

| احکامِ اجتماعی | ایمان: ذہنی دباؤ اور باطنی کمزوری کے خلاف حفاظتی حصار

ایمان: ذہنی دباؤ اور باطنی کمزوری کے خلاف حفاظتی حصار
الشیخ معتصم السیّد احمد
ہمارے زمانے کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ زندگی کی رفتار غیر معمولی تیزی اختیار کر چکی ہے۔ روزمرّہ کے معمولات میں معاشی دباؤ، سماجی کشمکش اور نفسیاتی تناؤ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ان حالات نے افسردگی (ڈپریشن) کو ایسا چیلنج بنا دیا ہے جو نہ صرف فرد کے باطنی سکون اور داخلی توازن کو متزلزل کرتا ہے بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کے استحکام کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے مرض نے محققین اور عام افراد، دونوں کو اس سوال پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے کہ اس کا علاج کن صورتوں میں ممکن ہے، اور کیا دین اس بیماری کے انسداد یا اس کے اثرات کو کم کرنے میں کوئی حقیقی اور مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے ضروری ہے کہ ہم دو سطحوں میں فرق کریں۔ پہلی سطح وہ ہے جو طبی علاج سے متعلق ہے۔ یہ میدان ماہرینِ نفسیات اور اطبّا کے ساتھ خاص ہے۔ وہ سائنسی اور تجرباتی بنیادوں پر بیماری کی تشخیص کرتے اور اس کے مطابق دوائیں تجویز کرتے ہیں۔دوسری سطح وہ ہے جو انسان کی داخلی دنیا اور نفسیاتی ساخت سے جڑی ہے۔ اس کا تعلق اسباب کی روک تھام، شعور کی بیداری اور انسان کے اندرونی حوصلے کو تقویت دینے سے ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں دین اپنی روحانی، فکری اور اخلاقی قوت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور بطورِ معاون و متمم ایک اہم کردار ادا کرتا ہے
یہ بات بالکل واضح ہے کہ دین خود کو علاجِ دوائی کا متبادل نہیں قرار دیتا۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ وہ ایک قائم شدہ نفسیاتی مرض کے لیے نسخۂ شفا پیش کرے۔ بلکہ دین کی اصل قوت یہ ہے کہ وہ انسان کو ایک جامع زاویۂ نظر اور بامقصد طرزِ حیات عطا کرتا ہے۔ یہ طرزِ حیات فرد کے باطن میں ایسی پختگی پیدا کرتا ہے جو اسے بحرانوں کے وقت ٹوٹنے نہیں دیتی بلکہ اس کے وجود کو صبر، امید اور توازن کے ساتھ قائم رکھتی ہے۔
اگر ہم دین کے اس حفاظتی پہلو کو بہتر طور پر سمجھنا چاہیں تو ہمیں ان باطنی اور نفسیاتی عوامل پر نظر ڈالنی ہوگی جو انسان کو افسردگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ کیونکہ خارجی حالات اکیلے اس بیماری کو پیدا نہیں کرتے۔ ایک ہی جیسے حالات میں مختلف افراد مختلف ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں، اور یہی تنوّع اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ فیصلہ کن عوامل انسان کی داخلی ساخت اور اس کے شعور و وجدان میں پوشیدہ ہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جس نے نفسیات کے مختلف مکاتبِ فکر کو جنم دیا۔ مثال کے طور پر مدرسۂ تحلیلِ نفسی جسے سگمنڈ فرائیڈ نے بنیاد ڈالی ، اس نے انسانی شخصیت کی تشکیل میں لاشعور اور نفسیاتی عقدوں کو بنیادی اہمیت دی۔ اس کے نزدیک انسان کا ظاہر صرف اس کے لاشعور کا عکس ہے، جو دبے ہوئے تجربات سے لبریز ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ نقطۂ نظر انسان کے نفسیاتی تجزیے میں ایک گہرا پہلو فراہم کرتا ہے، لیکن اس کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ اس نے انسان کے روحانی جہت کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ یوں انسان کو محض جبلّی تقاضوں خصوصاً جنسی جبلّت کے تابع سمجھنے کی کوشش کی گئی، جو انسانی حقیقت کا ادھورا اور ناقص تصور ہے۔
بعد کے ادوار میں زیادہ متوازن اور ہمہ گیر نظریات سامنے آئے جنہوں نے نفسیاتی مسائل کو صرف لاشعور یا حیاتی تقاضوں تک محدود نہیں رکھا، بلکہ تربیت، ماحول، معاشرتی اثرات اور مذہبی یا وجودی شعور کو بھی اس تجزیے کا حصہ بنایا۔ انہی فکری ارتقاءات کے نتیجے میں ایک نہایت اہم اور جدید رجحان سامنے آیا جسے علاج بالمعنی (Logotherapy) کہا جاتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد یہ ہے کہ جب انسان اپنی زندگی میں مقصد اور معنویت سے محروم ہو جائے تو وہ افسردگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور جب اس کے لیے زندگی کے معنی کو دوبارہ دریافت کیا جائے اور اس کے سامنے ایک مثبت اور بامقصد نظریۂ حیات رکھا جائے تو یہی عمل اس کے نفسیاتی توازن کو بحال کرنے اور بیماری سے نکلنے کا سب سے مؤثر ذریعہ بن جاتا ہے۔
دین معنویت اور توازن کا سرچشمہ
یہی وہ مقام ہے جہاں دین کی اصل اہمیت جلوہ گر ہوتی ہے۔ دین محض ایمان اور عقیدے کا سہارا نہیں، بلکہ وہ انسانی حیات کو گہری معنویت اور ہمہ گیر مقصدیت عطا کرتا ہے۔ یہ انسان کو صرف مادی دنیا کی محدود تشریحات میں مقید نہیں کرتا بلکہ اس کے سامنے ایک وسیع اور روشن افق وا کرتا ہے جو مادّی مفاد اور عارضی خواہشات سے بلند ہو کر اعلیٰ اقدار، ابدی حقائق اور غایاتِ کبریٰ تک پہنچاتا ہے۔ دین وجود کے راز کو بے نقاب کرتا ہے، آزمائشوں کی حکمت کو واضح کرتا ہے اور موت کے بعد کے انجام کو ایک بامعنی و منصفانہ منزل کی صورت میں سامنے لاتا ہے۔
جب انسان اس ایمان کو اختیار کر لیتا ہے کہ حیات محض غم و آلام کے لمحاتی تجربے کا نام نہیں، بلکہ یہ الٰہی عدل اور اخروی جزا و ثواب کے وسیع تناظر سے جڑی ہوئی ہے، تو وہ دکھ اور مصیبت کو زیادہ صبر، حوصلے اور وقار کے ساتھ سہنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ خدا سے تعلق، جو قوت و رحمت کا لامحدود سرچشمہ ہے، انسان کے دل کو سکینت، اعتماد اور اطمینان بخشتا ہے اور یوں وہ نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ اور باطنی انہدام سے محفوظ رہتا ہے۔ یہی حقیقت قرآنِ مجید نے ایک جاودانی صداقت کے طور پر بیان کی ہے:
﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾. (الرعد:28)
(یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یادِ خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں یاد رکھو! یاد خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے
یہ کوئی محض مجازی یا خطیبانہ تعبیر نہیں کہ ذکرِ خدا دلوں کو اطمینان بخشتا ہے، بلکہ یہ ایک یقینی اور تجرباتی حقیقت ہے۔ اس کا اثر محض جذباتی نہیں بلکہ نفسیاتی اور عقلی بھی ہے، جو انسان کے باطن کو تسلیم، اعتماد اور رضا کی بنیاد پر گہرا سکون عطا کرتا ہے۔
مادیّت پر مبنی معاشروں میں، جہاں انسان کو اس کے جسم اور معاشی ضروریات کے خول تک محدود کر دیا گیا ہے، نفسیاتی اضطرابات اور بے چینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان اپنے روحانی وجود کو معطل کر دیتا ہے، تو وہ زندگی کے طوفانوں کے سامنے ناتواں اور بے سہارا ہو جاتا ہے۔ اگر وہ حیات کو محض اتفاقات کی ایک لاحاصل لڑی سمجھ بیٹھے، اور یہ عقیدہ پال لے کہ مادی وجود ہی سب کچھ ہے اور اس سے آگے کوئی مقصد یا معنویت نہیں، تو اس کی روح گھٹن، بے اطمینانی اور یاسیت کے قفس میں محصور ہو جاتی ہے۔ قرآنِ مجید اسی کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے:
﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾ (طہ:124)
اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی ۔
یہ "تنگ زندگی" محض معاشی ابتری نہیں، بلکہ درحقیقت دل کی تنگی، امید کے زوال اور معنویت کے کا نام ہے۔اس کے برعکس، دین زندگی کو ایک نیا مفہوم عطا کرتا ہے، انسان کے اندر یہ صلاحیت بیدار کرتا ہے کہ وہ محض ظاہری حقائق سے آگے بڑھ کر گہرے معانی تک رسائی حاصل کرے، اور اسے صبر، استقامت اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کی قوت بخشتا ہے۔ یہ سب ایمانِ کامل کے ذریعے ممکن ہوتا ہے کہ ہر امر میں اللہ کی مشیت اور حکمت کارفرما ہے؛ ہر دکھ کے پسِ پردہ کوئی پیغام چھپا ہے، ہر تاخیر کے پیچھے ایک آزمائش ہے، اور ہر سانحے میں اپنے باطن کی طرف لوٹنے کا ایک موقع پنہاں ہے۔
یہ حقیقت پوری صراحت کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے کہ دین بذاتِ خود افسردگی یا دیگر نفسیاتی عوارض کا کوئی دوائی علاج فراہم نہیں کرتا۔ دین نہ تو ماہرِ نفسیات کی کلینک ہے اور نہ ہی طبی نسخوں کا متبادل۔ تاہم، دین انسان کو وہ فکری، روحانی اور عملی ماحول عطا کرتا ہے جو اس کی شخصیت کو متوازن بناتا ہے، اس کے شعور کو وسعت دیتا ہے اور اسے زندگی کے کٹھن مراحل کا سامنا مثبت اور تعمیری رویّے کے ساتھ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے۔ اس معنی میں دین کو ایک وقائی حصار کہا جا سکتا ہے جو انسان کو اندرونی انہدام سے بچاتا اور اسے نفسیاتی استقامت عطا کرتا ہے۔
ایسا شخص جو دین کے حقیقی شعور سے بہرہ ور ہو، اس کے اصول و اقدار کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائے، اور اپنے عقیدے کو زندہ تجربے کی صورت میں برتے، وہ عام انسانوں کی نسبت ڈپریشن کے گہرے گڑھے میں گرنے سے کہیں زیادہ محفوظ رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان روحانی و اخلاقی اوزاروں سے لیس ہوتا ہے جو نفسیاتی مزاحمت کی بنیاد ہیں: توکل جو انسان کو بے سہارگی سے نجات دیتا ہے، صبر جو طوفانوں میں استقامت بخشتا ہے، امید اور رجاء جو دل کو روشن رکھتے ہیں، مغفرت جو انسان کو ماضی کے بوجھ سے آزاد کرتی ہے، اور رضا جو زندگی کو معنی اور وقار عطا کرتی ہے۔ یہ سب کیفیات اپنی تاثیر میں محض علاجی نشستوں یا ادویات کے متبادل ہی نہیں بلکہ بعض اوقات ان سے کہیں زیادہ گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کرتی ہیں، کیونکہ یہ انسان کی روح اور ضمیر کو براہِ راست مخاطب کرتی ہیں۔
اسی وجہ سے جدید نفسیات کے بعض معاصر رجحانات نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ اب علاجی ماڈلز میں مذہبی اور روحانی جہات کو مربوط کیا جا رہا ہے، جیسے ایمان سے تقویت یافتہ علمی و عملی یا وجودی علاج جس میں دینی بُعد شامل ہو۔ بالخصوص ان معاشروں میں جہاں مذہب صرف انفرادی عقیدہ نہیں بلکہ اجتماعی نفسیاتی ساخت کا لازمی جزو ہے، وہاں یہ طریقے نمایاں طور پر زیادہ کامیاب اور مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔
اختتامیہ: نفس کی معرکہ آرائی میں دین کی خاموش قوت
بالآخر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دین کو طبی علاج کا براہِ راست متبادل نہیں سمجھا جا سکتا۔ لیکن اس کی اصل افادیت یہ ہے کہ وہ انسان کو اس مقام تک گرنے سے بچا لیتا ہے جہاں نفس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو اور روح اپنی طاقت کھو بیٹھے۔ دین، اپنے مکمل نظامِ ایمان و عقیدہ، سلوک و عبادت اور اخلاق و کردار کے ذریعے، ایک متوازن اور ہم آہنگ شخصیت کو جنم دیتا ہے۔ ایسی شخصیت جو زندگی کو محض مادی حالات کی تنگ نگری سے نہیں بلکہ ایک وسیع تر اور بامعنی افق سے دیکھتی ہے۔ اسے یہ شعور حاصل ہو جاتا ہے کہ انسان حالات کا غلام نہیں بلکہ اپنی تقدیر اور اپنے مستقبل کی تشکیل میں ایک فعال کردار رکھتا ہے۔
اسی بنا پر دین، خصوصاً اسلام، انسان کی افسردگی اور روحانی بحران کے مقابلے میں ایک مضبوط سہارا اور باطنی قوت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ اُس وقت چراغِ راہ بن جاتا ہے جب دنیاوی حیات کی روشنی مدھم پڑنے لگتی ہے؛ یہ اُس وقت معنی عطا کرتا ہے جب اشیاء اپنی معنویت کھو بیٹھتی ہیں؛ اور یہ اُس وقت انسان کو ایک قادر و رحیم پروردگار سے جوڑ دیتا ہے جب زمین اپنے تمام تر اسباب کے باوجود اُسے امن و امان دینے سے عاجز ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا:
﴿فَمَن يُرِدِ اللَّهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ﴾. (الانعام:125)
پس جسے اللہ ہدایت بخشنا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو۔
چنانچہ جو کوئی چاہتا ہے کہ زندگی کے ہنگاموں، آزمائشوں اور بحرانوں کے بیچ اس کے دل میں کشادگی اور سکون پیدا ہو، اُسے چاہیے کہ اپنے قلب میں اللہ کے لیے جگہ بنائے۔ کیونکہ اطمینان نہ تو کثرتِ مال و اسباب میں ہے اور نہ ہی مادی کامیابیوں کے انبار میں۔ اصل اطمینان اس بات میں ہے کہ دل معنویت سے لبریز ہو، اور یہ معنویت اللہ کے ذکر کے بغیر ممکن نہیں۔ بلاشبہ، اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو سکون اور روحوں کو قرار نصیب ہوتا ہے۔