25 جمادي الاول 1447 هـ   15 نومبر 2025 عيسوى 1:52 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | اسلام میں معیشت |  مادی دنیا میں عدل کا بحران
2025-11-05   138

مادی دنیا میں عدل کا بحران

الشيخ معتصم السيد أحمد

ایک ایسی دنیا میں، جہاں طاقت اور مفاد پرستی کی کشمکش نے انسانی سوچ پر قبضہ جما لیا ہے، اور اقدار کو حق کے بجائے فائدے کے ترازو میں تولا جاتا ہے، وہاں عدل کا تصور جدید انسانی فکر میں سب سے زیادہ پیچیدہ اور متنازع موضوع بن گیا ہے۔وہ عدل کہ جو ایک طرف تو تمام تہذیبوں کی دائمی آرزو رہا ہے، جبکہ  دوسری طرف وہی اصول ہے کہ جسے مادی نظام سب سے زیادہ عملی طور پر نافذ کرنے میں بری طرح سے ناکام رہا ہے۔ عدل کے نعرے اور اس کے حقیقی نفاذ کے درمیان جو فاصلہ ہے، وہی دراصل الٰہی نقطۂ نظر اور مادی نقطۂ نظر کے درمیان سب سے نمایاں فرق ہے۔ مادی نظریات نے عدل سے اس کا اخلاقی اور روحانی جوہر چھین کر اسے محض مفادات کے درمیان ایک بے وقعت مساوات بنا دیا ہے۔اسلام ایک توحیدی بصیرت سے آغاز کرتا ہے، جس کے مطابق عدل صرف ایک سماجی قانون نہیں بلکہ اللہ کے اسماء و صفات میں سے ایک ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔

اسلامی تصورِ عدل میں یہ محض انسانوں کےلئے بنایا ہوا ضابطہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا الہی اصولِ ہے، جو کائنات کے نظام سے لے کر انسانی معاشرت تک، ہر سطح پر خدا کی مشیت اور توازن کا مظہر ہے۔ مسلمان عدل کو انسان کا وضع کردہ اصول نہیں سمجھتے، بلکہ  وہ اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کردہ الٰہی امانت تصور کرتے ہیں۔کہ یہی عدل اخلاقی و سماجی بلندی کا معیار ہے، محض حقوق کے توازن کا نہیں۔اسی لیے اسلام میں عدل کا راستہ تقویٰ کا راستہ ہے، جیسا کہ قرآن  کریم میں  اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى

عدل کرو، یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔ چنانچہ وہ عدل جو انسان کے باطن کو سنوارتا نہیں، جو روح میں تقویٰ اور ضمیر میں استقامت پیدا نہیں کرتا  ،خواہ وہ کتنا ہی منظم اور دقیق کیوں نہ ہو ،اسلام کی نظر میں نامکمل عدل ہے۔

مادی تصورِ عدل:

جدید مادی فکر نے عدل کواسوقت ایک بالکل مختلف زاویے سے دیکھا  جب اس نے اللہ کے وجود کو اجتماعی زندگی کے دائرے سے خارج کر کے انسان ہی کو قدروں کا محور اور قوانین کا منبع بنا لیا۔ اس طرح عدل کا مفہوم ایک سماجی سمجھوتے کی صورت میں ابھرا، ایک ایسی مفاہمت جو متصادم طاقتوں کے درمیان محض توازن برقرار رکھنے کے لیے وجود میں آئی، نہ کہ فضیلت یا اخلاقی کمال کے قیام کے لیے۔

اثباتی (Positivist) فلسفے میں عدل کو صرف اس پیمانے پر پرکھا جاتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کو قانون کے سامنے ظاہری برابری فراہم کرتی ہے یا نہیں، خواہ وہ قانون خود انصاف سے خالی کیوں نہ ہو۔ جبکہ نفع پرستی کی فکر عدل کی قدر کو اس حد تک گراتی ہے کہ اسے محض لذت یا عام فائدے کے حصول کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، چاہے وہ فائدہ کمزوروں کی قربانی سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔ اس طرح عدل نے اپنا روحانی اور اخلاقی جوہر کھو دیا اور وہ ایک انتظامی آلے میں بدل گیا  گویا وہ انسان سازی کے اصول سے زیادہ، نظام کو قابو میں رکھنے کا ہتھیار بن گیا۔

اس مادّی تصور کے سب سے خطرناک نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ عدل طاقتوروں کے ہاتھوں کا آلہ کار بن گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں  عدل  کو مارکیٹ میں مواقع کی برابری کے خوبصورت نعرے میں تو ڈھالا گیا، لیکن حقیقت میں یہ اصول طبقاتی تفاوت کو قانونی جواز فراہم کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے، کیونکہ یہ مقابلہ  طاقت اور دولت رکھنے والوں اور طاقت و دولت سے محروم طبقوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ یوں غریب کو اس کے فقر کا، اور محروم کو اس کی کمزوری کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے، جبکہ دولت مندوں کی دولت کو معاشی انصاف کا فطری نتیجہ قرار  دےدیا  جاتا ہے۔

دوسری جانب، وہ آمرانہ نظام جو "مطلق مساوات" کے نعرے کے ساتھ اُبھرے، انہوں نے عدل کو صرف اطاعت اور انضباط تک محدود کر دیا، یہاں تک کہ انسان کی آزادی ریاست کی مشینری میں گم ہو گئی۔ یوں دونوں نظام سرمایہ دارانہ ہو یا اشتراکی عدل کے قیام میں ناکام ثابت ہوئے، کیونکہ دونوں نے اسے مادی بنیادوں پر قائم کیا، جہاں نہ حق کا تعلق ضمیر سے ہے، اور نہ قانون کا رشتہ اخلاق سے۔

اسلامی تصورِ عدل: ایک روحانی و اخلاقی نظام

اسلامی نقطۂ نظر سے عدل محض ایک قانونی اصطلاح یا سماجی ضابطہ نہیں، بلکہ یہ  ایک ہدایت بخش اصولِ حیات ہے جو انسان کے تعلق کو اس کے ربّ، نفس اور معاشرے کے ساتھ متوازن بناتا ہے۔ عدل کی ابتدا انسان کے باطن سے ہوتی ہے، کیونکہ ظلم دراصل عمل سے پہلے دل کی خرابی اور ضمیر کے بگاڑ کا نام  ہے۔ اسی حقیقت کو امیرالمؤمنین علیؑ نے ایک جامع جملے میں بیان فرمایا:

العدل أساسٌ به قِوام العالم

یعنی عدل وہ بنیاد ہے جس پر پوری کائنات کا نظام قائم ہے۔

اسلامی عدل کا مفہوم صرف عدالتی انصاف تک محدود نہیں، بلکہ اس کا مقصد زندگی کے تمام پہلوؤں میں توازن و اعتدال قائم کرنا ہے فرد اور معاشرے کے درمیان، عقل اور خواہش کے درمیان، اور حقوق و فرائض کے درمیان۔ اسی لیے قرآنِ کریم میں عدل کو اقتدار کی بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے:

﴿الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ

اقتدار اُنہیں زیب دیتا ہے جو اس کے ذریعے بندوں کی خدمت کریں، نہ کہ ان پر ظلم و استبداد کے ذریعے حکومت۔

اسلام میں چونکہ عدل کو اللہ سے جوڑا گیا ہے، اس لیے یہ ایمان کا معیار اور ظلم اس کا ضد قرار پائی۔ قرآن کہتا ہے:

﴿وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا

تیرے رب کا کلمہ سچائی اور عدل پر قائم ہے۔

گویا اسلامی پیغام کی اساس دو ستونوں پر ہے  صدق اور عدل؛ قول میں سچائی اور عمل میں انصاف۔ اس تصور کے تحت عدل کوئی نسبتی یا وقتی قدر نہیں، بلکہ یہ ایک ابدی حقیقت ہے، کیونکہ اس کا سرچشمہ خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ پس جو عدل اس سرچشمے سے کٹ جائے، وہ اپنا معیار کھو دیتا ہے اور نسبتوں اور مفادات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔

آج دنیا میں بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج، انسان کا انسان پر استحصال، اور معاشی مفادات کے لیے جنگوں کا جواز  یہ سب دراصل اس بات کا نتیجہ ہیں کہ عدل کے مفہوم سے الٰہی پہلو کو نکال دیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب اقدار کو نفع و نقصان کے پیمانے پر پرکھا جائے، تو انسانیت اپنی معنویت کھو بیٹھتی ہے؛ پھر حق، قوت کے تابع ہو جاتا ہے، نہ کہ فضیلت کے۔ قرآن نے اسی خطرے سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا:

﴿وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ

جو شخص رحمن کے ذکر سے غافل ہوتا ہے، ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔

جب کوئی معاشرہ اللہ  تعالی کے ذکر سے منہ موڑ لیتا ہے، تو وہ لازمی طور پر خواہشات کی غلامی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہاں عدل کی جگہ طاقت و تسلط لے لیتی ہے، اور رحمت کی جگہ مفاد اور خود غرضی قابض ہو جاتی ہے۔

اس کے برعکس، اسلامی تصورِ عدل ایک مکمل اور ہم آہنگ نظام پیش کرتا ہے جو تین بنیادی جہتوں پر قائم ہے:

۱ـعقیدتی جہت جس میں اللہ  تعالی کو تمام اقدار کا سرچشمہ مانا جاتا ہے۔

۲ـاخلاقی جہت جو انسان کے نفس کو خود غرضی اور ظلم کے رجحان سے پاک کرتی ہے۔

۳ـسماجی جہت جو تعلقات کو تکافل و توازن کی بنیاد پر منظم کرتی ہے، نہ کہ طاقت و مقابلے پر۔

اسلام میں زکوٰۃ، وقف، سود کی حرمت، اور دولت کی منصفانہ تقسیم صرف مالی قوانین نہیں، بلکہ یہ سب ایک نظامِ عدل و توازن کا حصہ ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو جائے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا:

﴿كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ

تاکہ دولت تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتی رہے۔

اسلام عدل کو صرف قانون یا اصول نہیں بلکہ زندگی کا ایسا توازن بخش ضابطہ قرار دیتا ہے، جو انسان کو خدا، نفس اور معاشرے تینوں کے ساتھ ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ اسلام میں عدل کوئی وقتی مطالبہ نہیں، بلکہ یہ ایک جاویدان انسانی پیغام ہے۔ یہ وہ میزان ہے جس سے اقوام کی اصلاح اور بگاڑ کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ عدل ہی وہ مقصد ہے جس کے لیے خدا نے انبیا بھیجے اور آسمانی کتابیں نازل کیں، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:

﴿لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ

یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔ پس دین کا حقیقی مقصد  عدل کا قیام ہے ایسا عدل جو انسان کو نہ صرف دنیا میں انصاف دے بلکہ آخرت میں بھی نجات کا باعث بنے۔

تجربات نے یہ  ثابت کیا ہے کہ مادی عدل، خواہ وہ کتنے ہی دقیق قوانین اور اداروں پر مبنی کیوں نہ ہو، روحِ انسانی کے زخموں کا مداوا نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ انسان کو محض جسم اور مفاد تک محدود کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس، اسلام کا عدل قانون اور ضمیر، حقوق اور فرائض، فرد اور معاشرے کے درمیان ایک ہم آہنگ توازن پیدا کرتا ہے۔

اسلامی عدل کی اصل قوت اس شعور سے جنم لیتی ہے کہ انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ جب انسان اپنی ذمہ داری کو خالق کے سامنے محسوس کرتا ہے، تو وہ دوسروں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہے جیسا اپنے لیے چاہتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب عدل عبادت بن جاتا ہے، اور انسان، انسانیت کا نگہبان۔

یوں واضح ہوتا ہے کہ اسلامی عدل اور مادی عدل کے درمیان اصل فرق قوانین یا نظاموں کا نہیں، بلکہ وجودی بنیاد کا ہے۔ اسلام کے نزدیک عدل زمین پر الوہیت کا مظہر ہے ۔ یعنی خدا کی صفاتِ عدل و رحمت کا عکس جبکہ مادی فکر کے نزدیک عدل محض ایک سماجی ضرورت ہے جو وقتی توازن برقرار رکھنے کے لیے وضع کی گئی ہے۔

اسی لیے ایمان سے خالی عدل دراصل ایک ایسے سائے کی مانند ہے جس کا کوئی وجود نہیں، ایک عمارت ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ انسانی تہذیب اس وقت تک سیدھی راہ پر نہیں چل سکتی جب تک اس کا عدل اپنے الٰہی سرچشمے سے جڑا نہ ہو؛ کیونکہ جب یہ رشتہ ٹوٹتا ہے، تو انسان ہوس، مفاد اور طاقت کا غلام بن جاتا ہے۔

جس طرح کائنات ایک منظم الٰہی عدل کے نظام پر قائم ہے، اسی طرح انسانی معاشرہ بھی تبھی پائیدار ہو سکتا ہے جب اس کی عدل کی روح ایمان، اخلاق اور تقویٰ سے سرشار ہو۔ ایسا عدل ہی حقیقی امن و سکون پیدا کرتا ہے انسان کے دل میں بھی، اس کے خالق کے ساتھ میں بھی، اور پوری انسانیت کے درمیان ربط و ضبط میں بھی۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ مادی دنیا میں عدل کا بحران اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ جب انسان آسمان سے اپنا تعلق توڑ لیتا ہے، تو وہ خود اپنے اور دوسروں کے ساتھ انصاف کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔ عقل، اپنی تمام تر گہرائی کے باوجود، اُس وقت تک کامل رہنمائی نہیں دے سکتی جب تک اسے کسی ایسی ماورائی ہدایت کا سہارا نہ ہو جو مفاد کی حدوں سے بلند ہو۔

پس الٰہی عدل ہی درحقیقت  وہ افق ہے جہاں انسانیت اپنی گمشدہ معنویت دوبارہ پا سکتی ہے۔ کیونکہ عدل کے بغیر حق قائم نہیں رہتا، اور حق کے بغیر عدل مقدس نہیں بنتا۔ انسانی مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک عدل کو اخلاقی اقدار سے جوڑتا ہے، آزادی کو ذمہ داری سے باندھتا ہے، اور معاشرے کو خدا کے شعور سے وابستہ کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے انسانی زندگی میں  توازن اور حقیقی امن جنم لیتا ہے ایک ایسا گم گشتہ توازن جس کی تلاش میں تہذیبِ انسانی ابتداء سے آج تک سرگرداں ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018