| اسلام میں معیشت | اسلام میں سودی معاملات کی حرمت اور معاشی کامیابی
اسلام میں سودی معاملات کی حرمت اور معاشی کامیابی
سود: لغوی لحاظ سے ہر زائد چیز کو کہتے ہیں۔ ’’۔۔۔أَنْ تَكُونَ أُمَّةٌ هِي أَرْبَى مِنْ أُمَّة۔۔۔‘‘ (النحل: 92)۔ [۔۔۔تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے۔۔۔] أَرْبیٰ یعنی جس امت سے موازنہ کیا جا رہا ہے اس سے تعداد میں زیادہ جبکہ اصطلاح میں قرض پر مقروض جنس یا اس جیسی جنس کو بغیر کسی شرعی عوض کے زیادہ لینا۔ غیر شرعی عوض سے مراد ایسا مال ہے جو بغیر کوشش کے حاصل کیا جائے۔ اسلام میں شرعی طور پر یہ حرام ہے۔
سود کی تاریخ:
جب سے انسان تجارت سے آشنا ہوا ہے، سود سے بھی آشنا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قدیم تہذیبیں؛ جیسا کہ وادی الرافدین اور وادی نیل کی تہذیب یا ان کے بعد آنے والی دوسری تہذیبیں تجارت میں سودی معاملات انجام دیتی رہی ہیں۔ پہلے پہل یہ چیزوں کے تبادل کی شکل میں انجام پاتا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہودی اسی طرح سودی معاملات انجام دیتے تھے۔ انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ سودی معاملات کو حلال قرار دیا تھا جو ان کے ہم عقیدہ نہیں تھے اور جو ان کی امت سے اور ان کے ہم عقیدہ تھے ان کے ساتھ سودی معاملے کو حرام سمجھتے تھے جبکہ اس کے برعکس تورات نے سود کو مطلقاً حرام قرار دیا تھا۔ یہاں تک کہ جب اسلام آیا تو اس نے بھی تورات میں موجود سود کی حرمت کے حکم کی تائید و تاکید کرتے ہوئے دوسرے آسمانی ادیان کی طرح اسے حرام قرار دیا۔ اسلام نےیہودیوں کو سودی معاملہ انجام دینے سے خبردار کیا اور اسے ایک ایسا ظلم شمار کیا جو وہ اپنے نفسوں پر اور دوسرے انسانوں پر روا رکھتے تھے اور ان کے اسی ظلم کی بنا پر ان پر ایسی پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو پہلے ان پر حلال تھیں: ’’فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيهِمْ طَيبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا * وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا‘‘ (النساء 160-161)۔ [یہود کے ظلم اور راہ خدا سے بہت روکنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان پر حلال تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔] تاریخ ہمیں اس بات سے بھی آگاہ کرتی ہے کہ اسلام سے پہلے زمانہ جہالت میں بھی سود پوری قوت کے ساتھ موجود رہا اور ان کے ہاں رائج تھا، یہاں تک کہ اسلام نے اسے حرام قرار دیا تاکہ اس کے ذریعے معاملات کی روک تھام ہو اور مسلم انسان اور مسلم معاشرے کی تباہی اور تنزلی کا سدباب کیا جا سکے۔
سود کی حرمت کے اسباب:
سود کے انسان پر اقتصادی، معاشرتی اور نفسیاتی حوالے سے تباہ کن اثرات ہیں، چاہے انفرادی سطح پر ہوں یا اجتماعی اور سماجی سطح پر۔ جہاں اس کا مکمل اثر اس معاشرے تک پھیل جاتا ہے جس میں وہ زندگی بسر کرتا ہے کیونکہ انسان اس معاشرے کا مرکز ہے اور معاشرے کی اصلاح اسی کی اصلاح کی مرہون منت ہے۔
اور چونکہ سود کی آفت فرد اور سماج کے شخصی ڈھانچے کو مسمار کر دیتی ہے بلکہ ان کے معاشی تعلقات کو توڑتے ہوئے اسفل السافلین کے درجے تک لے جاتی ہے، جہاں سود پہلے تو سرمائےکو معاشرے کے ایک چھوٹے سے طبقے کے ہاتھ میں محدود کر دیتا ہے اور پھر یہ سرمایہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے لہٰذا یہ امر بذات خود معاشرے کو مالی حوالے سے مختلف طبقات میں تقسیم کر کے معاشرے کی اقتصادی بنیادوں میں بہت بڑا شگاف پیدا کر دیتا ہے۔ ’’وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا‘‘ (النساء 161)۔ [اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔]
یہ امر سرمائے کے پہیے کو چند محدود افراد کے ہاتھوں میں محدود کر دیتا ہے جو اس اقتصادی پہیے کو گھماتے رہتے ہیں۔ یہ مالک اقلیت اپنی انانیت اور اپنے شخصی مفادات کو عوامی مفادات پرترجیح دیتے ہوئے معاشرے کے اقتصاد کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے اور اسے ایک ایسی تنگ گلی میں لا کھڑا کرتی ہے جہاں اس کی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔ جس سے معاشرے کی معاش سکڑ کر رہ جاتی ہے اور روزگار کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ دار افرد سود کے ذریعے بغیر کسی کوشش کے آسانی سے پیسہ اکٹھا کرنے کی وجہ سے وہ اپنا سرمایہ ایسے منصوبوں میں کبھی بھی نہیں لگائیں گے جس میں افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے بالخصوص جب اس میں خسارے کا امکان بھی موجود ہو۔ خسارے کا امکان ہی ایک ایسا امر ہے جس سے وہ اپنے معاملات میں ڈرتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے جو لوگوں کو جوری، جرائم اور جسم فروشی جیسے غیر شرعی اور غیر قانونی طریقوں سے مال اکٹھا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ کیونکہ لوگ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ایسے کاموں کی طرف مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ چیز بذات خود عوامی مزاج اور مذہب کی تعلیمات بالخصوص اخلاقیات کے منافی ان حرام اور غیر قانونی راستوں کے ذریعے معاشرے کے اخلاقی اور نفسیاتی ڈھانچے کو منہدم کر دیتی ہے۔ اور یہ امر خصوصی طور پر ان اخلاقی اقدار کے منافی ہے جو لوگوں کو مسلسل اسی بات پر ابھارتی ہیں کہ وہ اپنی معاش کے حصول کے لیے دوسرے کے رزق پر حملہ نہ کریں۔
سود ایک معاشرتی جرم:
سود پر قرض دینے والے قرض خواہ کو قرض پر بغیر کسی کوشش کے زیادہ منافع اور فائدہ لینے کے حوالے سے مفلس پر تسلط اور قدرت حاصل ہونا بذات خود ایک جرم ہے، جس کا دین اسلام اور عام انسانی مزاج انکار کرتا ہے۔ اس کے اسباب اور اثرات کو چند عوامل میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے:
۱۔ لوگوں میں نیکیوں کا ختم ہو جانا: جہاں سود صدقات کی جگہ لے لیتا ہے کیونکہ لوگوں کے سماجی تعلقات پر مادیت اور نفع خوری کا جذبہ حاکم ہوتا ہے۔ یہ چیز قرآن مجید کی اس دعوت کے بالکل برخلاف ہے جس میں وہ لوگوں کے درمیان بھائی چارے، محبت اور حقوق کے تحفظ کا تعارف کرواتا ہے۔ اسی وجہ سے اس نے سود کو حرام جبکہ صدقات کو حلال قرار دیا ہے: ’’يمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ‘‘ (بقرۃ: 276)۔ [اللہ سود کو ناپائیدار اور خیرات کو بابرکت بنا دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔] یہ آیت سود کے مٹائے جانے کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ وہ ایک ایسا باطل ہے جو حق اور الٰہی سنتوں کی مخالفت کرتا ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ نے سود کھانے والوں کو مالِ حرام کی طلب میں مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ اور وہ ہے مال کا عدم توازن اور ایک جگہ ٹھہرنا۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کے اندر شیطانی جنون پایا جاتا ہے۔ اور اس جنون کی علامت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور حرام سود کو حلال تجارت کے ساتھ تشبیہ دے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے اور ان کی عقلوں پر پردہ ڈالتے ہیں، جبکہ حقیقت حال ان کے اس دعویٰ کو جھٹلاتی ہے: ’’الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّـهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔‘‘ (بقرۃ: 275) [جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ بس اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر حواس باختہ کیا ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے، پس جس شخص تک اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت پہنچی اور وہ سود لینے سے باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا وہ اسی کا ہو گا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے اعادہ کیا تو ایسے لوگ جہنمی ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔]
۳۔ خدا نے لوگوں کو اپنے درمیان تعارف اور محبت کے لیے پیدا کیا اور ان کی طرف سے دوسرے انسانوں پر ظلم و جارحیت سے نفرت کی ہے: ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ۔‘‘ (المائدۃ: 87) [اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کر دی ہیں انہیں حرام نہ کرو اور حد سے تجاوز بھی نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو یقیناً دوست نہیں رکھتا۔] سود بھی حقوق الناس کے حوالے سے ایک قسم کا ظلم ہے جو ان کی درمیان نفرت اور بغض پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات تو دوسروں کے مال کی لالچ کی وجہ سے ان کے درمیان تباہ کن جنگوں کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے اس سے ڈرایا ہے اور سود لینے والوں کو سود کو ترک کرنے، اس سے توبہ کرنے اور دوبارہ اس کی طرف نہ لوٹنے کا حکم دیا ہے۔ اور اگر انہوں نے اپنی اس موقع پرست اور مفاد پرست سیاست سے توبہ نہ کی تو گویا وہ خدا اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ * فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ۔*( البقرة ـ 278 ـ279) [اے ایمان والو! اللہ کا خوف کرو اور جو سود (لوگوں کے ذمے) باقی ہے اسے چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر تم نے توبہ کر لی تو تم اپنے اصل سرمائے کے حقدار ہو، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا.]
اسلام میں اس کا متبادل راہِ حل:
اسلام اجتماعی اور معاشرتی کفالت کے نظریے پر نہ صرف یقین رکھتا ہے بلکہ اس کی بنیاد بھی اسی نے رکھی ہے، کیونکہ اسلام اسے ایک صحیح و سالم اسلامی معاشرے کی اولین ضروریات میں سے سمجھتا ہے، جس کا استحکام لوگوں کے حقوق کے تحفظ، ان کے جان و مال کی حفاظت اور صدقات اور بلاسود قرضوں کے ذریعے ان کے درمیان محبت اور رحمدلی کے فروغ کے اصول پر ہو۔ یہی وہ سالم ترین اور محفوظ ترین متبادل نظام ہے جو سودی نظام کے مقابلے میں ہے کہ جو لوگوں میں نفرت اور دشمنی ایجاد کرتا ہے جب وہ بغیر کسی محنت کے دوسروں کو ملنے والے بے تحاشا فوائد کی وجہ سے غبن اور مظلومیت کا احساس کرتے ہیں۔
۲۔ دولت کی مساوی تقسیم اور روزگار کے مواقع کے حصول سے قرض لینے کی ضرورت کم ہو جاتی ہے، جس سے سود کے بڑھتے ہوئے رجحانات میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
۳۔ معاشرے میں سود کے تباہ کن اثرات کے حوالے سے مذہبی شعور بیدار کرنا کیونکہ قرض خواہ بھی اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے مختلف جرائم کی بنا پر ان اثرات سے نہیں بچ پائے گا۔
۴۔ سرمایہ داروں کو مختلف منصوبوں پر سرمایہ کاری کی ترغیب دلانا چاہیے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں، بے روزگاری کا خاتمہ ہو اور فرد کا معیارِ زندگی بلند ہو۔ اس ذریعے سے سرمایہ دار بھی حلال طریقے سے بے پناہ منافع کما سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبارک قرار دیا ہے۔ اور اس کی وجہ سے ایک مضبوط اور متوازن معاشرہ بھی وجود میں آئے گا جس میں لوگوں کی ضروریات بھی کم ہوں اور جرائم کی بھی روک تھام ہو گی۔