوں نے سیاست میں جس قدر ناکامی کا سامنا کیا، اتنی ہی اخلاقی طور پر بھی ناکام ہوئیں۔ یہ تحریکیں نہ تو سیاست میں کوئی  صاف ستھری اخلاقی کارکردگی  پیش کر سکی ہیں اور نہ ہی اپنے تنظیمی عمل یا ریاستی انتظام میں میں ایسا کر سکی ہیں۔ حالانکہ اخوان المسلمون کی تحریک کے پاس افراد کی تربیت کے لیے وسیع  لٹریچر موجود ہے، جو تزکیہ، تعلیم اور بھائی چارے کے ذریعے  تربیت کرتا ہے۔ ان سب  کوششوں کے سماجی اور سیاسی اثرات اس  عمل میں واضح طور پر نظر نہیں آئے۔ ان تحریکوں کے افراد اپنے  کردار  میں اعلی اقدار نہیں دکھا سکے جو انہیں باقی مسلمانوں سے الگ کریں۔ مثال کے طور پرمصر کے اخوان المسلمون نہ تو کوئی مثالی نمونہ بن سکے، نہ ہی شام، تیونس، سوڈان، یمن یا اردن کے اخوان ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ، ان ممالک کے عوام کے پاس ان اسلامی تحریکوں کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی بڑی فہرستیں موجود ہیں، چاہے وہ اپوزیشن کے دور میں ہوں یا اقتدار حاصل کرنے کے بعد کے ان کے اقدامات ہوں۔

ہم اس سے یہ حقیقت سمجھ سکتے ہیں کہ بہت سے علاقے کے لوگ اسلامی سیاسی عمل سے کیوں بدظن ہیں؟ اسلامی تحریکوں کو اسلامی عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایسی سیاست قائم کرنی ہوگی جو اسلام کے اخلاقی اصولوں اور اس کی بلند اقدار سے ہم آہنگ ہو۔ یہاں ہمارا  مقصد صرف ان عمومی اخلاقیات سے نہیں ہے جو ہر مسلمان کو اپنی ذاتی زندگی میں اپنانی چاہئیں، جیسے سچائی اور امانتداری بلکہ ہم اس اخلاقی حکمت کی  بات کر رہے ہیں جو سماجی اور سیاسی عمل میں درکار ہوتی ہے، جیسے عدل، انصاف، آزادی، مساوات، اور قوم کی خودمختاری اور عزت کی حفاظت، نیز اس کے مفادات کے لیے قربانی دینا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس میں عراق  کی  شیعہ اسلامی تحریک بھی کامیاب نہیں ہو سکی۔

آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی سیاسی عمل آج بھی ایک چوراہے پر کھڑا ہے، جہاں اسلامی تحریکوں کو اسلام کے اصولوں اور اخلاقیات کو موجودہ سیاسی حقیقتوں کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان تحریکوں کو جو سب سے بڑا  چیلنج درپیش ہے وہ ایک جامع وژن کا فقدان ہے جو مذہبی اقدار اور جدید سیاسی پریکٹسز کے درمیان حقیقی اور مؤثر تعلق قائم کرے۔ سیاست کو سماجی، اقتصادی اور انسانی انصاف کے حصول کا ایک ذریعہ بنانے کی بجائے وہ اکثر اندرونی تقسیمات اور تنازعات کا سبب بن چکی ہے۔اگر اسلامی تحریکیں چاہتی ہیں کہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے تبدیلی اور ترقی کی طرف قدم بڑھائیں تو انہیں اپنے سیاسی اور اخلاقی عمل کی بنیادوں پر دوبارہ غور کرنا ہوگا۔ ایسے سیاسی ماڈلز بنانے کی کوشش کرنا ہوگی جو اسلامی اقدار اور جدید نظریات کے درمیان توازن کے  حامل ہوں۔ انہیں سماجی و سیاسی مسائل کے ساتھ زیادہ شفافیت کے ساتھ نمٹنا ہوگا اور اپنے مقاصد کو ذاتی یا جماعتی مفادات سے ہٹ کر حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018