18 جمادي الاول 1447 هـ   9 نومبر 2025 عيسوى 7:09 am کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | احکامِ اجتماعی |  مادّہ پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان اور انسانیت کا مستقبل
2025-11-06   72

مادّہ پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان اور انسانیت کا مستقبل

شیخ معتصم السید احمد

دنیا کے بارے میں مادی نقطۂ نظر جدید دورکی سب سے اہم فکری تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ اس فکر کی بنیاد غیب سے مکمل انقطاع اور انسان کو خدا کی جگہ پر بٹھانے کے تصور پر رکھی گئی۔ یعنی وجود کی تشکیل اور مستقبل کی تعمیر میں اب انسان خود مرکزِ کائنات بن گیا۔ یہ تبدیلی کسی وقتی ردِّ عمل کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ یہ  کلیسا اور سائنس کے درمیان طویل کشمکش کا وہ تاریخی تسلسل تھا جو بالآخر اس انجام تک پہنچا کہ آسمانی وحی کو سائنس کے دائرے سے باہر کر دیا گیا اور تجربہ و عقل کو ایمان اور وحی کا قائم مقام سمجھ لیا گیا۔

جب اہلِ مغرب میں یہ بنیادی انقلاب برپا ہوا تو "مستقبل" ایک خالص زمینی منصوبہ بن گیا، جس کی سمت اب اصولوں اور اخلاقی اقدار کے بجائے مفادات اور ٹیکنالوجی طے کرنے لگے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے دورِ حاضر کا انسان بحران کا شکار ہوا وہ انسان جو یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اس نے خود کو پابندیوں سے آزاد کر لیا ہے، مگر درحقیقت وہ ایک نئی  اور کہیں زیادہ سخت اور گہری مشکل میں گرفتار ہوگیا۔ مادی نقطۂ نظر یورپی نشاۃِ ثانیہ کے بطن سے جنم لیتا ہے، جب یہ اعلان کیا گیا کہ انسان ہی فطرت کا واحد حاکم ہے، اور اس کی ترقی اب آسمان سے تعلق کے بجائے صرف اس کی عقل پر منحصر ہے۔ پھر صنعتی انقلاب آیا، جس نے اس تصور کو مزید مضبوط کیا کہ وقت ایک مسلسل اوپر کی سمت بڑھنے والی حرکت ہے یعنی پیداوار اور کھپت کی جانب۔ چنانچہ  اسطرح"مستقبل" کا مفہوم بھی بدل گیااور وہ اب ایک الٰہی وعدے کے بجائے انسانی کارنامہ بن گیا، اور عدل کے انتظار کے بجائے منافع کی دوڑ میں تبدیل ہو گیا۔

بیسویں صدی میں یہ نظریہ اس وقت اپنی انتہا کو پہنچا، جب اثباتیت (Positivism)، مارکسیت (Marxism) اور لبرل ازم (Liberalism) جیسی فکری تحریکیں نے، اگرچہ اپنے طریقوں اور ذرائع میں مختلف رہیں، لیکن سب نے ایک نکتے پر اتفاق کیا کہ غیب کی کوئی حقیقت نہیں، اور مذہب کا معاشرتی و فکری دائرے میں کوئی مقام نہیں۔ مارکس نے یہ تصور پیش کیا کہ مستقبل طبقاتی جدوجہد کے خاتمے پر تعمیر ہوگا، جہاں انسان ایک مکمل اشتراکی معاشرہ قائم کرے گا۔ دوسری جانب فُکویاما نے اعلان کیا کہ لبرل جمہوریت ہی تاریخ کا آخری مرحلہ ہے یعنی انسان اپنی ارتقائی منزل کو پا چکا ہے اور اب کسی نئے نمونے یا نظام کی ضرورت نہیں۔ اور یوں فلسفہ ایک نئے زمینی الٰہیات میں ڈھل گیا، جس کا مقصد ایسے انسان کی تخلیق تھا جو سچائی اور مقصد کے بجائے لذت اور منفعت کے لیے جیتا ہے ایک ایسا انسان جو زمین کا فرزند ہے مگر آسمان سے کٹا ہوا۔ تاہم  وہی انسان، جس نے خود کو کائنات کا مرکز قرار دیا تھا، اسے جلد یہ احساس ہوگیا کہ اسطرح تو اس کی زندگی کا کوئی معنی  ہی باقی نہیں رہا۔گویا غیب سے آزادی نے اسے خوشی نہیں دی، بلکہ گمراہی اور خلا میں دھکیل دیا۔ اس لیے کہ وہ روح، جو مادّی مفادات اور نظریات کے نیچے دم توڑ چکی تھی، اب بھی معنی، مقصد اور سکون کی تلاش میں اس کے اندر سے چیخ رہی ہے  ۔بیشک ٹیکنالوجی نے اسے محنتِ شاقہ اور بہت سی ضرورتوں سے آزاد کر دیا، مگر اسی کے ساتھ اس سے انسان کی محبت چھین لی۔ انسانی تعلقات جذبات سے خالی محض "کردار" اور "فرائض" بن کر رہ گئے۔ سائنس نے اگرچہ فطرت کو مسخر کرلیا، لیکن وہ انسان کی باطنی دنیا کو مسخر نہ کرسکا۔ چنانچہ انسان خود اپنی ذات سے کچھ اسطرح  بیگانہ ہوگیا کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہا ہے۔

مشہور فلسفی ہائیڈیگر نے اسی المیے کو یوں بیان کیا ہے  کہ اصل خطرہ ایٹم بم میں نہیں، بلکہ اس بات میں ہے کہ انسان خود ایک بے روح "کارکردگی کا آلہ" بن جائے۔ آج کا انسان ایک طویل "حال" میں زندہ ہے جس کا کوئی افق نہیں کیونکہ اس کا مستقبل محض حال کا اعادہ بن چکا ہے، بس نئی تکنیکوں اور مشینوں کے ساتھ۔ اس کے مستقبل میں نہ کوئی وعدہ ہے،اور نہ کوئی معنویت۔ اسی لیے ترقی یافتہ معاشروں میں اضطراب، افسردگی اور خودکشی جیسے مسائل شدت اختیار کر گئے ہیں، کیونکہ مادّی آسودگی نے انسانی وجود میں موجود تشنگی کو دور نہیں کیا اگرچہ انسان آج پہلے سے زیادہ وسائل کا مالک ہے، مگروہ  اپنی روح سے پہلے سے زیادہ بیگانہ ہو چکا ہے۔

اوریوں مادی شعور میں مستقبل اب امید کے بجائے خوف کا استعارہ بن چکا ہے۔ وہ انسان جو خود کو کمال کی جانب رواں سمجھتا تھا، درحقیقت فنا کے دہانے پر کھڑا ہے کبھی ایٹمی جنگوں کے خطرے سے، کبھی ماحولیاتی تباہیوں  کے خوف سے، اور کبھی اخلاقی زوال کے خدشے سے کہ یہ آج  خاندان اور معاشرے کی بنیادوں کو ہلا رہا ہے۔ یوں "ترقی" کا نعرہ بذات خود ایک ایسی لعنت میں  بدل گیا ہےجو بغیر مقصد کے انسان کو تاریکی کے غار میں دھکیل رہی ہے، کیونکہ اخلاقی ہدف کے بغیر ترقی دراصل زوال کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

اسی کے ساتھ عدل کا مسئلہ جدید مادّی فکر اور مہدوی شعور کے درمیان سب سے گہری فکری خلیج بن کر سامنے آتا ہے۔ اسلامی تصور میں عدل، زمین پر خدائی ارادے کا مظہر وجودِ الٰہی کا جوہر اور مقصد ہے۔ مگر مادی فکر کے نزدیک عدل محض ایک سماجی معاہدہ ہے، جو مفادات کے تحفظ اور طاقت کے توازن کے لیے بنایا گیا ہے۔

جدید تہذیب، اپنی تمام تر ادارہ جاتی طاقت اور عالمی تنظیموں کی سرپرستی کے باوجود، حقیقی عدل قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس نے عدل کو اخلاق سے جدا کر دیا ہے اور اسے ایک معاشی یا سیاسی مساوات میں بدل ڈالا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں عدل کو مارکیٹ کے مواقع سے تولا جاتا ہے، انسان کی عزت و کرامت سے نہیں؛ اور آمرانہ نظاموں میں عدل کو انضباط و اطاعت سے ناپا جاتا ہے، آزادی سے نہیں۔ یوں دونوں کے درمیان روحانی عدل کی اصل قدر گم ہو کر رہ گئی ہے۔

اس کے برعکس، مہدوی تصورِ عدل میں عدل کوئی قانونی یا انتظامی ڈھانچہ نہیں، بلکہ خدا کی تجلی ہے وہ وعدہ جو انسان اور معاشرے کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، روح اور مادّے میں توازن قائم کرتا ہے، اور انسان کو اس کے خالق سے جوڑ دیتا ہے۔ جب امامِ مہدی (عجّل اللہ فرجہ) ظہور فرمائیں گے، تو وہ صرف نظامِ حکومت کو درست نہیں کریں گے بلکہ انسان کے باطن کو بھی سنواریں گے۔ نفسِ انسانی کو خودغرضی اور حرص کے میل سے پاک کریں گے، اور تاریخ کو اس کے اصل غائی و الٰہی رخ پر لوٹا دیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مہدویت انسان کے لیے کامل الٰہی عدل کا وعدہ ہے ایسا عدل جو کسی زمینی منصوبے کی بساط سے ماورا ہے۔ قرآن کریم اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے: ﴿وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ

یعنی جو شخص رحمان کی یاد سے منہ موڑتا ہے، ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں جو اس کا ہم دم بن جاتا ہے۔

یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جو قوم یا فرد وحی سے منقطع ہو جائے، وہ خواہ کتنی ہی طاقت حاصل کر لے، آخرکار ظلمات کے حصار میں گھر جاتا ہے۔

جدید بحران کی سب سے نمایاں شکل وہ ہے جسے ٹیکنالوجی کی الوہیت کہا جا سکتا ہے۔ وہ ذرائع جو انسان کی خدمت کے لیے بنائے گئے تھے،آج وہ بذات خود مقصد بن گئے ہیں، اور انسان اب اپنے ہی ہاتھوں کی تخلیق کا غلام بنتا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی جو کبھی انسان کی معاون تھی، اب اس کی آقا بن چکی ہے جو اس کے شعور اور رویّے کو از سرِ نو تشکیل دے رہی ہے۔

مصنوعی ذہانت اور الگورتھموں (Algorithms) کی دنیا میں انسان اب ہر لمحہ نگرانی کے دائرے میں ہے۔ اس کی حرکات، فیصلے اور خواہشات تک ڈیٹا میں بدل دیے گئے ہیں ایسا ڈیٹا جو تجزیہ اور ہدایت کے ذریعے بڑے مفادات کی خدمت کرتا ہے۔ اور یوں ٹیکنالوجی کی ترقی اب انسانی ارتقا کے مترادف نہیں رہی بلکہ اکثر اوقات یہ انسان سے انسانیت چھین لینے کے مترادف بن چکی ہے۔ آج مجازی دنیا اپنی وسعت میں جتنی پھیلتی جا رہی ہے، اتنا ہی حقیقی انسانی وجود محدود ہوتا جا رہا ہے۔ اور جتنے ذرائعِ رابطہ بڑھتے ہیں، انسانوں کے درمیان تنہائی اتنی ہی گہری ہوتی  چلی جاتی ہے۔

خود مغربی مفکرین کی ایک بڑی تعداد اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ جدید تہذیب ایک عظیم وجودی بحران (Existential Crisis) کی طرف بڑھ رہی ہے، کیونکہ اس نے مادّہ اور روح، وسیلہ اور مقصد، طاقت اور ذمہ داری سب کے درمیان توازن کھو دیا ہے۔ نتیجتاً، ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا کو تیز رفتار اور مربوط بنایا ہے، وہیں انسان کو  ایک بے روح مشین میں بدلنے کا خطرہ بھی بڑھا دیا ہے۔

تکنیکی پیشرفت اور اخلاقی انحطاط کا یہ تضاد دراصل پورے مادی منصوبے کی گہری خرابی کو بے نقاب کرتا ہے۔ جب علم ضمیر سے جدا ہو جائے تو وہ تعمیر نہیں بلکہ تباہی کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ انسانیت نے دو عظیم عالمی جنگوں میں جو قتل و غارت اور بربادی دیکھی، وہ اسی بے ایمان عقل کا سیاہ کارنامہ تھی۔ آج جب جینیاتی تجربات، خودکار اسلحہ اور قاتل روبوٹ تیار کیے جا رہے ہیں، تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مادی مستقبل پہلے سے زیادہ خطرناک سمت میں بڑھ رہا ہے۔ کیونکہ وہ تہذیب جو یہ نہیں پوچھتی کہ "ہم کیوں جیتے ہیں؟" وہ کبھی یہ نہیں جان سکتی کہ "ہم کہاں جا رہے ہیں؟" چنانچہ وہ مستقبل جو لیبارٹریوں میں اخلاقی رہنمائی کے بغیر تراشا جا رہا ہے، خواہ بظاہر کتنی ہی چمک رکھتا ہو، درحقیقت تاریکی اور گمراہی سے لبریز ہے۔

اس کے بالمقابل، اسلام خصوصاً مہدوی شعور ایک بالکل مختلف تصورِ مستقبل پیش کرتا ہے۔ یہ تصور انسان کو مقصدِ تخلیق قرار دیتا ہے، نہ کہ محض ایک وسیلہ؛ اور ترقی کو انسانی کمال کے حصول کا ذریعہ بناتا ہے، نہ کہ انسان کے خاتمے کا۔ قرآن کریم کے نزدیک مستقبل کوئی حادثاتی یا غیر متعین زمانہ نہیں، بلکہ یہ ایک الٰہی وعدہ ہے جو ربّانی سنّتوں کے عین مطابق پورا ہوتا ہے۔ یہ وعدہ ہے ظلم کے خاتمے اور عدلِ کامل کے آغاز کا یہ یقین کہ تاریخ کسی بے سمتی میں نہیں بھٹک رہی، بلکہ اپنے الٰہی مقصد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہاں سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ جدید دنیا کا بحران نہ وسائل کا ہے اور نہ علم کا، بلکہ دراصل روح اور معنی کا بحران ہے۔ مادّیت نے انسان کو ہر سہولت دی، مگر اطمینانِ قلب سے محروم رکھا؛ عقلِ انسانی نے بے شمار ذرائع ایجاد کیے، مگر مقصدِ حیات سے خالی رہی۔

جب خدا کو کائنات سے خارج کر دیا جاتا ہے تو خود وجود اپنا مفہوم کھو دیتا ہے، کیونکہ اللہ ہی غایت، رحمت اور عدل کا سرچشمہ ہے۔ اسی لیے مستقبل کے بحران کا کوئی حل ممکن نہیں، جب تک انسان خدا کی طرف واپسی نہ کرے اس وعدۂ الٰہی کی طرف جو امامِ مہدی (عجّل اللہ فرجہ) کی ذات میں مجسم ہوتا ہے۔ وہی مصلحِ اعظم ہیں جو انسان کو دوبارہ توازن عطا کریں گے، اور تاریخ کو اس کی کھوئی ہوئی سمت  الٰہی مقصد اور عدلِ کامل کی جانب واپس لوٹائیں گے۔

مادیّت اور مہدویّت کا فرق محض ایک فکری یا فلسفیانہ اختلاف نہیں، بلکہ یہ دو روحوں کا تصادم ہے ۔ایک وہ روح جو یقین رکھتی ہے کہ کائنات کا ایک الٰہی مقصد ہے، اور دوسری وہ جو اس مقصد کا انکار کر کے اپنی ہی لایعنی فکر میں غرق ہے۔  مہدویّت ایک ایسے مستقبل کی بشارت دیتی ہے جس میں انسان اپنی مکمل انسانیت کو پا لیتا ہے؛ جبکہ مادیّت ایک ایسے مستقبل کا وعدہ کرتی ہے جس میں انسانیت مادّے کے بوجھ تلے دب کر مٹ جاتی ہے۔

آج کا انسان ان دونوں راستوں کے سنگم پر کھڑا ہے یا تو وہ ایک بے مقصد دوڑ میں ہلاکت تک بھاگتا رہے، یا پھر وہ آسمان سے اپنا رشتہ جوڑ کر خود کو دوبارہ دریافت کرے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مادی نقطۂ نظر، اپنی تمام حیران کن کامیابیوں کے باوجود، آج اپنے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہے، کیونکہ اس نے وعدے پر ایمان کھو دیا اور معنی کی دولت گنوا دی۔ اس کے برعکس، ایمانی اور مہدوی شعور مستقبل کو دوبارہ روح بخشتا ہے۔ یہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ عدل کوئی خواب خیالی نہیں، بلکہ ایک الٰہی وعدہ ہے ایک ایسی ساعت کا وعدہ جب انسان اپنی کھوئی ہوئی انسانیت دوبارہ پائے گا، اور یہ دنیا اپنے خالق کی طرف لوٹ آئے گی۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018