| اسلام میں معیشت | انفاق و ایمان کے درمیان ملازمہ
انفاق و ایمان کے درمیان ملازمہ
((آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ))(سورة الحديد ـ 7)
ترجمہ : تم اللہ اور رسول پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب قرار دیا ہے تم میں سے جو ایمان لائے اور انہوں نے راہ خدا میں خرچ کیا ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔
قرآن کریم کی تعلیمات میں انفاق کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اور کیوں نہ ہو؟ اس لئے کہ انفاق تو اجتماعی کفالت کا ضامن ہے اور ایک معاشرے کے امن و سکون کا معیار و قانون ہے ۔ اس کے علاوہ یہ اجتماعی عدل و انصاف کے قیام کا نقطہ آغاز بھی ہے ۔ قرآن کریم نے ایک انسان کے اندر انفاق کی عادت پیدا کرنے کی غرض سے وہ تاکید کی ہے جس میں کسی کو شک کی گنجایش باقی نہیں رہ سکتی ۔ قرآن کریم نے مال کو خدا کا مال اور لوگوں کو اس مال میں اللہ کے عیال قرار دیا ہے ۔ لہذا یہ لوگ اس مال سے عام فائدہ حاصل کرنے کے اعتبار سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ اس مال کا کسی کے پاس ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس کا مالک مطلق ہو ۔ اور اس کا جمع کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا نہیں آدمی اس مال میں خدا کا خلیفہ ہے اور اصل مالک اللہ تعالی ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اس مال کو اس طرح سے خرچ کرے جس میں اس کا مالک حقیقی راضی ہو ۔ کیونکہ آدمی تو اس مال میں صرف امانت دار کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہذا اسلام میں مال کے لحاظ سے یہ عظیم نظریہ ابھرتا ہے اور یہ کہ یہ مال انسان کی انفرادی اور اجتماعی عزت والی زندگی گزارنے کا سبب بنتا ہے۔ لہذا یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ لوگ جو جی چاہے اپنی مرضی کریں اور اپنے ان مفادات کو حاصل کرنے کے لئے مال کو جس طرح چاہیں خرچ کریں۔ اگرچہ کہ اولی یہ ہے کہ یہ مال اس کی سعادت و بہبود میں استعمال ہو جس کو اس محنت کر کے کمایا اور جمع کیا ہے۔ وہی شخص اپنے مال کے تصرف میں حق رکھتا ہے اور شارع مقدس نے بھی اس کے مذکورہ حق کو بیان فرمایا ہے ۔ البتہ اسی نے یہ حق بھی رکھا کہ اس مال سے ہی فقراء اور محتاجوں کی نیازمندی بھی دور کی جائے گی۔ یعنی دولتمندوں اور امیروں کے مال میں ہی محتاجوں اور فقراء کا حق رکھا تاکہ وہ ان ضرورتمندوں کا بھی حق ادا کریں ۔ قرآن کریم کی آیت میں مذکور حکم اسلامی کی بہتریں تاکید میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ فرمان بھی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "لم نُبعَث لجمع المال ولكن بُعِثنا لإنفاقه."؛ ہم مال جمع کرنے کے لئے مبعوث نہیں ہوئے بلکہ مال انفاق کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ اگر جمع مال کو ہی مقصد بنا لیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مال و دولت صرف امیروں اور دولت مندوں ہی کے ہاں ڈھیر لگ جائے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کی گردش رک جائے گی اور ذخیرہ اندوزی کا ذریعہ بنے گا تقسیم و گردش کا سلسلہ منجمد ہوجائے گا۔ جس سے معاشرہ بد حالی اور بحران کا شکار ہوجائے گا اور صرف ایک خاص گروہ کے ہاتھوں میں یہ مال جمع ہوکر رہ جائے گا جس کے نتیجے میں یہ لوگ عوام پر ظلم و استبداد بھی کریں گے اور مال کی ذخیرہ اندوزی بھی کریں گے۔ جس سے معاشرہ ایک بڑے اقتصادی بحران کا شکار ہوجائے گا۔ جمع مال و ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے رونما ہونے والے سماجی اور معاشرتی بحران جو تاریخ میں پیش آئے ہمارے مدعا کے ثبوت کے لئے کافی ہیں ۔
اصول و قاعدہ یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ کی ہے اور وہی بادشاہی کا مالک ہے :
((قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ على كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ))(سورة آل عمران ـ 26)،
ترجمہ : کہد یجیئے کہ اے خدایا تو صاحب اقتدار ہے جس کو چاہتا ہے اقتدار دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے سلب کرلیتا ہے جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے ۔ سارا خیر تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہی ہر شے پر قادر ہے ۔
اسلام دولت کو بھی اس کے مالک کی طرح اللہ کی ملکیت قرار دیتا ہے اور اسلام کی نگاہ میں دونوں کا مالک حقیقی اللہ ہی ہے ۔لہذا آدمی دولت کا اعتباری اور قراردادی مالک ہے ۔اس اعتباری مالک کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے مال و ملکیت میں جس طرح کا بھی تصرف کرنا چاہے کرے۔ چاہے اس کی وجہ سے دوسرے انسانوں کے حقوق ضائع کیوں نہ ہوجائیں۔ غرض اس طرح کا مطلق اختیار آدمی کو نہیں دیا گیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کریم نے انسان کے ایمان کو انفاق مال کے ساتھ جوڑ دیا ہے اور ایمان کی نشانی انفاق مال قرارر دیاگیا اور دوسری جانب صاحب مال و دولت کو اس مال میں خلیفہ کہا گیا ہے۔ غرض یہ کہ مال کو شرع مقدس کی جانب سے بتائے ہوئے مقامات پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کے ساتھ نزدیک کا رابطہ ہے۔ اس سے مال خرچ کرنے والے کو اجر و ثواب بھی مل جاتا ہے۔ اس میں بہترین بات یہ ہے کہ قرآن کریم اس انفاق کے لئے کوئی ایک مقام معین نہیں کرتا ہے جس طرح سے خمس و زکات اور صدقہ وغیرہ کا مصرف معین ہے۔ بلکہ قرآن نے اس راستے کو عام رکھا تاکہ آدمی کسی بھی جگہ انفاق کرسکے جو شرعی لحاظ سے مباح ہوں۔ اگرچہ حصول کے لحاظ سے راستے معین کئے ہین مانند تجارت اور مال کو گردش میں رکھنا اس سے فائدہ اٹھانا وغیرہ۔ بہر کیف قرآن کریم کی آیت انفاق میں مال کو انفاق کرنا مقصود ہے تاکہ ذخیرہ اندوزی اور ایک جگہ اس کا ڈھیر نہ لگ جائے ۔ کیونکہ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے دوسرے لوگ محروم رہ جاتے ہیں ۔ اور مال کے انفاق سے بہت سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں منجملہ محتاجوں اور غریبوں کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں اور اچھے انداز سے ان کمزوروں کی زندگی کا نظام چلنے لگتا ہے ۔ یوں عمومی معاشرتی کفالت کا بند وبست بھی ہوجاتا ہے ۔ علاوہ اس کے مختلف انواع و اقسام کی فضول خرچیوں اور اسراف کا بھی سد باب ہوجاتا ہے۔
نیز یہ کہ انفاق سے اس کے مالک کو بڑا ثواب بھی حاصل ہوتا ہے ۔یہ وہ ثواب ہے جس کا وعدہ اللہ سبحانہ و تعالی نے مؤمنین کو جنت کا دیا ہے۔ خاص طور سے اس طرح کا انفاق معاشروں میں ظلم و فساد کو بھی روک دیتا ہے ۔کیونکہ اس طرح کے فسادات یقینا غربت و افلاس کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے آج کے نظام اقتصادی میں اس نظریہ پر تاکید کی جاتی ہے " جو ملک و معاشرہ اقتصادی اعتبار سے فقیر ہے اس میں مال و دولت کا ایک جگہ جمع ہونے کے بجائے گردش میں ہونا اس ملک کی معیشت میں بہبودی کا باعث ہوتا ہے ۔" اور لوگ تلاش و کوشش میں مصروف ہوتے ہیں ۔ جس سے بدیہی طور پر لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور ان کی ضروریا ت پوری ہوجاتی ہیں بلکہ ان کی حالت میں بہتری آجاتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ انفاق ہر اس ملک و معاشرے کے لئے ضروری اور کلید ی حیثیت رکھتا ہے جو اقتصادی لحاظ سے کمزور ہے ۔ پس یہ جو تاکید کی جاتی ہے کہ دولت مندوں اور امیروں کو اپنا مال انفاق کرنا چاہئیے اس سےمراد عام ہے یعنی یہ کہ وہ اپنی دولت کو گردش میں رکھیں اگرچہ مارکیٹ کے ذریعے سھی جس سے معاشرے میں توازن برقرار رہتا ہے اور ایک معاشرے کے اندر کفالت کا ضروری مرتبہ محقق ہوجاتا ہے ۔ یوں بنیادی ترین اقتصادی اور معیشتی بہبودی قائم ہوجاتی ہے ۔