

| اسلام میں معیشت | اسلام کے سیاسی رجحانات اور سنی شیعہ تجربات میں تنوع

اسلام کے سیاسی رجحانات اور سنی شیعہ تجربات میں تنوع
الشيخ معتصم السيد أحمد
جب ہم اسلامی دنیا میں سیاسی فکر کی نوعیت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صاف طور پر ایک بنیادی فرق دکھائی دیتا ہے جو سنی اسلامی تحریکوں اور شیعی سیاسی نظریے کے درمیان پایا جاتا ہے۔ سنی تحریکیں عموماً اسلام کی تاریخی تصورات خصوصاً خلافت کے تجربے سے جنم لیتی ہیں، اور وہ اپنی سیاسی فکر کو اسی وراثت پر قائم کر کے نظامِ حکومت کا وہاں سے نمونہ اخذ کرتی ہیں۔ اس کے برعکس شیعی فکر میں سیاسی نظریہ ایک متوازی راستے پر تشکیل پایا ہے، انہوں نے عقیدہ اور سیاست کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا بلکہ ابتدا ہی سے اپنے نظریات کو "امامت" کے تصور پر استوار کیا، اور امامت کو براہِ راست حکومت الہیہ کا تسلسل اور معاشرے و ریاست کے نظام کو منظم کرنے کی بنیاد سمجھا۔
تاریخ کے ایک سلفی تصور کے اندر ڈھلے اور ماضی کی باز آفرینی و خلافت کے ماڈل کے استنساخ پر قائم سنی رجحانات کے برعکس، تشیع نے ایک منفرد نظریے کو محفوظ رکھا جو اسلام کو محض ایک قابلِ اعادہ ورثہ ہی نہیں سمجھتا بلکہ شیعی فکر میں "امامت" کا تصور دینی اور سیاسی شعور کی بنیاد ہے۔ امامت کو ایک ایسی خدائی ضمانت سمجھا جاتا ہے جو رسالت کی راہ کو جاری رکھتی ہے، اور وہ براہِ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے متصل ایک ایسی قیادت ہے جو محض کسی سیاسی چالبازی، جبر یا شورائیت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔
اس تصور کے مطابق، کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ امت کی سیاسی قیادت سنبھالے یا اپنے آپ کو اس منصب کے لئے پیش کرے ، جب تک کہ وہ اسلامی رسالت کا حقیقی نمائندہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شیعی سیاسی فکر میں اقتدار براہِ راست دین سے مربوط ہے، اور اسے مذہبی مرجعیت سے الگ سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ اختیار یا تو براہِ راست نصّ کے ذریعے معین امامِ معصوم کو حاصل ہے ، یا پھر زمانہٴ غیبت میں ایسے جامع الشرائط فقیہ کی ولایتِ عامہ کی صورت میں ہے کہ جس کے لیے خود دینی نصوص میں بیان کردہ شرعی اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔اسی فہم کی بنیاد پر شیعہ نقطہ نظر میں اسلامی معاشرہ ہرمی انداز میں تشکیل شدہ ایک خاص نظام ہے کہ جس کے اوپر امام یا ان کا نائب یعنی جامع الشرائط فقیہ کھڑا ہوتا ہے۔ اس معاشرے کے نظام کی مشروعیت محض کسی سیاسی اقتدار سے نہیں بلکہ اس ولائی و رسالی تسلسل سے اخذ ہوتی ہے۔
یہ ساختی تضاد دونوں نظاموں کے درمیان سیاسی اور سماجی ولاء کی بنیاد میں گہرے امتیاز کا باعث بنا۔ چنانچہ روایتی سنی معاشرے میں ولاء عموماً موجودہ سیاسی نظام کی طرف متوجہ رہا، کیونکہ اس طرز تفکر میں حاکم کو ہی اقتدار کی حقیقت کا مظہر سمجھا جاتا تھا، چاہے اس کی پشت پر واضح دینی شرعی حیثیت موجود نہ بھی ہو۔ جبکہ شیعہ معاشرے نے صدیوں تک ایسے کسی بھی سیاسی نظام کو زیادہ اہمیت نہیں دی جو امامت پر قائم نہ ہو، بلکہ عموماً اسے محض ایک امرِ واقع کی حیثیت سے دیکھا جو اسلام کی نمائندگی نہیں کرتا، اور اپنی مکمل وفاداری صرف خطِ امامت یا ان کے نمائندگان مراجع کے لیے محفوظ رکھی۔
یہی پس منظر وہ بنیاد ہے جسے ہم "اسلامِ معارض" کہہ سکتے ہیں، جو طویل عرصے تک دبایا اور حاشیے پر رکھا گیا، اور یہ وہ اسلام ہے جس کی نمائندگی تشیع کرتا ہے، اس کے مقابل "اسلامِ سلطہ" ہے جو زیادہ تر سنی تجربے میں مجسم رہا۔ اگر ہم اس مزاحم اور رائج نظام سے مختلف راستے کی ایک تاریخی سمت متعین کرنا چاہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس نظرئے کی اہمیت صرف اس کی انقلابی پس منظر میں نہیں، بلکہ اس کی اس صلاحیت میں ہے کہ وہ ایک مختلف سیاسی بیانیہ پیدا کرتا ہے، جو روایتی طرزِ حکمرانی کے ماڈل سے آگے بڑھ کرریاست اور معاشرہ کے بارے میں اسلام کی ایک نئی تعبیر پیش کرتا ہے۔
اس نظریاتی آزادی نے، جو شیعہ کو تاریخی تجربے سے حاصل رہی، انہیں جدید نظاموں کے ساتھ کسی قسم کے دوری یا حراسگی میں مبتلا نہیں ہونے دیا۔ چونکہ شرعی جواز صرف اسی کو دیا جا سکتا ہے جو رسالت کی نمائندگی کرے، اس لیے انہیں پرانی تجربات کو بنیاد بنانے یا ان کی ناکامی کا جواز فراہم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، بلکہ وہ ہمیشہ نئے سیاسی اجتہادات کرنے کے قابل رہے جو معروضی حالات سے ہم آہنگ ہو۔ اسی وجہ سے شیعہ فکر میں اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہا، نہ صرف فقہی مسائل میں بلکہ حکمرانی اور اقتدار کے مسائل میں بھی۔چنانچہ شیعہ تجربہ صرف تاریخی خلافت کورسالی نظام میں ایک انحراف مان کر رد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرتا، بلکہ اسے ایک ایسا تجربہ سمجھتا ہے جو اپنے حالات کا اسیر تھا اور جسے تقدیس کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ سیاسی اسلام کے لیے سلفی رجحانات رکھنے والی تحریکوں کے ساتھ کوئی فکری اشتراک تلاش کرنا نہایت دشوار رہا ہے ۔
اگرچہ بعض ادوار میں، خصوصاً بیسویں صدی کے اواخر میں، اخوان المسلمین اور بعض شیعہ تحریکوں کے درمیان قربت دیکھنے کو ملی، لیکن یہ تقارب کسی مشترکہ نظریے کی علامت نہیں تھا، بلکہ زیادہ تر عمومی اسلامی فکروں کے دائرے میں ایک ملاقات تھی، نہ کہ عقیدتی بنیادوں یا سیاسی وژن میں اتحاد۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے صرف وہ خطاب یاد کرنا کافی ہے جو مصر کے صدر محمد مرسی – جو اخوان کی پہلی حکومتی تجربے کے نمائندہ تھے – نے تہران میں دیا، جہاں انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز "خلفائے راشدین کو راضی اللہ تعالیٰ عنہم کہنے سے کیا۔ یہ اس وقت ایک واضح سیاسی پیغام تھا، جو ذاتی عقیدتی پہلو سے آگے بڑھ کر، دونوں نقطہ ہائے نظر کے درمیان گہری مفارقت کی تصدیق کرتا تھا۔
مرسی جہاں تقریر کر رہا تھا وہ جگہ ایران تھا ، جو شیعی اسلامی تجربے کا مرکز ہے، اس وقت ایک عالمی کانفرنس ہورہا تھا، اور تقریرکرنے والا ایک اخوانی صدر، اس نے جو پیغام دیا وہ کسی صورت معصوم یا سادہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک غیررسمی اعلان تھا کہ بوجود اس کے کہ بظاہر بعض نعروں یا مسائل میں اتحاد نظر آرہا ہے مگر جدائی اختلاف بھی بدستور قائم ہے۔
حسن البنا نے اخوانی منصوبے کے ابتدائی مرحلے میں مذہبی اختلافات کو محدود کرنے کی کوشش کی، اور "دار التقریب بین المذاهب الإسلامیة" کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ ایک ایسی کوشش تھی جس کا ظاہر مقصد شیعہ و سنی کے درمیان قربت پیدا کرنا تھا، لیکن یہ حکمتِ عملی زیادہ دیر نہ ٹک سکی اور جلد ہی اپنی افادیت کھو بیٹھی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ تشیع، اسلامی انقلاب ایران کی کامیابی کے بعد، مظلوم طائفے کی حیثیت سے نکل کر ایک مرکزی سیاسی کردار کی صورت اختیار کر گیا، اور ایک ایسا حکومتی ماڈل پیش کیا جو نہ صرف چیلنجوں کے مقابلے میں قائم رہا بلکہ جدید ریاستی نظاموں کا حقیقی حریف بھی بن گیا۔ یہ وہ چیز تھی جو سنی تحریکوں، خصوصاً سلفی منہج سے متاثر تحریکوں، کے بس میں نہ تھی۔یہ تبدیلی مسئلۂ فلسطین میں شیعہ کردار اور خطے میں سامراجی منصوبوں کے مقابلے میں ان کی مزاحمت میں کھل کر سامنے آئی، جس نے سلفی تحریکوں اور شیعوں کے درمیان فاصلے کو مزید گہرا کر دیا۔ سلفیوں کے نزدیک شیعہ صرف اس لیے خطرناک نہیں تھے کہ ان کا عقیدہ مختلف تھا، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ عمل کے میدان میں ان کے حریف بن گئے اور عملی نتائج کے لحاظ سے ان پر سبقت لے گئے۔
اسی پس منظر میں یہ سمجھنا آسان ہے کہ اہلِ بیتؑ کے شیعوں کے خلاف نفرت انگیز مہم ہر اس وقت تیز کیوں ہو جاتی ہے جب وہ سیاسی منصوبے میں آگے بڑھتے ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ خطے کی حکومتوں کو اس وقت شیعہ سے کوئی مسئلہ نہیں تھا جب وہ ایران میں شاہ کی حکومت کے تحت یا عراق میں صدام کے نظام کے نیچے تھے۔ اس وقت شیعہ ان جابرانہ نظاموں کو زیادہ قابل قبول تھے جب تک کہ وہ اقتدار کے دائرے سے باہر تھے۔ لیکن جب وہ اس تنگ زاویے سے نکلے اور ایک حقیقی اسلامی منصوبہ تشکیل دینے لگے، تو رویے بدل گئے اور "ہلالِ شیعی" کے خوف کی آوازیں بلند ہو گئیں۔
یہ تضاد ہمارے لئے اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اصل میں یہ تنازعہ مسلکی نہیں ہے جیسا کہ پیش کیا جاتا ہے، بلکہ سراسر سیاسی نوعیت کا ہے۔ سیاسی سلفیت جو اپنے آپ کو اہلِ سنت کی اصل نمائندہ کے طور پر پیش کرتی ہے، وہ اس بات کو برداشت نہیں کر پاتی کہ اسلامی دنیا کے اندر سے کوئی ایسا متبادل تجربہ سامنے آئے جو حقیقی نتائج پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگرچہ بعض سنی دانشوروں نے نہایت ترقی یافتہ فکری نظریات پیش کیے ہیں، لیکن ان کا اثر علمی و فکری حلقوں تک محدود رہا اور عوامی شعور میں سرایت نہ کر سکا۔ اس کے برعکس سخت گیر سلفی فکر دولت، اثرورسوخ اور سیاسی پشت پناہی کے ذریعے عوامی میدان میں پھیل گیا اور مسلم معاشروں میں فرقہ وارانہ دشمنی کے بیانیے کو راسخ کیا۔
اس مقالے کا مقصد تشیع کے حق میں یا تسنن کے خلاف کوئی بیانیہ بنانا نہیں ہے، اور نہ ہی کسی مسلک پر حکم لگانا ہے۔ بلکہ اصل ہدف یہ ہے کہ معاصر اسلامی تجربے کے اندر سیاسی سوچ کی خامیوں کو بے نقاب کیا جائے، چاہے یہ فکری ماخذ کے حوالے سے ہو یا عملی ماڈل کی کامیابی کے حوالے سے۔ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ سنی اسلامی تحریکیں – اپنی زیادہ تر پیشکشوں میں اب بھی تاریخی طرزِ فکر میں جکڑی ہوئی ہیں، جو خلافت کو روایتی شکلوں میں دوبارہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں یا اپنے منصوبوں کو ماضی کے ایسے تجربے سے وابستہ کرتی ہیں جس کے اوراق بند ہو چکے ہیں۔ اور ان کے پاس نہ اس ماضی کا اعادہ کرنے کی حقیقی صلاحیت ہے اور نہ ہی اسے معاصر شعور کے ساتھ ہم آھنگ کرنے قابلیت ۔
اس کے برعکس، شیعہ تجربہ، بالخصوص انقلابِ اسلامی ایران کے بعد معاصر دنیا میں ایک ایسا سیاسی ماڈل سامنے لایا ہے جو تاریخ کی اسیری سے باہر نکل کر ایک نئی بنیاد سے آغاز کرتا ہے۔ یہ تجربہ زمانے کو تسلیم کرتا ہے، اپنے حالات میں حرکت کرتا ہے اور ان کے تغیّرات سے واسطہ رکھتا ہے۔ اسلامی ماخذ سے اپنی شرعیّت اخذ کرتے ہوئے بھی یہ ماضی کی نقل نہیں کرتا، بلکہ ایک ایسا نظام پیش کرتا ہے جو باقی رہنے اور ارتقاء پذیر ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور خطّے و دنیا کے حقائق کے ساتھ براہِ راست جڑا ہوا ہے۔
لہٰذا آج ضرورت کسی مسلکی برتری کی نہیں بلکہ اسلام اور سیاست کے باہمی تعلق پر ایک بنیادی نظرِ ثانی کی ہے۔ جب اصل ماخذ وحی ہے تو تاریخی تجربات سوچ پر مسلّط نہیں ہونا چاہیے۔ اور جب مقصد عدل قائم کرنا اور انسان کو آزاد کرنا ہے تو کوئی بھی ایسا سیاسی بیانیہ قابلِ قبول نہیں جو دین کے نام پر استبداد کو دوبارہ زندہ کرے یا دوسروں کا استحصال کرے ۔اس بند گلی سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی شعور کو ماضی کی عقدہ بندی سے آزاد کیا جائے اور ریاست کی نوعیت اور حسنِ حکمرانی کے عناصر پر دوبارہ غور کیا جائے۔ ایسا غور و فکر جو نہ تو نص کو نظرانداز کرے اور نہ ہی تجربے کو تقدّس عطا کرے، بلکہ دین اور تاریخ، نص اور عمل، عقیدہ اور مصلحتِ عامہ کے درمیان تعلق کو نئے سرے سے مرتب کرے۔
اسی تناظر میں شیعہ تجربے کا مطالعہ محض ایک مسلک کی خصوصیات کو جاننے کی کوشش نہیں ہے بلکہ اسلامِ سیاسی کے تصور کو اندر سے ایک مختلف زاویے سے پڑھنے کی سعی ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بنیادی سوال اٹھانا ہے: کیا ہم اسلام سے وابستہ ہو سکتے ہیں بغیر اس کے کہ ہم اس کی سیاسی تاریخ کے اسیر بنیں؟ اور کیا ہم ایک ایسا اسلامی نظامِ حکومت تشکیل دے سکتے ہیں جو ماضی کی محض نقل نہ ہو بلکہ اس کی اقدار سے الہام لے کر جدید صورت میں جلوہ گر ہو؟ یہی وہ سوالات ہیں جو آج کی اسلامی تحریکوں کی فکر کے مرکز میں ہونے چاہئیں، اگر وہ نعرے بازی کے دائرے سے نکل کر حقیقی تمدنی عمل کے میدان میں قدم رکھنا چاہتی ہیں۔