10 ربيع الاول 1447 هـ   3 ستمبر 2025 عيسوى 10:57 pm کربلا
موجودہ پروگرام
مین مینو

 | احکامِ اجتماعی |  اسلامی تراث کی تشکیلِ نو کا سوال: فقیہ، اہلِ فکر اور اہلِ فن میں سے کس کی ذمہ داری ہے؟
2025-08-22   39

اسلامی تراث کی تشکیلِ نو کا سوال: فقیہ، اہلِ فکر اور اہلِ فن میں سے کس کی ذمہ داری ہے؟

الشيخ معتصم السيد أحمد

یہ سوال بہت اہم ہے کہ اسلامی تراث کی تشکیل جدید کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ سوال سنتے ہی پہلے یہ جواب ذہن میں آتا ہے کہ یہ ذمہ داری دینی ادارون کی ہے کیونکہ بظاہر وہی فریق ہے جو اسلام سے متعلق تمام عقائدی، فقہی اور فکری امور کا ذمہ دار ہے۔ یہ ابتدائی سوچ جلد ہی بدل جاتی ہے جب ہم اسلامی تراث کو ایک ایسی تہذیبی میراث کے طور پر دیکھتے ہیں جو دین کے کسی محدود مفہوم میں مقید نہیں بلکہ اس میں وہ سب کچھ شامل ہے جو مسلمانوں نے صدیوں کے دوران علوم، معارف، فنون، ادب اور تعمیرات کے میدان میں حاصل کیا۔ اس بنا پر اسلامی تراث نہ تو صرف فقیہ کی ملکیت ہے اور نہ ہی یہ ایسی پابندی والا موضوع  ہے جہاں دانشور یا اہل فن کا کوئی مقام نہ ہو۔اس کا میدان بہت وسیع ہے ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں اور یہ مضامین کی نوعیت اور ان سے متعلق ماہرین کی مہارت کے مطابق تقسیم ہوتی ہیں۔

اسلامی تراث اپنے جامع مفہوم میں مسلمانوں کی مختلف میدانوں میں سب کامیابیوں کو شامل ہے۔ فقہ، حدیث اور تفسیر سے لے کر فلسفہ، فکر، عقیدہ، فنونِ لطیفہ، موسیقی اور فنِ تعمیر، ادب، شعر اور زبان تک اس میں شامل ہیں۔ یہ علمی و فکری تنوع خود بخود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس تراث کو دوبارہ پڑھنے، اس کی تطہیر یا اس کی ترقی کے عمل میں کئی مختلف علمی حلقے شامل ہوں۔ مثال کے طور پر جب ہم اسلامی فنِ تعمیر کی بات کرتے ہیں تو یہ معاملہ کسی بھی طور صرف فقیہ کے سپرد نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس میں انجینئرنگ، ڈیزائن اور تعمیرات کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر ہم اسلامی تراث میں شعر، ڈرامہ یا موسیقی کی بات کریں تو اس نوع کی تراث کے مطالعے اور فہم کے لیے مفکر، ادبیب یا فنکار زیادہ اہل اور مناسب ہیں۔

لیکن مسئلہ اُس وقت سامنے آتا ہے جب "دینی تراث" کی اصطلاح "اسلامی تراث" کے وسیع مفہوم پر حاوی ہوجاتی ہے۔ یوں مسلمانوں کی علمی میراث کو صرف فقہی، عقائدی اور تفسیری متون تک محدود کر دیا جاتا ہے اور باقی پہلوجو اسلامی تہذیبی تجربے کا بنیادی حصہ رہے ہیں انہیں پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کے نیتجے میں یہ رجحان پیدا ہوتا ہے کہ ساری تراث کو صرف فقیہ کی ذمہ داری سمجھ لیا جائے، حالانکہ یہ تخصص کے ضابطے کے خلاف ہے۔ ہر فن کے ماہر کو ہی اس کا ذمہ دار ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ ہی اُن دوسرے طبقات کی شمولیت کو نظرانداز کر دیتا ہے جو اس تراث کے اہم پہلوؤں کو زیادہ وسیع اور زیادہ تخلیقی زاویے سے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس کے بالمقابل ایک اور خطرناک مغالطہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ سب لوگوں کے لیے اسلامی تجدد کا دروازہ کھول دیا جائے جس کی دلیل یہ ہے کہ دین سب کے لیے ہے لہٰذا ہر دانشور، فنکار یا صحافی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نازک دینی مسائل پر اپنی رائے دے سکتا ہے اور عقیدہ، فقہ اور تفسیر جیسے موضوعات کو زیر بحث لا سکتا ہے۔گویا یہ ایسے علوم ہیں جنہیں کسی خاص مہارت یا تخصصی منہج کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ ایسا مغالطہ ہے جوعام بازاری گفتگو میں بار بار دہرایا جانے لگا ہے، جہاں معاملے کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا جو شخص غیر ماہرین کی دینی تراث میں مداخلت کو رد کرتا ہے وہ دین کو اپنے لیے مخصوص کر رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دین کے احکام سب لوگوں کے لیے ہیں لیکن دینی علوم باقی تمام علوم کی طرح ایک منظم اور طویل مطالعہ چاہتے ہیں اور ان کے لیے واضح علمی مہارتوں اور مخصوص طریقۂ کار کی ضرورت ہوتی ہے۔

چنانچہ اسلامی علوم بھی بالکل اسی طرح ہیں جیسے طب، انجینئرنگ، طبیعیات اور معیشت کے علوم ہیں انہیں سمجھنے کے لیے مہارتیں اور طریقۂ کار ہےاور اس میں عام لوگوں کی گفتگو قابلِ قبول نہیں ہوتی اس میں عام رائے یا حادثانی نتائج پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر علمِ اصولِ فقہ کوئی ایسا میدان نہیں جہاں ثقافتی تجربات کیے جائیں اور نہ ہی علمِ کلام کا دائرہ ایسا دائرہ ہے جہاں محض اچانک اُٹھنے والے سوالات سے کام لیا جا سکے بلکہ یہ وہ دقیق علوم ہیں جو صدیوں کی علمی محنت کے نتیجے میں وجود میں آئے ہیں اور جن کے لیے گہری فلسفیانہ، منطقی اور لسانی بنیادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی بات علمِ رجال، علمِ حدیث، تفسیر، عقیدہ اور دیگر دینی علوم پر صادق آتی ہے۔

اگرچہ ہر مسلمان کو دینی علوم سے دل چسپی رکھنے کا حق حاصل ہے، لیکن یہ دلچسپی اسے خود بخود یہ حق نہیں دیتی کہ وہ احکام صادر کرے یا علمی تنقید کرے جب تک اس کے پاس مضبوط علمی مہارتیں اور تسلیم شدہ معیارات نہ ہوں۔ اسی لیے یہ کہنا کہ دین سب کے لیے ہے اس معنی میں نہیں کہ "دینی علم" بھی سب کے لیے یکساں طور پر ہے۔ یہاں ایک بنیادی فرق موجود ہے۔ ایک طرف انسان کے عقیدہ رکھنے اور دینی اعمال بجا لانے کے حق میں یہ اصول بالکل درست ہے۔دوسری طرف ان خاص موضوعات پر رائے کو دینا اور پھر اس کے نتیجہ میں احکامات کو اخذ کرنے جیسا دقیق امر ہے۔

لہٰذا اگر ہم اسلامی تراث کی تشکیل نو کو اس کے سائنسی و تنقیدی مفہوم میں سمجھیں تو یہ کام متخصصین کے علاوہ کوئی اور انجام نہیں دے سکتا۔ فقہی، عقائدی یا حدیثی تراث کی تطہیر لازمی طور پر ان اہلِ علم کے ہاتھوں ہونی چاہیے جو اس میدان میں پختہ مہارت رکھتے ہوں۔ اسی طرح ادبی، فنّی اور معماری تراث کے جائزے کے لیے انہی شعبوں کے ماہرین درکار ہیں۔ البتہ عام مفہوم میں دانشورایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے، مثلاً مختلف علمی کاوشوں کو آپس میں جوڑنا، انہیں عام فہم بنانا اور ان کی ترویج میں حصہ ڈالنالیکن وہ کسی ماہر کی جگہ نہیں لے سکتا۔ جیسے فنکار فقیہ کا متبادل نہیں ہو سکتا، اسی طرح فقیہ بھی مؤرخ، مفکر یا معمار کا متبادل نہیں ہو سکتا۔

یہاں یہ امتیاز قائم رکھنا ضروری ہے کہ سوال اٹھانے کا حق ایک بات ہے اور مداخلت کرنے کا حق دوسری بات ہے اور یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ تراث کے بعض مسائل پر سوال اُٹھانا ایسے متون کا ہونا جو عصر حاضر کے منافی ہوں یا بعض اہم مسائل پر خاموشی اختیار کرتے ہوںیہ ہر باشعور مسلمان کا حق ہے۔ لیکن قطعی جوابات دینا، احکام صادر کرنا یا یہ طے کرنا کہ کس چیز کو باقی رہنا چاہیے اور کس کو حذف کرنا چاہیےیہ سب ہر میدان کے ماہرین کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ ہم علمی نقد پیدا کرنے کی بجائے ایک ایسی فکری افراتفری میں مبتلا ہو جائیں گے جو صرف ابہام اور الجھاؤ کو جنم دے گی۔

تراث اور تخصص کے اس متوازن فہم سے ایک پختہ علمی ماحول پیدا ہوسکتا ہے جہاں فقیہ اور دانشور باہمی گفتگو کریں اور مفکر اور فنکار ایک دوسرے کی مدد کریں اس میں کوئی کسی کا کردار نہیں چھینا چاہتا۔ اسلامی تراث پوری امت کی ملکیت ہے لیکن یہ ایسا میدان بھی نہیں جو فکری بدنظمی یا مادر پدر آزاد میڈیا کے بیانیے کے لیے کھلا چھوڑ دیا جائے بلکہ یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جو تراث کی نوعیت اور تخصص کی خصوصیت کے مطابق انجام ہوتی ہے۔اور اگر ہم واقعی اپنی اسلامی تراث کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور اسے حال و مستقبل کے لیے نئے انداز سے پڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً ماہرین کا احترام کرنا ہوگا، ان کے درمیان پل بنانا ہوں گےاور اہلِ علم و اہلِ فکر، فقیہ و دانشور، دینی مرجعیت اور ثقافتی معاشرے کے درمیان ٹکراؤ کو روکنا ہوگا۔ کیونکہ تراث نہ تو جھگڑوں سے تعمیر ہوتی ہے اور نہ ہی وہ ہر سوال کرنے والے کو خارجی قرار دیے کر  تجدید پا سکتی ہے بلکہ باہمی ذمہ دارانہ تعامل سے ہی اس کی تعمیر ممکن ہے۔

ایسے دور میں جب بےعلم لوگ دین کی تجدید کے دعوے کرتے ہیں اور بغیر کسی مہارت کے تراث کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ایک مضبوط اور سنجیدہ تنقیدی ثقافت کی بنیاد فراہم کی جائےجو اس فرق کو واضح کر سکے کہ کون شخص علم کے ساتھ حقیقت کا متلاشی ہے اور کون تراث کو محض بحث و جدل کا جھنجھٹ  یا میڈیا میں اشتعال پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

آخر میں، یہ سوال کہ اسلامی تراث کی دوبارہ تشکیل کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ کسی ایک شخص یا کسی خاص ادارے کے بارے میں سوال نہیں ہے بلکہ اس منہج کی نوعیت کے بارے میں سوال ہے جو ہمیں اس تراث کی دوبارہ تشکیل کے وقت اپنانا چاہیے۔ اگر منہج نہ ہو تو تراث ایک بوجھ میں بدل جاتی ہے، اگر تخصص نہ ہو تو تنقید محض کھیل تماشا بن جاتی ہے اور اگر پختہ اجتماعی شعور نہ ہو تو تاریخ ختم نہ ہونے والے معرکوں کا میدان بن جاتی ہے۔

جملہ حقوق بحق ویب سائٹ ( اسلام ۔۔۔کیوں؟) محفوظ ہیں 2018