
| احکامِ اجتماعی | دین فہمی کا اصل طریقہ: منہج اور بصیرت کا رشتہ

دین فہمی کا اصل طریقہ: منہج اور بصیرت کا رشتہ
الشيخ معتصم السيد أحمد
ہم دینِ اسلام کوکبھی مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتے اگر اسے صرف عقائد کے ایک مجموعے کے طور پر پیش کیا جائے کہ جن پر سرِ تسلیم خم کرنا لازم ہے، یا احکام کے مجموعے کےطور پر جنہیں نافذ کرنا ضروری ہے، یا ان اعمال و رویّوں کے مجموعے کے طور پرکہ جن کی پابندی انسان پر واجب ہے۔ یہ سب دراصل دینی عمارت کی ظاہری سطحیں ضرور ہیں، جبکہ دین کی اصل حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری ہے۔
دین اسلام اللہ تعالی کی جانب سے (قرآن و سنّت کی شکل میں) وحی شدہ حقائق سے عبارت ہے ، جواپنے الہی خطاب کی بنیاد پرعقل اور دل دونوں سے ہم کلام ہوتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت، اپنی بلندی اور تقدس کے باوجود، تنہا خلا میں زندہ نہیں رہتا، اور نہ ہی خود بخود ایک راسخ عقیدہ، پاکیزہ عمل یا فعال تہذیب میں ڈھل جاتا ہے۔ بلکہ یہ انسانی شعور، ضمیر اور عملی زندگی کا حصہ بنے سے پہلے ایک قبولیت، فہم اور تاویل کے مراحل جیسےطویل اور پیچیدہ سفر سے گزرتا ہے ۔
انسان جو اس متن یا دینی نصوص کو پڑھتا ہے وہ مکمل خالی الذھن نہیں ہوتا، بلکہ ایک ایسا وجود ہے جو اپنے سابقہ تجربات، ثقافت، خوف،امیدیں، روایات اور اپنے سماجی و دینی ورثے کو ساتھ لیے ہوتا ہے۔ اسی لیے ایک ہی متن ذہنوں میں درجنوں مختلف تصویریں پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ اصل اہمیت صرف متن کی نہیں بلکہ اس طریقے کی ہے جس سے ہم اس متن کو پڑھتے ہیں۔ یہی حقیقت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان دین کو سمجھنے میں گہرے اختلافات کہاں سے جنم لیتے ہیں، حالانکہ دین کا ماخذ ایک ہی ہے۔ اکثر اوقات مسئلہ قرآن یا سنت میں نہیں ہوتا، بلکہ اس منہج میں ہوتا ہے جس کے ذریعے مسلمان قرآن کو قبول کرتا ہے، سنت سے استنباط کرتا ہے، اور دینی نص کو انسانی زندگی سے جوڑتا ہے۔
یہاں سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح وہی نصوص، جو اللہ نے ہدایت، رحمت اور نور کے طور پر نازل فرمائے، جب انہیں ادھورا، سخت گیر یا خود میں محدود انداز میں پڑھا جائے تو، اختلاف، جمود یا انحراف کا سبب بن جاتے ہیں۔ اور اسی سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ تاریخ میں وقتا فوقتا عقائد کی ایسی بگڑی شکلیں کیوں ظاہر ہوئیں جو نص کو اس طرح پیش کرتی ہے جسے اللہ کی منشا کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا، اسی طرح دین میں کیوں ایسا مضطرب شعور پیدا ہوا جو دین کو ایسی مجمل خیالات کے طور پر پیش کرتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی رشتہ نہیں۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کیوں ظاہری تدین عام ہوتا ہے جو صرف رسومات کی حد تک ٹھرتا ہے اور روح کی گہرائی تک نہیں پہنچتا، اور کیوں فردی و اجتماعی رویے بگڑ جاتے ہیں ؟ یقینا یہ سب اس وقت ہوتے ہیں کہ جب دین کو اس کی اخلاقیات اور مقاصد سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ بلکہ تمدنی ناکامی، جسے اکثر دین کا مسئلہ قرار دیا جاتا ہے، دراصل اکثر اوقات ایک نادرست طریقہ تفہیم کا نتیجہ ہی ہوتا ہے، نہ کہ دین میں کسی نقص کا۔
دین اپنی حقیقت میں انسان کی تعمیر کا ایک الٰہی منصوبہ ہے، اور انسان ہی ہے جو اس خطاب کو حقیقت میں ڈھالتا ہے۔ اگر وہ منہج، جس کے ذریعے انسان اس خطاب کو پڑھتا ہے، ناقص، بگڑا ہوا یا جمود کا شکار ہو، تو نتیجہ دین کی ایک ناقص، بگڑی ہوئی اور جامد تصویر ہوگا، چاہے نص کتنا ہی کامل کیوں نہ ہو۔ قرآن خود اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے، جب وہ نص کے وجود کو ’’تدبر‘‘، ’’تفقہ‘‘ اور ’’تعقل‘‘ کے ساتھ جوڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نص اکیلا عمل نہیں کرتا، بلکہ ایسی عقل کے ذریعے عمل کرتا ہے جو فہم کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ﴾
یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے کہ جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے ،تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں ،اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
یعنی نص کی برکت حاصل کرنے کے لیے تدبر کو شرط قرار دیا، نہ کہ محض قراءت کو۔
شاید دین کو لاحق سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ نص ایک ایسے جامد سانچوں کے مجموعے میں بدل جائے جو صرف یاد کیے جائیں مگر سمجھے نہ جائیں، یا دہرا دیے جائیں مگر پڑھے نہ جائیں، یا ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جائے گویا وہ تاریخ، معاشرت اور زندگی کے اصولوں سے باہر ہیں۔ وہ انسان جو نص کو بغیر کسی مضبوط منہج کے پڑھتا ہے، اُس شخص کی مانند ہے جو گھنے جنگل میں بغیر نقشے کے داخل ہو؛ وہ کچھ درخت دیکھ سکتا ہے، کچھ نشانیوں کو پہچان سکتا ہے، مگر وہ بڑی تصویر دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی طرح دین کی بڑی تصویرجب نظر نہ آئے، تو اُس کے سامنے موجود دین ایک مکمل بصیرت میں نہیں ڈھلتا، بلکہ بکھری ہوئی معلومات کا ایک بے ربط مجموعہ بن جاتا ہے۔ یوں نص ہدایت کے سرچشمے سے افراتفری کے منبع میں بدل جاتا ہے۔
یہاں وہ پوشیدہ کردار سامنے آتا ہے جس پر فرد اور معاشرے کی زندگی میں دین کی تقدیر کا فیصلہ ہوتا ہے جسے ہم دین کو پڑھنے کا منہج یا طریقہ کہتے ہیں ۔ مناہج اپنی سطحوں کے تفاوت، اپنی زاویۂ نظر کے اختلاف، اور ان سوالات کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں جو وہ نص پر اٹھائے جاتے ہیں۔ ایک منہج ہے جو قرآن کو فقیہ کی نظر سے پڑھتا ہے اور اس کا مقصد حکم کا استنباط ہوتا ہے۔ ایک منہج ہے جو اسے عارف کی نظر سے دیکھتا ہے، جو روحانی معنی کا متلاشی ہوتا ہے۔ ایک منہج ہے جو اسے مؤرخ کی نظر سے پڑھتا ہے۔ اور ایک منہج ہے جو اسے ایک علمی کتاب کے طور پر دیکھتا ہے جو انسان اور کائنات کے بارے میں بصیرت فراہم کرتی ہے۔ یہ تمام مناہج، اپنے اختلاف کے باوجود، اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ہی نص مختلف فہم کے کئی راستے کھول سکتا ہے، اور زاویۂ نظر کو محدود کرنا دین کی تصویر کو محدود کر دیتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ منہج محض چند فنی ذرائع و وسائل کا نام نہیں، بلکہ یہ وجود اور زندگی کے بارے میں نظرئے سے عبارت ہے۔ جو شخص نص کو انسان کے بارے میں مایوس کن نظرئے کے ساتھ دیکھتا ہے، وہ دین میں اپنے اس مایوسانہ تصور کی تائید پائے گا۔ اور جو اسے مثبت نگاہ سے دیکھتا ہے، وہ دین کا روشن چہرہ دریافت کرے گا۔ جو شخص نص کو ایسے عقل کے ساتھ پڑھتا ہے جو عادت اور روایت کو مقدس سمجھتا ہے، وہ دین کو ماضی کی ایک نقل بنا دے گا۔ اور جو اسے ایسی روح کے ساتھ پڑھتا ہے جو ارتقاء کے اصولوں کو قبول کرتی ہے، وہ دین میں ایک ایسا ترقیاتی منصوبہ دیکھے گا جو ماضی سے آگے بڑھ کر مستقبل کی طرف لے جاتا ہے۔ یوں منہج طے کرتا ہے کہ ہم نص کو کس طرح دیکھتے ہیں، کس چیز کو مرکزی مانتے ہیں اور کس چیز کو حاشیہ پر رکھتے ہیں، اسی طرح یہ بھی منہج طے کرتا ہے کہ ہم ثابت اور متغیر، لفظ اور مقصد، جزوی اور کلی، اور نص اور حقیقت کے درمیان تعلق کس طرح قائم کرتے ہیں۔
اسی لیے دین کی حقیقی تصویر کو سامنے لانےکا منصوبہ عقائد، اخلاق یا رویّوں سے شروع نہیں ہوسکتا، جب تک کہ ہم ان عقائد، ان اخلاق اور ان رویّوں کو پڑھنے کے طریقے کی اصلاح نہ کریں۔ ہر اصلاح منبع سے شروع ہوتی ہے، اور دین میں منبع نص ہے، جبکہ منہج وہ پل ہے جو نص اور انسان کے درمیان تعلق قائم کرتا ہے۔ اگر پل ٹیڑھا ہو تو انسان نص تک ویسا نہیں پہنچ پائے گا جیسا وہ ہے۔ اور اگر پل مضبوط ہو تو نص انسان کے اندر وہی کچھ تعمیر کر سکے گا جو اللہ نے چاہا ہے: ایک واضح عقل، ایک صاف ضمیر، ایک عادل نفس، ایک بلند سلوک، اور ایک ایسی تہذیب جو اس کتاب کے نور سے مشابہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ ’’دین کو پڑھنے کا منہج‘‘ ہر علمی یا اصلاحی منصوبے میں مرکزی مسئلہ بن جاتا ہے۔ جب ہم تدیّن کے بحران، فکری انحراف، شدت پسندی اور غلو، دینی لا پروائی، یا رسومات اور اقدار کے درمیان اضطراب کی بات کرتے ہیں، تو دراصل ہم نص کے بحران کی نہیں بلکہ منہج کے بحران کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ قرآن نہیں بدلا، سنت نہیں بدلی، لیکن وہ منہج جس کے ذریعے مسلمان اپنی نصوص کو پڑھتے ہیں، تاریخ میں کبھی عروج اور کبھی زوال سے گزرا ہے۔ اور اگر ہم جاننا چاہیں کہ کیوں ایک معاشرہ روشن خیال اسلام پیدا کرتا ہے جبکہ دوسرا معاشرہ شدت پسند اسلام پیدا کرتا ہے، تو اس کا جواب یہاں سے شروع ہوتا ہے: پڑھنے کا طریقہ۔
دین کو پڑھنے کے منہج پر دوبارہ غور کرنا کوئی علمی عیاشی نہیں، نہ ہی یہ فلسفیانہ گفتگو ہے جو حقیقت کے مسائل سے دور ہو، بلکہ یہ ایک فوری ضرورت ہے تاکہ دین مسلمانوں کے شعور میں اپنی موجودگی دوبارہ حاصل کرے، اور ایمان ایک ایسا منصوبہ بن جائے جو زندگی کو تعمیر کرے، نہ کہ محض ہوائی نعروں میں بدل جائے۔ وہ دین جو اللہ نے رحمت للعالمین بنا کر نازل کیا ہے، وہ جمود، افراتفری یا تشدد کا سبب نہیں بن سکتا، مگر اس وقت جب اسے اس کے مقاصد اور روح کے خلاف پڑھا جائے۔ درست منہج وہ ہے جو نص اور عقل، قرآن اور حقیقت، وحی اور زندگی کے درمیان تعلق کو دوبارہ منظم کرے؛ نہ اس لیے کہ نص کو جدیدیت میں ملا دیا جائے، بلکہ اس لیے کہ نص اور انسان کے درمیان زندہ تعلق کو تازہ کیا جائے۔
یہ منصوبہ دین کو اس کے فطری سیاق میں واپس لانے کی آرزو کا عکاس ہے: ایک منبع جو نص سے شروع ہوتا ہے، پھر باشعور فہم میں ڈھلتا ہے، پھر ثقافتی شعور میں بدلتا ہے، پھر ایسے عمل میں ظاہر ہوتا ہے جو اس کی اقدار کو مجسم کرتا ہے، اور آخرکار ایک تہذیبی راستے میں ڈھلتا ہے جو امت پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ جب ہم اس سلسلے کو سمجھتے ہیں تو جان لیتے ہیں کہ کسی ایک کڑی میں خلل اس کے بعد آنے والی تمام کڑیوں پر اثر انداز ہوگا۔ اگر ابتدائی فہم ادھورا ہو تو ثقافتی شعور کمزور ہوگا، اور اگر شعور کمزور ہو تو عمل بگڑ جائے گا، اور اگر عمل بگڑ جائے تو اس سے پیدا ہونے والی تہذیب لنگڑی ہوگی۔ پس منہج وہ پوشیدہ کڑی ہے جو ابتدا کو انتہا سے جوڑتی ہے، اور نص کے منبع کو امت کی تقدیر سے ملا دیتی ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم دین کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کریں جیسا اللہ نے چاہا ہے: ایسا نور جو عقلوں کو کھولے، نہ کہ ایسا قید جو انہیں بند کر دے؛ ایسی رحمت جو نفوس کو سنوارے، نہ کہ ایسا خوف جو انہیں مفلوج کر دے؛ دین زندگی کا منصوبہ بنے ، نہ کہ اس سے کنارہ کشی کا ذریعہ ۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک وہ منہج، جس کے ذریعے ہم دین کو پڑھتے ہیں، اس قابل نہ ہو کہ جو لفظ کو اس کی روح واپس دے، مقصد کو اس کا مرکز لوٹائے، انسان کو اس کا مقام عطا کرے، اور زندگی کو اس کا معنی بخشے۔ وہ دین جو اس لیے آیا کہ لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالے، اپنی ذمہ داری اس وقت ہی ادا کر سکتا ہے جب انسان کے پاس صحیح اوزار ہوں تاکہ وہ اس کے نور سے ہدایت پائے۔
اور یہی وہ مقام ہے جہاں سے راستہ شروع ہوتا ہے: دین کو پڑھنے کے ہمارے طریقے پر نظرِ ثانی، اس پل کی دوبارہ تعمیر سے جو نص اور حقیقت کو جوڑتا ہے، ایک نیا شعور جو یہ کہتا ہے کہ دین صرف وہ نہیں جو ہم عقیدہ رکھتے ہیں یا عمل کرتے ہیں، بلکہ وہ ہے جو ہم سمجھتے ہیں اور درست منہج سے سمجھتے ہیں، جو ہم جیتے ہیں اور درست سمجھنے کے بعد جیتے ہیں، اور جب وحی ایک ایسی بصیرت میں بدل جاتی ہے جو انسان کو بھی تعمیر کرتی ہے اور تاریخ کو بھی, اس وقت جو ہماری زندگی تعمیر کرتا ہے تو وہ در اصل ہمارا دین ہے۔


